آصف رشید

پچھلے کچھ ہفتوں میں عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو اہے۔ عراق، لبنان، ایکواڈور اور چلی میں ہونے والے بڑے مظاہر ے محنت کش طبقے کی ابترہوتی ہوئی حالت اور سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی بحران کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ نئی انقلابی لہر اس بات کی دلیل ہے کہ محنت اور سرمائے کے درمیان مصالحت نہیں ہو سکتی۔ صرف طبقاتی جنگ میں فتح ہی محنت کش طبقے کو سرمایہ دارانہ نظام کے جبر سے نجات دلا سکتی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور سماجی نابرابری کے خلاف شروع ہونے والے یہ احتجاج مختلف ملکوں میں نیولبرل حکومتوں کے اقتدار کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

چلی کے صدر سباستیان پنیرا کی حکومت کی طرف سے میٹرو بسوں کے کرایوں میں 4 پیسے ا ضافے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں (جو تا دمِ تحریر جاری ہیں) نے سارے استحصالی نظام کے وجود کو للکار دیا ہے۔ چلی کے دارالحکومت سانتیاگو میں جمعہ 25 اکتوبر کے مظاہرے کو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے جس میں دس لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر نکلے۔ اب مظاہرین صدر سباستیان پنیرا کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کے بعد حکومت کی طرف سے کچھ معاشی رعایات کا اعلان بھی کیا گیا ہے لیکن مظاہروں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جمعہ کے روز ہونے والے احتجاج میں محنت کش طبقے کی پرجوش شمولیت موجود تھی جس میں اساتذہ، کان کن اور ڈاک کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی۔ ٹرک ڈرائیوروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے تمام سڑکیں بلاک کر دیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ نے پورے ملک میں اس احتجاج میں بھرپور شرکت کی۔ چلی کی بورژوازی شدید خوف میں مبتلا ہے۔ اس خوف کے باعث حکومت نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہو ئے دارلحکومت سانتیاگو میں 20 ہزار فوجی تعینات کر دیئے ہیں۔ ابھی تک پولیس اور فوج کے ساتھ جھڑپوں میں 18 لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 5 ہزار مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سانتیاگو کی سڑکوں پر بکتر بند فوجی گاڑیوں کا گشت بھی جاری ہے۔ شدید مظاہروں کے بعد ایک بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ یہ مظاہرے سانتیاگو سمیت کئی دوسرے شہروں میں بھی جاری ہیں۔

موجودہ حکومت کے جبر نے 90-1973ء کی امریکی حمایت یافتہ فوجی آمریت کی یاد تازہ کر دی ہے۔ گمشدگیوں اور حراست کے دوران تشدد اور گرفتار خواتین مظاہرین کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ لیکن اس جبر کے ردِ عمل میں مظاہرین اور زیادہ جوش وجذبے سے احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ احتجاج میں انقلابی ترانے اور نعرے زندگی کی نئی روح پھونک رہے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ کوئی جشن ہو رہا ہے۔ ہر بڑی تحریک بالکل نئے ماحول کو جنم دیتی ہے جس میں زندگی کی رمق اور آزادی کا احساس موجود ہوتا ہے جو نئے سماج کی تخلیق اور جبر و غلامی سے آزادی کا پیغام دیتا ہے۔

پورے لاطینی امریکہ میں اس وقت ایک سرخ لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ارجنٹینا اور بولیویامیں بائیں بازو کی حکومتوں کا اقتدار میں آنا بہت اہم پیش رفت ہے۔ پورے لاطینی امریکہ میں اس وقت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو لاگو کیا جا رہا ہے جس کے خلاف محنت کش طبقہ میدان میں اتر رہاہے۔ اگر محنت کش طبقے کو ایک انقلابی قیادت میسرآتی ہے تو ایسی کیفیات میں سرمایہ داری کے خاتمے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اور یہ انقلابی فتح صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے میں نئی تحریکوں کو بھی جنم دے گی اور کیوبا اور وینزویلا کے انقلابات کو بھی تحریک دے گی۔

خطے کے بیشتر ممالک کے برعکس چلی کو قرضوں کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ چلی لاطینی امریکہ کا ترقی یافتہ ترین ملک ہے لیکن تعلیم اور علاج نجی شعبے کے پاس ہیں، تنخواہیں اور پنشنیں بہت کم ہیں اور عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔ ورلڈبینک کی رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال میں چلی میں غربت کی شرح میں تین فیصد کمی بھی ہوئی ہے لیکن غربت اور امارت میں تفاوت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق ملک کی ایک چوتھائی دولت محض ایک فیصد طبقے کے پاس ہے۔

چلی کو نیولبرلزم کی جائے پیدائش بھی کہا جا سکتا ہے جہاں بائیں بازو کے منتخب صدر ایاندے کو ایک فوجی کُو میں قتل کرنے کے بعد جنرل پنوشے کی آمریت میں وسیع پیمانے پر نجکاری اور معیشت کی ڈی ریگولیشن کی پالیسیاں نافذ کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ معیشت کا ہر اہم شعبہ نجی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔ مڈل کلاس افراد کی ماہانہ اوسط کمائی قریب سات سو یورو بنتی ہے لیکن اس کے باوجود عوام اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے اور حالیہ احتجاجوں کی یہ بنیادی وجہ ہے۔ مڈل کلاس کے ساتھ موازنے سے محنت کش طبقے کی حالت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے جس کے 50 فیصد افراد 500 ڈالر سے کم اجرت پاتے ہیں اور ان کے لئے کرایوں میں معمولی اضافہ بہت معنی رکھتا ہے۔

چلی میں ہونے والے مظاہروں کی کال کسی بھی پارٹی نے نہیں دی۔ کسی بھی مظاہرے میں کسی پارٹی کا کوئی بینر یاجھنڈاموجود نہیں۔ یہ مظاہرے خود رو ہیں اور ابھی تک کسی بھی سیاسی پارٹی کے کنٹرول میں نہیں اور نہ ہی کسی ٹریڈیونین اشرافیہ کی گرفت ان پر دیکھی گئی ہے۔

چلی میں بائیں بازو کی جدوجہد کی شاندار روایات بھی موجود ہیں۔ 46 سال پہلے 11 ستمبر 1973ء کو امریکی سامراج کی پشت پناہی سے ایک خونریز فوجی کُو کے ذریعے چلی کے محنت کش طبقے کی تحریک کو فوج نے خون میں ڈبو دیا تھا جس میں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا اور بائیں بازو کے بے شمار سیاسی کارکنان اور ترقی پسند فنکاروں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں تھیں۔ ہزاروں انقلابیوں کو قتل کیا گیا اور ان کے بچوں کو دوسرے ملکوں کے بے اولاد جوڑوں کی کفالت میں دے دیا گیا۔ جمعہ کے روزمظاہرے میں اس آمریت کا ظلم سہنے والوں کے خاندانوں کے بہت سے افراد نے بھی شرکت کی جو نئی نسل کو دکھانے آئے تھے کہ ان کے ساتھ چلی کے حکمران طبقے اور ریاست نے جو ظلم کیا تھا اس کے بارے میں کسی کو آج تک قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اب اس ظلم کے حساب کا وقت آ چکا ہے۔ مظاہرین کا نعرے ہے کہ ”یہ صرف (کرایوں میں) 30 پیسو (چلی کی کرنسی) اضافے کی بات نہیں بلکہ یہ 30 سالہ جبرکا معاملہ ہے۔ “ لاکھوں لوگ حکمران طبقے اور اس کی سیاسی اشرافیہ کے خلاف احتجاج کرنے آئے جس نے نہ صرف فوجی اقتدار کو تحفظ دیا بلکہ آج تک سرمایہ دارانہ نظام کے جبرکو مسلط کر رکھا ہے۔ اس کیفیت میں محنت کش طبقے کو کسی پاپولر فرنٹ کے جھانسے سے بچناہو گا۔ جیسا کہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی کی مصالحتی پالیسیوں نے فوجی آمریت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ آج بھی مصالحتی رجحانات محنت کش طبقے کے اس ابھار کو سرمایہ داری کی حدود میں قید کرنا چاہتے ہیں۔ براڈ لیفٹ فرنٹ اور کمیونسٹ پارٹی نے احتجاج کو پر تشدد قرار دے کر اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور نئے الیکشن کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ تحریک کو انقلاب کی بجائے انتخابات کے راستے پر ڈال کر زائل کرنے کی پالیسی ہے۔

چلی کے محنت کشوں کی یہ تحریک نہ صرف لاطینی امریکہ بلکہ دنیا بھر کے انقلابیوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکاہے جس کی کامیابی محنت کشوں کو ایک نئی امید اور ولولہ دے گی۔