اویس قرنی

پاکستانی طلبہ و محنت کشوں کی آخری بڑی انقلابی سرکشی کو نصف صدی سے زائد کاعرصہ ہو چکا ہے۔ 1968ء کی عالمی تحریکوں میں پاکستان کی تحریک نے معیاری حوالے سے شاید سب سے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی تھی اور ایوبی آمریت کا تختہ الٹا تھا۔ لیکن یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکی۔ نومبر 1968ءکے بعد کے چند ہفتے بہت اہم تھے۔ طلبہ سے شروع ہونے والی اس تحریک نے ایک طاقتور آمرکو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سیاسی طور پر مُردار سمجھا جانے والا شہر راولپنڈی اس انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز بنا۔ اس وقت کی ریاستی مشینری کی طرف سے راولپنڈی کے اطراف میںدارلحکومت کی منتقلی کی ایک بڑی وجہ بھی اس کا ”غیر سیاسی“ ہونا تھا۔ دوسری اہم وجہ افواجِ پاکستان کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ لیکن 6 نومبر 1968ءکے دن نے راولپنڈی کے اس تشخص کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

گورڈن کالج راولپنڈی کے طلبہ سے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے نے مغربی و مشرقی پاکستان میں بغاوت کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ جدوجہد پبلی کیشنز کی اشاعت کردہ ڈاکٹر لال خان کی کتاب ’پاکستان کی اصل کہانی‘ اور ورسو بکس کی اشاعت کردہ طارق علی کی کتاب ’پاکستان میں سرکشی‘ ان انقلابی حالات کی وہ تاریخ پیش کرتی ہیں جو کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں نہیں پڑھائی جاتی۔ حکمرانوں کی تاریخ کے برعکس یہاں محنت کش طبقے کی بھی ایک انقلابی تاریخ موجود ہے جو مستقبل کے فرائض کی نشاندہی کرتی ہے۔

5 نومبر کوگورڈن کالج راولپنڈی کے طلبہ لنڈی کوتل سے پانچ ہزار روپے کی امپورٹڈاشیا لاتے ہوئے روکے گئے۔ لنڈی کوتل سے غیر ملکی اشیا کی ترسیل پر پابندی ضرور تھی لیکن اس سے پہلے یہ کبھی بھی نافذالعمل نہ رہی تھی جس کی ایک بنیادی وجہ بڑے بیوروکریٹوں کی یہاں سے خریداری تھی۔ لیکن اشیاکی اس جبری سرکاری ضبطی نے طلبہ کو ریاست کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔ جس کے خلاف اگلے دن احتجاج منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو بھی مغربی پاکستان کے دورے پر تھے۔ احتجاج کو بھٹو کے راولپنڈی میں استقبال کے ساتھ جوڑا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو احتجاج سے خطاب کرنے سے روکا گیا جس پر انٹر کونٹی نینٹل ہوٹل میں طلبہ اور پولیس مدمقابل آگئے اور بڑے پیمانے پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ طلبہ نے پتھروں اور اینٹوں سے مقابلہ کیا۔ پولی ٹیکنیک کا لج کے طلبہ پر پولیس کی جانب سے فائرنگ میں سترہ سالہ ’عبدالحمید ‘ کی ہلاکت نے پوری طلبہ تحریک کومشتعل کر دیا۔ اب تک طلبہ کی طرف سے سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔ طلبہ وہاں لڑے جہاں انہیں مجبور کر دیا گیا۔ ایک بھگدڑ میں جب نوجوان گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کے ٹرمینل کی طرف دوڑے تو بس ڈرائیوروں نے اس خدشے میں کہ وہ انہیں نقصان پہنچانے آرہے ہیں طلبہ پر پتھراو شروع کر دیا، جس کا اعتراف بعد میں بس ڈرائیوروں نے کیا۔ لیکن اس کے بعد سے جب تک تحریک سرگرم رہی جی ٹی سی کی بسیں جلتی رہیں۔

7نومبر کی صبح کی خبرکہ پولیس نے نہتے نوجوانوں پر گولیاں برسائی ہیں نے دہائیوں سے مجتمع شدہ غصے کو نفرت میں بدل دیا۔ یہ سارا دن پولیس اور طلبہ کے مابین ایک جنگ کا میدان سجا رہا۔ تمام اہم عماراتوں، شاہراہوں اور دفاتر پر پولیس کے بھاری دستے تعینات کر دیے گئے۔ اس جنگ و جدل میں جب پورا مشرقی و مغربی پاکستان ایک بغاوت میں اترنے کو تھا، ایوان صدر میں نئے امریکی صدر ’نکسن‘کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا تھا۔ اگلے دن تمام اخبارات میں امریکی صدر کی جیت کی شادمانی کی شہ سرخیاں تھیں لیکن کسی جگہ بھی ایک طالب علم کی ہلاکت کا کوئی ذکر تک نہ تھا۔ یہ تحریک ابھی تک پولی ٹیکنیک اور گورڈن کالج کے طلبہ تک محدود تھی لیکن رات گئے ہونے والے طلبہ یونین کے اجلاس میں تمام کالجوں اوریونیورسٹیوں کے عہدیدران نے بھر پور احتجاج کی طرف بڑھنے کا اعلامیہ جاری کیا۔ اگلے دن دس ہزار سے زائد نوجوان گورڈن کالج کے احاطے میں جمع تھے، جس کو پولیس مکمل طور پر سیل کر چکی تھی۔ منتشر نوجوان مختلف راستوں سے نکلتے ہوئے شاہراہوں پر آئے پھر کوئی ایسی دوکان یا سٹاپ طلبہ کے غیض و غضب کے سامنے ٹِک نہ سکاجس پر ایوب خان کی تصویر آویزاں تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر سے جنرل ایوب خان کے پوسٹر اور تصاویر غائب ہو چکی تھیں۔ مقامی آبادیوں سے گزرتے ہوئے طلبہ کے جلوسوں سے ایوبی آمریت کے خلاف نعرے بلند ہو رہے تھے اور ساتھ ہی بڑھتی ہوئی قیمتوں خصوصاً چینی کی مہنگائی کے خلاف نعرے لگتے رہے جس سے عام عوام، بیروزگار نوجوان اور محنت کشوں کی بڑی تعداد بھی ان جلوسوں میں شریک ہوتی گئی۔ 8 نومبر کو رات 8 بجے تک پورا کا پورا شہر نوجوانوں کے ساتھ سڑکوں اور چوراہوں پر تھا۔ اس وقت کے گورڈن کالج کی طلبہ یونین کے نائب صدر راجہ انور کے مطابق ایک منظم انقلابی تنظیم عوامی حمایت کے زورپر پورے شہر کو جام کر سکتی تھی۔ راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر اور درالحکومت کی قربت نے اس شہر کو نہایت ہی اہم بنا دیا تھا۔ طارق علی کے بقول ایک منظم انقلابی پارٹی یا تنظیم کا فقدان تھا ورنہ پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا تھا۔ اگلے دن پولیس نے شک کی بنیاد پر بس سٹاپ پر کھڑے دونوجوانوں کو گولی سے ہلاک کر دیا جن میں سے ایک انٹلیجنس بیورو کا کلرک تھا۔

سامراجیوں اور مقامی حکمرانوں کی سماجی حالات سے لا تعلقی کا عالم یہ تھا کہ اسی دن وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین نے بیان دیا کہ” پاکستانی عوام کسی بھی دوسرے جمہوری ملک کے عوام کی طرح مکمل جمہوریت سے مستفید ہو رہی ہے۔“ اگلے دن امریکی صدر جانسن نے پاکستان کو صدر ایوب کی سمجھدار قیادت میں تیز تر ترقی کا حامل ملک قرار دیا۔ جبکہ چینی پیپلز لیبریشن آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف نے بیجنگ میں پاکستان کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان کی موجودگی میں صدر ایوب کو سراہتے ہوئے تقریر فرمائی۔ اسی دوران خصوصاً مغربی پاکستان میں طالب علم کی ہلاکت کے خلاف کراچی، حیدرآباد، جہلم، لاہور اور پشاور سمیت بیشتر علاقوں میں مظاہرے ہو رہے تھے اور طلبہ قائدین کی گرفتاریاں کی جا رہی تھیں۔

ایوب خان کی شان و شوکت کو بحال کرنے کے لیے 10 نومبر کو پشاور میں جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سمجھدار بیوروکریٹوں اور ایوب کے قریبی لوگوں نے اسے جلسے کو منسوخ کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن خوشامدی ٹولے نے اس اجلاس کی کامیابی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جلسے تو ہوا لیکن اجتماع میں موجود تمام لوگ سادہ کپڑوں میں ملبوس سرکاری اہلکار، جاگیرداروں کے ملازمین اور چند ایک سیاسی کارکنان تھے جن کا تعلق کنونشنل مسلم لیگ سے تھا۔ پشاور آمد پر چپے چپے پر ایوب خان کو طلبہ اور محنت کشوں کے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ جلسے کا روح رواں شوگر مافیا کا عبدالغفور خان تھاجس کی استقبالیہ تقریر کے بعد جونہی صدر ایوب خطاب کے لیے بڑھا تو ایک نوجوان ’ہاشم عمر زئی ‘ نے دو گولیاں اس پر فائر کر دیں۔ نوجوان طالب علم کو گرفتار کر لیا گیا اور اس نے اپنا جرم بھی اس ندامت سے قبول کیاکہ اسے افسوس ہے وہ ایک ایسے غدار کو ٹھکانے لگانے میں ناکام ہوا ہے جس نے دہائیوں سے عوام پر ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔

مارکسسٹ انفرادی دہشت گردی کے طریقہ کار کو درست نہیں سمجھتے لیکن یہ ایک نوجوان طالب علم کی جرات تھی جبکہ دوسری طرف سینے پر درجنوں میڈل سجانے والا فیلڈ مارشل ایوب خان اس واقعے کے کافی دیر بعد تک صوفے کے پیچھے چھپا رہا اور کانپتے ہوئے گورنر ہاوس کی جانب نکل گیا۔ ساتھ ہی نوشہرہ میں پولیس کی فائرنگ سے ایک اور نوجوان طالب علم ہلاک ہوا۔ چارسدہ شوگر مل کے ملازمین نے ہڑتال کر دی اور منیجر کے دفتر کا گھیراو کیا۔ کم و بیش ہر شہر کی یہی داستان تھی۔

تحریک کے خوف سے حکمرانوں نے اوچھے ہتھکنڈے شروع کر دیے جو آج تک کے حکمران دہراتے آرہے ہیں۔ کسی سنجیدہ حل کی بجائے افراد کو نظر بند کرنے کی واردات آج تک جاری ہے۔ چیئر مین پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور صدر عوامی نیشنل پارٹی ولی خان اور کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔ تحریک کو کچلنے اور دیگر شہروں میں اس کی شدت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بڑے شہروں خصوصاً راولپنڈی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ تمام تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیئے گئے۔ طلبہ یونین کے ہر قسم کے اجلاس پر پابندی لگا دی گئی۔ عام حالات میں طلبہ‘ اداروں کی بندش پر خوش بھی ہوتے تھے اور اپنے گھروں کو بھی لوٹ جاتے تھے۔ لیکن اب کی بار طلبہ کا موڈ کچھ اور تھا یہ موڈ ایک سرکشی اور بغاوت کا تھااس لیے گھر لوٹنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ریاست بھی تمام تر حربے استعما ل کر رہی تھی۔ پہلے پہل جبر کا استعمال کیا گیا۔

طلبہ قائدین کو جیلوں میں ڈالا گیا، بدترین تشددکا استعمال کیا گیا۔ پھر انہیں سمجھانے کے لیے بڑے بزرگوں سے نصیحتیں کروائی گئیں۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی اس کام میں استعمال کیا گیا۔ جو آج بھی ہوتا ہے۔ لیکن طلبہ کسی طور جھکنے کو تیار نہ تھے۔ اس سرکشی کو منظم کرنے کے لیے طلبہ یونین کا اجلاس نہایت اہم تھا جس پر پابندی نافذ ہو چکی تھی۔ تعلیمی اداروں کا کھلنا اور طلبہ یونین کی مختلف باڈیز کا ملنا لازم ہو چکا تھا کیونکہ طلبہ کی کم شمولیت اور واضح اور متفقہ لائحہ عمل کا فقدان پوری تحریک میں محسوس کیا جا رہاتھا۔ اس لیے طلبہ نے ریاستی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کیے اور مطالبات کی فہرست انتظامیہ کو پیش کی اوریقین دہانی کرائی کہ اگر تعلیمی ادارے بحال کیے جاتے ہیں تو مذاکرات کے دوران نوجوان کسی بڑے عوامی مظاہرے کی طرف نہیں بڑھیں گے۔ اس بنیاد پر 26 نومبر کو راولپنڈی میں تمام تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے۔

طارق علی کے بقول راولپنڈی کی طلبہ تحریک ایک بنیادی مخمصے کا شکار تھی۔ ان کے مطالبات اصلاح پسندانہ تھے جبکہ ان کی تقاریر اور عمل انقلابی نوعیت رکھتے تھے۔ اس کے پیچھے بھی دہائیوں سے چلا آنے والا پراپیگنڈہ تھا کہ نوجوانوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ سیاست سے دوری کا یہ زہر آج تک نوجوانوں کے ذہنوں میں گھولا جا رہا ہے۔ طلبہ انقلابی مطالبات سے کترا ضرور رہے تھے لیکن ان کا عمل اس سے کہیں زیادہ انقلابی تھا۔ 26 نومبر کو تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد فوری طور پر طلبہ یونین کے اجلاس منعقد کیے گئے اور ایک دفعہ پھر سڑکوں اور چوراہوں میں اجتماعات و مظاہرے ہونے لگے۔ نوجوانوں نے محنت کشوں اور عوام کو اس لڑائی میں جوڑنا شروع کیا۔ پولیس کے ساتھ مٹھ بھیڑ میں ایک اور جان چلی گئی لیکن تحریک ایک معیاری جست لے گئی۔ 29 نومبر کو طلبہ نے راولپنڈی میں عام ہڑتال کی کال دی اور چھوٹے تاجروں اور محنت کشوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دی۔ تمام ذرائع ابلاغ بشمول ریڈیو پر ہڑتال کی کال کی واپسی کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ اگلے دن کے تمام اخبارات کی جھوٹی رپورٹوں کے برعکس اس تاریخ ساز عام ہڑتال میں پسے ہوئے طبقات کی طرف سے بھر پور شمولیت ہوئی اور اس دن پہلی دفعہ راولپنڈی مکمل طور پر جام ہو چکا تھا۔ پورا شہر سڑکوںا ور گلیوں میں امڈ آیا اور پولیس نے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔ لاٹھیاں، گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے جاتے رہے اور مظاہرین پتھروں اور اینٹوں سے مزاحمت کرتے رہے۔ یہ یلغار مسلسل چھ گھنٹے تک جاری رہی۔ محنت کش طلبہ کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔ کئی پولیس سٹیشنوں کو جلا کے راکھ کر دیاگیا۔

ایک انقلابی پارٹی کا فقدان ایک دفعہ پھر آشکار ہو رہا تھا۔ پاکستان تاریخ کے غیر معمولی عہد سے گزر رہا تھا اور حکمران اشرافیہ تذبذب کا شکار تھی۔ 29 نومبرکو مغربی پاکستان میں پہلی مرتبہ طلبہ و محنت کش ایک صف میں لڑ رہے تھے۔ ایسے وقت و حالات تاریخ میں بار بار نہیں آتے۔ یہ آگ پھیلتی چلی گئی‘ مغربی پاکستان کے تمام شہر اس انقلابی آگ میں تپ رہے تھے۔ سرگودھا کی خواتین خصوصی طور پر لاہور میں حکومت مخالف احتجاج میں شمولیت کے لیے آ رہی تھیں۔ مشرقی پاکستان بھی اس تپش سے بچ نہ سکا اور وہاں واقعات کے ایک نئے سلسلے نے جنم لیا۔ نومبر 1968ء کی یہ تحریک مختلف مدارج طے کرتے ہوئے بالآخر ایوبی آمریت کو اکھاڑنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن انقلاب ادھورا رہ گیا جس کا خمیازہ پھر محنت کش عوام کو ہی بھگتنا پڑا اور ایک عرصے بعد ایک اور درندہ صفت ضیائی آمریت مسلط ہو گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اس تحریک کے مرکز بنے تھے کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اور سرمائے کا جبر پہلے سے کہیں زیادہ وحشیانہ انداز میں محنت کشوں کا استحصال کرتا رہا۔

آج سرمایہ داری کے خلاف دنیا بھر میں بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ کئی ایک ممالک میں آئی ایم ایف کے معاہدے منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ نجات کا واحد راستہ جدوجہد ہے۔ پاکستان کی نام نہاد تبدیلی سرکار آئی ایم ایف کے نیولبرل معاشی ایجنڈے کو نافذالعمل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے جبکہ ڈاکٹروں، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جاندار مزاحمتی تحریک تاحال جاری ہے۔ جو آنے والے دنوں وسعت اختیار کر کے دوسرے شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دوسری طرف ملک بھر میں طلبہ کے بھی پے درپے کئی احتجاج گزشتہ کچھ عرصے میں نظر آئے ہیں۔

طلبہ یونین پر دہائیوں سے لگی پابندی کے خلاف 29 نومبر 2019ء کو طلبہ کی طرف سے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ طلبہ اور محنت کشوں کو 51 سال قبل کے نومبر سے آج بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی طاقت جابر سے جابر حاکمیت کا بھی دھڑن تختہ کر سکتی ہے۔ لیکن پھر ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی ہی سرمائے کے اس جبر و استحصال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتی ہے۔ آج کا عظیم فریضہ اسی انقلابی پارٹی کی تعمیر ہے۔