لال خان

دس سال قبل آج ہی کے روز راولپنڈی میں لیاقت باغ جلسہ گاہ کے باہر بے نظیر بھٹو کو ایک دہشت گردی کے حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک دہائی کی طویل تفتیش میں اس سازش اور قتل کی پشت پناہی کرنے والی طاقت کا سراغ بالواسطہ اسامہ بن لادن تک جاتا ہے۔ اس تفتیش میں امریکہ کی ایف بی آئی سے لیکر برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یارڈ تک کو شامل کیا گیا۔ لاتعداد ملکی ایجنسیاں بھی اس میں شریک رہیں۔ لیکن اب تک مجرموں کو سزا دی گئی ہے نہ ہی کوئی عدالت حتمی فیصلہ سنا سکی ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر امریکی آپریشن کے بعد اس کے بنگلے سے برآمد ہونے والا مواداور شواہداس واردات میں ملوث افرادکی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تفتیشی اداروں کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق اس قتل کی منصوبہ بندی میں بڑا نام ابوعبداللہ کا ہے جو اسامہ بن لادن کا ایلچی بھی تھا اور بیت اللہ مسعود کے دہشت گرد گروہ کو چلانے اور کاروائیوں کے احکامات دینے کی ذمہ داری بھی اسی کی بتائی جاتی ہے۔ رپورٹ میں قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو وسائل اور اطلاعات فراہم کرنے والوں کے نام بھی ہیں اور آخر میں تین خود کش دہشت گردوں کا سراغ بھی ملتا ہے۔ جس لڑکے کے پستول کی گولی نے بے نظیر بھٹو کی جان لی اس کا نام ’بلال‘ بتایا جاتا ہے۔ مقدمے کی پیچیدگی اِس امرسے بڑھ گئی ہے کہبلال اور دوسرے کلیدی دہشت گرد اور سہولت کار مارے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بے نظیر کے باڈی گارڈ خالد شہنشاہ اور ایف آئی اے کے پروسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کا بھی قتل ہوچکا ہے، جو اس مقدمے میں بہت سا حساس مواد اور اندرونی سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے درکار انفارمیشن رکھتے تھے۔ اس ملک میں حاکمیت کے ادارے عام طور پر حساس حقائق کو یا تو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں یا پھر ان کو سرے سے منظر عام پر آنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی سیاسی قتل ہو، کسی حکومت کے اقتدار کے بارے میں تناظر ہو یا پھر کسی ادارے کا کردار ہو، سازشی افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار ہر وقت گرم رہتا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں کتنی بھی فرسودہ کیوں نہ ہوں لیکن کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی درست ثابت ہوسکتی ہے۔ عمران خان نے جلسہ عام میں زرداری پر الزام عائد کردیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے بیشتر لیڈر مشرف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اس قتل کی قانونی اور تفتیشی وجوہات سے ذرا ہٹ کر اس کے سیاسی پس منظر، بین الاقوامی طاقتوں اور مقامی حاکمیت کے تنازعات کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس حقیقی صورتحال کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو اس کی وجہ بنی تھی۔ یہ درست ہے کہ بے نظیر ایک سیکولر اور لبرل سیاستدان تھی جس کے رجعتی قوتوں سے تضادات ہمیشہ رہے تھے۔ لیکن قتل کا جو نقشہ کھینچا جا رہا ہے وہ صرف ایک مفروضے تک ہی محدود ہے۔ درحقیقت بے نظیر کی جلاوطنی سے واپسی کا معاہدہ امریکی سامراج کی ایما پر برطانیہ کے سفارتکاروں نے متحدہ عرب امارت میں مذاکرات سے طے کروایا تھا۔ اس سامراجی منصوبے میں بے نظیر کو تحفظ کی گارنٹی انہی مغربی طاقتوں نے دی تھی۔ مشرف نے جس این آر او پر اتفاق کیا تھا اس میں سکیورٹی کی یقین دہانی بھی شامل تھی۔ اس کے بعد ہی واپسی ہوئی۔ اس حوالے سے عالمی قوتوں، پاکستان کے صدر اور سپہ سالار اور ریاست کی گارنٹی کے باوجود دہشت گردی کے اتنے بڑے دو حملے کیوں ہوئے؟ کراچی میں کارساز کے حملے میں شاید بے نظیر کو دھمکایا گیا تھا۔

لیکن اس سے بڑھ کر اس پہلے حملے کا مقصد اُن عوام میں خوف وہراس پھیلانا تھا جو بے نظیر اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی توقعات سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں کراچی ائیر پورٹ پر استقبال کرنے نکل پڑے تھے۔ عوام کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی ماضی بعید کی روایت اور عوام کے مسائل حل کرنے کے پروگرام سے امید لگائے ایک مرتبہ پھر سیاسی میدان میں اترا تھا۔ یہ تحریک اس وقت چلنے والی افتخار چوہدری کی بحالی والی وکلا تحریک سے کہیں زیادہ وسیع اور طاقتور تھی۔ وکلا کی تحریک میڈیا کی کوریج کے بغیر کچھ نہیں تھی۔ درمیانے طبقے اور سول سوسائٹی کی اس عدالتی معاملات پر چلنے والی تحریک سے اس نظام کو کوئی خطرہ تھا نہ ہی اس کی حاکمیت کے اداروں کو۔ لیکن بے نظیر کی واپسی پر عوام کی کئی حوالوں سے خود رو تحریک پھٹ کر ملک گیر وسعت اور ریڈیکلائزیشن کو جنم دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔ یہاں مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان‘ تعلیم علاج اور روزگار کا تھا، کسی اسی نظام کے جج کو اسی نظام کی عدالت پر دوبارہ براجمان کرانے کا نہیں۔ لیکن جب یہ تحریک انتخابی مہم کے نام پر کراچی اور سندھ سے باہر نکل کر پنجاب میں داخل ہوئی اور عوام اپنی آرزوئیں اور امیدیں لئے اس میں جوق در جوق شامل ہونا شروع ہوئے تو حکمرانوں کے نظام کو خطرہ لاحق ہونے لگا۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ بے نظیر اس نظام کو بدلنے کی داعی اور خواہشمند نہیں تھی۔ وہ اقتدار میں آکر کچھ اصلاحات کرنے کے ارادے سے واپس آئی تھی۔ لیکن جیسے اس قسم کے حالات میں ہوا کرتا ہے عوام کی سوچ اور تحریک پاپولسٹ قیادت کی سوچ اور ارادوں سے کہیں زیادہ ریڈکلائز ہو جاتی ہے اور اس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس تحریک کے دباؤ کی شدت میڈیا میں چھپانے کی کوشش کی گئی لیکن حاکمیت کے ایوانوں میں ہلچل اور لرزا اس خطرے سے ضرور بڑھ رہا تھا۔ بے نظیر پیپلز پارٹی کی روایت کی جانب سے حیران کن اور حریت پسندانہ نئے عوامی ابھار کی مرکز اور محور بنتی چلی گئی۔ راولپنڈی میں 27 دسمبر کی خون آشام شام کی دہشت گردی، جس کی پشت پناہی مقتدر طاقتوں کے شدت پسند اور رجعتی دھڑے کر رہے تھے، اس تحریک کے نیوکلیئس کو ہی ختم کر دینے کی واردات تھی۔

اس خون کے بعد ملک کے اکثر حصوں میں جو غم وغصے کی لہر دوڑی اس نے عوامی تشدد کا راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ اس رات اور اگلے دن بینکوں اور دوسرے ایسے اداروں کو نشانہ بنایا گیا جو عوام پر معاشی اور سماجی ظلم وستم کی علامات تھے۔ اس برق رفتار بغاوت کو کارپوریٹ میڈیا اور حاوی اہل دانش نے پاکستان توڑنے والی سرکشی قرار دیا حالانکہ اسکی ساخت ملک توڑنے والی نہیں بلکہ طبقاتی کشمکش کی ایک شدت کی غمازی کرتی تھی۔ جو لوگ کار ساز میں دہشت گردی کا نشانہ بنے یا جو عوام کی اکثریت ہر جگہ اس تحریک میں شریک ہوئی وہ ٹوٹی جوتیوں اور بدحال لباسوں میں تھے۔ غریب طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس تحریک کو ایک انقلابی بغاوت میں منظم کرنے کی بجائے مصالحت کی پالیسی اپناتے ہوئے غصے اور بغاوت کو غم اور مایوسی میں تبدیل کرنے کا کام کیا۔ ’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ کے نعرے کا مقصد موجودہ سٹیٹس کو یعنی رائج الوقت نظام کو جاری رکھنا تھا۔ اس سے تحریک تو بکھر گئی، انتخابات کو فنکاری سے انجینئر کر لیا گیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت قائم کی گئی۔ حکمرانوں نے سفاکی سے عوام کی اس اذیت ناک پسپائی کو استعمال کرتے ہوئے سامراجی اداروں کے نسخوں کے تحت مہنگائی اور محرومی کی انتہا کروا دی۔ جمہوریت قائم رہی لیکن عوام کچلے جاتے رہے۔ آج دس سال بعد جمہوری حکومتوں میں چہرے بدلے ہیں نظام نہیں، حکومتیں بدلی ہیں عوام کے حالات نہیں۔ اس نظام زر میں حاکمیت کا انداز کچھ بھی ہو معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا اور محنت کش عوام کی حالتِ زار بدل نہیں سکتی۔