اداریہ جدوجہد

حکومت گھائل، لاغر اور بے اختیار ہے۔ عدلیہ وار پہ وار کر رہی ہے۔ حاکمیت ان مقتدر قوتوں کی ہے جن کے بڑھتے ہوئے جبر اور دھونس نے جمہوریت کا بوسیدہ لبادہ بھی تار تار کر دیا ہے۔ ’’میڈیا کی آزادی‘‘ عوام کی آواز پر پابندی بن گئی ہے۔ ہر طرف سرمائے کا راج ہے۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے تصادم نے ریاست کے سارے اداروں اور مروجہ سیاست کو عوام کی نظروں میں سرعام بے نقاب کر دیا ہے۔ لیکن عوام اس مکاری اور فریب سے ناآشنا ہی کب تھے! سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ اِس بے مہر اور اذیت ناک کھلواڑ سے فی الوقت بیگانہ ہی رہ کر زندگی کی کٹھنائیوں میں اپنی اپنی لڑائیاں لڑتے جا رہے ہیں۔ اس کیفیت سے بیزار بھی ہیں اور اس دولت کی حاکمیت سے متنفر بھی ہیں۔ لیکن جوں جوں نظام اور اس کے اداروں میں یہ تناؤ بڑ ھ رہا ہے اس کا جبر اور وحشت بھی ہولناک ہوتی جا رہی ہے۔ اسی نظام کے کلاسیکی نمائندے نواز شریف نے موجودہ کیفیت کو براہِ راست فوجی آمریت سے زیادہ جابرانہ قرار دے دیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ریاست کے ادارے بحران سے نپٹتے نپٹتے اتنے بوکھلا گئے ہیں کہ اپنی بچی کھچی ساکھ اور رٹ کو خود ہی تیزی سے گرا رہے ہیں۔ عدلیہ تمام تر تاملات اور تکلفات کو ایک طرف رکھ کے جس طرح بے دھڑک ہو کر نواز شریف کے دھڑے کیخلاف برسرپیکار ہے اس سے اس کی مصنوعی غیرجانبداری کی قلعی بالکل کھل گئی ہے۔ عدلیہ اتنی تابع اپنی تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ بھٹو کے خلاف فیصلے میں بھی کچھ ججوں نے غیرت کا مظاہرہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کر رہی ہیں اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ سنسر شپ جتنی شدت اختیار کر رہی ہے اتنی ہی عیاں اور برہنہ ہو رہی ہے۔ یہ عیاری اور مکاری بھی اتنی بھونڈی ہے کہ پالیسی ساز ساری چالیں ہی غلط چل رہے ہیں۔ سویلین افسر شاہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے زیادہ طاقت کے اُن چشموں کی مطیع ہے جن کی معاملات میں مداخلت مارشل لاؤں میں بھی اتنی گہری نہیں رہی۔ باضابطہ حکومت کی رِٹ کا عالم یہ ہے کی ایک چینل کھلوانے سے قاصر ہے۔ سارے میڈیا پر ایک ہی رَٹ ہے، ایک ہی ہدف اور ایک ہی ’’بیانیہ‘‘ ہے۔ ایسی اپوزیشن، یکطرفہ صحافت اور عدالت بھلا کیسے کسی اعتبار یا احترام کے قابل رہے گی۔ وقتی طور پر نواز شریف اپنی ’مظلومیت‘ کے پیش نظر مریم کی ٹوئیٹس کے ذریعے کچھ نہ کر کے بھی ہیرو بنا ہوا ہے۔ پی ٹی ایم کی تحریک نے سنگلاخ چٹانوں او ر چٹیل پہاڑوں کی ویرانی سے ابھر کر اس ملک کے میٹرو پولیٹن شہروں کے ایوان بھی ہلا دئیے ہیں۔ مروجہ قوم پرست پارٹیاں بھی تنکوں کی طرح راستے سے صاف ہوگئیں اور مذہبی پارٹیاں بھی ہاتھ ملتی رہ گئیں۔ تحریک انصاف کھلی مخالفت سے بھی ہچکچا رہی ہے اور حمایت کا بھی نہیں سوچ سکتی۔ کم و بیش ایسی ہی حالت باقی سب کی بھی ہے۔ پیپلز پارٹی عوام کی حمایت سے ہاتھ دھو کر مکمل طور پر ریاست کے مقتدر حلقوں کی آشیرباد سے آس لگائے ہوئے ہے۔ نوا ز لیگ میں چوہدری نثار اور شہباز شریف کا دھڑا جتنا مضبوط نظر آتا ہے اتنا ہی اندر سے کھوکھلا ہے۔ شہباز شریف‘ چوہدری نثار کی صلح کرواتے کرواتے کہیں خود بھی فارغ نہ ہوجائے۔ مریم اور نوازشریف اسی سیاسی خلا میں پھیلے بہت ہیں لیکن ہیں تو بلبلے ہی۔ سب جلدی میں ہیں لیکن آگے کوئی نہیں بڑھ رہا۔ اس نورا کشتی میں فیصلہ کن طور پر کوئی پچھاڑا گیا ہے نہ کوئی جیتا ہے۔ جب نظام کے تمام ادارے بے نقاب ہو جائیں تو اس کا تسلط ایک خطرناک نہج تک جا پہنچتا ہے۔ لیکن ایسی صورتحال بہت نحیف اور غیر متوازن ہوتی ہے۔ محنت کشوں میں بغاوت کا لاوا بھڑک رہا ہے، پھٹ نہیں رہا۔ اسی سے معاشرے میں ہیجان کی سی کیفیت ہے۔ لیکن حبس جب بڑھ جائے تو طوفانوں کی علامت بن جاتی ہے۔ پی ٹی ایم کی پذیرائی زیادہ بڑے پیمانے پر پشتونخواہ میں ہے لیکن اس کے برق رفتار پھیلاؤ نے ثابت کر دیا ہے کہ خلا بہت وسیع ہے۔ ایسے میں کوئی بغاوت ابھری تو مسئلہ سرکاری جبر کا کم اور جڑت اور قیادت کا زیادہ ہوگا۔ اس صحافت میں بھی تحریک کو نظر انداز کر کے منظر سے غائب کرنے کی سکت نہیں بچی ہے۔ یہ وقت سے پہلے ہی بے نقاب ہو گئی ہے۔ تحریک پھٹے گی تو اس کو چھپا سکیں گے نہ دبا سکیں گے۔

اگر نوا ز شریف جیسا پرانا سرکاری نمائندہ جمہوری حکومت میں اقتدار سے معزول کر دیا گیا ہے تو اِن نودولتی جرائم پیشہ سیاسی نوسربازوں کی اوقات ہی کیا ہے جو مسند کی طرف دیکھ کر رال ٹپکا رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی گماشتگی میں ہر حد تک جا رہے ہیں۔ نظام کا یہ انتشار اب سنبھلنے والا نہیں ہے۔ استحکام اس میں آنہیں سکتا اور ایسا دوہرا اقتدار زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ انقلاب کے بغیر تو انارکی ہی بنتی ہے۔ لیکن انقلاب برپا کرنے کا اہل طبقہ بھی ابھی مرا نہیں ہے۔ پی ٹی ایم کی تحریک تو شاید بہت معمولی سی جھلکی ہے جس کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ اگر کراچی، لاہور اور دوسرے بڑے شہرو ں سے بغاوت پھوٹ پڑی تو اِس نظام کے کسی رکھوالے کو نہیں چھوڑے گی۔