ورکرز کمیونسٹ پارٹی (اٹلی)
امریکہ، اسرائیل اور روس نے اقوام متحدہ میں یوکرائن پر حملے کی مذمت کے خلاف ایک ساتھ ووٹ دیا۔ لیکن کیوں؟ وہ کیا ہے جو کیمپزم (یعنی دو متحارب سامراجی طاقتوں یا اتحادوں میں سے ایک کی طرف جھکاؤ کا رجحان) دیکھنا نہیں چاہتا؟
ایران کے خلاف حالیہ جنگ کی کہانی دنیا کے حالات کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔ ایسے پہلو بھی جنہیں بظاہر فوری سمجھنا ممکن نہیں اور وہ بھی جنہیں کیمپزم کی نظریاتی طور پر اندھی تقلید دیکھنے سے انکار کرتی ہے۔ ان پہلوؤں میں سے ایک روسی سامراج اور صیہونی ریاست کے درمیان تعلق ہے۔ لیکن آئیے ایک بتدریج انداز سے آگے بڑھتے ہیں۔
پہلی ناقابلِ تردید حقیقت جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جب ایران پر حملہ ہوا تو روس اور چین دونوں نے کسی بھی قسم کی فوجی مدد فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ’’تشویش‘‘ پر مبنی بیانات جاری کیے۔ وہ بھی نہایت محتاط زبان میں۔ لیکن یہ محض الفاظ تھے۔ نہ انہوں نے مستقبل کے لیے کسی فوجی تحفظ کا وعدہ کیا۔ نہ اس سلسلے میں (اسرائیل یا امریکہ کو) کوئی وارننگ یا دھمکی ہی دی۔ براہِ راست فوجی امداد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
امریکی بمبار طیاروں کی مدد سے لیس صیہونی طیاروں کو تہران کی فضاؤں میں بارہ دن تک بمباری کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ جبکہ ایرانی فضائی دفاعی نظام پہلے ہی تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس دوران ایران کے کسی بڑے اتحادی نے اس کے دفاع کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔
لیکن پیوٹن نے یہ وضاحت دینا ضروری سمجھی کہ روس اور ایران کے درمیان جس شراکت داری کا جشن چند ماہ قبل دھوم دھام سے منایا گیا تھا‘ اس کے تحت روس رسمی طور پر ایران کو کسی حملے کی صورت میں فوجی مدد دینے کا پابند نہیں ہے۔ بلکہ یہ شراکت داری صرف اس بات کا عہد کرتی ہے کہ حملہ آور کی مدد نہیں کی جائے گی۔ بہرصورت روس نے سیاسی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایران کو کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا۔ حتیٰ کہ دھمکی یا انتباہ کی حد تک بھی نہیں۔
ایک اہم تضاد: ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت نے روس کو جدید ترین ڈرون فراہم کیے تاکہ وہ یوکرائنی شہروں کو تباہ کر سکے۔ لیکن جب خود ایران کو اشد ضرورت پیش آئی تو اسے فضائی دفاع کا ایک ہتھیار تک نہیں ملا۔ نہ پیوٹن سے، نہ شمالی کوریا سے (جو روس کو مدد فراہم کرنے کے معاملے میں بالکل بھی کنجوس نہیں ہے) اور نہ چین سے۔ وہ چین‘ جو (سستا) ایرانی تیل بھی استعمال کرتا ہے۔ کہیں سے کچھ بھی نہیں ملا۔
یہاں تک کہ برکس (BRICS) جیسے اتحاد کے اندر بھی سامراجی تعلقات غالب ہیں: روس اور چین قیادت کرتے ہیں۔ باقی ممالک ان کے لیے محض کارآمد گودام (Warehouse) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مزید یہ کہ روسی اور چینی سفارت کاروں کے ’’تشویشناک‘‘ بیانات، جن میں امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کی بحالی کی تجاویز دی گئیں، کا مقصد بھی عالمی برادری ( بنیادی طور پر سامراجی ریاستوں اور اسرائیل) کو یہ یقین دہانی کرانا تھا کہ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ روس کی جانب سے ایرانی یورینیم کو اپنے لیے حاصل کرنے اور اس پر کنٹرول رکھنے کی خواہش بھی دراصل امریکہ اور اسرائیل کو ایران کے غیر مسلح ہونے کی ایک ضمانت کے طور پر پیش کی گئی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت (امریکہ) اور صیہونی ایٹمی ریاست (اسرائیل) کے اس متکبرانہ ویٹو کو کیوں قبول کیا گیا؟ کیا ’برکس‘ کی قیادت کرنے والے روس اور چین خود کو ایک نئے عالمی نظام کے علمبردار کے طور پر پیش نہیں کرتے۔ ایک ایسا نظام جو آخرکار انصاف اور مساوات لے کر آئے گا؟ کیا یہی وہ نظریاتی بیانیہ نہیں جو دنیا بھر کے (چین اور روس نواز) پروپیگنڈہ کیمپ بار بار دہراتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ روسی اور چینی سامراج بھی بالکل امریکی سامراج، یورپی سامراجی ممالک اور صیہونی ریاست کی طرح صرف اپنے مفادات کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ روس اور چین کے لیے ’’نیا عالمی نظام‘‘ محض اس حق کا نام ہے کہ وہ دنیا کی نئی بندر بانٹ میں دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سودے بازی کر سکیں۔
آج امریکی سامراج کی نمائندگی کرنے والا ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے شراکت دار کے طور پر سامنے آیا ہے جو ماضی کی نسبت (ایسی بند بانٹ کے) مذاکرات کے لیے زیادہ آمادہ ہے۔ تین بڑی طاقتوں ‘ امریکہ، روس اور چین کے درمیان عالمی سطح پر اپنے اپنے حلقہ اثر کی تقسیم کے لیے مذاکرات کا تصور، جس میں یورپی سامراجی ممالک کو نظرانداز یا الگ تھلگ کر دیا جائے، درحقیقت اس نئی امریکی حکومت کی پالیسی ہے۔
اگر ہم اس بات کو نہ سمجھیں تو ہم موجودہ عالمی منظرنامے کی اساس کو نہیں سمجھ سکیں گے۔
یورپی سامراجی طاقتیں آج صرف اس لیے دوبارہ ہتھیاروں سے لیس نہیں ہو رہی ہیں کہ انہیں ٹرمپ نے کہا ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر انہیں ڈر ہے کہ کہیں ٹرمپ انہیں مکمل طور پر ہی فارغ نہ کر دے۔ صرف دوبارہ اسلحہ بندی یا ’ری آرمامنٹ‘، جو ظاہر ہے اپنے اپنے محنت کش طبقے کی قیمت پر کی جائے گی، کے ذریعے ہی وہ یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ سودے بازی کی طاقت حاصل کر سکیں گے اور دنیا کی نئی بندر بانٹ میں ان کی بھی کوئی جگہ بن سکے گی۔
ہم نے اس منظرنامے کا عکس حالیہ ایرانی بحران کے دوران بھی دیکھا۔ ٹرمپ نے پیوٹن سے سفارتی دباؤ ڈلوانے میں کامیابی حاصل کی تاکہ ایران امریکی بمباری کے جواب میں صرف علامتی ردِعمل تک محدود رہے ۔ یعنی ایسی بمباری جو امریکہ کیساتھ پیشگی ’’طے شدہ‘‘ تھی۔ اس کے بدلے میں ٹرمپ نے پیوٹن کو یوکرائن کے معاملے میں زیادہ رعایت دینے کی پیشکش کی ۔ جو موجودہ وقت میں پیوٹن کی بنیادی ضرورت ہے۔
لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ایران کے معاملے میں روس کا محتاط اور خاموش رویہ دراصل اس کے صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا گہرا تعلق ہے جو کسی حد تک پوشیدہ ہے لیکن بہت پرانا اور مستحکم ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 24 فروری 2025ء کو یوکرائن پر روسی حملے کے تین سال مکمل ہونے پر جب امریکہ، روس اور اسرائیل نے ایک ساتھ روسی جارحیت کی مذمت کرنے کے خلاف ووٹ دیا تو یہ اس غیر اعلانیہ حقیقت کا ایک اور ثبوت تھا۔
صیہونی ریاست کے دو ’’خصوصی تعلقات‘‘ ہیں: پہلا امریکہ کے ساتھ‘ دوسرا روس کے ساتھ۔ روس کی یوکرائن کے خلاف جنگ کے دوران اسرائیل نے مکمل طور پر غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیے رکھا ہے۔ اسرائیل نے روس کے خلاف مغربی پابندیوں سے خود کو الگ رکھا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے روس نے فلسطین کے مسئلے پر نیتن یاہو کے ساتھ تعلقات خراب نہ کرنے کو یقینی بنائے رکھا۔
اس تعلق کی ایک مثال (روسی نژاد سیٹھ) رومن ابرامووچ بھی ہے۔ جو اسرائیل کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیلی ہائی ٹیک صنعت کے بیشتر ’’ذہین دماغ‘‘ روسی نژاد لوگ ہیں۔
جب سوویت یونین ٹوٹا تو دس لاکھ روسیوں نے اسرائیل ہجرت کی۔ وہ امریکہ جانا چاہتے تھے لیکن اسرائیل نے امریکہ سے ویزوں پر پابندی لگوا کر اس ہجرت کا رُخ تل ابیب کی طرف موڑ دیا۔ آج کئی اسرائیلی شہروں میں صرف روسی زبان بولی جاتی ہے۔ روسی نژاد یہودی کمیونٹی اب اسرائیلی دائیں بازو کی ایک مضبوط بنیاد ہے۔
مزید برآں 1904ء سے 1914ء کے درمیان کی صیہونی نوآبادیاتی تاریخ بڑی حد تک روسی (یہودیوں کی) ہجرت سے ہی تشکیل پائی۔ لیکن یہ تعلق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی کبھی منقطع نہیں ہوا۔ بشار الاسد کے دور میں جب روس شام کی فضائی حدود پر کنٹرول رکھتا تھا‘ تب بھی اسرائیلی فضائیہ کو ایران سے لبنان تک (حماس، حزب اللہ وغیرہ کے لیے) اسلحہ کی ترسیل کو نشانہ بنانے کی اجازت دی گئی اور روس نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ حتیٰ کہ جب ایک روسی طیارہ اسرائیلی کارروائی کے دوران غلطی سے مار گرایا گیا‘ تب بھی نہیں!
کیمپزم اندھا ہے ‘ لیکن انقلابی مارکسزم نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے مظلوم عوام کسی ’’دوست‘‘ سامراجی ملک پر انحصار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کوئی بھی سامراج مظلوم قوموں کا دوست نہیں ہوتا۔
نیا عالمی نظام یا تو سوشلسٹ ہوگا یا ہو گا ہی نہیں۔ حالات کو بدلنے کا واحد راستہ انقلاب ہے۔
