روبن تسانوف

(ٹرمپ کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کے آغاز پر مورخہ 14 مئی کو انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا)

جس وقت فلسطین اسرائیلی محاصرے میں لہو لہان ہے‘ عرب بادشاہتیں ٹرمپ کا شاندار استقبال کر کے امریکہ کیساتھ اربوں کھربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کر رہی ہیں۔ آمرانہ سرمایہ داروں کے یہ گٹھ جوڑ فلسطینی عوام کی اذیتوں کو دانستہ طور پر نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

12 مئی کو حماس اور امریکی حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد حماس نے 21 سالہ ایڈن الیگزینڈر کو رہا کر دیا۔ اسے ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا۔ یہ کاروائی حماس، امریکہ، مصر اور قطر کے درمیان باہم ہم آہنگی سے انجام پائی۔

اس اسرائیلی امریکی فوجی کی رہائی کو حماس کی بنیاد پرست قیادت کی جانب سے نئی امریکی انتظامیہ کے لیے خیرسگالی کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور جنگ بندی کے قیام، سرحدی راستوں کو کھولنے اور اسرائیلی محاصرے میں گھِری غزہ پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔

حماس کی جانب سے اسرائیلی قیدی کو رہا کیا جا رہا ہے

13 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ارب پتی کاروباری شخصیات کے ہمراہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے کا آغاز کیا۔ جو 16 مئی کو اختتام پذیر ہو گا۔ پوپ کے جنازے میں شرکت کے بعد یہ اس کا پہلا سرکاری غیرملکی دورہ ہے۔ جو اس نے جنوری 2025ء میں دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد کیا ہے۔

امریکی صدر کو سرکاری ایجنڈے اور اپنے خاندانی کاروباروں کے آپسی تعلق یا گٹھ جوڑ پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مثلاً اس نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا ہے کہ وہ قطری حکومت سے ایک بوئنگ 747-8 طیارہ ”تحفے“ میں وصول کرے گا۔ جو نئے ایئر فورس ون (امریکی صدر کے آفیشل جہاز) کے طور پر استعمال ہو گا۔ تاہم اپنی مدتِ صدارت کے اختتام پر وہ اسے ذاتی استعمال کے لیے ساتھ لے جائے گا۔

اسی طرح سعودی عرب میں اس کے خاندان کے چھ سودے ایک ایسی رئیل اسٹیٹ کمپنی کے ساتھ طے پانے ہیں جس میں سعودی ولی عہد کی اکثریتی شراکت داری ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے بعد اس کی کمپنیوں کی مالیت میں کم از کم 2.4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔

ٹرمپ کو تحفے میں ملنے والا جہاز

منعقدہ ملاقاتوں اور طے پانے والے معاہدوں نے اس دورے کے دائرہ کار اور مقاصد سے متعلق قیاس آرائیوں کی تصدیق کر دی ہے۔

ریاض میں ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان 600 ارب ڈالر کا تاریخی اقتصادی و عسکری شراکت داری کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے اہم پہلو درج ذیل ہیں:

*سعودی عرب کو 142 ارب ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت
*امریکی کمپنیوں گوگل اور اوریکل کا مشترکہ منصوبوں میں 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ۔ جبکہ سعودی کمپنی ڈیٹا وولٹ کی جانب سے امریکہ میں ڈیٹا سینٹرز کے قیام کے لیے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری
*4.8 ارب ڈالر میں بوئنگ طیاروں کی فروخت
*ریاست مشی گن میں 5.8 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک صنعتی پلانٹ کی تعمیر

ایلون مسک ریاض میں

ریاض میں اپنے دورے کو مکمل کرتے ہوئے ٹرمپ نے شام کے صدر احمد الشرع سے بھی ملاقات کی۔ جو ”تنظیم برائے آزادیِ شام“ (ہیئت تحریر الشام – HTS) کا سربراہ بھی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق ٹرمپ نے شامی رہنما پر زور دیا کہ وہ (اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے) ابراہیم معاہدوں (Abraham Accords) پر دستخط کرے، غیر ملکی اور فلسطینی ”دہشت گردوں“ کو ملک بدر کرے، دوبارہ ابھرتی ہوئی داعش کے خلاف امریکہ سے تعاون کرے اور کچھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔

یہ سب اس قیمت کا حصہ ہوگا جو امریکہ کی جانب سے شام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں ادا کی جائے گی۔ جنہیں ٹرمپ کے بقول وہ ختم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔

علاقائی طاقتوں کے مفادات کی نزاکت کے پیش نظر اس ملاقات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان (جو شامی بنیاد پرست حکومت کا سرپرست سمجھا جاتا ہے) نے بھی شرکت کی۔ اردگان کی شرکت بذیعہ فون تھی۔

ٹرمپ اور الشرع

یہ ایک ایسا تضاد ہے جو توہین آمیز بھی ہے اور اشتعال انگیز بھی۔

سعودی عرب کی رجعتی بادشاہت نے ٹرمپ کا استقبال پرتعیش تقریب سے کیا۔ اس کے لئے ارغوانی (Lavender) رنگ کے قالین بچھائے گئے۔ 2021ء سے سعودی عرب نے اپنی سرکاری تقاریب میں اِس رنگ کے قالینوں کو اپنانا شروع کیا ہے۔ جو مملکت کی ثقافتی شناخت اور ان پھولوں کے رنگ کی علامت ہے جو بہار کے موسم میں اس کے صحراؤں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

یہ ایک ایسے دورے کا آغاز تھا جو محلات کی آرائشوں اور آسائشوں سے بھرپور ہو گا۔ جبکہ اسی خطے میں تباہی، دہشت اور بدحالی نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔

ریاض، دوحہ اور ابوظہبی کے دارالحکومتوں میں عرب بادشاہتیں اس دائیں بازو کے انتہا پسند صدر کا بھرپور اور عظیم الشان استقبال کریں گی۔ وہ صدر جس کے ساتھ ان کا آمریت پسندی اور منافع بخش کاروباری معاہدات کا ذوق مشترک ہے۔

اور صرف تھوڑے ہی فاصلے پر فلسطین ہے۔ جہاں اسرائیلی ریاست دن رات نسل کشی میں مصروف ہے۔ قریب ہی لبنان، شام اور یمن ہیں۔ جو صہیونیت کے حملوں کا مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

اور پھر ایران، جس کی بنیاد پرست حکومت سے امریکی سامراج نے گزشتہ ہفتے عمان میں مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ اس کوشش میں کہ اس کے جوہری پروگرام کو یا تو مکمل ختم کیا جائے یا کم از کم محدود کر دیا جائے۔

ہم مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی موجودگی اور امریکہ، جو اسرائیلی صیہونی ریاست کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے، کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں!

نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ سے نکل جائیں!

فلسطینی عوام کا قتل عام جاری ہے اور دیگر عرب اقوام پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم سامراجی رہنماؤں کے ”شراکت داروں“ اور ”دوستوں“ کے طور پر استقبال کی مذمت کرتے ہیں۔

غزہ میں نسل کشی بند کی جائے۔ لبنان اور دیگر ممالک پر جارحیت کا خاتمہ کیا جائے!

مغرب اور مشرقِ وسطیٰ کے مقامی جابروں کے خلاف جدوجہد کا واحد راستہ منظم عوامی تحریک اور اشتراکی عمل ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار اور منصفانہ امن، سماجی انصاف اور جمہوری حقوق کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے: سوشلسٹ انقلاب۔

نہ ٹرمپ، نہ بادشاہ، نہ قبضے!

مشرقِ وسطیٰ کو سوشلسٹ انقلاب چاہئے!