ریحانہ اختر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک سال تک چلنے والی عوامی حقوق تحریک اور اس کی کامیابی ایک ایسا اہم واقعہ یا پیش رفت ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار کے کشمیر میں پہلی مرتبہ عوام کی ناقابل مصلحت جدوجہد، اس کی کامیابی اور ریاست و حکمران طبقات کی پسپائی کو سارے زمانے نے دیکھا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے عام لوگ اس تحریک کے انتہائی مثبت اثرات قبول کر رہے ہیں اور اہم اسباق سیکھ رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات استحصال زدہ انسانوں کی زندہ رہنے اور بہتر زندگی کے لئے لڑنے کی امنگوں کو پھر سے جگا دیتے ہیں۔ برسوں کی پژمردگی اور یاس کا لمحوں میں خاتمہ ہو جاتا ہے۔ عام انسان اپنی نام نہاد انفرادیت اور ذاتی بقا کی کوششوں کے خول سے باہر نکل کر اجتماعی مقاصد کے لئے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہونے لگتے ہیں۔ حالیہ تحریک بھی اشتراکی ولولے، حوصلے اور امنگ کی تازہ ہوا کا ایسا ہی جھونکا ہے جو پورے معاشرے کو چھو کر معطر کر گیا ہے اور گھٹن زدہ ماحول چھٹنے کی طرف گیا ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف خود محنت کش طبقے کی لڑنے کی صلاحیت پر اس کا یقین پختہ کرتے ہیں بلکہ عمومی معاشرتی شعور کو آگے بڑھاتے ہوئے مثبت اور ترقی پسندانہ ثقافتی و سیاسی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہر تحریک، چاہے اس کا انت کچھ بھی ہو، بیشمار اسباق کی حامل ہوتی ہے جن میں آنے والی نسلوں کے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اگر مذکورہ تحریک کا جائزہ لیا جائے تو کئی اہم عناصر ہیں جن کی بنیاد پر یہ فتحیاب ہوئی ہے۔
کشمیر کا خطہ تنازعے اور طبقاتی محکومی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ قومی جبر و استحصال سے دوچار ہونے کے باعث یہاں پر ایک متحرک سیاسی ماحول ہمیشہ موجود رہا ہے جسے مقامی و سامراجی حکمرانوں کی طرف سے ہمیشہ زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قومی محرومی کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی وغیرہ کے باعث لاکھوں افراد کی یہاں سے ہجرت سمیت ایسے بیشمار سلگتے ہوئے مسائل رہے ہیں جنہوں نے اس خطے کے باسیوں کی زندگی تلخ اور اجیرن کیے رکھی ہے۔ ایسے میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ وہ آخری محرک ثابت ہوا جس نے دہائیوں کے عوامی غم و غصے کے بارود کو چنگاری دکھا دی۔ تحریک کے آغاز پر جب راولاکوٹ کے مقام پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو شہر کے بیچوں بیچ ایک چوراہے پر ایک ٹینٹ لگا کر دھرنا دے دیا گیا جہاں سیاسی طور پر متحرک مقامی شخصیات، طلبہ اور انجمن تاجران کے نمائندوں وغیرہ نے بیٹھنا شروع کر دیا۔ جلد ہی یہ دھرنا کیمپ کشمیر کے دیگر اضلاع میں بھی قائم ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے عام لوگوں کی ان مطالبات اور احتجاجوں میں دلچسپی بڑھنے لگی کیونکہ حکمرانوں نے ان کے پاس اب اپنا حق چھیننے کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ مقامی سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ شمولیت نے اس تحریک کو بہت مضبوط کیا۔ لیکن پھر اس نسبتاً پسماندہ خطے میں (بالخصوص ریاستی جبر کے نازک مراحل میں) خواتین کی شرکت نے تحریک کو نئی جلا بخش دی۔ یہ سیاسی، سماجی و ثقافتی حوالے سے انتہائی اہم عامل تھا جس کے کردار کو تحریک کو آگے بڑھانے اور بالآخر جیت سے ہمکنار کرنے کے حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہم یہاں تحریک کے پس منظر میں جانے سے اجتناب کریں گے کیونکہ اس پر پہلے ہم بہت لکھ چکے ہیں۔ تاہم ان واقعات میں خواتین کی شمولیت اور ہراول کردار کا پہلو شاید ابھی تک کچھ تشنہ رہا ہے۔ حال ہی میں بالی ووڈ کے جانے مانے ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی ایک مشہور سیریز کے آخر میں ایک ڈائیلاگ ہے کہ جائیداد میں عورت کا حصہ کھا جانے والا معاشرہ اسے تاریخ میں حصہ کیا دے گا۔ ہمارا یہ مضمون ان مزاحمت کار خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے اور حالیہ تحریک کی رقم کی ہوئی تاریخ میں ان کا حصہ اجاگر کرنے کی ہی ایک سعی ہے۔ جہاں کہا جاتا ہے کہ سیاسی تنظیموں کی شمولیت کے بغیر یہ تحریک اس معراج پر نہیں پہنچ سکتی تھی وہاں خواتین کی متحرک اور بعض صورتوں میں مجہول لیکن انتہائی اہمیت کی حامل شمولیت اور حصہ داری کے بغیر بھی یہ اتنی مضبوط نہیں ہو سکتی تھی۔ ان میں وہ عام گھریلو خواتین بھی شامل تھیں جنہیں اس سماج نے کبھی چولھے چوکھے سے فرصت نہیں دی اور جن کی بے پناہ صلاحیتوں کو بن پہچانے، بن سراہے انہیں ادھورا اور کمتر انسان سمجھ لیا گیا۔ تاہم اس تحریک میں ہم نے دیکھا کہ کیسے شعور کو جھنجوڑ دینے والے واقعات سماج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور فرسودہ روایات اور سوچوں کو بڑے پیمانے پر چیلنج کرنے لگتے ہیں۔ یہاں اگر کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت اور انقلابی امنگوں کی ترجمان جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) سے وابستہ بے باک انقلابی طالبات کے کردار پر بات نہ کی جائے تو تاریخی بددیانتی ہو گی۔ ان نوجوان خواتین نے راولاکوٹ، کھائیگلہ، ہجیرہ، باغ اور دیگر کئی جگہوں پر تحریک کے احتجاجی دھرنوں میں جانا اور بیٹھنا شروع کیا۔ یہ ازخود بہت بڑا اور جرات مندانہ قدم تھا۔ ایک ایسا سماج کے جو پدرشاہانہ رسومات اور نیم قبائلی طرز کا حامل ہو وہاں کسی عورت کا شہر میں جا کر مردوں سے بھرے احتجاجی دھرنوں میں بیٹھنا، اپنی جگہ کو کلیم کرنا، اپنے سیاسی حق کو استعمال کرنا، ان احتجاجوں کہیں دبی ہوئی اور کہیں واضح پدرشاہانہ تحقیر کو جھٹلا کر پختہ رویوں کا مظاہرہ کرنا، تقاریر کرنا، تحریریں لکھنا، اجلاسوں میں جانا، فرنٹ لائن پر ریلیوں اور احتجاجوں کا حصّہ بننا… اس سب کے لئے بہت جرات، حوصلہ اور سب سے بڑھ کر پختہ سیاسی و نظریاتی تربیت درکار ہوتی ہے۔ جس کا بھرپور ثبوت اور مظاہرہ این ایس ایف کی ان خواتین نے پیش کیا۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جن میں ہزاروں کے مجمعوں میں یہ چند خواتین (بعض صورتوں میں ایک یا دو) چٹانوں کی سی مضبوطی کے ساتھ نہ صرف موجود تھیں بلکہ قائدانہ کردار ادا کر رہی تھیں۔
یہ پچھلے سال کے ستمبر کے آخری دنوں کی بات ہے جب مقامی اشرافیہ نے اپنے سامراجی آقاؤں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اب جبر کے ذریعے سے اس تحریک کو کچلا جانا چاہئے۔ چنانچہ دھرنے اکھاڑ دئیے گئے، کئی اہم سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور رات کی تاریکی میں گھروں پر چھاپے مارے جانے لگے۔ ایسے میں راولاکوٹ میں موجود دھرنا بھی اکھاڑ دیا گیا۔ لیکن یہ این ایس ایف کی طالبات ہی تھیں جنہوں نے اگلی صبح یکم اکتوبر کو دیگر سیاسی کارکنوں کے ہمراہ دوبارہ اسی جگہ پر دھرنا دے دیا۔ اسی دوران ایکشن کمیٹی کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ تحریک کو جبر کے ذریعے سے توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لہٰذا خواتین کے احتجاج منعقد کیے جائیں گے۔ اس فیصلے کے بعد انہی انقلابی خواتین نے گلی محلوں کی سطح پر انتہائی جانفشانی سے عام خواتین کو منظم کرنے میں اپنی پوری قوت اور توانائی لگا دی۔ ہر ایریا میں اجلاس منعقد کیے گئے جن میں انتہائی سادہ الفاظ میں عام خواتین کے سامنے تحریک کے مقاصد کی وضاحت کی گئی اور انہیں منظم کیا گیا۔ پھر کشمیر کی دھرتی نے 10 اکتوبر کو انتہائی ولولہ انگیز مناظر دیکھے جن میں سماج کی تمام محکوم پرتوں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بڑی تعداد میں احتجاجوں میں شرکت کر کے ریاستی جبر کا منہ توڑ جواب دیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تمام جگہوں پر ان احتجاجوں کو منعقد کرنے والی خواتین کا تعلق این ایس ایف سے نہیں تھا اور نہ ہی وہ ہمیشہ پہلے سے سیاسی طور پر متحرک خواتین تھیں۔ لیکن ہر صورت میں وہ اپنے جرات مندانہ کردار کی بدولت بھرپور داد و تحسین کی مستحق ہیں۔
10 اکتوبر کو سڑکوں پر آنے والی ان خواتین نے صدیوں سے خود کو جکڑے رکھنے والی بیڑیوں کو لمحوں میں پاش پاش کر کے رکھ دیا۔ بلکہ احتجاجوں میں اپنے بچوں کے ساتھ شرکت کی۔ کہا جاتا ہے کے ایک ماں جب انقلابی ہوتی ہے تو وہ تنہا انقلابی نہیں ہوتی بلکہ ایک پوری نسل اس کے ذریعے انقلابی بن جاتی ہے۔ تاہم یہاں ہمیں اس دوہرے معیار پر بھی بات کرنی چاہیے کہ جب جبر کے امکانات پیدا ہوئے تو تحریک کی قیادت نے خواتین کو سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا۔ مگر اگلے کچھ دنوں میں جب صورت حال کچھ سنبھلی تو یہی سرگرم خواتین انہیں ”میرا جسم میری مرضی“ والی لگنا شروع ہو گئیں۔ ”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے پر ہم کسی اور مضمون میں بحث کریں گے مگر یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ قیادتیں ہمیشہ اپنی خواہشات کے مطابق انقلابی تحریکوں کو قابو نہیں کر سکتیں۔ انقلابِ فرانس ہو یا انقلابِ روس‘ کوئی بھی انقلاب خواتین کی ہراول شمولیت کے بغیر رونما نہیں ہو سکتا اور پچاس فیصد آبادی کو کونے سے لگا کر سماجوں کے مقدر نہیں بدلے جا سکتے۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ زندگی موت کی جدوجہد پر مبنی تحریکیں قدامت پرستانہ اور رجعتی سوچوں اور رویوں پر کاری ضربیں لگاتی جاتی ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جسے فراموش کرنا غلطی ہو گی۔ بنیاد پرستی یا قدامت پسندی سے ہم ایسے ہی رویوں کی امید کرتے ہیں کہ ان کی عورت دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہاں کچھ نام نہاد انقلابیوں نے بھی اکتوبر کے احتجاجوں کو لے کر انتہائی رجعتی کردار ادا کیا۔ خطے کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو دہائیوں کی محرومی اور محکومی کے خلاف آواز اٹھانے کا موقع مل رہا تھا جس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ایسے پیٹی بورژوا عناصر بنیاد پرستی کی صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ احتجاج کرنا، سڑکوں پر آنا، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا، اپنی نسلوں کی بقا کے لئے لڑنا، نظام کی ناانصافیوں پر سوال اٹھانا ہر انسان کا بنیادی سیاسی اور جمہوری حق ہے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اور ہر وہ نظریہ، ہر وہ سوچ اور رویہ جو انسانوں کو یہ حق استعمال کرنے سے روکے وہ باطل اور جھوٹا ہوتا ہے۔ بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود خواتین کی شمولیت تحریک کی کامیابی میں فیصلہ کن رہی۔ تحریک کے آخری مراحل کے دوران سوشل میڈیا پر وہ رقت انگیز مناظر بھی گردش کرتے رہے جب بوڑھی مائیں اپنے بیٹوں کو بوسہ دے کر لانگ مارچ میں شرکت کے لئے روانہ کر رہی تھیں۔ یوں لاکھوں ایسی خواتین جو گھروں سے باہر نہیں آئیں یا نہیں آ سکیں‘ تحریک کے شرکا کا حوصلہ بڑھانے میں ان کا بھی انتہائی دلیرانہ کردار موجود تھا۔ مزید برآں آخری مراحل میں ریاستی جبر اگر ایک خاص حد سے آگے بڑھتا تو لازم تھا کہ خواتین کی پہلے سے بھی کہیں بڑی تعداد بنفس نفیس احتجاجوں میں شامل ہو جاتی۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں حالیہ مہینوں کے دوران جو کچھ ہوا عام سوچ کے لئے کچھ عرصہ پہلے تک اس کا تصور بھی محال تھا۔ لیکن طبقاتی و قومی استحصال کے خلاف جدوجہد یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک نیا آغاز ہے۔ اس بات کا اندازہ ہم فتح کے عوامی جشن دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ جب محکوم طبقات سیاسی و نظریاتی طور پر باشعور ہو جائیں اور ان کے پاس لڑ کر اپنا حق چھیننے اور جیتنے کا سبق بھی موجود ہو تو وقتی یا جزوی فتوحات کے بعد وہ خاموش نہیں بیٹھا کرتے۔ آنے والے عرصوں میں نہ صرف کشمیر بلکہ پورے خطے میں اس سے بڑے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر خطوں میں ہم ان واقعات کا مشاہدہ پہلے سے کرتے آ رہے ہیں۔ سامراجی سرمایہ داری اپنے بڑھتے ہوئے بحران کے ساتھ محنت کش طبقات اور عام انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن سے اجیرن تر کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ محکموں اور مظلوموں کی یہ فتح بھی حکمرانوں کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہو گی۔ علاوہ ازیں بیشمار ایسے سلگتے ہوئے مسائل ہیں جو بڑھتے جا رہے ہیں اور جن کے گرد پھر کوئی تحریک بن سکتی ہے۔ مگر ایسی کوئی بھی طبقاتی لڑائی مرد و زن کی مشترکہ جدوجہد کے بغیر جیتی نہیں جا سکتی۔ یہی اس تحریک کا سبق بھی ہے۔ خواتین نے جو انقلابی کردار اس تحریک میں ادا کیا ہے وہ معیاری و مقداری حوالے سے زیادہ بڑے پیمانے پر آنے والی جدوجہدوں میں نظر آئے گا۔ لیکن انقلابی تنظیم سازی و تربیت میں خواتین کی بھرپور شمولیت کے ذریعے مستقبل کی ان لڑائیوں کی تیاری ابھی سے کرنا ہو گی۔