عمران کامیانہ

پاکستان ایک کے بعد دوسرے بحران سے گزرتے ہوئے معاشی و سیاسی زوال پذیری کی نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ عمران خان کے تجربے کا ’ہینگ اوور‘ ریاستی پالیسی سازوں کے سر میں ناقابل برداشت درد کیے ہوئے ہے۔ اس سارے پراجیکٹ کی ناکامی اور تباہ کاری سے پہلے سے مسلسل گراوٹ کا شکار پاکستانی سرمایہ داری کی حالت اور بھی پتلی ہو گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے انتہائی کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ملکی معیشت کو تو فی الوقت دیوالیے سے بچا لیا ہے لیکن اس دوران بنیادی استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے اس نے پہلے سے مالی طور پر تباہ حال عوام کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ عبوری حکومت کے قیام کے ساتھ بھی مہنگائی میں اضافہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کی شرح پہلے سے بھی بڑھتی معلوم ہوتی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ڈیزل کی قیمت میں 57 فیصد جبکہ پٹرول کی قیمت میں تقریباً 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی عرصے میں بجلی کی قیمتوں میں 250 فیصد سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ چینی 100 فیصد مہنگی ہو چکی ہے جبکہ آٹے کی قیمت 150 فیصد بڑھ چکی ہے۔ باقی اشیائے خورد و نوش کی بھی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔ یہ آئی ایم ایف کے نسخوں کے عین مطابق میکرو اکانومی کو بچانے کے چکر میں مائیکرو اکانومی کی مکمل بربادی کی کیفیت ہے۔ جس کی وجہ سے پہلے سے ایک مفلوک الحال ملک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جرائم اور اجتماعی خودکشیاں ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ سماجی طور پر ایک نفسا نفسی کی حالت ہے۔ ڈالر، جو پی ڈی ایم کے اقتدار سنبھالتے وقت 180 روپے کا تھا، اس وقت انٹر بینک میں 300 روپے کی حد عبور کر چکا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 320 روپے میں بھی نہیں مل رہا ہے۔ معاشی گراوٹ اس قدر گہری ہے کہ اسحاق ڈار کے تکنیکی جگاڑ بھی کسی کام نہیں آ سکے۔ اس وقت سرکاری کھاتوں میں افراطِ زر کی شرح 25 سے 30 فیصد ریکارڈ کی جا رہی ہے لیکن اصل مہنگائی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جسے کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود 22 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔ کرنسی کے ایکسچینج ریٹ میں مسلسل عدم استحکام، توانائی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور اتنی بلند شرح سود کے ساتھ یہاں کوئی پیداواری سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ ان حالات میں تجارت بھی محال ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت مسلسل سکڑاؤ کا شکار ہے۔ گزرنے والے مالی سال کے دوران جی ڈی پی گروتھ ریٹ تقریباً صفر ظاہر کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ منفی میں ہے۔ اور یہ حالات آنے والے کئی سالوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔ بالخصوص ایسی کیفیت میں جب عالمی سرمایہ داری خود ایک زوال پذیری کا شکار ہے۔ پیداواری سرگرمی کے حوالے سے اس وقت بیشتر ترقی یافتہ معیشتیں معاشی سکڑاؤ (ریسیشن) کا شکار ہیں یا اس طرف گامزن ہیں۔ جبکہ پیداواری نمو کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت بھی 2008ء کے بعد سے ایک عمومی گراوٹ سے دوچار ہے۔ 2023ء میں عالمی معیشت کی شرح نمو صرف 2.7 فیصد رہنے کا امکان ہے جو پچھلے سال سے بھی کم ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ معیشتوں کی ترقی کا امکان صرف 1.3 فیصد ہے۔ یہ سب عالمی سرمایہ داری کے پہلے سے زیادہ گہرے بحران میں پھنس جانے کی علامات ثابت ہو سکتی ہیں جو پاکستان جیسی پہلے سے انتہائی نحیف معیشتوں کی تباہی کا عمل تیز کرے گا۔

معیشت کی ایسی حالت میں سیاست کی اتنی گراوٹ حیران کن نہیں ہونی چاہئے۔ عوامی مسائل سے لاتعلق یہ سیاست ایک نہ ختم ہونے والی بیہودگی بن کے رہ گئی ہے۔ عمران خان کو جیل میں ڈال کر منظر عام سے غائب تو کر دیا گیا ہے لیکن آگے کی حکمت عملی پر ریاست میں اختلافات موجود ہیں۔ سیاسی و ریاستی انتشار کی یہ حالت ہے کہ ابھی تک کسی کو یہی نہیں پتا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ اور ہوں گے تو کب ہوں گے۔ اقتدار چھوڑتے ہی پیپلز پارٹی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی ہے اور تین مہینوں میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ زرداری کا زیادہ تر فوکس سندھ حکومت پر ہی ہے جو اس کے خاندان اور کاسہ لیسوں کے لئے سونے کی نہ ختم ہونے والی کان سے کم نہیں ہے۔ لیکن ریاستی پالیسی سازوں کے سامنے ایک وسیع تر منظر نامہ ہے جس میں انہیں کئی معاملات کو سیدھا کرنا ہے۔ ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا بنتا جا رہا ہے جسے حل کرنے کے لئے وہ ہر قیمت پر آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح سے وہ کچھ عرصے میں معیشت کو غیر یقینی کی کیفیت سے نکال کر کسی حد تک بحال کر لیں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ خسارے کم کیے جائیں۔ جس کے لئے مزید مہنگائی کرنی پڑے گی۔ عبوری وزیر اعظم کے لئے اپنے پکے بندے کے انتخاب کی یہ ایک اہم وجہ ہے (علاوہ ازیں اپنی مرضی کے انتخابات اور نتائج کے حصول میں بھی وہ اہم پرزے کا کردار ادا کرے گا)۔ اس تناظر میں زیادہ امکانات یہی ہے کہ اس عبوری حکومت کو کچھ عرصہ مزید چلایا جائے گا اور ایسے ”غیرمقبول“ اقدامات بھی کروائے جائیں گے جو شاید شہباز شریف بھی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن انتخابات کو لامتناہی طور پر ملتوی کرنا ان کے لئے اتنا آسان نہیں ہے۔ اس دوران ریاست میں عمران خان کے حمایتی اپنی بچی کھچی قوت کے ساتھ اسے جیل سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کے حامی دھڑے کو اگر کچلا نہیں گیا تو دبا ضرور دیا گیا ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں عمران خان کے باہر آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ اگر اس کی موجودہ سزا چیف جسٹس یا صدر کے ذریعے معطل بھی کروا دی جاتی ہے تو اس پر درجنوں دوسرے مقدمات قائم ہیں جن میں اسے دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ اسیری کے سخت حالات سے تنگ آ کر وہ توبہ تائب ہونے اور اطاعت قبول کرنے کی یقین دہانی کروائے۔ لیکن پچھلے ایک ڈیڑھ سال کے ڈرامائی واقعات اور اس کی لاابالی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی آقا شاید ہی اس پر کبھی دوبارہ اعتماد کریں۔ کم از کم الیکشن تک اس کا باہر آنا محال معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے ہی نہ دیا جائے یا مسلسل عتاب کا نشانہ بنا کے اس کے انتخابی امکانات کو انتہائی محدود کر دیا جائے۔ تحریک انصاف پراجیکٹ کے عروج کے دنوں میں یہ سب کچھ ن لیگ کے ساتھ بھی کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں نواز شریف کے اکتوبر میں واپس آنے کی خبریں بھی گرم ہیں۔ آثار یہی نظر آ رہے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کو نہ صرف ن لیگ کی طرف سے بلکہ ریاستی سطح پر بھی کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے بھرپور پراجیکٹ کیا جائے گا اورانتخابی مہم کا نقطہ آغاز بنایا جائے گا۔ ایک طرف انتخابات کے التوا اور دوسری طرف شہباز شریف کو کچھ پس منظر میں لے جا کے نواز شریف کی شعلہ بیانی، وعدوں اور دعوؤں کے ذریعے پی ڈی ایم دور ِ حکومت کے بدترین معاشی عذابوں کو عوام کی یادداشت سے محو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے عمومی تاثر اگلا اقتدار ن لیگ کے حوالے کیے جانے کا ہی دیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ حکومت کئی طرح کے موقع پرست اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی کی جائے گی اور نواز شریف کا تخت کانٹوں سے اٹا ہو گا۔

لیکن یہ نظام بوسیدگی کی جس نہج پہ پہنچ چکا ہے وہاں یہ ساری منصوبہ بندی لمحوں میں ٹوٹ کے بکھر سکتی ہے۔ جہاں ریاست کے اندر ایک دوسرے سے متصادم سامراجی ریاستوں کی مداخلت سمیت کئی زاویوں سے دراڑیں موجود ہیں وہاں اس معاشرے میں بدحالی و بربادی کی انتہا ہو چکی ہے۔ ہر قومیت میں یہاں قومی محرومی کے احساسات سلگ رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کی مسلسل ایجی ٹیشن انہی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ ان احتجاجی آوازوں کو دبانے کے لئے اس تحریک کے خلاف دوبارہ کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا جس میں علی وزیر ایک بار پھر پابند سلاسل ہو چکا ہے۔ لیکن قومی نجات کی تحریکوں کو طبقاتی مطالبات اور پروگرام کے ساتھ جوڑ کر ہی انقلابی سمت میں گامزن کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس نظام نے ہر قومیت کے محنت کشوں پر طبقاتی جبر و استحصال روا رکھا ہوا ہے جس کی شدت وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ بجلی کے بلوں نے لوگوں کو روٹی یا بجلی میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ محنت کش طبقات میں مہنگائی و بیروزگاری کی ان نہ ختم ہونے والی ذلتوں کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے۔ جس کا اظہار کشمیر میں بل نہ جمع کروانے پر مشتمل بڑے پیمانے کی ایک بے باک احتجاجی تحریک کی شکل میں بھی ہوا ہے۔ تحریک کے مطالبات انتہائی معقول ہیں کہ کشمیر کے مخصوص سٹیٹس اور اس خطے میں مختلف منصوبوں سے بجلی کی بے شمار پیداوار کے پیش نظر وہاں کے باسیوں کو بجلی مفت فراہم کی جائے۔ یہ تحریک تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف شدت پکڑ رہی ہے بلکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرایت بھی کر رہی ہے۔ پورے ملک میں بجلی کے ناقابل برداشت نرخوں کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں اور لوگ بل جلا کے اپنے غیض و غصب کو آشکار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا لوگوں کی آہ و بکا اور احتجاجی آوازوں سے بھرا پڑا ہے۔ آنے والے دنوں میں بجلی کی مہنگائی کیخلاف یہ چھوٹے چھوٹے احتجاج دوسرے طبقاتی مطالبات کو بھی شامل کرتے ہوئے بڑی تحریک کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ ان بپھرے ہوئے عوام کو عوامی ایکشن کمیٹیوں میں منظم کرتے ہوئے ان کے مطالبات میں نکھار پیدا کرنے اور لائحہ عمل کو ٹھوس بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں انقلابی سوشلسٹ پروگرام سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان احتجاجوں میں اس نظام کے لبرل و مذہبی رکھوالے بھی بھرپور مداخلت کی کوشش کریں گے۔ جنہیں انقلابی اپنی مستقل مزاجی، بے لوث جدوجہد اور ناقابل مصالحت پروگرام کی قوت سے ہی بے نقاب اور بے دخل کر سکتے ہیں۔

اس ملک کی سب مروجہ پارٹیاں اسی استحصالی نظام کی اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات اور سفارت پر یقین رکھتی ہیں۔ پچھلے تقریباً پندرہ سال کے دوران ملک کی تقریباً ہر بڑی قوم پرست، مذہبی، لسانی اور لبرل یا نام نہاد ”سنٹر لیفٹ“ پارٹی اقتدار کا حصہ رہی ہے۔ لیکن اس معاشرے کی غربت، زبوں حالی اور یاس بڑھتی ہی گئی ہے۔ زوال پذیری کا یہ عالم ہے کہ ہر پچھلی حکومت اگلی والی سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری اس حد تک دیوالیہ ہو چکی ہے کہ یہاں معمولی بہتری اور آسودگی کے لئے بھی ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ بجلی کی مہنگائی کے خلاف تحریک میں سب سے پہلے بجلی پر ہر طرح کے ٹیکسوں کی بھرمار کے خاتمے کا مطالبہ کیا جانا چاہئے۔ لیکن اس ملک میں مسلسل مہنگی ہوتی بجلی اور نہ ختم ہونے والی لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کی وہ لعنت ہے جسے پروان چڑھانے میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت ماضی کی ساری حکومتیں ملوث رہی ہیں۔ یہ آئی پی پیز بجلی نہ بنانے کے پیسے لیتی ہیں (”کیپیسٹی پیمنٹس“) اور سالانہ کھربوں روپے کروڑوں مفلوک الحال عوام کی جیبوں سے نکال کر مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریوں میں منتقل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس میں سے بیشتر پیسہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بھاری بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ عوامی دولت کو مسلسل ہڑپ کرنے والے آئی پی پیز نامی ان بلیک ہولز کو قومی تحویل میں لے کے منافع کی بجائے اشتراکی فلاح کے لئے چلایا جانا چاہئے۔ اسی طرح جب تک تمام غیر ضروری اور پرتعیش اشیا کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے قومی صنعت کو فروغ نہیں دیا جاتا اور بیرونی تجارت، بینکنگ اور فنانس کے شعبوں کو قومی تحویل میں نہیں لیا جاتا ڈالر کی اڑان، روپے کی بے قدری اور ان دونوں کے ساتھ جڑی مہنگائی رکنے والی نہیں ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے لئے لازم ہے کہ نہ صرف سامراجی جکڑ بندیوں کو توڑتے ہوئے متبادل ممالک سے سستے تیل کے معاہدے کیے جائیں بلکہ ایک خاص حد سے بڑی گاڑیوں پہ پابندی عائد کی جائے، ریلوے کو بحال کیا جائے، پبلک ٹرانسپورٹ کا وسیع اور آرام دہ نظام وضع کیا جائے اور بتدریج انداز سے توانائی کے صاف اور قابل تجدید طریقوں کی طرف مراجعت کی جائے۔ ناخواندگی، مہنگے تعلیم و علاج، بے گھری، بیروزگاری اور زبوں حال انفراسٹرکچر کی ذلتوں سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ بینکوں اور بڑی کارپوریشنوں کی نیشنلائزیشن سے حاصل ہونے والے وسائل کو بجلی، گیس، آبپاشی، صاف پانی کی ترسیل و نکاس، ٹرانسپورٹ، ہاؤسنگ، جدید ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر و توسیع، صنعتکاری، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ جیسے اجتماعی مفاد کے دیوہیکل منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔ معیشت کو نجی منافع خوری کی جکڑ سے نکال کر اشتراکی ضرورت، فلاح اور بہبود کے تابع کر کے ہی اس تاریک معاشرے میں کوئی امید کی کرن پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ غیر معمولی اقدامات اس غیر معمولی سماجی تبدیلی کے متقاضی ہے جسے سوشلسٹ انقلاب کہا جاتا ہے۔ اور زندگیوں کو عذاب بنا دینے والے سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے لئے محنت کش عوام کی ہر تحریک کی کامیابی انقلابی منزل تک کے اس سفر کا سنگ میل ہے۔