قمرالزماں خاں
شاید ہی کوئی دن ہو جب ذوالفقارعلی بھٹو کا نام قومی سیاست میں نہ گونجتا ہو۔ یہ عمل پانچ دہائیوں سے جاری ہے۔ بھٹو کے دشمن اور اس کے چاہنے والے سبھی بھٹو کے نام پر یا اس کی مخالفت میں سیاست کرتے اور خود کو بھٹو سے وابستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دنوں طاقت اور عدل و انصاف کے ایوانوں میں پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتحال، سیاسی کشمکش، آئینی موشگافیوں اور حوالوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا دو طرح سے ذکر ہو رہا ہے۔ ایک تو اس ملک کو چلانے والے قوانین اور ان قوانین کو بنانے والے آئین پاکستان کا بہت تذکرہ ہوتا ہے جس کا وجود ذوالفقارعلی بھٹو کی کاوشوں سے عمل میں آیا۔ دوسرا آئین پاکستان کے خالق کو اسی آئین کی ماتحت عدالتوں کے ہاتھوں قتل کر دیئے جانے کا بھی ذکر جاری ہے۔ لیکن یہ بات آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل مرڈر یا عدالتی قتل کیا تھا جس کے محرکات سراسر سیاسی تھے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ قبل ازیں اس عدالتی قتل کے مرکزی محرک اور خواہش مند فوجی آمر ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو 5 جولائی 1977ء کو ختم کرکے ملک میں تیسرا مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ تاریخ میں بہت سے کردار حیران کن مماثلت رکھتے ہیں۔70ء کی دہائی میں عمران خان کے ساتھ ملتا جلتا ایک کردار اسٹیبلشمنٹ نے ائیر مارشل اصغر خان کی شکل میں تیار کیا تھا جس کا اس دور کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا نوجوانوں کا ایک حصہ حامی تھا۔گو حالات و واقعات اور عہد کے مخصوص کردار کی وجہ سے اصغر خان کو کبھی بھی اقتدار میں نہیں لایا جا سکا مگر بھٹو کے قتل کے لئے حالات پیدا کرنے میں ائیر مارشل اصغر خان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ موصوف نے 1976ء میں ہی بھٹو کو (کوہالہ پل پر) پھانسی دینے کا نعرہ بلند کیا تھا۔ بھٹو ہر عہد میں محنت کش عوام اور حکمران طبقات کے لئے خاص معنوں کا حامل رہا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد بھٹو کو غریبوں کے ہمدرد رہنما کا درجہ دیتی رہی ہے جبکہ ہر حکمران کی یہ کوشش رہی ہے کہ بھٹو کو مغربی پاکستان میں ملنے والے مقبولیت، شہرت اوردیومالائی حیثیت اسے بھی نصیب ہو۔ جہاں ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو، جو اپنی والدہ کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت پر براجمان ہے، کی کوشش ہے کہ وہ اپنے نانا کے لہجے کی نقل کرتے ہوئے انہی کی باڈی لینگویج اختیار کرے وہیں شہباز شریف‘ بھٹو کی طرح جلسے میں مائیک کو دھکے دے کر گراتا اور بھٹو کے سحر میں مبتلا ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ اسی طرح عمران خان تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے خود کو بھٹو طرز کا سامراج مخالف یا اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں انتقامی کاروائیوں کا شکار قرار دیتا ہے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹرول دن رات عمران خان کا موازنہ بھٹو سے کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ بھٹو کا پاکستان کی تاریخ میں کردار متنازعہ ہونے کے باوجود سب سے نمایاں رہا ہے۔ کیا عجب بات ہے کہ بھٹو کے مخالفین جب بھٹو میں کوئی مثبت چیز دریافت کرتے ہیں تو وہ اس کی تاریخی غلطیاں اور انحراف ہوتے ہیں جن کے سبب وہ اپنی پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے دور ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ اپنی حمایت بھی کھوتا گیا۔ دوسری طرف ایک جارحانہ عوامی تحریک کے زور کے تحت وسیع نیشنلائزیشن اور لینڈ ریفارمز کی کوشش جیسے جو حقیقی انقلابی اقدامات بھٹو نے کیے‘ بھٹو کی اپنی پارٹی ان سے ایسے شرمسار دکھائی دیتی ہے جیسے وہ بہت بڑی غلطیوں کے زمرے میں آتے ہوں۔ بھٹو کے یہ سرکاری جانشین پچھلی کئی دہائیوں سے اس کی زندگی کے انقلابی نظریات، لمحات، واقعات اور اقدامات سے مسلسل دور بھاگنے میں مصروف ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں وہ بھٹو کے نظریات سے نتھی نظر آگئے تو ریاست اور سامراج کی گماشتگی پر مبنی ان کی سیاست بڑے خسارے کا شکار ہو جائے گی۔آج اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی اسی نظریاتی و سیاسی روش کے تحت پیپلز پارٹی کی زوال پذیری نے عمران خان جیسے رجعتی کرداروں کی راہ ہموار کی ہے۔
پاکستان کی سیاست کئی دہائیوں تک بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم رہی جس میں بائیں اور دائیں بازو کی تقسیم کا تاثر حاوی تھا۔ یہ نظریاتی تقسیم 80ء کی دہائی میں ایک طرف بھٹو اور دوسری طرف ضیاالحق کی سیاسی وراثت کی اصطلاحات کے تحت بھی لکھی اور کہی جاتی رہی۔ تب بھٹو کے وارث ہونے کے دعویدار وہ لوگ ہو ا کرتے تھے جو سامراج، سرمایہ داری و جاگیرداری کی مخالفت کرتے تھے، نجی ملکیت کی بجائے قومی ملکیت کا دفاع کرتے تھے، مفت تعلیم و صحت کے مطالبے کرتے تھے، مزدوروں کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر ان کی لڑائی لڑتے تھے اور مقامی و عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کٹر مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظریات کے حاملین ضیاالحق کے سیاسی جانشین یا وارث، قدامت پرست، رجعت پسند، سامراجی اطاعت گزار اور عوام دشمن قوتوں کے حلیف گردانے جاتے تھے۔ مگر بالخصوص سوویت یونین کے انہدام اور نیولبرل سرمایہ داری کی یلغار کے نتیجے میں جنم لینے والی عالمی صورتحال اور پاکستانی معاشرے و سیاست کی شدید گراوٹ کے تحت یہ منظر اب عجب طریقے سے بدل چکا ہے۔ آج یہ دلچسپ مگر ہولناک منظر پاکستان کے لوگ ہر روز دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی تقسیم والی لکیر کے دونوں طرف سامراجی کاسہ لیس، سرمایہ داری کے رکھوالے، ضیا الحق کے سیاسی وارث، منڈی کی معیشت کے نام لیوا اور ملٹری بیوروکریسی سے ساز باز پر یقین رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں۔ یوں نظریاتی حوالے سے دیکھیں تو یہ سیاسی تقسیم اور لکیر بھی بے معنی اور جعلی ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سارے منظر نامے میں افسوسناک بات یہ ہے کہ بھٹو کی وارث کہلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی پر قابض افراد بھی انہیں فریقین میں سے ایک کے ساتھ بطور معاون و اتحادی کھڑے ہیں۔ بھٹو کو عوام کا ہردل عزیز لیڈر و رہنما بنانے والے نظریات کیا تھے اس بات کو کتابی اقتباس بنا کر یکسر فراموش کر دیا گیا ہے۔ جبکہ بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ کے ماتحت ہی نہیں کیا بلکہ مسلم لیگی نظریات کی تابعداری بھی اختیار کر لی ہے۔ نجکاری کی حمایت کی جاتی ہے۔ روزگار کی بجائے امداد، بھیک اور چند ہزار روپے ماہانہ کے سامراجی سپورٹ پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ آخری تجزئیے میں بھٹو کو سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اقدامات (اگرچہ جزوی) اٹھانے پر مقامی گماشتوں کی مدد سے قتل کردیا گیا مگر بھٹو کے نام پر شہرت، ووٹ اور اقتدار حاصل کرنے والے سرمایہ داری کے مکمل مطیع بن کر اس کی پارٹی کو بنیادی سوشلسٹ پروگرام و منشور سے کوسوں دور لے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست کو اس حد تک مسخ کر دیا گیا ہے، اس کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت میں عوامی سیاست اور سوشلسٹ نظریات رکھنے والی بھٹو کی پارٹی سے اس کی کوئی مماثلت تلاش کرنا محال ہے۔ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا۔ آج بدعنوانی، ریاستی ایما پر کی جانے والی سیاسی جوڑ توڑ، استحصالی نظام کی سہولت کاری اور ملکی و عالمی مقتدر حلقوں کی خوشنودی کا حصول ہی پارٹی کی سیاست ٹھہرا دیا گیا ہے۔ ایک ملک گیر سیاسی قوت سے صوبائی پارٹی تک کے سفر پر قیادت نہ صرف مطمئن ہے بلکہ اپنی تمام تر پالیسیاں بھی اقتدار میں اسی مفاد پرستانہ حصہ داری کے مطابق ترتیب دیتی ہے۔ ایسے میں یہ کوئی حیران کن امر نہیں ہے کہ محنت کش عوام نے بھی اس سیاست کو یکسر مسترد کر کے اپنی حمایت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
بھٹو نے جو نظریاتی غلطیاں اپنی سیاسی زندگی کے دوران کی تھیں وہ انہیں اپنے زوال‘ حتیٰ کہ اپنی موت کا سبب گردانتا تھا۔ اس بات کا برملا اعتراف انہوں نے موت کی کوٹھڑی میں لکھی اپنی کتاب”اگر مجھے قتل کیا گیا!“ میں کیا ہے۔ لیکن بھٹو کے بعد پارٹی قیادتوں نے انہی غلطیوں کو آگے بڑھایا۔ بلکہ انہیں جرائم میں بدل کے رکھ دیا۔ فرق یہ ہے کہ بھٹو نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور جان دے کر بھی خود کو امر کر گیا۔ مگر بھٹو کے بعد کی پارٹی قیادتوں نے انہی غلطیوں کو پارٹی کی سیاست بنا کر پارٹی کی ساکھ، شناخت اور عوامی حمایت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ وہ پارٹی جو کسی وقت میں چاروں صوبوں کی زنجیر ہوتی تھی اور عوامی طاقت سے ریاستی و فوجی جبر کو شکست دیا کرتی تھی آج اسٹیبلشمنٹ سے اس حد تک مغلوب ہوچکی ہے کہ لاشعوری طور پر ریاستی اداروں پر تنقید کر بھی لے تو اگلے روز ہی معافی کی طلبگار ہو جاتی ہے۔ نہ صرف پارٹی کو سیاسی وارلارڈز کے ہاں گروی رکھ دیا گیا ہے بلکہ پارٹی تنظیموں کو بھی حتی الامکان غیر موثر اور غیر سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ عہد کی پاور گیم میں آصف علی زرداری کو عوام دشمن طاقتوں سے ساز باز (”مفاہمت“) میں جو ید طولیٰ حاصل ہے اس کی بنیاد غیر اصولی اور غیر نظریاتی بنیادیں ہیں۔ اس کیفیت میں پارٹی پھر سے اقتدار میں کم یا زیادہ حصہ داری کے لئے ”کوالی فائی“ تو کر چکی ہے مگر محنت کش طبقات کی حمایت سے عملاً محروم بھی ہو چکی ہے۔ ماضی میں پارٹی میں نظریاتی کارکنان کو عزت اور اہمیت ملتی تھی۔آج انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی نسبت پارٹی عہدوں، عزت اور قیادت تک رسائی کے لئے سیاسی نج کاری کا طریقہ اختیار کیا جا چکا ہے۔دولت اور سماجی مرتبہ ہر قربانی،نظریے اور جدوجہد پر غالب آ چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر بلاول بھٹو‘ ضیاالحق کی سیاسی باقیات (شریف برادران) کے جرائم کا شریک کار بن کر ضیاالحق کے دوسرے سیاسی جانشین (عمران خان) کو للکارتے ہوئے کتنا مضحکہ خیز منظر تخلیق کرتا نظر آئے گا۔ بھٹو کو اس کے دشمن تو نہ مارسکے‘ نہ ہی مار سکتے تھے لیکن بھٹو اپنے سرکاری وارثوں کے ہاتھوں گھائل ضرور ہو چکا ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ نظام سے مصالحت پر مبنی بھٹو کی غلطیوں، جن کا اعتراف اس نے زندگی کے آخری لمحات میں خود کیا، سے سبق سیکھا جائے اور سوشلسٹ نعروں، پروگرام اور مطالبات پر مبنی اس کی حقیقی میراث سے نئی نسل کو روشناس کروایا جائے۔ سب سے بڑھ کر ایک انقلابی پارٹی کی شکل میں انقلاب کا وہ سیاسی اوزار تیار کیا جائے جس کا متبادل پیپلز پارٹی سمیت اس نظام کی کوئی سیاسی جماعت نہ ہو سکتی تھی‘ نہ ہو سکتی ہے۔