انعم اختر

1789ء کے فرانسیسی انقلاب نے یورپ کی تاریخ کو بدل ڈالا تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں جو نظریات و افکار پیدا ہوئے انہوں نے یورپ کے سماج کی نئی تشکیل کی جس نے فکر کی نئی راہیں کھولیں۔ خاص طور سے انقلاب کے دوران عورت نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی۔ پدرسری اور قدامت پرستی کو چیلنج کیا اور انقلاب میں بھرپور حصہ لیا۔ ان عورتوں کا تعلق امرا کے طبقے سے نہیں تھا بلکہ یہ متوسط اور نچلے طبقے کی عورتیں تھیں جنہیں تعلیم سے محروم کر کے گھریلو کاموں میں جکڑ دیا گیا تھا۔ اس انقلاب نے انہیں موقع دیا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور پیرس کے مجمعوں میں شریک ہو کر انقلاب میں حصہ لیں۔ لہٰذا جب 14 جولائی کو پیرس کے عوام نے بادشاہت کے جبر و استبداد کی علامت سمجھے جانے والے باستیل کے قلعے پر دھاوا بولا تو عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ بلکہ پیش پیش تھیں۔ پیرس کی عورتوں نے اس وقت شدید مظاہرہ کیا جب مارکیٹ سے روٹی کم ہو گئی۔ 5 اکتوبر 1789ء کو عورتیں اپنے باورچی خانے کے برتن لے کر بازار میں جمع ہوئیں اور غذائی قلت کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے احتجاجی جلوس کی شکل میں بادشاہ کے محل کی طرف رواں دواں ہو گئیں۔ چنانچہ عورتوں کا یہ جلوس پیرس کے مضافات میں واقع وارسائی کی جانب روانہ ہوا تھا جہاں شاہی خاندان رہائش پذیر تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے محل کے سامنے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا۔

آج بھی ہمارے سماج میں عورت کی عمومی سماجی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بے علمی کی انتہا یہ ہے کہ ہم آج بھی جنس اور صنف کی تشریح میں کوئی فرق نہیں کر پاتے۔ اس کی خاص وجہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے غیر سائنسی اور رجعتی خیالات ہیں جو عینی نظریات پر مبنی رسم و رواج اور عقائد کے نام پر عورت پر مسلط کیے گئے ہیں۔ سماج میں موجود اس جہالت نے کبھی ان غیر سائنسی خیالات کو رد کرنے یا انسان کو یہ سوچنے پر مجبور نہیں کیا کہ کیوں عورتوں پر صدیوں سے جنس کی بنیاد پر تفریق روا رکھی جاتی رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ خود کو باشعور سمجھنے والے بھی ایسی ہی غلطی کو دہراتے رہتے ہیں اور یوں نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیڑھی در پیڑھی چلتا رہتا ہے۔ سماج میں پھیلے دیگر فکری مغالطے جن کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے ان میں سے ایک جنس اور صنف سے متعلق غیر سائنسی رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنس کا مطلب کسی کا پیدائشی طور پر عورت یا مرد پیدا ہونا ہوتا ہے جو کہ ہر سماج میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اس کو ہم خالصتاً حیاتیاتی فرق کہہ سکتے ہیں مثلاً عورت بچہ پیدا کر سکتی ہے اور دودھ پلا سکتی ہے۔ جبکہ صنف کا مطلب معاشرے میں کام کی تقسیم، ذمہ داریوں اور کردار کو بحیثیت مرد اور عورت معین کرنا ہوتا ہے۔ یوں تو ہر سال 8 مارچ بہت جوش و جذ بے کیساتھ منایا جاتا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لے کر اقوام متحدہ تک سب اس دن کو بڑے پیمانے پر مناتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں بھی بہت سی این جی اوز اس دن کے حوالے سے خاص طور پر بڑی دھوم دھام سے بڑی بڑی تقریبات منعقد کرتی ہیں۔ ان میں عورتوں کو بہت ہی مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اس مظلومیت کا پھر کاروبار کرتے ہوئے خوب مال بنایا جاتا ہے۔ مگر اس دن کو نہ صرف اس کی تاریخی جڑوں سے کاٹ دیا گیا ہے بلکہ یہ دن جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا علمبردار ہوا کرتا تھا اس کو حکمران طبقے اور درمیانے طبقے کی خواتین کی نمود و نمائش کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے۔ آج بھی ہمیں اس دن کو اس کی تاریخی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔

جب بھی خواتین کے مسائل کے حل کی بات کی جاتی ہے تو ہمیں دو انتہائیں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف ملائیت کا جبر نظر آتا ہے جو عورتوں سے ہر طرح کے حقوق چھین کر ان کو گھروں تک مقید کرنے کو ہی حل سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف لبرل فیمنسٹ نظر آتے ہیں جو عورتوں پر جبر کا سارا ملبہ مذہب پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورتوں کی آزادی یہی ہے کہ وہ ماڈرن ملبوسات میں ملبوس آزادی سے گھوم پھر سکیں اور کام کر سکیں یا پھر اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر کر دی جائے توخواتین کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ عورتوں کے حقوق کے ان دعویداروں نے عورت کو بھی منڈی کی ایک جنس بنا دیا ہے جس کو خریدا اور بیچا جا سکتا ہے مگر ہمیں عورت کے سوال کا بھی طبقاتی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مریم نواز جیسی حکمران طبقے کی خواتین کسی طور بھی مظلوم نہیں بلکہ وہ تو خود مرد محنت کشوں کو اپنے جبر کا نشانہ بناتی نظر آتی ہیں۔ یہ طبقاتی نظام ہی عورتوں کی اس پسماندگی اور جبر کی اصل وجہ ہے۔ ضیا الحق آمریت نے پاکستانی سماج میں خواتین کو پتھر کے دور میں واپس بھیجنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدور تنظیموں اور طلبہ تنظیموں پر بھی حملے کیے گئے۔ ضیا آمریت کے دوران لگائی گئی طلبہ تنظیموں پر پابندی آج تک برقرار ہے جس کے باعث آج طلبہ کے پاس اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ طلبہ یونین میں صرف مرد سٹوڈنٹس ہی حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ لڑیں۔ آج پھر سے نہ صرف خواتین بلکہ نوجوانوں اور محنت کشوں کو درپیش دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے بس اپنی سوچ بدل لو تو سب مسائل حل ہو جائیں گے مگر سوچ تبدیل کرنے کیلئے اس سماج کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ایک سماج کے طور پر افراد کی سوچ تبدیل کی جا سکتی ہے۔ آج سے سو سال قبل روس میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہ حالات پیدا کیے گئے تھے کہ جس میں عورتوں کو برابر کے حقوق مل سکتے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار عورت کو ایک انسا ن کا درجہ ملا۔ سوویت یونین میں عورتوں کے حوالے سے انقلابی اقدامات کیے گئے۔ پبلک کچن اور پبلک لانڈریوں کے ذریعے خواتین کو گھریلو کاموں سے نجات دلا کر ان کیلئے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ وہ معاشرے کی تعمیر میں ایک فعال فرد کے طور پر اپنا حصہ ڈال سکیں۔

پاکستان کی 28 فیصدخواتین اپنی صلاحیتوں کے اظہار یا اپنے گھرانوں کو مالی سپورٹ دینے کیلئے مختلف ملازمتیں یا بزنس کرتی ہیں جو ایک حوصلہ افزا پہلو ہے لیکن اس رپورٹ کا حوصلہ شکن پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کی 72 فیصدخواتین کا عملی میدان میں کوئی کردار نہیں ہے اور وہ محض خانہ داری تک محدود ہیں یا سماجی سطح پر ناسازگار حالات انھیں گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ورکنگ ویمن کی حوصلہ افزائی کم ہی کی جاتی ہے اور جو خواتین کسی مجبوری یا شوق سے کام کر رہی ہیں انہیں ہمارے بانجھ اور گھٹن زدہ معاشرے میں نا موافق و غیر دوستانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عالمی طور پر صنفی امتیاز میں 157 ممالک کی جاری کردہ رینکنگ میں ہم 121 ویں نمبر پر ہیں۔ دوسری طرف آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 (2) کے مطابق ملک میں صنفی امتیاز کے ہر سطح پر خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان کی ہر خاتون کو آئین و قانون میں اپنے تحفظ کیلئے دیے گئے حقوق کو پڑھنے اور متعلقہ اداروں سے آگاہی کی ضرورت ہے۔لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کیلئے بھی آگاہی کے ساتھ ساتھ عملی انقلابی و سیاسی جدوجہد ضروری بن جاتی ہے جو اجتماعی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 81000 قتل کی جانے والی خواتین اور لڑکیوں میں سے 45000 یعنی 56 فیصد اپنے ساتھیوں یا خاندان کے دیگر اراکین کے ہاتھوں قتل ہوئی ہیں۔ اسی دوران دنیا بھر میں مردوں کے قتل کے تمام واقعات میں سے 11 فیصد خانگی ماحول میں ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سی خواتین کیلئے گھر محفوظ جگہ نہیں ہے۔ یہ رپورٹ اس بات کی خوفناک یاددہانی ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد دنیا بھرمیں انسانی حقوق کی انتہائی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

2021ء میں خانگی ماحول میں صنفی بنیاد پر ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ایشیا میں سامنے آئی جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنے ہی ساتھیوں یا خاندان کے دیگر اراکین کے ہاتھوں قتل کا سب سے زیادہ خطرہ افریقہ میں پایا گیا۔ گزشتہ برس افریقہ میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے تقریباً 2.5 کو ان کے قریبی لوگوں نے قتل کیا۔ براعظم امریکہ میں یہ شرح 1.4، اوشیانا میں 1.2، ایشیا میں 0.8 اور یورپ میں 0.6 رہی۔ رپورٹ کے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 2020 ء میں کورونا وبا کے آغاز کے ساتھ شمالی امریکہ اور کسی حد تک مغربی اور جنوبی یورپ میں نجی ماحول میں صنفی بنیاد پر ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔

پاکستان میں ورکنگ خواتین کو بہت سی سماجی، ثقافتی اور مذہبی بندشوں کا سامنا ہے۔ ملائیت اور قبائلیت کے ذریعے بچپن سے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ عورت کی جگہ چار دیواری کے اندر ہے اور وہ کسی نا محرم سے بات نہیں کر سکتیں۔ غلط فہمیوں پر مبنی ایسی روایات آج بھی ہمارے معاشرے میں ہیں اور یہ رویہ صرف مسلم معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ اگرچہ اب بڑے شہروں میں تبدیلی آ رہی ہے لیکن اب بھی ورکنگ خواتین کو نہ صرف ٹیڑھی نظروں سے دیکھا اور گھورا جاتا ہے بلکہ ان کے بارے میں نازیبا کلمات بھی کہے جاتے ہیں۔

ورکنگ ویمن کی زیادہ تعداد ایجوکیشن اور ہیلتھ کے شعبوں سے وابستہ ہے۔ ایجوکیشن کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ مسائل کا شکار یہی خواتین ہیں جنہیں محکمہ تعلیم کے کئی مرد کلرک اور افسران مختلف حیلے بہانوں سے پریشان کرتے ہیں۔ بلکہ مرد ورکرز کی نسبت ان کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے۔ جہاں کام کرنے والی خواتین کو مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے وہاں کالج اور یونیورسٹی کی طالبات کو بھی کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر جن اداروں میں مخلوط نظام تعلیم ہے وہاں آئے روز انہونیاں سننے کو ملتی ہیں اور ساتھی طلبا کے علاوہ اساتذہ کی طرف سے بھی طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔ اگرچہ ایسے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ بہت سے کیس یا تو خاندان اور سوسائٹی کے ڈر سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا تو طاقت کے استعمال سے دبا دیے جاتے ہیں۔

آج خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین پر جبر و استحصال کیساتھ ساتھ سماج میں موجود ناخواندگی، لاعلاجی، بیروزگاری، غربت، مہنگائی اور دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے ایک سنجیدہ سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ایک انقلابی قیادت اور سیاسی پارٹی کی تعمیر پہلا قدم ہے اور یہی ہمارا تاریخ فریضہ ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب اور اس کے نتیجے میں ایک سوشلسٹ سماج ہی خواتین کی حقیقی آزادی کا ضامن بن سکتا ہے۔