ظفر اللہ
پاکستان کا دہائیوں سے گہرا ہوتا معاشی، سیاسی اور ریاستی بحران آج اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ریاست کی اقتصادیات، گورننس اور سٹرکچرل اصلاحات کی بحث بورژوا دانشوروں اور معیشت دانوں میں تشویش کی حد تک سنجیدگی اختیار کر چکی ہے۔ یہ بحران کے گہرے ہونے کی علامتیں ہیں کہ پاکستانی معیشت کے مکمل انہدام کا خطرہ ہے۔ یہ دہائیوں سے پنپتے بحران کا معیاری اظہار ہے۔ رہی سہی کسر کورونا اور روس یوکرائن جنگ نے عالمی معیشت کو ممکنہ کساد بازاری کی طرف دھکیل کر پوری کر دی ہے۔ یہ سب اچانک نہیں ہو رہا جیسے میکانکی دانش اس کو پیش کر رہی ہے۔
جدلیات کے ادنیٰ طالبعلم بھی مقدار کے معیار میں بدلنے کے قانون سے بخوبی واقف ہیں۔ اب چیزیں اپنے الٹ میں بدلنا شروع ہو گئی ہیں۔ مسلسل عدم استحکام سرمایہ کاروں کے لئے انتہائی حساس معاملہ ہے۔ جوئے کی معیشت کا یہی انجام ہوتا ہے۔ چند جیتتے ہیں اور کروڑوں ہارتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے 2023ء کی عالمی معیشت بارے جو منظر نامہ بنایا ہے وہ گراوٹ کا ہے۔ 2024ء میں معمولی بحالی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے مگر بدقسمتی سے معیشت محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق سماج اور سیاست سے بھی ہوتا ہے۔ اس کا اتار چڑھاؤ ریاضی کے اصولوں پر مبنی نہیں ہوتا۔ عام حالات اور کیفیات میں یہ بحرانی اشاریے صرف اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں جیسے کسی صحتمند انسان کو کبھی کبھار طبیعت خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر جب بحران سنگین اور ہمہ جہت ہو تو معمولی خرابی بھی انہدام کا باعث بن سکتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے کوئی انسان بیک وقت کئی بیماریوں اور اعضا کی خرابی کا شکار ہو تو بہت معمولی بخار بھی تشویشناک ہوتا ہے۔ جس میں ڈاکٹر کہیں زیادہ احتیاط اور دھیان کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستانی معیشت بھی اس وقت بیک وقت کئی بیماریوں کا شکار ہے جو پھر ایک ہی عارضے سے جڑی ہوئی ہیں۔ حکمران طبقات کے دانشوروں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا دوا تجویز کریں۔ سارے نسخے آزمائے جا چکے ہیں مگر افاقہ کچھ نہیں۔ حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ کبھی گورننس کی خرابی کو بنیادی سبب قرار دیتے ہیں۔ کبھی سیاسی عدم استحکام کا رونا روتے ہیں۔ کبھی معیشت کی خرابی معیشت کے اندر ہی ڈھونڈتے ہیں۔ روایتی دانش اور سمجھ بوجھ ناکام ثابت ہو رہی ہے مگر چند سنجیدہ ماہرین مسئلے کی نزاکت کو سمجھ رہے ہیں۔ البتہ دیر بہت ہو چکی ہے۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ تاریخ کی اندھی قوتیں جب متحرک ہو جاتی ہیں تو سارے فارمولے اور مشورے بیکار ہو جاتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل، جو اسحاق ڈار سے پہلے خزانے کا وزیر تھا، بہت سنجیدگی سے تنبیہ کر رہا ہے۔ نیو لبرل معیشت کا یہ بے باک اور وحشیانہ پالیسیوں کی وکالت کرنے والا وکیل ننگے انداز میں سرمایہ دارانہ معیشت کو بچانے کے لئے آزاد منڈی کے نسخے پیش کر رہا ہے۔ وہ سر بچانے کے لئے پورا دھڑ کاٹ دینے کو تیار ہے۔ لیکن انتہائی چالاکی اور عیاری سے طبقاتی مسئلے کو ابھار کر واردات کرنے کی پالیسیاں تجویز کر رہا ہے۔ وہ کھلے عام ہوٹلوں اور چائے خانوں پر لیکچر فرما کر عوام پر وحشیانہ معاشی حملوں کو عوام کی نجات کے نسخوں کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس ساری عیاری میں ایک فیصد اور ننانوے فیصد کی طبقاتی تفریق کو اجاگر کر کے مکمل نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کی بات کی جا رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل مسلسل امرا کی معیشت، اشرافیہ کی بالادستی، طبقاتی تعلیم اور نصاب، امیر و غریب کی تفریق وغیرہ کو اجاگر کر کے جو حل تجویز کرتا ہے وہ بنیادی طور پر سرمایہ داری کے کتابی فارمولے اور نسخے ہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ جو مسائل وہ اجاگر کر رہا ہے وہ درست ہیں لیکن ان کا جو حل تجویز کرتا ہے وہ انہیں کہیں زیادہ بگاڑ دینے کے مترادف ہے۔ ان کے حل کے لئے ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے اشرافیہ کی طاقت کو توڑنا اور سامراجی جکڑ بندی اور غلامی کے طوق کو اتار پھینکنا بنیادی شرط ہے۔ مفتاح اسماعیل جن ممالک کی مثالیں دیتا ہے جیسا کہ انڈیا اور بنگلا دیش وغیرہ وہاں بھی کون سی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ غربت، بدحالی اور تنگدستی ان دو ممالک میں بھی سرعام ناچ رہی ہے۔
سرمائے کے ان لبرل دانشوروں کا یہی المیہ ہے کہ وہ آدھا سچ بولتے ہیں اور دائرے کے اندر رہتے ہیں۔ موجودہ کیفیت میں حل سرمایہ داری کے دائرے سے باہر پڑا ہے۔ ان کی اعلیٰ دانش کا عروج یہ ہے کہ ان کے نزدیک معیشت کے بڑے (میکرو اکنامک) اشاریوں جیسے کرنٹ اکاؤنٹ، زرمبادلہ کے ذخائر اور مالیاتی ڈسپلن وغیرہ ہی کو درست کرنا مقصود ہے۔ چاہے نیچے عوام کا بیڑہ غرق ہو جائے۔ جس طبقے اور نظام سے ان کا تعلق ہے اس کے مطابق وہ اپنے مقاصد میں درست ہیں۔ سرمایہ داری کا مقصد ہی سرمایہ داروں کا تحفظ اور ان کی دولت میں اضافہ ہے۔
پاکستان کی معیشت پگھل رہی ہے۔ معیشت دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ بلکہ پہلے سے ایک غیر اعلانیہ دیوالیے کا شکار ہے۔ کرنسی اپنی تاریخی گراوٹ کا شکار ہے۔ لوگوں کی دہائیوں کی جمع پونجی اور بچت ایسے غائب ہو رہی ہے جیسے مٹھی سے ریت۔ افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ 1973ء کے بعد بلند ترین 30 فیصد تک مہنگائی ہے۔ عملاً مہنگائی اس سے بھی زیادہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو بیس دنوں تک ہی چل سکتے ہیں۔ سری لنکا کے حالیہ دیوالیے میں ذخائر ایک ارب 80 کروڑ رہ گئے تھے۔ بیرونی ادائیگیوں (قرض اور در آمدات) کے لئے وزارت خزانہ کے لوگ آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے پاکستان کو دیوالیے سے بچایا جائے۔ اگر آئی ایم ایف کلین چٹ نہیں دیتا تو پاکستان کے پاس اگلے لمحے اپنے آپ کو دیوالیہ ڈکلیئر کرنے کو سوا کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔ لیکن پھر آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ اس نظام کو بچایا جائے۔ رواں سال پاکستان نے 23 ارب ڈالر کے قرض اور سود کے پیسے ادا کرنے ہیں۔ اگلے تین سالوں میں 75 ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ پاکستان کا اس وقت کل بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یہ قرضے زیادہ تر پرانے قرضوں کی واپسی کے لئے لیے گئے ہیں۔ بالخصوص سی پیک کے دوران ان کا حجم زیادہ ہو گیا۔ لیکن حکومتیں بڑی ڈھٹائی سے تمام مشکلات کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر عوام کو بیوقوف بنانے اور اپنی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو حکمران طبقات کے یہ مختلف گروہ ہی ’سابقہ حکومتیں‘ ہیں اور یہ قرضے نہیں اتر سکتے بلکہ بڑھتے جائیں گے۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت اس قابل ہی نہیں کہ وہ بر آمدات بڑھا سکے۔
پاکستانی بر آمدات بھی زیادہ تر در آمدی مشینری اور خام مال پر منحصر ہیں۔ جو پھر کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو بڑھا کر نئے قرضوں اور آئی ایم ایف کی طرف جانے کا موجب بنتا ہے۔ اسی طرح یہ ایک گھن چکر ہے جس میں ملکی معیشت پھنس چکی ہے۔ کھانے کے تیل، اجناس اور باقی روزمرہ کی ضروریات کی درآمدات الگ سے ہیں۔ زرخیز زمینوں و دریاؤں کا حامل یہ ملک گندم اور دوسری زرعی اجناس بھی در آمد کرتا ہے۔ یہ ایک تاریخی نااہلی اور بحران ہے۔ پاکستانی معیشت کو ترقی دینے کی کوئی بھی کوشش متوازی طور پر اس کو ڈالروں کے بحران سے دوچار کر دیتی ہے۔ یہ تمام امپورٹ پر انحصار کرنے والی معیشتوں کا المیہ ہے۔ سرمایہ داری میں اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کے انہدام نے معیشت کو مزید گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ آئی ایم ایف کوئی خیراتی قرض دینے والا ادارہ نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر سامراجیوں کے مفادات کا محافظ اور نگہبان ہے۔ دنیا بھر کے قرضہ دینے والے اداروں اور ممالک کو آئی ایم ایف کی سند درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مفادات کے تحفظ اور ان کے پیسے کی باقاعدہ واپسی کے لئے بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے اور اخراجات کی کٹوتیوں کی ایسی کڑی شرائط لاگو کی جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف کی سند یا سرٹیفکیٹ کا سارا بوجھ محنت کش عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اس مرتبہ آئی ایم ایف کی سختی اور جبر میں اضافہ اور غیر لچکدار رویہ واضح کرتا ہے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔ امریکہ کے سیاسی معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ ادارے دراصل سامراج کے ہاتھ میں دنیا کے مختلف ممالک کو زیر کرنے کا ایک اوزار ہیں۔ پاکستان کے بننے سے لے کر اب تک مختلف معاشی ابھار اس کی گواہی ہیں کہ پاکستانی معیشت امریکی امداد اور ڈالروں کے بغیر کبھی ترقی نہیں کر سکی۔
آئی ایم ایف کی موجودہ شرائط انتہائی ظالمانہ ہیں جو یہاں کے عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیں گی۔ 1300 ارب سے زائد کے نئے ٹیکس، بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ، بجٹ خسارے میں کمی، شرح سود میں اضافہ، مختلف مدوں میں دی جانے والی سبسڈی (جو ویسے ہی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے) کا خاتمہ وغیرہ ایسی شرائط ہیں جو نہ صرف عوام کا بھرکس نکال دیں گی بلکہ معیشت کو مزید سست کرنے کا موجب بنیں گی۔ حکومت کے پاس ان کو ماننے اور ان پر عملدرآمد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے پیچھے سمندر اور آگے گہری کھائی ہے۔ ایسے میں ’پراجیکٹ عمران خان‘ کے خاتمے اور نام نہاد ’ریاست بچانے‘ کے لئے تشکیل دی جانے والی پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر جماعتوں پر مبنی پی ڈی ایم کی حکومت شدید مشکل سے دوچار ہے۔ عمران حکومت کے معاشی اقدامات اور اس سے پہلے ان کی اپنی حکومتوں کے درمیان مجتمع ہونے والا معاشی بحران موجودہ اتحادی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ ان حالات میں اس بات کے کم امکانات ہیں کہ آنے والے عام انتخابات کا وقت پر انعقاد ممکن ہو سکے۔ اگر بحران مزید بڑھتا ہے تو الیکشن کچھ عرصے کے لئے التوا کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی یہ عوام دشمن پالیسیوں کو لاگو کر کے موجودہ اتحادی اگلا الیکشن جیت سکیں۔ لہٰذا یہ انتخابات کو ملتوی کرنے کی ہی کوشش کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان پراجیکٹ کی لانچنگ ایک آگ کا کھیل تھا۔ دہائیوں سے دو پارٹیوں کے میوزیکل چیئر کے کھیل سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ کسی بھی لمحے حالات سنگین رخ اختیار کر سکتے تھے۔ لیکن جن تضادات کو عمران خان جیسے کوڑھ دماغ نے چھیڑنے کی کوشش کی وہ خود اس کے کنٹرول سے باہر ہو سکتے تھے۔ متبادل وہی معیشت اور وہی طریقے تھے جن کو کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کے بیہودہ لبادے میں چھپا کر سرمائے کی حاکمیت کو جاری رکھا گیا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان یہاں ریاستی سٹیٹس کو اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک احمق دوست کی طرح درد سر بن رہا تھا۔ لیکن اس کے عزائم طویل عرصے میں محنت کش عوام کے لئے بھی انتہائی تباہ کن تھے۔ وہ اپنے عزائم کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں (پارلیمانی نظام وغیرہ) کو دور کرنے اور طویل المدتی سول آمریت کے خواب دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس سارے عمل میں ریاستی اداروں میں دھڑے بندی کو عروج پہ لے جا کے خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کو بند کرنا نا گزیر ہو گیا تھا۔ جس کے لئے موجودہ اتحادیوں نے اقتدار کے لالچ میں نہ صرف اپنے آپ کو پیش کیا بلکہ سیاسی طور پر زخمی بھی کیا۔ مگر بحران کو آپ ٹال تو سکتے ہیں‘ ختم نہیں کر سکتے۔ اور آج یہ کہیں بڑے پیمانے کے بحران کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ رد عمل میں عمران خان کی مقبولیت اور ساکھ کسی حد تک بحال ہوئی۔ لیکن یہ امکان کم ہی ہے کہ ریاست کے طاقتور حلقے اقتدار عمران کو واپس کریں۔ یہ کہیں زیادہ تباہ کن ہو گا۔
حکمران خوفزدہ ہیں۔ ان کا اعتماد لڑکھڑا رہا ہے۔ خوف اور بے اعتمادی ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ مگر اس مرتبہ یہ خوف محنت کشوں پر آنے والے دنوں میں معاشی ظلم کے پہاڑ گرانے کے رد عمل کا ہے۔ یہ کئی دہائیوں بعد اتنی شدت سے ہو رہا ہے۔ محنت کش عوام کی زندگیاں اجیرن ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور گرتے ہوئے معیار زندگی نے ان کو بری طرح گھائل کر دیا ہے۔ درمیانے طبقے کی نچلی پرتیں مسلسل مزید نیچے کی طرف گر رہی ہیں۔ لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ ضروریات زندگی کی عدم تکمیل اور کٹوتی نفسیاتی طور پر ان کو مجروح کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اس سب کا ذمہ دار بحیثیت مجموعی حکمران طبقے کے ہر دھڑے کو سمجھتے ہیں جنہوں نے بار بار مختلف روپ دھار کر ان پر معاشی حملے کر کے ان کو مجروح اور ذلیل کیا ہے۔ حکمران اقتدار کی بندر بانٹ اور عوام کی لوٹ مار کے جتنے منصوبے بنا لیں‘ محنت کش بہت غور سے اپنے دشمنوں کو پہچان رہے ہیں۔ مستقبل میں زیر بحث ممکنہ حکومتی سیٹ اپ میں بلاول بھٹو زرداری کی وزارت عظمیٰ کی تاج پوشی (یا حکومت کی کسی اور شکل) کا عوام بڑے سماجی دھماکوں سے استقبال کرنے کی طرف جا سکتے ہیں۔ صدیوں کی ذلت عوام کا مقدر نہیں۔ اس کا انت کرنا ہو گا۔