سید حیدر عباس گردیزی

اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ میرے کامریڈلال خان سے کیسے مراسم تھے یا میری ان سے رفاقت کتنی گہری تھی۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ ڈاکٹر لال خان کی ناگہانی موت سے ہماری سیاست اور سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

کامریڈ لال خان کانام برصغیر کی نامور اور تاریخ ساز ہستیوں میں شمار ہوگا۔ ایرانی انقلاب کے دوران شہید ہونے والے ڈاکٹر علی شریعتی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ”اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اپنی عمر کے کس حصے میں فوت ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنی موت کے وقت اپنی سماجی اور سیاسی جدوجہد میں کتنا اہم کردار ادا کررہا ہوتا ہے اور اس کی تاریخی ناگزیریت کتنی ہوتی ہے۔ “ اس لحاظ سے کا مریڈ لال خان کا شمار برصغیر کی ان ہستیوں میں ہوگا جنہوں نے اپنے عہد کی تاریخ کے دھارے پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔

لال خان پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کا بہت بڑا مبلغ اور نظریہ دان تھا۔ اس نے اپنی شعوری زندگی کا ایک ایک پل اپنی اس نظریاتی وابستگی کی راہ میں بڑی جانفشانی اور پورے خلوص کے ساتھ صرف کردیا۔ وہ ایک شعلے کی مانند اپنے انقلابی شعور اور جدوجہد میں جل بجھا۔ مگر اس کی روشنی آنے والی نسلوں کی تاریک اور پر خطر راہوں میں اجالے بکھیر گئی جو نئے آنے والے انقلابی دستوں کے لیے مشعل راہ بنے گی۔

ڈاکٹر لال خان پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ کے اس سیاہ ترین دور میں ابھر کر سامنے آیا جب دنیا بھر میں عالمی انقلابی لہر اپنی پست ترین سطح پر تھی۔ اس کو وہ عہد نصیب ہوا جو انتہائی بانجھ اور تاریخی طور پر رد انقلاب کا دور تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا، دیوار برلن گرائی جارہی تھی اور تاریخ کے خاتمے جیسے نظریے کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہو رہی تھی۔ یہ عہدعالمی سرمایہ داری، بدترین سامراجی جارحیت، مذہبی دہشت گردی اور فکری رجعت پسندی کے تاریخی عروج کا دور تھا۔ لال خان تاریخ کے بدترین عہد سے برسر پیکار رہا۔ مگرجاتے جاتے وہ تاریخ کی ہر انقلابی لہر کی طرح اس رجعتی نظام کی بنیادوں پر ایک ایسی کاری ضرب ضرور لگا گیا جو آنے والے وقتوں کی نئی صف آرائی کی بنیاد بنے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے1880ء کے زار روس کے زمانے میں ”نارودنی“ پارٹی کے اعلیٰ گھروں کے تعلیم یافتہ نوجوان یکے بعد دیگرے ایک انتہائی رجعتی اور سفاکانہ عہد سے ٹکراتے ہوئے مارے جارہے تھے اور ان کی لازوال قربانیاں 1917ء کے بالشویک انقلاب کی فتح پر منتج ہوئیں۔ تاریخ میں کچھ بھی رائیگاں نہیں جاتا۔ کوئی بھی عمل اپنا رد عمل چھوڑے بغیر ہوا میں تحلیل نہیں ہوتا۔ تاریخ اپنے ایک ایک پل کا حساب رکھتی ہے اور انہی ان گنت جلتے بجھتے پلوں میں کوئی پل تو وہ بھی ہوگا جو اس انقلاب کی نقیب بنے گا جس کا خواب محکوم اور پسماندہ انسان صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔

کامریڈ لال خان نے پاکستان کے بائیں بازو کی تاریخ کی تقریباًتیسری نسل میں قدم رکھا۔ اس سے پہلے کی دونسلیں زیادہ تر ان خوابوں کی صورت گری کرتی رہیں۔ پہلی نسل میں زیادہ ترانقلاب دوست شخصیتیں بالائی طبقوں کی مراعات یافتہ اشرافیہ کے روشن خیال اور تعلیم یافتہ لوگوں میں سے تھیں۔ جو تازہ تازہ انقلاب روس سے متاثر تھے اور برطانوی سامراج سے آزادی لے کر ایک آزاد سوشلسٹ معاشرے کے رومانس میں مبتلا تھے۔ ان میں زیادہ تر شاعر، ادیب، دانشور، صحافی، پروفیسر، طلبہ اور جاگیردار اشرافیہ کے روشن خیال افراد شامل تھے۔ جن میں فیض احمد فیض، میاں افتخار الدین، سید سجاد ظہیر، قسور گردیزی، سبط حسن اور اس طرح کے کئی نامور لوگ شامل تھے۔ یہ نسل زیادہ تر سوویت روس کی سٹالنسٹ روایت کے پیروکار تھے۔ انقلابیوں کی دوسری نسل ماؤ ازم سے متاثر ہوئی اور مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہوئی۔ یہ بھی آخر کار پسپائی سے ہمکنار ہوئی۔ لہٰذا پاکستان کے بائیں بازو کی تاریخ تقریباً نصف صدی کی تجرباتی پسپائی کی تاریخ تھی جو کامریڈ لال خان کے حصے میں آئی۔

اس نے 1968ءکے انقلاب کی ناکامی کے دور میں اپنی شعوری جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس کے سامنے پہلے والی دو نسلوں کی شکست بکھری پڑی تھی۔ 1968ءکے انقلابی ابھار کو جس طرح عالمی اور مقامی کمیونسٹ پارٹیوں کی کمزوریوں اور موقع پرستی نے زائل کیا‘ اس نے لال خان کے انقلاب کے نظریات کو مزید پختگی اور گہرائی دی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب عالمی سطح پر انقلاب کی نظریاتی اساس آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی‘ لال خان اسی تندہی کے ساتھ اس کی وجوہات اور اسباب تلاش کرنے میں لگا ہوا تھا اور پھر اس ضمن میں اس نے وہ شہرہ آفاق کتاب ”پاکستان کی اصل کہانی“ تصنیف کی۔ جو کہ پاکستان کے بائیں بازو کی تاریخ پر لکھی جانے والی بہت بڑی تصنیف ہے۔ کامریڈ لال خان نے عالمی تناظر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کے اسباب تلاش کرنے میں جس نظریاتی مہارت اور گہرے تاریخی شعور کا مظاہرہ کیاہے وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

کامریڈ لال خان نے پاکستان کے سوشلسٹ انقلاب کے محرکات کا تجزیہ کرتے ہوئے چند تاریخی اور ناگریز اضافے کیے ہیں۔ اور چند ایسے بنیادی مغالطوں کی نشاندہی کی جو آج تک کی تحریکوں کی کامیابی کے آڑے آتے رہے ہیں۔ مثلاً پاکستان کی روایتی مین سٹریم پارٹی کو ایشو بہ ایشو سپورٹ کرنے اور تنقید کرنے کی کھلی پالیسی کو اپنایا۔ یہ حکمت عملی گو اس سے پہلے بھی استعمال ہورہی تھی مگر کامریڈ لال خان نے اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پہلی دفعہ استعمال کیا۔

دوسرا اہم مغالطہ انقلاب کا مرحلہ وار ارتقائی عمل تھا۔ جس کے مطابق سوشلسٹ انقلاب دو مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں بورژوا جمہوری انقلاب اور دوسرے مرحلے میں سوشلسٹ انقلاب۔ کامریڈ نے اس سٹالنسٹ پوزیشن کی شدت سے نفی کی۔ کامریڈ لال خان پاکستان کے بائیں بازو کے شاید پہلے رہنماہیں جنہوں نے سوویت روس کے سٹالنسٹ ماڈل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سویت یونین کے انقلاب کی ناکامیوں کو آشکار کیا۔ انہوں نے سویت یونین کی تاریخ میں ہونے والی ان گنت ”مقدس زیادیتوں“ کا اعتراف کیا جن کو آج تک عقید ت پرستی کے نام پر جھٹلایا جا رہا تھا۔ انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ سٹالنسٹ آمریت کی کھل کر مذمت کی اور اسے بالشویک انقلاب سے غداری کا نام دیا۔

لال خان بنیادی طور پرایک انٹرنیشنلسٹ تھے۔ کسی ملک کی سیاسی صورت حال کو عالمی صورت حال سے الگ کرکے دیکھنے کے حامی نہیں تھے۔ ان کی رائے میں سوشلسٹ انقلاب مقامی اور عا لمی تناظر سے جڑا ہوا ایک گھمبیر اور پیچیدہ مظہر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر لال خان انقلابی پارٹیوں کی تشکیل اور ان کی ساخت پر بڑے تخلیقی اور ریڈیکل نظریات کے حامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلابی پارٹیاں باہمی رضا مندی سے ڈرائنگ رومز میں پریس کانفرنسوں اور اخباری اعلانات سے تشکیل نہیں پاتیں بلکہ یہ تاریخی عوامل کے خودرو ابھار کے دوران اٹھنے والی تحریکوں کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ انقلابی پارٹیاں جدلیاتی طور پر خود حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ جیسے پیپلز پارٹی 1967ء کی ایک طویل ریلوے مزدوروں کی ہڑتال کے نتیجے میں وجود میں آئی۔

ڈاکٹر لال خان اپنی کرشماتی شخصیت اور بے پناہ فکری اور نظریاتی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کے بائیں بازو کی تاریخ کا ایک نابغہ تھے۔ ایسی شخصیت مدتوں میں جنم لیتی ہے۔ وہ اپنی انقلابی فکر کے باوجود قدیم اور جدید کا حسین امتزاج تھے۔ وہ ایک ایسی عہد ساز ہستی تھے جنہوں نے پاکستان کے بائیں بازو کی تاریخ کوایک تسلسل دیتے ہوئے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ اپنے مختلف تاریخی اور سماجی حالات کے باوجود کامریڈ لال خان اپنے نظریاتی ہیرو لیون ٹراٹسکی سے بے حد مطابقت رکھتے تھے۔ جس طرح ٹراٹسکی نے بالشو یک انقلاب کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا اسی طرح کامریڈ نے پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی راہ کو بند آنکھوں سے طے نہیں کیا بلکہ اس کو پوری جدّت اور دلجمعی کے ساتھ دیکھا اور اس پر چل کر اپنا راستہ بنایا۔ میں اس نامکمل سی تحریر کے ذریعے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کامریڈ لال خان کے چاہنے والوں، جن میں‘میں خود بھی شامل ہوں، سے اظہار تعزیت کرتا ہوں اور ان کی شاندار جدوجہد اور افسوسناک موت پر فیض کا شعر ان کی نذر کرتا ہوں۔

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے