آغا علی تراب ہاشمی

اس دن کی تاریخ شروع ہوتی ہے امریکہ کے ایک شہر شکاگو سے۔ امریکہ کی سول وار کے بعد یہاں بہت تیزی سے صنعت پھیل رہی تھی اور شکاگو ایک صنعتی شہر بن کر ابھر رہا تھا۔ یہاں دوسرے ممالک سے بھی لوگ روزگار کی تلاش میں آ رہے تھے لیکن اس دور میں مزدوروں کے حالات اور اوقات کار بہت ہی سخت تھے۔ مزدوروں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور صرف ایک یا ڈیڑھ ڈالر ان کی دیہاڑی ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی مزدور بیمار ہو جائے یا اس کی موت ہو جائے تو اسے کوئی معاوضہ یا طبی سہولت فراہم نہیں کی جاتی تھی۔ مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ تمام اخبارات سرمایہ داروں کے کنٹرول میں تھے اور انہی کے مفادات کی عکاسی کرتے تھے۔ ان حالات میں مزدوروں کے اندر اپنے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار ہو رہا تھا۔ اگست سپائیز جو کہ ایک جرمن انارکسٹ تھے نے ”روزنامہ مزدور“ کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا اور البرٹ پارسنز جو کہ ایک انقلابی سوشلسٹ تھے اور جنہوں نے امریکہ کی غلامی کے خلاف سول وار میں بھی حصہ لیا تھا، نے ”سپیکٹیٹر“ کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا تاکہ مزدوروں کو منظم کیا جا سکے۔ مزدور چاہتے تھے کہ ان کے اوقات کار کو کم کر کے آٹھ گھنٹے کر دیا جائے تاکہ ان کو تفریح اور آرام کا بھی وقت مل سکے۔ اس حوالے سے کچھ ریاستوں میں قوانین بھی پاس کیے گئے لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

پیٹر مکگوائر جو کہ ایک سوشلسٹ رہنما تھے نے ”کارپینٹرز برادرہوڈ“ کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور ان کا کہنا تھا کہ اگر مزدور اوقات کار آٹھ گھنٹے کروانا چاہتے ہیں تو انہیں خود کو منظم کرنا پڑے گا۔ اس مطالبے کے گرد اور بھی بہت سی تنظیمیں بنیں جن میں سے ایک کا نام ”نائٹز آف لیبر“ تھا جو کہ 1869ء میں بنی اور اس وقت اس کے صرف نو ممبر تھے جبکہ 1884ء میں اس کے ساتھ ہزار ممبر ہو چکے تھے۔ صرف دو سالوں میں یعنی کہ 1886ء میں اس کے سات لاکھ ممبر بن گئے تھے۔ مزدوروں کو سمجھ آ گئی تھی کہ اگر ان کو اپنے مطالبات منوانے ہیں تو انہیں جدوجہد کرنا پڑے گی۔ دوسرے ملکوں میں چل رہی مزدور تحریکوں کا بھی ان کے شعور پر بہت گہرا اثر ہو رہا تھا چونکہ بہت سے مزدور یورپ سے آئے ہوئے تھے تو وہ سوشلسٹ نظریات سے بھی واقف تھے۔ 1871ء میں ہونے والے پیرس کمیون جس میں مزدوروں نے دو مہینوں تک پیرس پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی تھی کا بھی مزدوروں کے شعور پر بہت گہرا اثر ہوا تھا۔ 1884ء میں ”فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈ اینڈ لیبر یونینز“ کا کنونشن منعقد ہوا جس میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ یکم مئی 1886ء کو مزدور پورے ملک میں عام ہڑتال کریں گے اور 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کریں گے۔ یکم مئی 1886ء کا دن آیا اور پورے ملک میں ایک لاکھ نوے ہزار مزدوروں نے ہڑتال کی۔ شکاگو میں 80 ہزار مزدوروں نے ہڑتال کی۔ نیویارک میں دس ہزار، ڈیٹرائٹ میں 11 ہزار۔ اور ڈیڑھ لاکھ مزدوروں کے تو ہڑتال سے پہلے ہی مطالبات مان لیے گئے۔ چالیس سے پینتالیس ہزار پیکنگ ہاؤس کے مزدوروں کے شکاگو میں مطالبات منظور کر لیے گئے اور ان کے اوقات کار کو کم کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی دیہاڑیوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ 3 مئی کو 3 ہزار مزدور جو کہ 8 گھنٹے اوقات کار کے لئے احتجاج کر رہے تھے مککورمیک پلانٹ کے چودہ سو مزدوروں سے ملنے گئے جنہیں فروری میں فیکٹری سے باہر نکالا گیا ہوا تھا۔ وہ تین مہینے سے وہاں احتجاج کر رہے تھے اور ان کی جگہ 300 مزدوروں کو رکھا گیا تھا۔ جب وہ پہنچے تو تین سو مزدور کام ختم کر کے فیکٹری سے باہر آ رہے تھے کہ مزدوروں نے آگے بڑھ کے ان کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں احساس دلائیں کہ وہ ہڑ تالیوں کے ساتھ ملیں اور ان کا ساتھ دیں لیکن اسی وقت دو سو پولیس اہلکار جو وہاں موجود تھے آگے بڑھے اور انہوں نے مزدوروں پر فائرنگ شروع کر دی جس میں سینکڑوں مزدور ہلاک ہو گئے اور متعدد زخمی۔ مزدوروں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں گے۔ رات 8 بجے 3000 مزدور ہئے مارکیٹ اسکوائر میں ایک پر امن احتجاج کے لئے اکٹھا ہوئے۔ ایک ویگن پر چڑھ کے اگست سپائیز، البرٹ پارسنز اور سیمیول فیلڈن نے مزدوروں سے خطاب کیا۔ شہر کا میئر کارٹر ہیریسن بھی وہاں موجود تھا اور اس نے تمام تقاریر خود سنیں۔ 10 بجے تک بارش شروع ہو گئی اور مزدوروں نے گھروں کو جانا شروع کر دیا۔ چند سو مزدور ہی بچے تھے۔ مئیر کارٹر ہیریسن نے انسپکٹر جان بونفیلڈ جو وہاں چار سو پولیس اہلکاروں کی نفری لے کر کھڑا تھا سے کہا کہ احتجاج بالکل پرامن ہے اور اس میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پر جان بونفیلڈ نے اس بات کی پروا نہ کی اور آگے بڑھ کے مزدوروں کا احتجاج ختم کرنے کا کہا۔ سیمیول فیلڈن جو اس وقت تقریر کر رہے تھے نے کہا کہ احتجاج بالکل پر امن ہے اور یہاں پر کوئی انتشار آمیز بات نہیں ہو رہی۔ اس دوران ایک بم پولیس کے بیج گرا جس کے پھٹنے سے سات پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے اور 60 کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بم کس نے پھینکا تھا۔

پولیس نے مزدوروں پر فائرنگ شروع کر دی اور چونکہ اندھیرا تھا تو فائرنگ کے دوران گولیاں لگنے سے پولیس کے کئی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے۔ فائرنگ کے دوران سینکڑوں مزدور ہلاک ہوئے اور چونکہ بارش ہو رہی تھی تو ان کا خون سڑکوں پر پھیل گیا اور وہ جو پر امن احتجاج کے لئے اپنے ساتھ سفید جھنڈے لائے ہوئے تھے، خون سے لال ہو گئے۔ یہی مزدوروں کے خون کا لال رنگ آگے چل کر سوشلزم اور کمیونزم کا نشان بنا۔ اگلے دن سے مزدوروں نے یہ لال جھنڈے اپنے گھروں کے باہر احتجاجاً لٹکانے شروع کر دیے۔

اخبارات میں مزدوروں کے خلاف ایک شدید کمپئین شروع ہوئی۔ سرمایہ داروں نے اس کمپئین کے لئے ایک لاکھ ڈالر تک دیے۔ اخبارات نے مزدوروں کو غنڈے، بدمعاش، وحشی، چور اور نہ جانے کیا کیا کہا۔ یہاں تک کہا گیا کہ کمیونزم کی وحشت پھیل رہی ہے اور اگر اسے پھیلنے دیا گیا توآوارگی، بدکاری اور جوئے بازی پھیل جائے گی۔ کچھ اخبارات نے تو مہاجر مزدوروں کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ان جانوروں کو چابک مار مار کے ان کے یورپی جنگل میں واپس بھیجو۔ کچھ نے کہا کہ یہ انارکسٹوں کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ البرٹ پارسنز اور اگست سپائیز کے بارے میں کہا گیا کہ اس شہر میں دو غنڈے پھر رہے ہیں اور ان کو پکڑ کر نشان عبرت بنایا جائے۔ مزدوروں کے لیڈروں کو پکڑنے کے لئے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔ روزنامہ مزدور کے دفتر پر چھاپہ مارا اور اگست سپائیز اور اس کے بھائی کو پکڑ لیا گیا مگر بھائی کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ البرٹ پارسنز، جورج اینگل، آسکر نیب، سیمیول فیلڈن، مائیکل شواب، ایڈولف فشر اور لوئس لنگ کو پکڑا گیا۔ ان آٹھ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنا کر قانونی کارروائی شروع کی گئی۔ تین ہفتے لگا کر ایسی جیوری بنائی گئی جس میں چن کر ایسے لوگ رکھے گئے جن کو مزدوروں سے کوئی ہمدردی نہ ہو مثلاً جیوری کا فور مین ’مارشل فیلڈ اینڈ کو‘ کا چیف سیلز مین تھا۔ اس کے علاوہ باقی جیوری ممبران بھی اسی قسم کے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے تھے۔

ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود تھا نہیں۔ پراسیکیوشن نے کورٹ میں صرف ایک فلائر پیش کیا تھا۔ پراسیکیوٹر گرنل کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اور ان کو فالو کرنے والے ہزاروں لوگ ان سے کم بڑے گنہگار نہیں ہیں۔ پر اگر ہمیں اپنے اداروں کو بچانا ہے تو ان کو سزا دے کر مثال قائم کرنی پڑے گی۔ جج گیری نے بھی انصاف کے تقاضوں کی کوئی پروا نہ کی اور سات ملزمان کو موت کی سزا سنائی اور ایک کو پندرہ سال قید کی سزا سنائی۔

فوجداری قانون میں کسی بھی جرم کی سزا اور خاص طور پر موت کی سزا تب تک نہیں سنائی جاتی جب تک جرم تمام شکوک و شبہات کے بغیر ثابت نہ ہو جائے۔ پر جب سرمایہ داروں کے مفادات کی بات ہو تو کسی اصول کی پروا نہیں کی جاتی۔

ملزمان نے اپنے دفاع میں کورٹ میں تقاریر بھی کیں۔ اگست سپائیز کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں پھانسی دے کر آپ مزدور تحریک کو دبا سکتے ہیں، وہ تحریک جو کہ دنیا کے لاکھوں مزدوروں، محنت کشوں کو غلامی سے نجات دلانے کی امید دیتی ہے، تو ہمیں ضرور پھانسی دیجئے۔ پر یہ یاد رکھیے کہ آپ صرف ایک چنگاری کو بجھا رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں شعلے بھڑکیں گے جنہیں آپ بجھا نہیں سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ جب خاموشی بھی ان آوازوں، جن کا آج آپ گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، سے زیادہ زور دار ہو گی۔“ ان کی سزاؤں کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے بھی ہوئے اور نامور شخصیات جیسے فریڈرک اینگلز، کارل مارکس کی بیٹی الیئنر مارکس، ویلیم مورس اور آسکر وائلڈ وغیرہ نے ان کی سزاؤں کے خلاف اپیل بھی کی کہ انہیں معاف کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں گورنر جان آلٹجلڈ نے سیمیول فیلڈن اور مائیکل شواب کی سزاؤں کو سزائے موت سے بدل کر عمر قید کر دیا۔ اگلے گورنر رچرڈ آگلسبی نے عمر قید کی سزائیں بھی معاف کر دیں اور پبلک میں یہ اعتراف کیا کہ اس کیس میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کیا گیا ہے۔

11 نومبر 1887ء کو اگست سپائیز، البرٹ پارسنز، ایڈولف فشر اور جورج اینگل کو پھانسی دے دی گئی۔ ان سے کسی کو ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ لوسی پارسنز‘ البرٹ پارسنز کی بیوی تھی اور ان سے ملنا چاہتی تھی مگر انہیں بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ لوسی پارسنز جو کہ خود بھی ایک سوشلسٹ انقلابی تھی اور جو سول وار کے بعد غلامی سے آزاد ہوئی تھی، ایک افریقی امریکن تھی۔ ان کے بارے میں ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ یہ خاتون ہزار دنگے بازوں سے زیادہ خطرناک ہے۔

لوئس لنگ نے پھانسی سے ایک رات پہلے اپنے منہ میں ڈائنامائٹ رکھ کے پھاڑ لیا۔ اس سے ان کی فوراً موت نہ ہوئی اور وہ چھ گھنٹے تک تڑپتے رہے۔ تین ڈاکٹروں نے ان کو بچانے کی کوشش کی لیکن وہ درد کی شدت سے دم توڑ گئے۔ آرتھر ہینری جو کہ ایک کارٹونسٹ تھے اور انہیں ’آرٹ ینگ‘ بھی کہا جاتا تھا، وہ ڈیلی نیوز کے لئے سکیچز بنایا کرتے تھے کیونکہ اس وقت کیمروں کا زیادہ استعمال نہیں ہوا کرتا تھا اس لئے اخباروں کے لئے اسکیچز بنتے اور چھپتے تھے۔ انہوں نے یہ سارے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور وہ لکھتے ہیں کہ پورے شہر میں ایک عجیب سا عالم تھا جیسے کوئی قیامت گزر گئی ہو۔ پولیس کے اہلکار بھی اس قدر ذہنی اذیت کا شکار تھے کہ وہ پھانسی کے بعد شراب خانوں میں دن کے وقت شراب پی رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کی پھانسی کے بعد ان کو ایک پبلشر نے ایک میگزین کے کور بنانے کے لئے کہا جس کا ٹائٹل تھا ”انار کی کے اوپر انصاف کی فتح ہوئی ہے“ اور اگر مردے سن سکتے ہیں تو میں ان سے معافی مانگنا چاہتا ہوں کہ میں نے اس کا کور بنایا کیونکہ اتنی آوازیں تھیں جو اس ظلم کو جسٹیفائی کر رہی تھیں کہ ان کے شور میں میں صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کر سکا اور بھٹک گیا۔ بعد میں آرٹ ینگ سوشلسٹ ہو گئے تھے۔

ہئے مارکیٹ کے ان شہدا کو شکاگو کی والڈہیم سیمٹری میں دفنایا گیا اور ان کے لئے ایک مونومنٹ بھی بنایا گیا جسے ’ہئے مارٹرز مونومنٹ‘ کہا جاتا ہے۔ 1889ء میں پیرس میں ہونے والی سوشلسٹ انٹرنیشنل کی کانفرنس میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ یکم مئی کو ہر سال ہم مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منائیں گے۔