قمرالزماں خاں

سماجی گھٹن اور جبر کے اس عالم میں کسی واقعے کے بعد صرف ایک ہی طرف کا تحقیر آمیز رٹا رٹایا ردعمل سامنے آتا ہے۔ وہ بھی گمراہ کن پراپیگنڈے کے ساتھ۔ دوسری طرف گہری خاموشی میں صرف چند چہ مگوئیاں ہیں۔ گہری چپ میں ”اندھیر نگری“ والوں کو یہ مہین سرسراہٹ بھی گراں گزرتی ہے۔ مقدار کا معاملہ یہاں پر بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ اظہار سماج کی عمومی تکلیف اور کرب کی پوری نمائندگی نہ کر پانے کے سبب نچلی پرتوں کو اگر کسی حد تک متوجہ بھی کرتا ہے تو کسی قسم کا ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ بڑے پیمانے پر عملی حمایت کی عدم موجودگی کے مضمرات پیدا ہوتے ہیں۔ چھوٹی موٹی آواز کو بھی ناقابل برداشت قرار دے کر بند کرا دیا جاتا ہے۔

ابھی جاری و ساری مباحثے کا مواد اکثریتی طبقے کیلئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔ ان کے مسائل بالکل بنیادی نوعیت کے اور یکسر مختلف ہیں۔ ابھی وہ تقریر و تحریر کی آزادی کے حق کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جن کی زندگیاں روٹی کے بدلے رہن رکھی ہوں ان کی ترجیحات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ وہ تو ناکافی اجرت کے سنگین معاملے پر بھی گنگ ہیں۔ کسی اور صدی کے پست معیار زندگی پر اکتفا کیے اور بغیر آواز کے ہر روز ہی سسکتے بلکتے تڑپتے اور مرتے ہیں۔ مگر صدائے احتجاج سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پاتے ہیں۔ سولہ اٹھارہ گھنٹے بنا بجلی قہر کی گرمی جھیلتے ہیں۔ اولاد نظروں کے سامنے بغیر بچپن و جوانی کے محنت کی منڈی میں تول مول کے کانٹے میں تڑپ تڑپ بڑھاپے میں جا گرتی ہے۔ ان کے پیاروں کے لئے تو معمولی بیماریاں ہی لا علاجی کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ قوت خرید ہے نہ فرصت۔ تعلیم حاصل کریں تو بھوکے مریں۔ پینے کا پانی وہیں سے پیتے ہیں جہاں ڈھور ڈنگر پیاس بجھاتے ہیں۔ زندگی وہاں بے آواز اطاعت کے شور بھرے پیام سے شروع ہوتی اور بغیر کسی روایت شکنی کے ختم ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ پچھلے پچاس سالوں سے کسی تحریک کی عدم موجودگی کی وجہ سے طوالت اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی کیسے بدلے گی؟ کیا سویلین بالادستی کا حصول ان کی گہری خاموشی کی وجوہات کا جواب ہے؟ کیا ایسی تقریر و تحریر کی آزادی جو ان کی زندگی بدلنے کے ٹھوس پروگرام سے محروم ہو‘ اس اکثریتی محنت کش طبقے کو ٹس سے مس کر سکتی ہے؟ ان کی عورتوں کے جسم محنت کی غلامی میں کسی پردے و اخلاقی قدغن کے بغیر اپنے آقاؤں کی مشینوں اور کھیتوں میں کسی پرزے کی طرح میکانکی حرکت کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی معانی اور موت جواز کھو چکی ہے۔ کسی رنگ ترنگ سے محروم لوگوں کے انبوہ ثقافت کی اعلیٰ جہتوں تک رسائی سے محروم ہیں۔ ان کے ابلاغ و تفہیم کی راہ میں بلا کسی وقفے سے غیر دلچسپ محنت کا تسلسل ہمالیہ کی طرح حائل ہے۔ جبر کی سنگینوں میں محنت کا جوا پہنے وہ سیکھ چکے ہیں کہ معنوں اور نتائج سے محروم لفاظی محض مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ چنانچہ وہ چپ ہیں اور کسی اور کو چپ کرا دینے پر حیران بھی نہیں ہوتے۔ بے نتیجہ و عظ و نصیحت، وی لاگ، نام نہاد بے لاگ تجزئے اور تبصرے، سیاسی داؤ پیچ، مخالفتیں اور موافقتیں، ٹاک شوز اور سکرینوں پر ڈاگ فائٹنگ… سب ان کے درد کا مداوا کرنے سے کتراتے اور تائب نظر آتے ہیں۔

اس حالت میں نہ تو کسی فوجی حاکمیت میں اور نہ ہی کسی شیروانی والے نظم و نسق میں ان کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے۔ فسطائی نظام مملکت اور نام نہاد جمہور کا بندوبست ان کی زندگی کی الجھنوں میں بال برابر بھی فرق نہیں لا پاتا۔ ہر آنے والا وقت زندگی اور زیادہ اجیرن کرتا جا رہا ہے۔ اس لئے وہ اس طرز حکمرانی کی کشمکش میں نہ فریق ہیں نہ طرف دار۔ ایسی صحافت جس میں ان کے مرض کا علاج نہ ہو‘ اس کی آزادی یا غلامی ان کے لئے بے مطلب ہے۔ ویسے تو ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ وہ اس دنگل کو دیکھنے کے لئے اپنی محنت کی فروختگی کو کچھ لمحوں کے لئے بھی موخر کریں۔ مگر دیکھیں بھی تو ان کے لئے یہ سب بے معنی ہے کیونکہ اس کھیل میں ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا قطعی مطلب نہیں کہ وہ اپنی مصیبتوں اور ہلاکت خیز زندگی سے چھٹکارے کے خواہاں نہیں ہیں! مگر ان کو کوئی راہ بھی نہیں نظر آ رہی۔ جس دن ان کو کہیں امید کی کوئی کرن نظر آئی تو وہ حرکت میں آئیں گے۔ تب ان کی گہری خاموشی بھی ٹوٹ جائے گی۔ یہ خاموشی احتجاجی مظاہرے کی بجائے سماجی دھماکے پر منتج ہو گی۔ تب مصنوعی ردعمل دینے والوں کا بھی بڑا حصہ اس دھماکے کی زد میں آ کر اپنے موجودہ کردار سے دست بردار ہو جائے گا۔ کشمکش براہ راست معرض وجود میں آ کر پراکسیوں کو غیر اہم کر دے گی۔ بہت لمبا عرصہ ثانوی موضوعات کے شور سے سماعتوں کو محصور رکھنا ممکن نہیں ہے۔ زندگی برقرار رکھنے کی ناگزیریت ہر جبر اور ضابطے کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسا کچھ عرصے سے نہ ہونے کا بالکل بھی مطلب یہ نہیں کہ ایسا کبھی نہ ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ تاریخ کی حرکت سے نہ واقف اور نابلد ہے۔