ظفر اللہ

9 ۱ور 10 اپریل کی درمیانی شب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 174 ووٹوں سے کامیاب ہوئی جس کے نتیجے میں وہ بنی گالہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف یہ پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد تھی جو اپوزیشن کے تمام دھڑوں کے اتحاد سے انجام کو پہنچی۔ ایک ماہ قبل قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی یہ عدم اعتماد کی تحریک کئی اتار چڑھاؤ سے گزری۔ خاص طور پر آخری چار دن میں ہونے والے ڈرامائی واقعات پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ جس میں ووٹنگ کے عمل کو مختلف بیہودہ ہتھکنڈوں سے ٹالنے کی کوشش کی گئی۔ جن میں ڈپٹی سپیکر کی طرف سے اس عدم اعتماد کی تحریک کو امریکی سازش قرار دے کر رد کیا جانا بھی شامل ہے۔ بالآخر سپریم کورٹ کی ’مداخلت‘ سے یہ عمل مکمل ہوا۔ وہ بھی وہ تاخیر سے اور بمشکل!

اسی طرح کے غیر معمولی واقعات پاکستانی ریاست کے غیر معمولی سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ریاست پاکستان اور حکمران طبقات آپس میں گہرے تضادات، انتشار اور دھڑے بندی کا شکار ہیں جن کی ملکی خارجہ پالیسی، معاشی مفادات اور لوٹ مار پہ شدید لڑائی ہے اور یہ ریاست جدید قومی ریاستوں کی طرح نسبتاً یکجا اور اکائی ہونے کے بجائے مختلف طاقتور ریاستی اور سیاسی گروہ بندیوں کا شکار ہے۔

یہ درست ہے کہ کئی سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کی کاوشوں سے عمران خان کو سیاسی افق پر ایک نئے چہرے کے طور پر نمودار کروانے کی کوششیں جاری تھیں جو مختلف طاقتور افراد کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہیں۔ ’کرپشن سے پاک‘، ایماندار اور مقبول سیاسی متبادل پاکستان کے عرصہ دراز سے چلے آئے دو پارٹیوں کے میوزیکل چیئر کے کھیل کے مقابلے میں ناگزیر تھا۔ براہ راست فوجی مداخلت کے متبادل کے طور پر ایک ہائبرڈ نظام حکومت کی تشکیل کا عمل دو دہائیوں سے جاری تھا جس کو مختلف سیاسی واقعات نے مہمیز دی اور بالآخر 2018ء میں ممکن بنایا گیا۔ اس سارے عمل میں 2007 ء میں بے نظیر کا قتل ایک اہم واقعہ ہے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی محنت کشوں اور درمیانے طبقے میں بھی بنیادوں کے اختتام کا آغاز ہوا جس عمل کو 2008ء کے پیپلز پارٹی کے اقتدار میں انتہائی عوام دشمن اقدامات اپنی انتہا پہ لے گئے۔ جن میں بدترین لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی بھی شامل تھی۔ پاکستان جیسے ملکوں میں روایتی پارٹیوں میں شخصیات وسیع تر عوام کی امیدوں، آرزؤں اور امنگوں کی مرکز بن جاتی ہیں۔ شخصیت کا کردار پارٹی کے دوسرے پہلووں پہ حاوی ہوتا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کی سماجی و سیاسی بنیاد بھٹو کے ان عوامی مفاد کے انقلابی اقدامات میں پنہاں تھی جو 1968-69ء کی تحریک کا نتیجہ تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی ناکامی اور زوال پذیری بعد کے عرصے میں بڑھتی چلی گئی۔ یہیں سے شدید سیاسی خلا کی کیفیت میں محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں اور درمیانے طبقے بالخصوص وائٹ کالر شہری ورکنگ کلاس (جسے پروفیشنل مڈل کلاس بھی کہا جا سکتا ہے) کے عمران خان کی طرف رجوع کرنے کے عمل کا آغاز ہوتا ہے جو بالآخر 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان لاہور کے جلسے میں اپنا بڑا سیاسی اظہار کرتا ہے۔ یہ واقعہ خود عمران خان کے لئے بھی حیران کن تھا اور یہ ممکن اس لئے ہوا کہ حاوی سیاسی افق پر بائیں طرف کوئی ایسی متبادل سیاسی قوت موجود نہیں تھی جس کی عوامی بنیادیں موجود ہوتیں۔ عمران خان کا ابھار شہری مڈل کلاس کی مختلف پرتوں (بالخصوص اس کی نئی نسل) اور نو دولتیوں کی سالوں سے مجتمع ہوئی بے چینی، اضطراب اور بے صبری کا اظہار تھا۔ عمران خان محض ان نظریات، سوچوں اور رویوں کی مجسم شکل تھا جو ایک سماجی کیفیت کی عکاسی کرتی تھی۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے آغاز سے ہی اس پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی مہر ثبت تھی۔ دائیں بازو کی اس نسبتاً پاپولر حکومت (جس کا دائیں بازو کی ہی روایتی پارٹی سے تضاد تھا) کی آڑ میں ریاست نے ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وار کے نام پر اداروں پر ہونے والی ہر تنقید کو بڑی بے رحمی سے کچل ڈالا۔ تمام میڈیا ہاؤسز مکمل طور پر سنسر شپ کی زد میں تھے۔ مخالف آوازوں کو سختی سے دبایا گیا اور لوگوں کو اغوا اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سارے عمل میں عمران خان نے بھی ریاستی آشیرباد کے بل بوتے پر آمرانہ اقدامات کیے اور انتہائی غرور اور تکبر کے ساتھ اپوزیشن سمیت ہر مکتبہ فکر کے مخالفین کو حقارت اور جبر کا نشانہ بنایا۔ اس سارے عمل سے عوام کی کئی پرتوں بالخصوص پنجاب میں ”اداروں“ کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں جو ان کے لئے شدید تشویش کا باعث تھیں۔ تیزی سے غیر مقبول ہوتی اس حکومت سے فاصلہ رکھنا فوج کی اپنی ساکھ کے لئے ناگزیر بن گیا تھا۔

اس سارے عمل میں عمران خان جیسے کردار کو گہرائی میں دیکھنے کے لئے مارکسزم کی طرف رجوع کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جو تاریخ میں فرد کے کردار کو نظر انداز نہیں کرتا۔ بعض اوقات تاریخ میں فرد کا کردار فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ایسے افراد کے کردار پر انقلاب روس کے معمار لیون ٹراٹسکی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’انقلاب روس کی تاریخ‘ اور خاص طور پر ’سٹالن‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح تاریخی رجحانات اور واقعات مرتکز ہو کر کسی ایک فرد کے کردار میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔ عمران خان بھی اپنی شخصیت میں ایک اہمیت کا حامل کردار ہے جس کی انا پرستی، نرگسیت، ہٹ دھرمی، رجعت پرستی اور آمرانہ مزاج جیسی خصوصیات کے ملغوبے نے ان ساڑھے تین برسوں میں کبھی نہ دیکھے گئے منفی اور بھیانک اثرات سماج پر مرتب کیے ہیں جو دور رس کردار کے حامل ہیں۔ لیکن وہ پھر ایک سماجی عمل کا شخصی اظہار ہے۔ اس کی یہ خاصیتیں بنیادی طور پہ اس طبقے کی خاصیتیں ہیں جس کی وہ نمائندگی کرتا ہے۔

معروضی طور پر حالیہ رونما ہونے والے واقعات اور عدم اعتماد کی تحریک ریاستی اداروں کے مابین رسہ کشی اور ٹکراؤ کی شدت کی غمازی کرتی ہے جس کا بڑا اظہار یہاں کی کلیدی خفیہ ایجنسی کے چیف، جو عمران خان کا منظور نظر تھا، کو آرمی چیف کی طرف سے ہٹانے کے بعد شروع ہوا۔ اس سے عمران خان کی دس سالہ (یا شاید اس سے بھی زیادہ) حکومت کی منصوبہ بندی جس میں ہٹائے جانے والے اعلیٰ عہدیدار کو آرمی چیف بنانا بھی شامل تھا، پر کاری ضرب لگی۔ اس ساری منصوبہ بندی، جو خاک میں مل گئی، میں عمران خان کے ساتھ اداروں کے کچھ اور طاقتور لوگ بھی شامل تھے۔ ایک پورا گروہ تھا جو اقلیت میں ہونے کے باوجود خاصا طاقتور تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اندر کی لڑائی اور تضادات کتنے شدید ہیں جس نے ریاست کو خانہ جنگی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا۔ عمران خان کی اقتدار سے دستبردار نہ ہونے کی ضد اور ہٹ دھرمی بے سبب نہیں تھی۔ مذکورہ بالا طاقتور حلقوں کی پشت پناہی کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اس بات کے امکان موجود ہیں کہ نئی سیاسی حکومت کی تشکیل کے بعد اس دھڑے کے خلاف سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور باقی کمان کی طرف سے ایک سرجیکل آپریشن کیا جائے جو ان تضادات کو مزید بھڑکانے کا موجب بن سکتا ہے۔ نجم سیٹھی جیسے خود حزب اختلاف کے تجزیہ نگاروں کے مطابق بھی عمران خان کی کلیدی اداروں کے جونیئر افسران اور ان کے خاندانوں میں خاصی مقبولیت ہے۔ عمران خان مبینہ امریکی سازش کی مسلسل تکرار سے اپنی بنیادوں کو کسی حد تک بچانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک امریکی ایما پر نہ سہی مگر اس کے مفادات کے مطابق ہو۔ امریکہ کی دوسرے ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی، بغاوتوں اور انتشار کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ جہاں وہ مختلف خطوں میں اپنے سامراجی عزائم اور مفادات کے لئے مداخلت کرتا ہے وہیں پاکستان کی اس خطے میں اسٹریٹجک پوزیشن امریکہ کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ چین سرد جنگ میں بھی دونوں ممالک اپنے اثر و رسوخ کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ امریکہ چین کی پراکسی وار میں پاکستانی ریاست میں بھی دھڑے بندی موجود ہے جس کا اظہار مختلف سیاسی بیانوں اور ریاستی پالیسیوں میں نظر آتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستانی خارجہ معاملات میں کوئی بھی وزیر اعظم آزاد اور خود مختار انداز میں پالیسیاں بنانے سے قاصر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اس میں فیصلہ کن مداخلت ہوتی ہے۔ ممکنہ امریکی مداخلت بھی دراصل ریاستی دھڑوں کے درمیان گہرے تصادم کی ایک وجہ ہے جس میں عمران خان ایک ریاستی دھڑے کی نمائندگی کرتا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کی مختلف اشکال واضح ہونا شروع ہوں گی۔

ہو سکتا ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان امریکی سازش کے نعرے کی بنیاد پر اپنے ممبران قابل ذکر تعداد میں اسمبلی میں پہنچا پائے۔ مگر طویل مدتی تناظر میں اقتدار سے بے دخلی اس کی پارٹی کے بڑی حد تک خالی ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بات کے موجودہ کیفیت میں بہت کم امکانات ہیں کہ وہ دوبارہ اقتدار حاصل کر سکے۔ تحریک انصاف کے اقتدار کے آغاز میں وسیع تر عوام کی بہت امیدیں تھیں۔ عوام پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے کئی ادوار بھگت چکے تھے جن میں ان کی زندگیاں تلخ رہیں۔ عمران خان عوام کی ان محرومیوں کو کیش کرانے کے لئے اپنے سیاسی جلسوں اور تقاریر میں وعدوں کو ان بلندیوں پر لے گیا جو سرمایہ داری کی اس کیفیت میں ناممکن تھا۔ ایسے ایسے اعلانات کیے گئے جو مضحکہ خیز اور ناقابل عمل تھے۔ یہ سب ایک خود پسند، مغرور اور ذہنی بیمار شخص کی طرف سے تھے جو زمینی حقائق سے کوسوں دور تھا اور اقتدار میں آنے کے لئے کوئی بھی جھوٹ بولنے کو تیار تھا۔ دراصل وہ سیاست، سماجیات اور گورننس سے مکمل نابلد انسان تھا جس نے ان تضادات کو اپنے اقتدار کے لئے اس شدت سے چھیڑنے کی کوشش کی جس کا کوئی بھی سنجیدہ بورژوا حکمران سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اقتدار کے بعد یہ ساری بڑھک بازیاں جہاں اس کے لئے مسئلہ بن گئیں وہیں اس کو لانے والوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنیں۔ اسی دباؤ میں اس نے ایسے اقدامات کا آغاز کیا جو ریاست اور نظام سے بعض اوقات متصادم تھے۔ کرپشن کے خلاف جنگ میں وہ مکمل ناکام ہوا۔ کالے دھن کو کنٹرول کرتے کرتے حقیقی معیشت بھی بحران میں داخل ہو گئی جہاں سے پھر اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ دائیں بازو کی پاپولسٹ نعرہ بازی اس کے گلے کی ہڈی بن گئی اور فرسٹریشن میں وہ ان حدود کو چھونا شروع ہو گیا جو اس کے لئے ممنوعہ تھیں۔ ناکامی کی اس کیفیت میں وہ اس بات پر مکمل یقین رکھنے لگا کہ پارلیمانی جمہوریت میں پانچ سالہ اقتدار مسائل کے حل کے لئے ناکافی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس نے صدارتی نظام وغیرہ کی بحث کو اتارا اور ہر قسم کی سیاسی و جمہوری آزادیوں کے خلاف آمرانہ اقدام شروع کیے۔ مذہب کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا۔ معاشی پالیسیوں میں حکومت نے مزدور دشمن اقدامات کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو بڑی بے رحمی سے لاگو کیا جس سے عوام کی زندگیاں اجیرن ہو گئیں۔ لوگ خود کشیوں پر مجبور ہوئے۔ سوائے درمیانے طبقے کی مذکورہ بالا ڈھیٹ اور بے شرم پرتوں کے، حکومت سماج کی ہر پرت کی نظروں میں بے توقیر ہونا شروع ہو گئی۔ جہاں پھر مخالف دھڑوں کو اس پر وار کرنے کے لئے سازگار حالات میسر آئے۔

نئی تشکیل ہونے والی حکومت کے لئے بھی کوئی آسانیاں نہیں ہیں۔ شہباز شریف کی وزرات عظمیٰ میں قائم ہونے والی نئی حکومت ایک شدید دباؤ میں ہو گی جس کے لئے اسے ریلیف کے اقدامات کرنے پڑیں گے جو ان حالات میں بہت مشکل ہیں۔ عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں سے روگردانی آسان نہیں ہے۔ ہر حال میں یہ کوشش کریں گے کہ امریکی حمایت سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں کچھ نرمی کروائیں۔ سماج اندرونی طور پر ایک گہرے خلفشار اور تضادات کا شکار ہے۔ جب تک محنت کش طبقات اپنے کلاسیکی انداز میں سیاست میں بھرپور مداخلت نہیں کرتے یہ خلفشار اپنا اظہار مختلف شکلوں میں کرتا رہے گا۔ تحریک انصاف کی سماجی بنیادیں وقتی ہل چل اور اضطراب کے بعد آنے والے دنوں میں اپنی سرشست کے مطابق غیر سرگرم ہونے کی طرف جا سکتی ہیں۔ اس بات کے امکانات انتہائی مخدوش ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی طرف مراجعت کریں۔ مختصر عرصے کے لئے سیاسی تحرک میں کمی آ سکتی ہے مگر عوام بڑے سیاسی واقعات سے سیکھتے ہیں اور ضروری نتائج اخذ کرتے ہیں۔ تاریخ بڑی کفایت شعاری سے محنت کش طبقے کے ذہن اور شعور پر مسلط آلائشوں کی صفائی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پرولتاریہ کی بڑی لڑائی سے پہلے ان رکاوٹوں کا دور ہونا بہت ضروری ہے۔ انقلاب کسی ہچکچاہٹ اور ابہام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت ایک متبادل انقلابی پارٹی کی ہے جو مستقبل میں برپا ہونے والے سماجی طوفانوں کو اپنے دامن میں سمو سکے۔