فیروز خان
نومبر 2020ء میں امریکی صدارتی انتخابات ایک انتہائی غیر معمولی وقت میں ہونے جا رہے ہیں۔ رواں برس کو اس صدی کا سب سے ڈرامائی سال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ دنیا بھر میں دس لاکھ افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو لاکھ امریکی بھی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق 2020ء میں عالمی معیشت تین فیصد سکڑے گی۔ بے روزگاری کی سرکاری شرح 8 فیصد جبکہ اندازوں کے مطابق حقیقی شرح 11 فیصد کے قریب ہے۔ اس وبا کے باعث ختم ہونے والے روزگاروں میں نصف سے زیادہ واپس نہیں آئے۔ فاکس نیوز کے سروے کے مطابق کورونا وائرس کے ساتھ بے روزگاری لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بیمار ہونے والوں پر میڈیکل اخراجات چڑھتے جا رہے ہیں اور صحت کا نظام اس وبا سے پہلے ہی زوال کا شکار تھا۔ ایسی صورتحال میں محنت کش طبقہ فوری طور پر اضطراب اور بقا کی جستجو میں ہے۔’بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک سے سماج منقسم اور پولرائز ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی میدان میں امریکی سامراج بتدریج زوال پذیر ہو رہا ہے۔
بورژوا جمہوریت میں انتخابات وہ طریقہ ہیں جس سے محنت کش طبقہ سماج پر حکومت کرنے والے سرمایہ داروں کے نمائندوں کو چنتا ہے۔ بالخصوص امریکہ جیسے ممالک میں جہاں محنت کشوں کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں وہاں انتخابات سے محنت کشوں کے لیے بڑی تبدیلی آنے کا امکان نہیں۔ امریکی سوشلسٹ ایما گولڈمین نے کہا تھا کہ ”اگر ووٹ ڈالنے سے کچھ تبدیل ہوتا تو حکمران اسے غیر قانونی قرار دے دیتے۔“ انتخابات سماج کو تبدیل نہیں کرتے بلکہ بعض مخصوص ادوار میں سماجی تبدیلی کا اظہار ہوتے ہیں۔ لیکن عام حالات میں عوام اور محنت کش طبقہ انتخابات کو سنجیدہ لیتے ہیں اس لیے مارکسی ان سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ مارکسی‘ محنت کش طبقے کے امیدواروں کی مشروط حمایت کرتے ہیں خواہ وہ مارکسی نہ بھی ہوں۔ آنے والے صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے مقابل سابقہ نائب صدر میں سے کوئی بھی محنت کش طبقے کے مفادات کا نمائندہ نہیں ہے۔ شہرہ آفاق امریکی ادیب گور وڈال نے کہا تھا کہ ”ہماری جمہوریہ میں ایک پارٹی ہے جس میں دو دائیں بازو کے دھڑے ہیں۔“
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طبقاتی کردار دیکھا جائے تو وہ امریکی حکمران طبقے کی مین اسٹریم یا غالب حصے کا نمائندہ نہیں اور ان کا باہمی تعلق پیچیدہ نوعیت کا ہے۔ اس کا مقصد اپنے اور اپنے گرد حکمران طبقے کے ایک چھوٹے سے حصے کے منافعوں میں اضافہ ہے۔ امریکی مارکسی ایڈم شلز کے مطابق ٹرمپ ایک لمپن بورژوا ہے جو اپنے سارے طبقے کی بجائے صرف اپنے مفادات پر مرکوز ہے۔ اس کے باوجود اس نے مین سٹریم حکمران طبقے کے لیے بہت کچھ کیا ہے جس میں ٹیکسوں میں کمی، ڈی ریگولیشن، نجکاری، کام کی جگہوں پر ہیلتھ اینڈ سیفٹی (محنت کشوں کی صحت اور تحفظ) اور ماحولیاتی ضوابط کی نرمی وغیرہ شامل ہیں۔ کورونا وائرس سے بحالی کے لیے دو ہزار ارب سے زیادہ کا معاشی پیکیج حکمران طبقے کے لیے ڈالروں کی بندر بانٹ ہے۔ اسی وجہ سے حکمران طبقہ ٹرمپ کو برداشت کرتا ہے‘بلکہ اس سے فیضیاب ہو رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب محصولات اور بین الاقوامی تجارت پر ٹرمپ کی پالیسیاں حکمران طبقے کے بڑے حصوں کے مفادات کے بر خلاف ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے معمولی معاملات پر تنازعے کھڑے کر دینا اور ہر وقت اپنے مخالفین سے الجھتے رہنے سے پیدا ہونے والا عدم استحکام سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے ساز گار نہیں ہے۔
دوسری جانب ٹرمپ مسلسل نسل پرستی اور ہر طرح کی منافرت کو ہوا دیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اسے سفید فام امریکی محنت کشوں سے کوئی ہمدردی ہے۔ بلکہ وہ انتخابی اور سیاسی حمایت کے لیے یہ سب کرتا ہے۔ وہ سماج کے رجعتی اور انتہائی دائیں بازو کے پرتشدد عناصر کو متحرک کرنے کا خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ تاریخ میں اکثر ایسی قوتیں زور پکڑنے کے بعد خود اپنے خالقوں کے کنٹرول سے باہر نکل جاتی ہیں۔ اس کے باوجود سماج کے لمپن حصوں کے علاوہ سفید فام محنت کش طبقے، جو کہ آبادی کا چالیس فیصد ہے، میں ٹرمپ کو خاطر خواہ حمایت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1980ء اور 90ء کی دہائیوں میں امریکی حکمران اپنے منافعوں میں اضافوں کی خاطر پیداواری صنعت کو چین اور دوسرے ممالک میں لے گئے جہاں کے محنت کشوں کا انتہائی کم اجرتوں اور کام کے برے حالات میں استحصال کیا گیا۔ اس کے علاوہ نجکاری، آٹو میشن اور بین الاقوامی تجارت میں اضافے سے امریکی محنت کش طبقے کے بڑے حصوں کا معیار زندگی مسلسل گرتا چلا گیا۔ عام طور پر ایسے محنت کش سوشلسٹ تحریکوں کے حامی ہوتے ہیں لیکن امریکہ میں دایاں بازو اور ٹرمپ ان محنت کشوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہے کہ یہ سب سیاہ فاموں اور دوسرے ممالک سے آئے محنت کشوں کا قصور ہے۔ غریب سفید فام محنت کش تمام ووٹروں کا تقریباً چالیس فیصد ہیں۔ پچھلے دنوں ٹی وی پر ہونے والے صدارتی مباحثے میں ٹرمپ اپنے انہی حامیوں کے لیے سب کچھ کر رہا تھا۔ وہ خود کو ایک مضبوط لیڈر دکھانا چاہتا ہے جو کسی دباؤ میں نہیں آتا۔ اس کے تمام تر ٹویٹس بھی انہی کے لیے ہیں۔ موجودہ حالات میں غریب سفید فام محنت کش طبقے کی جانب سے ٹرمپ کی حمایت چھوڑنے کے امکانات کم ہیں۔ دوسری جانب درمیانے طبقے اور محنت کش طبقے کی نسبتاً متمول پرتوں کو (جو خود کو درمیانہ طبقہ سمجھتے ہیں) ٹرمپ ڈرا رہا ہے کہ صرف وہی انہیں سیاہ فام اور دوسرے مظاہرین کی لوٹ مار سے بچا سکتا ہے۔ ٹرمپ خود کوسخت گیر پولیس اور قانون کے نفاذ کے حامی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ وہ”ریڈیکل بائیں بازو“ سے ڈراتا ہے جب کہ حقیقت میں ڈیمو کریٹک پارٹی کا یہ نام نہاد بایاں بازو محض نسبتاً مہذب دایاں بازو اور ہلکے پھلکے اصلاح پسند ہیں۔
دوسری جانب جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی یورپ کی لیبر اور سوشلسٹ پارٹیوں کی طرح کوئی اصلاح پسند پارٹی نہیں ہے لیکن بائیں بازو کے لیے اس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ سماج میں جب بھی عدم اطمینان ہوتا ہے تو ڈیموکریٹک پارٹی اس کی قیادت کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور احتجاجی تحریکوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی مین اسٹریم سیاست میں زائل کر دیتی ہے۔ حکمران طبقہ عام طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن جیسے سیاست دانوں کو پسند کرتا ہے لیکن کیا وہ اس کی جیت یقینی بنا سکتے ہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے سے ایک نیا میڈیا سرکس شروع ہو گیا ہے۔میڈیا اس کی بیماری کے اثرات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ سی این این کے ڈاکٹر سنجے گپتا کے مطابق ٹرمپ کی صحت یابی کے امکانات 95 فیصد ہیں۔
اس وقت رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق جو بائیڈن کو سبقت حاصل ہے لیکن حالات کسی جانب بھی مڑ سکتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے انتخابی دھاندلی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ووٹروں کی بڑی تعداد ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے گی۔ صدارتی مباحثے کے دوران ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ڈاک کے ووٹوں میں فراڈ کی صورت میں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار بھی کرسکتا ہے۔ مباحثے کے دوران ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو پولنگ سٹیشنوں پر ووٹنگ پر نظر رکھنے کے لیے کہا ہے۔ یہ دائیں بازو کے مسلح جتھوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ پولنگ سٹیشنوں پر ان مسلح جتھوں کی موجودگی سیاہ فام اور دوسری اقلیتوں کے ووٹروں کو ڈرا دھمکا کر ووٹ ڈالنے سے دور رکھنے کی کوشش ہے۔
میڈیا میں ٹرمپ کے انتخابی شکست تسلیم نہ کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ ایسا قوی امکان نہیں لیکن اسے بالکل رد نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص اگر بہت کم ووٹوں کا فرق ہو۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں رہتے ہوئے بھی شفاف رائے دہی کے حق کا دفاع کرنا سوشلسٹوں کا فرض ہے۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کی نامزدگی کے امید وار برنی سینڈرز کو بہت بڑی حمایت حاصل تھی جسے پارٹی کی بیوروکریسی نے ایک سازش کے ذریعے دوڑ سے باہر کر دیا۔ برنی سینڈرز کا ’جمہوری سوشلسٹ‘ پروگرام در حقیقت اصلاح پسندی پر مبنی تھا۔ اس کی بڑی حامی تنظیم ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ یا ’ڈی ایس اے‘ تھی۔ ڈی ایس اے کے ملک بھر میں 70 ہزار ممبران ہیں جن میں سے 10-15 فیصد متحرک ہیں جو ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ بدقسمتی سے ایک آزادانہ طبقاتی پوزیشن کی بجائے ڈی ایس اے کی اکثریت جو بائیڈن کی حمایت میں چلے گئے ہیں اور اس کی کمپئین میں شامل ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ کا راستہ روکنے کے لیے یہ سب کرنا ضروری ہے۔
بڑی دو پارٹیوں کے علاوہ گرین پارٹی بھی انتخابی میدان میں ہے۔ یہ بہت چھوٹی اور کمزور پارٹی ہے جو لبرل مطالبات اور ماحولیاتی تحفظ کی سیاست کرتی ہے۔ اس پارٹی کا امید وار ہاوی ہوکنز پرانا ٹریڈ یونین لیڈر ہے اور خود کو سوشلسٹ کہتا ہے۔ اس کی نائب صدر کی امید وار اینجلا واکر ایک سیاہ فام خاتون اور بس ڈرائیوروں کی یونین سے ہے۔ ان کا انتخابی منشور محنت کش طبقے کے واضح مطالبات پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے امریکہ میں کئی سوشلسٹ انقلابی ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
گزشتہ مہینوں میں بلیک لائیوز میٹر کی تحریک امریکہ میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔جس میں سیاہ فام، سفید فام اور دیگر نوجوان شانہ بشانہ جدوجہد کرتے نظر آئے۔ ٹرمپ کے شکست کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں یہ نوجون پھر سے سڑکوں پر نکل سکتے۔
انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں محنت کش طبقے کی زندگیوں میں بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ محنت کش صرف اپنی اجتماعی جدوجہد سے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کی تحریک نے ثابت کیا ہے جدوجہد کی جاسکتی ہے، لڑا جا سکتا ہے۔ امریکی محنت کشوں کا 13 فیصد ٹریڈ یونینوں میں منظم ہے۔ اگرچہ یہ شرح کم ہے لیکن بہت بڑی تعداد بنتی ہے اور ان کی اکثریت کلیدی شعبوں میں ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریک اگرچہ کمزور ہوئی ہے لیکن آٹو انڈسٹری سے لے کر اساتذہ اور صحت کے شعبے کے محنت کشوں کی ہڑتالیں اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ اور اس کے نظام کو شکست دینے کا واحد راستہ محنت کش طبقے کی منظم اور اجتماعی جدوجہد ہے اور یہ انتخابات اس جدوجہد کی چنگاری بن سکتے ہیں۔