اویس قرنی
پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی کے محرکات کو سمجھے بغیر طلبہ یونین بحالی کی جدوجہد کو نہ تو منظم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حقیقی معنوں میں طلبہ کی شمولیت پر مبنی یونین کا وجود بحال ہو سکتا ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے طلبہ یونین بحالی کی قرارداد کی منظوری حالیہ طلبہ یونین بحالی تحریک کی ایک ناقابل فراموش لیکن جزوی کامیابی ہے۔
سندھ حکومت کی طرف سے طلبہ یونین بحالی کی قرارداد کی منظوری پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو خراج عین اسی وقت پیش کیا جا رہا ہے جب سندھ یونیورسٹی کے ماروی گرلز ہاسٹل کی طالبات پر اپنے تئیں کھانا بنانے پر پابندی اور جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ہاسٹل، میس، انٹر نیٹ اور پانی کی سہولیات سمیت ہر بنیادی ضرورت ناپید ہے۔ کراچی میں سرکاری اداروں کے طلبہ کے ہاسٹلوں کو دیگر اداروں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے۔ طلبہ کی گرفتاریاں اور اغوا معمول بن گیا ہے۔ سندھ یونیورسٹی کی فیسوں میں تو تقریباً دو گنا اضافہ کیا گیا ہے جس کے خلاف طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ مہینے ہی اسی ادارے کے پچاس سے زائد طلبا و طالبات کے خلاف تادیبی کاروائیاں کرتے ہوئے ادارے سے نکالنے کے نوٹیفیکشن بھی جاری ہوئے۔ جو بعد ازاں طلبہ کے سخت دباؤ کی بنیاد پر خارج بھی ہو گئے۔
طلبہ یونین پر پابندی محض طلبہ کے خلاف کوئی تادیبی یا بدلے کی بنیاد پر کاروائی نہیں تھی۔ ہاں! ضیا آمریت کو ایک بڑی طلبہ تحریک کا خوف ضرور لاحق تھا جس کی بنیاد پر اس نے یہ انتہائی آمرانہ اقدام کیا۔ لیکن جس طرح عالمی منظر نامہ بدلا اور سوویت یونین ٹوٹا، چین سرمایہ دارانہ بحالی کی جانب بڑھا اور بھارت میں منڈی کو کھولا گیا اس کے ساتھ ہی عالمی پیمانے پر مالیاتی سرمائے کا تسلط بھی بڑھتا گیا۔ جس طرح آئی ایم ایف کی ایما پر محنت کشوں کی حاصلات کو چھینا گیا، بینک، بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات کے حامل عوامی اداروں کو بیچنے اور نجکاری کے عمل کا آغاز ہوا اسی طرز پر ہی صحت اور تعلیم کو بنیادی ضروریات سے دھندے کی جانب دھکیلنا مقصود تھا۔ ایک منظم طلبہ یونین کی موجودگی میں تعلیم کی لبرلائزیشن ایک ناقابل عمل منصوبہ بن جاتا۔ آئی ایم ایف کی ایما پر ریاست کو تعلیم کی ذمہ داری سے ماورا ہونا تھا۔ یہی تسلسل ہی تھا کہ آج تعلیم ایک عیاشی تصور ہوتی ہے۔ ایک منظم طلبہ یونین کی موجودگی میں حکمرانوں کا یہ مکروہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا اور حکمران طبقات کے لیے بھی یہ سب اچانک کرنا ناممکن تھا۔ نہ صرف طلبہ یونین پر بدستور پابندی جاری رکھنا ضروری تھا بلکہ طلبہ کے سیاسی شعور کو مسخ کرنا اس سے بھی زیادہ اہم تھا۔ یہی سب تمام حکمران جماعتوں نے اپنے نام نہاد جمہوری ادوار میں کیا۔ انہوں نے نہ صرف آمر کی لگائی گئی پابندی کو جاری رکھا بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں طلبہ کے اجتماعی شعور پر وہ کاری ضربیں لگائیں جو شاید آمریت کے بس کی بات بھی نہیں تھی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بنیادی طور پر طلبہ یونین بحالی اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کے خلاف جدوجہد باہم جڑی ہوئی ہے۔ آج جہاں پیپلز پارٹی سندھ میں طلبہ یونین بحالی کی علم برادر بنی ہوئی ہے اسی وقت ایوانوں میں قومی اداروں کو آئی ایم ایف کے قدموں میں گروی رکھنے کے حق میں بھی قراردیں منظور کروانے میں اپنا کرادر ادا کر رہی ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی ان کے لیے ڈھکوسلا اور فراڈ ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں انتہائی متضاد کشتیوں میں سوار ہے۔ یہاں محنت کشوں اور طلبہ کی حقیقی نمائندگی کے لیے لازم ہے کہ سامراج اور عالمی مالیاتی اداروں کی طوق کو گلے سے اتار پھینکا جائے۔ لیکن اسی طوق کو تو یہاں کے حکمرانوں کا ہر دھڑا تمغہ سمجھتا ہے۔ یہاں سول سپرمیسی اور جمہوریت کا راگ الاپنے والے سارے کے ساروں کے پاس آئی ایم ایف کے پیکیجز کے علاوہ کوئی معاشی پروگرام ہے ہی نہیں۔ نواز لیگ سے لے کر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تک سبھی کا یہی نسخہ اور نظریہ ہے۔ معیشت قرضوں میں غرق ہے۔ موجودہ حاکمیت میں صحت کو تقریباً نجی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ یہی حشر تعلیم کا بھی ہے۔ یہاں پابندیاں محض اعلانات و قراردادوں سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ اعلانات و قراردادوں کے پیچھے کوئی گھناؤنی واردات کارفرما ہوتی ہے۔ یہاں کے حکمران طبقات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ طلبہ کے سیاسی شعور کو جس قدر مسخ کر چکے ہیں ان کے اعلانات اور قراردادوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، ہاں البتہ ایسے اقدامات کے پس پردہ ان کے کچھ عزائم کی تکمیل یقینی ہو سکتی ہے۔ لیکن شعور چاہے جتنا بھی پست کیوں نہ ہو مخصوص وقتوں میں چھلانگیں لگا کر کہیں زیادہ ایڈوانس بھی ہو جاتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس لیے نیم جمود کے ادوار میں حکمران طبقہ کبھی بھی مخصوص مطالبات کے گرد بننے والی تحریک کے عروج کے وقتوں میں فوری طور پر مکمل ہار تسلیم نہیں کرتا بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے تحریک کو کند کرتا ہے، کبھی جزوی مطالبات بھی تسلیم ہوتے ہیں۔ جس سے تحریک کا زور وقتی طور پر ٹوٹتا ہے اور یہ زور توڑنے کے لیے ہی حکمران طبقہ جزوی ہار تسلیم کر لیتا ہے۔ کیونکہ اگر مخصوص مطالبات کے گرد بننے والی تحریک کو فوری اور مکمل کامیابی حاصل ہو جائے تو تحریک کے مطالبات بھی وسیع ہونا شروع جاتے ہیں اور ایک کے بعد ایک مطالبے کے گرد تحریک وسیع تر عوامی بنیادیں اختیار کرتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ محنت کش طبقات کی ہراؤل پرتوں کو اپنے اندر سمونا شروع کر دیتی ہے۔ یہی ادوار فیصلہ کن ہوتے ہیں جن میں پسے ہوئے محکوم طبقات اپنا مقدر پھر اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے طاقتور ترین دشمن کو بھی زیر کر دیتے ہیں۔
یہ قدر تمام انقلابی تحریکوں میں مشترک نظر آتی ہے۔ معمولی مطالبات سے شروع ہونے والی تحریکیں وسیع تر ہوتی ہوئیں دہائیوں پر محیط آمریت کو بھی اکھاڑ کر پھینک سکتی ہیں۔ پاکستان کے 68-69ء کے ادھورے انقلاب کی یہی داستان ہے۔ ایک طالبعلم کے قتل کے خلاف ہونے والے مظاہرے اور چینی کی قیمت میں معمولی اضافے کے خلاف نفرت بڑھتے بڑھتے ایک مکمل انقلابی تحریک کا موجب بن گئی تھی۔
ان اسباق سے حکمران طبقات بھی آشنا ہیں۔ طلبہ یونین بحالی کی حالیہ لہر 2019ء میں جس شدت سے شروع ہوئی اس کو ایوانوں کے انتظامی گھن چکر میں الجھا کر اور وقتی طور پر قراردادوں کو کابینہ میں پیش کرتے ہوئے تحریک کے زور کو توڑا گیا اور وہ اس واردات میں کامیاب بھی ہوئے۔ ورنہ تو یہاں مخصوص بل یا قراردادیں راتوں رات بھی پاس ہوتی رہتی ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے ساتھ ہی اس کی بحالی کی جفاکش جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔ کئی کٹھن مراحل سے گزرتے اور صعوبتیں براشت کرتے ہوئے یہ طویل سفر ہوا ہے جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ بغاوت کے علم نے ہاتھ اور نسلیں بدلیں لیکن عزم ہر دور بلند ہی رہا۔ اس طرح ہی مشرف آمریت میں طلبہ یونین بحالی کے لیے اس وقت کی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے جدوجہد کی تھی، یہ مضحکہ خیز ضرور ہے کہ آج کے وزیر اعظم اس وقت کی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ہمراہ طلبہ یونین بحالی کے مظاہروں میں شریک ہوا کرتے تھے اور کوئی بعید نہیں ایوانوں کے باہر ہونے پر پھر سے طلبہ حقوق کے علمبردار بن جائیں۔ اسی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا دباؤ ہی تھا کہ بعد ازاں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین بحالی کا وعدہ کیا تھا اور اسی سانس میں ہی ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیم کی نیشنلائزیشن کی پالیسی پر تنقید بھی کر گئے تھے۔
یہاں طلبہ یونین کی بحالی اپنے پورے رنگ و جلال کے ساتھ ایک منظم اور جرات مند طلبہ تحریک ہی کروا سکتی۔ کسی ڈھکوسلے یا فریب سے صرف دعوے یا کھوکھلی اور خصی سوسائٹی طرز کی کوئی انجمن تو شاید دو چار اداروں میں بن جائے لیکن طلبہ کی امنگوں کی حقیقی ترجمان اور با اختیار یونین کی بحالی ممکن نہیں۔ اس لیے نہ صرف سندھ میں بلکہ پورے ملک اور اس کے زیرانتظام علاقوں میں نہ صرف طلبہ یونین بحالی کی جدوجہد کرنا لازم ہے بلکہ فوری الیکشن شیڈول اور اس کے ضابطے بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ آج بھی کشمیر بھر میں طلبہ یونین پر کوئی آئینی پابندی نہیں ہے۔ گزشتہ حکومت نے اعلانیہ یہ پابندی ختم کی ہوئی ہے لیکن آج تک کشمیر کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں ریاستی سطح پر الیکشن نہیں کروائے گئے۔ طلبہ کو نہ صرف یونین سازی کا حق واپس چھیننا ہو گا بلکہ اتنی شدت کے ساتھ اپنی طاقت کا بھی اظہار کرنا ہو گا کہ وہ حکمران طبقات کو مجبور کر دیں اور حقیقی معنوں میں طلبہ یونین بحال ہو۔ اس میں کالے دھن کی سرائیت اور ریاستی مداخلت کے خلاف بھی لڑنا ہو گا۔ ان حکمرانوں کے اپنے بقول یہ آج تک اپنے الیکشنوں کو کالے دھن اور ریاستی مداخلت سے پاک نہیں کر سکے تو اس ملک کی سب سے ہیبت ناک طاقت کے حامل نوجوانوں کے حق رائے دہی کی حفاظت کیا کریں گے! ایک منظم اور جرات مند طلبہ تحریک نہ صرف طلبہ یونین کو بازور طاقت بحال کروائے گی بلکہ رجعتی طاقتوں کا بھی قلعہ قمہ کرتی جائے گی اور یہی حقیقی معنوں میں طلبہ یونین ہو سکتی ہے۔