لال خان

دسمبر 2013ء میں لکھا گیا ڈاکٹر لال خان کا یہ آرٹیکل قارئین جدوجہد کے لئے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

 

پاکستان کے کارپوریٹ میڈیا، سرکاری دانشوروں اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی پارٹیوں کی جانب سے بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کی پھانسی پر کیا جانے والا واویلا بنیادی طور پر سماج پر چھائی نیم رجعت اور وقتی جمود کی غمازی کرتا ہے۔ جماعت اسلامی سمیت دیگر رجعتی قوتوں کی سماجی بنیادیں جس قدر کمزور ہوتی جا رہی ہیں ریاست کے کچھ حصوں کی جانب سے ان کی حمایت اور پشت پناہی میں اتنا ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی سرمایہ دارانہ حکومت عوام کی توجہ معاشی ذلتوں اور سامراجی اجارہ داریوں کے بدترین استحصال سے ہٹانے کے لئے اس مسئلے کو استعمال کر رہی ہے۔ عبدالقادر ملا کو 12 دسمبر 2012ء کو ملنے والی سزائے موت کی بنیاد ایک پچپن سالہ خاتون کی گواہی تھی جس کے خاندان کو 1971ء میں عبدالقادر کی قیادت میں جماعت اسلامی کے مذہبی جنونیوں نے ذبح کر دیا تھا۔ بنگلہ دیش کے اخبار ”ڈیلی سٹار“ کے مطابق 1971ء میں یہ خاتون 13 سال کی بچی تھی جس کے والد حضرت علی لشکر حریت پسند نظریات رکھتے تھے۔ اس ’جرم‘ کی پاداش میں کالا پانی لین، میر پورمیں واقع حضرت علی لشکر کے گھر پر جماعت اسلامی کے غنڈوں نے عبدالقادر ملا (جسے ”میر پور کا قصاب“ بھی کہا جاتا تھا) کی قیادت میں حملہ کیا۔ حضرت علی لشکر کو گھر سے گھسیٹ کر گلی میں لایا گیا جہاں اسے خوفناک اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔ اس کی دو بیٹیوں کے گلے کاٹ دئیے گئے اور جب دو سالہ بیٹے نے رونا شروع کیا تو اسے ٹانگوں سے پکڑ کر فرش پر پٹخ کے مار دیا گیا۔ 13 سالہ بچی کو تیز دھار خنجر سے گھائل کرنے کے بعد مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا لیکن وہ 42 سال بعد گواہی دینے کے لئے زندہ رہی۔

ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات 1971ء کی خانہ جنگی اور فوجی آپریشن کے دوران وقوع پذیر ہوئے۔ جنگوں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ خون ریزی اور قتل و غارت گری کے سوا جنگ کا مطلب ہی کیا ہے؟ بنگال کی جنگ ایک انقلاب کو کچلنے کے لئے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے حکمران طبقات نے مسلط کی تھی جس میں غریب اور محنت کش عوام برباد ہوئے۔

تاریخ جتنی تاخیر سے مرتب ہوتی ہے، حقائق اتنے ہی واضح اور ٹھوس ہو کر منظر عام پر آتے ہیں۔ کسی بھی طبقاتی سماج میں تاریخ ہمیشہ حکمران طبقات مرتب کرتے ہیں۔ ریاستی مورخین اور سرکاری دانش ور تاریخی واقعات کو بالادست طبقات کے نظریات اور مفادات سے مطابقت رکھنے والے زاویوں سے پیش کرتے ہیں۔ جہاں بات نہ بن پائے وہاں ”نظریہ سازش“ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی دانشورانہ غیر دیانتداری کو ”تاریخ کا قتل“ کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات کے باہمی تضادات خود بہت سے تاریخی حقائق کو عیاں اور بے نقاب کر دیتے ہیں۔

دنیا کے ہر ملک اور خطے کی طرح یہاں کے حکمرانوں اور ریاستوں نے بھی اپنے طبقاتی مفادات کے پیش نظر برصغیر جنوب ایشیا کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ زیادہ تر حکمرانوں، شہزادوں اور شہزادیوں کے قصے کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ محنت کش عوام کو انہی دیو مالائی داستانوں میں محو رکھ کر ذہنی طور محکوم اور مغلوب بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی نصابوں میں پڑھائی جانے والی ”تاریخ“ میں نہ صرف انگریز سامراج کے خلاف مختلف ادوار میں ابھرنے والی آزادی کی تحریکوں کو مسخ کر کے پیش کیا جاتاہے بلکہ جدوجہد آزادی کے طبقاتی کردار اور انقلابی رہنماؤں کو بھی تاریخ کے اوراق سے مٹادیا گیا ہے۔ لیکن تاریخ جہاں جھوٹ بولنے والوں سے خود انتقام لیتی ہے وہاں محنت کش عوام کے انقلابی ریلے نہ صرف اپنے سفر کے سنگ راہ خود تراشتے ہیں بلکہ ایسے مورخین کو بھی جنم دیتے ہیں جو حکمرانوں کے فریب، دھوکے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی واردات کو ناکام و نامراد کر دیتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں ایسے غیر معمولی ادوار آتے ہیں جب طویل وقفوں کے بعدمحکوم اور کچلے ہوئے انسان اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لے کر تاریخ کے میدان عمل میں اترتے ہیں اور اپنی تقدیر خود تخلیق کرتے ہیں۔ 1967ء سے 1974ء تک کا عہد ایسے ہی تاریخی کردار کا حامل تھا۔ عالمی سطح پر ایک کے بعد دوسرے ملک میں محنت کش عوام اور نوجوانوں کی بغاوتیں برپا ہو رہی تھیں۔ جنوب ایشیا میں بھی سامراجیوں اور مقامی حکمرانوں کے ایوانوں کو ہلا دینے والی انقلابی تحریکیں برپا ہوئیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور سقوط ڈھاکہ کے بارے میں ہمیں عام طور پر دو قسم کی توجیہات ملتی ہیں۔ پاکستانی ریاست کے سرکاری نقطہ نظر کے مطابق مشرقی پاکستان میں ابھرنے والی عوامی بغاوت ایک ”بین الاقوامی سازش“ کا نتیجہ تھی اور بھارت کی پشت پناہی سے ”غدار بنگالیوں“ نے علیحدگی اختیار کر لی۔ دوسری طرف بعض لبرل مورخین کے مطابق یہ تحریک مشرقی پاکستان میں قومی محرومی کے احساس اور مغربی پاکستانی اشرفیہ کے خلاف ردعمل کا نتیجہ تھی۔ یہ موقف ہندوستان اور بنگلہ دیش کے حکمران طبقات کے نقطہ نظر سے ملتا جلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں برپا ہونے والے طوفانی واقعات نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان اور بنگال کے بالادست طبقات کی مراعات، حاکمیت اور جبر و استحصال کے لئے ایک چیلنج اور خطرہ بن گئے تھے۔ عوامی بغاوت کے اس سیلاب نے پورے برصغیر میں سرمایہ دارانہ نظام کو لرزا دیا تھا۔ برصغیر کے تمام ممالک کی سرکاری تاریخ کے برعکس مشرقی پاکستان کی تحریک قومی بنیادوں پر نہیں اٹھی تھی۔ اس تحریک کا کردار واضح طور پر طبقاتی تھا جس کا آغاز مشرقی بنگال سے نہیں بلکہ راولپنڈی میں طلبہ جلوس پر پولیس کی فائرنگ میں پولی ٹیکنیکل کالج کے طالب علم عبدالحمید کی شہادت سے ہوا تھا۔ بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ واقعہ وہ چنگاری ثابت ہوا جس نے سماجی و معاشی تضادات کے بارود کو آگ لگا دی۔ تحریک ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ 6 نومبر 1968ء سے 25 مارچ 1969ء تک کے 139 دنوں میں طاقت ریاست کے ایوانوں سے نکل کر گلیوں، محلوں، فیکٹریوں، دیہاتوں اور سکولوں و کالجوں میں آ گئی تھی۔ 1947ء کے بعد پاکستان کے محنت کش اور نوجوان پہلی مرتبہ ایک مقصد اور منزل کے حصول کے لئے انقلابی تحریک میں یکجا ہوئے تھے۔ پشاور سے چٹاگانگ تک ”سوشلسٹ انقلاب“ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ 25 مارچ 1969ء کو بطور صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی آخری تقریر میں اقرار کیا تھا کہ ”تمام ریاستی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔ ملک کے ہر مسئلے کا فیصلہ اب گلیوں میں ہو رہا ہے۔“

مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں بھی ان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ تحریک کے عروج پر مولانا بھاشانی کو بیجنگ بلایا گیا جہاں ایوب خان کے دوست اور فوجی آمریت کے حلیف ماؤزے تنگ نے اپنے پیروکار کو تحریک سے دستبردار ہونے کا حکم دیا۔ مشرقی بنگال لوٹ کر بھاشانی اپنی کشتی کی رہائش گاہ میں چلے گئے اور پھر کبھی منظر عام پر نہ آئے۔ قیادت کے اس فرار سے تحریک کو دھچکا لگا۔ عوام متذبذب ہو گئے۔ اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان اور بنگال کے حکمران طبقے نے شیخ مجیب الرحمٰن کو اوپر سے مسلط کر دیا۔ مجیب دراصل بنگالی سرمایہ دار طبقے کا سیاسی نمائندہ تھا جس کے ذریعے بپھری ہوئی تحریک کو طبقاتی بنیادوں سے ڈی ریل کر کے قومی بنیادوں پر استوار کر دیا گیا۔ ایک عظیم عوامی تحریک کو قومی اور لسانی تعصبات میں غرق کر کے انقلاب کو مجروح کر دیا گیا۔

بھارت کی مداخلت کسی ”سازش“ کا نتیجہ نہ تھی۔ مشرقی بنگال میں تحریک کی تپش مغربی بنگال میں بھی محسوس ہونے لگی تھی جس سے بھارتی حکمران طبقے کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ مشرقی بنگال میں ریاست ہوا میں معلق ہو چکی تھی، پولیس اور عدلیہ کا نظام بے معنی ہو گیا تھا اور تمام تر سماجی و سیاسی معاملات مزدوروں، طالب علموں اور کسانوں کی پنچائتوں کے ذریعے اشتراکی انداز میں چلائے جا رہے تھے۔ بنگالی اشرافیہ اس سیاسی تحریک سے بھی خوفزہ تھی جس کی زیادہ تر تنظیمی اور نظریاتی بنیادیں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان (جو بعد ازاں جے ایس ڈی یا جاتیو سماج تنترک دل میں منظم ہوئے) استوار کر رہے تھے۔ مشرقی بنگال میں بھارتی فوج کی جارحیت کا مقصد پاکستانی فوج کو شکست دینے کی بجائے عوامی پنچائتوں کو کچلنا تھا کیونکہ یہ عوامی ادارے ایک نئے سماجی، ریاستی اور اقتصادی نظام کی راہ ہموار کر رہے تھے جس سے ہندوستانی بنگال میں سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام کو براہ راست خطرہ لاحق تھا۔ بھارتی فوج نے نہ صرف عوامی پنچائتوں کو کچلا بلکہ اپنے منظور نظر مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کو عوام پر مسلط کیا۔ بیشتر مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مولانا بھاشانی اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی تو مجیب کی عوامی لیگ کو وہ اکثریت نہ مل پاتی جس کے ذریعے اس نے اپنے بھارتی آقاؤں کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگال کے حکمرانوں نے جنگ، قتل عام اور ایک نئی ریاست کی تشکیل کی شکل میں انقلاب کو زائل کرنے کی قیمت ادا کی۔ یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ برصغیر کے حکمران طبقات نے اپنے استحصالی نظام اور اقتدار کو بچا لیا۔

16 دسمبر کو کہیں جشن ہو گا اور کہیں ماتم۔ زر خرید دانشور اپنے اپنے آقاؤں کے مفادات کے پیش نظر طرح طرح کی توجیہات پیش کریں گے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد آزادی کے 42 سال بعد بنگلہ دیش کے محنت کش آج ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جبر و استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے باسیوں کی وسیع اکثریت غربت اور محرومی کی اتہا گہرائیوں میں سسک رہی ہے۔ دنیا کی 22 فیصد آبادی والے اس خطے میں دنیا کی 46 فیصد غربت پلتی ہے۔ یہ کوئی قہر خداوندی نہیں ہے بلکہ برصغیر کی بے حس، ظالم، منافع خور، بدعنوان اور رجعتی الیٹ کے ہوس اور لالچ کا نتیجہ ہے۔ حکمرانوں نے بہت لوٹا ہے اور لوٹ رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طویل عرصوں تک عوام ظلم و استحصال کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ طبقاتی کشمکش ختم ہو گئی ہے۔ لیکن پھر عوام کا قہر تحریکوں کو جنم دیتا ہے اور یہ تحریکیں بھڑک کر انقلاب کے طوفان بن جاتی ہیں۔ بپھرے ہوئے عوام کے یہ طوفان بڑی سے بڑی ریاستوں کو اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ برصغیر کے عوام پھر بغاوت پر اتریں گے۔ نجات کا اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان غیر معمولی لمحات میں انقلابی پارٹی کی شکل میں کوئی سیاسی قیادت موجود ہو گی جو اس تحریک کو سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کر سکے؟