احسن جعفری

ہر گزرتے دن کے ساتھ سرمایہ داری میں بحرانات نہ صرف پیچیدہ ہو رہے ہیں بلکہ ان کی نوعیت بھی تبدیلی ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی کے نظاموں کے برعکس سرمایہ داری میں قلت کی بجائے زائد پیداواریت کا بحران ایک ایسے نظام کو دن بہ دن مزید عریاں کر رہا ہے جس کی قوتِ محرکہ انسانی ضروریات کی تکمیل کے بجائے منافع خوری ہے۔ معلوم انسانی تاریخ کی بلند ترین پیداواری صلاحیت کے عہد میں انسانوں کی اکثریت محتاجی اور محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بے پناہ پیداواری صلاحیت سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات کی وجہ سے انسانی تہذیب و تمدن کے پیروں کی زنجیر بن گئی ہے۔

دنیا کی آبادی اس وقت 7.8 ارب کے قریب ہے اور سالانہ غذائی اشیا کی پیداوار سے تقریباً 11 ارب انسانوں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ 25 سال پہلے کے مقابلے میں آج دنیا میں 500 حرارے فی فرد فی دن کے حساب سے زائد پیداوار کی جا رہی ہے لیکن اس سیارے پر بسنے والے انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد رات کو بھوکا سونے پر مجبور ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ایک دن کی مکمل غذا خریدنے کے لئے جتنی رقم درکار ہے وہ ان کو پورا دن محنت کرنے کے باوجود بھی نہیں مل پاتی۔ ماحولیاتی مسائل پر کی جانے والی قانون سازی کی طرح 2030ء تک بھوک کے خاتمے کا ہدف (زیرو ہنگر گول) بھی صرف کانفرنسوں میں تقاریر جھاڑنے اور فوٹو سیشن کرنے تک محدود ہے۔ ایک طرف جہاں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد، جو سال 2020ء میں 2.2 ارب تک پہنچی، بھوک سے نبرد آزما ہے وہیں پہ ایک اور مسئلہ پسماندہ خطوں کے ساتھ ساتھ نسبتاً خوشحال اور ترقی یافتہ خطوں میں بھی جنم لے رہا ہے اور وہ ہے غذا میں غذائیت کی کمی۔

مسلسل بھوک کے شکار افراد میں غذائی قلت جسم میں بہت سے نمکیات اور دیگر غذائی ضروریات کی کمی کا باعث بنتی ہے جس سے جسم کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی بیماریوں میں بھی دوا استعمال کرنی پڑتی ہے اور یہ بیماریاں چلتی بھی لمبے عرصے تک ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ علاج کی مفت اور سائنسی سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہے تو ساتھ ہی کمزور جسمانی مدافعتی نظام بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ لیکن دونوں صورتوں میں یہ مظہر نظام کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مظہر ہمیں پسماندہ خطوں یا ترقی یافتہ خطوں کے پسماندہ علاقوں میں دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن غذا اور خوراک کی فراوانی کے باوجود غذائیت کی کمی سے جسم کے مدافعتی نظام کی کمزوری اور بے تحاشہ موٹاپا سرمایہ داری کے جدید تحائف میں سے ایک تحفہ ہے۔

خوراک بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ دوسری تمام بنیادی انسانی ضروریات کی طرح سرمایہ داری میں اس انسانی ضرورت کو بھی منافع کمانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گوشت، اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار سے لے کر منڈیوں تک پہنچنے کے عمل میں ہر ہر مرحلے پر منافع خوری کو مقدم رکھا جاتا ہے اور انسانی ضرورت اور صحت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

زراعت کے عمل میں ہائبرڈ بیج اور زرعی ادویات کے استعمال نے فی ایکڑ پیداوار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان دو اشیا کی وجہ سے غذا کے معیار میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ زرعی ادویات جہاں ماحول کے لئے نقصان دہ ہیں وہیں ان کے بے دریغ استعمال سے کینسر کے امراض میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہائبرڈ بیج کے استعمال سے جسامت میں بڑے، بیماریوں سے محفوظ اور ایک جیسے پودے تو ملتے ہی ہیں لیکن لذت اور غذائیت میں کمی آتی ہے۔ زیادہ جسامت کے حامل پھل یا سبزیوں میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے لذت میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ پودا یا درخت کم وقت میں بڑی جسامت کی فصل دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ تمام معدنیات جو اسے زمین سے حاصل کرنی ہوتی ہیں کم وقت کی وجہ سے حاصل نہیں کر پاتا اور فصل میں غذائیت کی بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ہائبرڈ بیج کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ اس کی فصل سے حاصل ہونے والے بیج سے دوبارہ فصل نہیں لگائی جا سکتی جس کی وجہ سے زرعی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے اور اگر ہائبرڈ بیج کی پیداوار میں غلطی ہو جائے اور فصل توقع کے مطابق پیداوار نہ دے سکے تو اس کا سارا نقصان کاشتکار کو اٹھانا پڑ جاتا ہے۔

اگلا مرحلہ آتا ہے اس پیداوار کو منڈیوں تک پہنچانے کا جس کے لئے اسے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ پراسیسڈ (Processed) خوراک دو طرح کی ہوتی ہے: پہلی کم یا ہلکی پراسیسڈ اور دوسری زیادہ یا بھاری پراسیسڈ خوراک۔ ہلکی پراسیسڈ خوراک میں کٹی اور چھلی ہوئی اجناس شامل ہیں جن میں کسی قسم کے کیمیکل شامل نہ کیے گئے ہوں جو ان کے خراب ہونے کی میعاد کو بڑھا دیں۔ بھاری پراسیسڈ خوراک میں وہ تمام خوراک شامل ہے جس کے ذائقے کو بدلنے یا خراب ہونے کی میعاد کو بڑھانے کے لئے کیمیکل شامل کیے جائیں۔ یہاں ہماری توجہ کا مرکز بھاری پراسیسڈ خوراک ہے۔ آج پراسیسڈ خوراک ایک محلے کی دوکان سے لے کر بڑے سپر سٹوروں تک دستیاب ہے اور آپ وہی کھائیں گے جو آپ کے محلے کی دوکان پر کھانے کے لئے ملے گا۔ نوزائیدہ بچوں کے دودھ سے لے کر بریانی اور قورمہ مصالحہ تک ہر چیزبھاری پراسیسڈ خوراک ہے۔

بھاری پراسیسڈ خوراک میں حرارے، چکنائی، چینی، کاربوہائیڈریٹ اور سوڈیم بہت بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں۔ ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ بھاری پراسیسڈ خوراک ’Nutrient Dense‘ کے بجائے ’Calorie Dense‘ ہوتی ہے یعنی وزن کے حساب سے ان میں حرارے زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت وٹامن، فائبر یا ضروری نمکیات۔ جس کی وجہ سے کھانے والا اکثر ضرورت سے زیادہ حرارے جسم میں داخل کر جاتا ہے۔ مشینی اور انتہائی مصروف زندگی نے روزانہ کے معمولات میں سے جسمانی مشقت کو تقریباً نکال دیا ہے جس کی وجہ سے یہ زائد حرارے استعمال نہیں ہو پاتے اور جسم پر اضافی بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہ خوراک جلد ہضم ہونے والی ہوتی ہے اور ہضم ہونے میں بہت کم حرارے استعمال کرتی ہے۔ زیادہ چکنائی اور سوڈیم بلند فشارِ خون اور دل کی بیماروں کا باعث بنتے ہیں جبکہ زیادہ کاربوہائیڈریٹ اور چینی ٹائپ 2 ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور کینسر کی وجوہات بنتے ہیں۔ پانچ سال پر مبنی ایک تحقیق میں بھاری پراسیسڈ خوراک استعمال کرنے والوں میں کینسر کے کیسوں کی شرح 12 فیصد تک زیادہ پائی گئی ہے۔

پراسیسڈ خوراک میں ایسے اجزا بھی شامل کیے جاتے ہیں جو دماغ میں ڈوپامن کو مرتعش کرتے ہیں۔ ڈوپامن وہ کیمیکل ہے جو آپ کو خوشی محسوس کرواتا ہے۔ اب اگر کوئی خاص چیز کھاتے ہوئے آپ خوشی محسوس کریں تو آپ کا دل بار بار وہی کھانے کو چاہے گا۔ میٹھے کھانے خوشی کے مواقع پر پکانے کی روایات اور بچوں کے میٹھی ٹافیاں کھانے کے پیچھے یہی سائنس ہے کہ میٹھا کھانے سے ڈوپامن متحرک ہوتا ہے۔ بھاری پراسیسڈ خوراک میں لذت کو بڑھانے اور خراب ہونے کی میعاد کو بڑھانے کے لئے ایسے اجزا بھی شامل کیے جاتے ہیں جو اس سے پہلے کہیں بھی ٹیسٹ نہیں کیے گئے ہوتے اور صرف اس کمپنی کے پاس ہی اس کے ٹیسٹ کے نتائج ہوتے ہیں جوکمپنی انہیں خوراک میں شامل کر رہی ہوتی ہے۔ ایسے اجزا کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 500 ہے جو غذائی کمپنیاں اپنی خوراک کی پراڈکٹس میں استعمال کرتی ہیں لیکن ان اجزا کو کہیں اور ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔

منافعوں کی ہوس میں مبتلا کمپنیاں اپنے منافعوں میں دن دگنی اور رات چوگنی بڑھوتری چاہتی ہیں لیکن پیداواری معیشت میں اضافہ اتنی تیزی سے ممکن نہیں۔ اسی لئے پیداواری معیشت سے منسلک کمپنیاں روزانہ نئی سے نئی پراڈکٹ منڈی میں متعارف کراتی ہیں تا کہ گاہک کو اس کو خریدنے پر اکسایا جا سکے۔ لیکن انسان کو کھانا کھانے کے لئے کسی ترغیب یا اکسانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھوک خود ہی سب سے بڑی ترغیب ہے۔ لیکن کیا کھانا ہے، کہاں کھانا ہے، کیسے کھانا ہے اور وہی کیوں کھانا ہے؟ یہ ترغیب دی جا سکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے کھانے پینے کی عادات کو بھی تبدیل کیا جاتا ہے۔ ڈبوں میں بند اور پراسیسڈ خوراک کو زیادہ فائدہ مند اور صحت بخش بتانے کے لئے اشتہار بازی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ صرف ڈبے میں بند دودھ کی اشتہار بازی پر کیسے کیسے اشتہار نہیں بنائے گئے۔ گوالے کو گندے پانی کے جوہڑ سے پانی ملاتے دکھایا گیا، پھر جب دودھ گھر پہنچ گیا اور برتن میں آ گیا تو اس دودھ میں جراثیموں کو جمناسٹک کرتے دکھایا گیا۔ ڈبے میں بند گھی کی اشتہار بازی نے تو ماں کی محبت کو بھی نہ چھوڑا اور اس گھر سے ماں کی محبت ہی نکلوا دی جہاں وہ خاص ڈبے کا گھی نہیں پایا گیا۔ ٹیلیوژن اسکرینوں سے لے کر موبائل ایپس تک ہر جگہ مسلسل اشتہارات کی ایک بمباری ہے جو لوگوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ ان اشتہارات میں کھانے پینے کی چیزوں کو مبالغہ آرائی کی حدوں سے بھی کہیں آگے جا کے لذیذ اور خوبصورت بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے میک اپ کے ساتھ ساتھ اب خوراک کے اشتہارات میں خوراک کا باقاعدہ میک اپ بھی کیا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو اشتہار میں نظر آنے والی کھانے یا پینے کی اشیا بھی مصنوعی ہوتی ہیں کیونکہ اگر اصلی شے اشتہار میں استعمال کی جائے گی تو وہ زیادہ خوبصورت نہیں دکھائی دے گی۔ ان اشتہارات میں کام کرنے والے اداکار وں اور اداکاراؤں سے کچھ اس قسم کی اداکاری کروائی جاتی ہے جو کسی بھی طرح ایک نارمل انسان کا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ اشتہار میں کھانے کی لذت دکھانے کے لئے اداکار یا اداکارہ کے چہرے پر دکھائے جانے والے تاثرات میں اس حد تک مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے کہ اگر خوراک کے اشتہارات کو فوڈ پورن (Food Porn) کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

اس نظام میں ایک طرف خوراک کی بے تحاشہ پیداوار نسلِ انسانی کی بھوک کومکمل ختم کرنے میں ناکام ہے تو دوسری طرف جہاں خوراک کی کمی نہیں وہاں بھی ایک صحت مند انسانی سماج تعمیر نہیں ہو پا رہا۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ خوراک کی پیداوار سے لے کر انسانوں تک ترسیل پر منافع خوری کی ہوس کا راج ہے اور یہ راج اسی صورت میں ختم ہو گا جب اس دھرتی پر منافعوں کی ہوس سے پاک انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کرنے والا سوشلسٹ نظام رائج کیا جائے گا۔