عمر رشید

سرمایہ داری میں قدر زائدنچوڑے بغیر، غریب ممالک کا استحصال کیے بغیر، معاشی جارحیت اور بربادی پھیلائے بغیر نظامِ معیشت چل نہیں سکتا۔ معاشی خود مختاری کے بغیر ”قومی سالمیت“ ڈھونگ ہے۔ ساڑھے چار کروڑ انسانوں کا لہو پی کر، ساری دنیا مسمار کر کے اس نظامِ زر نے دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نیا توازن قائم کیا۔ برطانوی سامراج کے زوال سے امریکی سامراج کا ظہور ہوا۔ نئے سامراج نے اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) جیسے ادارے تعمیر کر کے غریب ممالک کی معاشی زندگی پر گرفت حاصل کر لی۔ ان اداروں کا مقصد عالمی سطح پر مروجہ معاشی پلان مسلط کرتے ہوئے منافع خوری بڑھانا اور سامراجیت کو پھیلانا ہی رہا ہے۔ عسکری جارحیت کے ساتھ سامراج نے انسانی حقوق اور امداد کا مکروہ اور منافقانہ نقاب اوڑھ کر معاشی حاکمیت کو مضبوط کیا۔ جنوب ایشیا میں پاکستان کا جنم ردِ انقلاب کے نتیجے میں اور مسلمان بورژوازی کی الگ تھلگ اور آزاد منڈی کی تلاش کے مد نظر ہوا۔ لیکن مملکت پاکستان کا تاخیر زدہ، پسماندہ، نااہل، جدید ٹیکنالوجی سے محروم اور ذہنی اور نفسیاتی طور پر غلام حکمران طبقہ اس جلے کٹے اور اجڑے ہوئے ملک کے وسائل اور انسانی محنت کو ترقی دینے سے بانجھ تھا۔ ثقافتی اور معاشی خستہ حالی نے اس آزاد ریاست کی خود مختار قوم کے حاکموں کو بھکاری بننے پر مجبور کر دیا۔

11 جو لائی 1950ء کو پاکستان آئی ایم ایف کا ممبر بنا۔ امریکی سامراج کے تلوے چاٹتے ہوئے یہاں کے حاکم طبقے نے معاشی پالیسیاں عالمی مالیاتی فنڈکے ہاتھ میں دے دیں۔ سیاسی طور پر خصی حکمران طبقے کی نااہلی کی وجہ سے ایوب خان نے آمریت مسلط کر دی۔ لیکن عسکری قیادت بھی کوئی سماجی اور معاشی مسئلہ حل نہ کر سکی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے پہلا قرضہ 8 دسمبر 1958ء میں حاصل کیا جس کی مالیت 25000 ڈالر تھی۔ اپنے دور حکومت میں اس آمریت نے دو قرضے مزید لیے۔ یہ قرضے ایمرجنسی فنڈ کے طور دیے گئے جس کے بدلے میں آئی ایم ایف کا معاشی پلان مسلط کیا گیا۔ جس کی شرائط تھیں کہ حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے اور بجٹ خسارہ کم کیا جائے۔ یہ سب کچھ اس نو مولود ریاست کو سیاسی طور پر اپنا اتحادی اور حواری بنانے کی واردات تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے تباہ حال معیشت کے تضادات اپنی انتہاؤں تک پہنچ چکے تھے۔ بلند شرح نمو کے اثرات اپنے کردار میں متضاد تھے۔ مٹھی بھر خاندانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جبکہ نو مولود پرولتاریہ کی محرومیاں مزید تلخ ہوتی گئیں۔ جس نے اپنا اظہار اس ملک کی سیاسی تاریخ کے واحد سوشلسٹ انقلاب 1968-69ء کی صورت میں کیا۔ ایک لینن اسٹ اور بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی میں یہ خلا ایک بائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی نے پر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں سوشلسٹ نعرہ بازی کرتے ہوئے ایک مزدور حکومت بنانے کا تاثر دیا گیا۔ کچلے ہوئے طبقات کے شدید دباؤ میں اس اقتدار کو انقلابی نوعیت کی حاصلات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کئی صنعتی شعبوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، کچھ جاگیروں پر قبضہ ہوا، مزدور اور طلبہ یونین بنانے کی اجازت ملی، سرمایہ دار طبقے پر کچھ ضربیں لگیں۔ لیکن معاشی اور ریاستی نظام سرمایہ دارانہ رشتوں میں ہی مقید تھا۔ یہ اصلاحات ادھوری تھیں۔ عالمی سود خور اداروں کی تلوار ملکی معیشت پر لٹک رہی تھی اس لئے قائد عوام نے انقلاب کی طاقت کو زائل کر نا شروع کر دیا۔ بھٹو نے دائیں طرف جھکتے ہوئے سوشلسٹ معیشت کو منظم کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول اٹھانا مناسب سمجھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اس سات سالہ دور میں 4 دفعہ قرضے کی بھیک مانگی گئی۔ یہ قرضے 18 مئی 1972ء، 11 اگست 1973ء، 11 نومبر 1974ء اور 9 مارچ 1977ء کو لیے گئے۔ سیاسی تبدیلیاں جو بھی رونما ہوئیں پاکستانی معیشت کا امریکی سامراج پر انحصار بڑھتا گیا۔ 11 سالہ ضیائی آمریت کے وحشیانہ دور میں بھی ریاست کو 2 بار آئی ایم ایف کے سامنے سر نگوں ہونا پڑا۔ 24 نومبر 1980ء اور 2 دسمبر 1981ء۔ صرف دو دفعہ اس لئے جانا پڑا کیونکہ اس خونی اور رجعتی آمر کو براہ راست پینٹاگون سے افغانستان میں نام نہاد جہاد کے عوض مسلسل اربوں ڈالر آ رہے تھے۔

سرمائے کے جمہوری سرکس کا تماشہ 1988ء میں دوبارہ شروع ہوتا ہے جس میں غریب عوام کی روایت کا درجہ رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہے۔پارٹی کے ذریعے محنت کشوں کو اپنے مسائل کم ہونے کی بڑی امید تھی مگر قیادت نے یہ طاقت سامراج سے ساز باز اور عوام سے غداری کا جرم کر کے حاصل کی تھی۔‘سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ‘ کے تحت سامراج نے اپنا پورا معاشی پلان مسلط کیا۔ اس دوران سرمایہ داری زیادہ وحشی اور جارحانہ انداز میں اپنا روپ دکھاتی رہی۔ 2 دسمبر 1988ء کو قرضے کی دو اقساط جاری کی گئیں جس کا مقصد نجکاری، ری سٹرکچرنگ، ڈاؤن سائزنگ اور دوسری مزدور کش پالیسیاں مسلط کر کے سرمایہ داروں کو مزید امیر کرنا تھا۔ جو کام ضیا الحق نہیں کر سکا اس پارٹی نے کر دکھایا۔ روٹی، کپڑا اور مکان چھینے جانے کی بنیاد رکھی گئی۔ جمہوریت کی کھوکھلی نعرہ بازی میں جمہور کا خاموش قتل عام شروع کیا گیا۔ یہ محنت کش طبقے سے تاریخی نظریاتی و سیاسی غداری تھی۔ آئی پی پیز کو اونے پونے ملکی کمرشل بینکوں سے پیسہ دے کر قومی بجلی گھروں کو بیچا گیا۔ ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے انتہائی عوام دشمن تھے۔ مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کی صورت میں آج تک غریب عوام یہ سزا بھگت رہے ہیں۔

16 ستمبر 1993ء میں مسلم لیگ نواز نے معیشت کو درست کرنے کیلئے پھر اسی عالمی ساہوکار سے مدد حاصل کی۔ نظریاتی اور سیاسی طور پر اس ملک کے صنعت کار طبقے کی نمائندگی کرنے والی اس قیادت نے مزدوروں پر ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی۔ یوم مئی کی چھٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ مزدوروں کو زندہ آگ کی بھٹیوں میں پھینکا گیا۔

قیادت کی کرسی دوبارہ محترمہ کے ہاتھ آئی۔ 22 فروری 1994ء سے دسمبر 1995ء تک پیپلز پارٹی نے 3 دفعہ عوام دشمن معاہدے کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کیے۔ 1997ء میں مسلم لیگ ’ن‘ نے دو مزید قرضے لیے۔ حکمران جو بھی آئے معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی ہی رہیں۔

مشرف کے دور اقتدار میں بھی انہیں دوبارہ اسی سامراجی اداروں کے تلوے چاٹنے پڑے۔ آئی ایم ایف نے اس دور میں کالے دھن کو سفید کرنے کی ریاستی پالیسی متعارف کروائی۔ بینکوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف ہر معیشت میں خدمات کے شعبے کو بڑھاتی ہے جو اپنے کردار میں طفیلی ہے اور صنعت کو تباہ کر کے صارفین کا ملک بنایا جاتا ہے جس کے معاشی سائیکل میں درمیانہ طبقہ آتا ہے اور غریب دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کر سکتا۔

24 نومبر 2008ء کو زرداری نے ملکی تاریخ کا بڑا پیکیج لیا اور ملک میں لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ غریب جنتا کی خوش فہمیوں کا خاتمہ اسی دور حکومت میں ہوا۔ بد عنوانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ محنت کشوں کی امنگوں کا جمہوری جنازہ نکلا اور ملک گیر سطح پر سیاسی بے حسی میں مزید اضافہ ہوا۔

2013ء میں مسلم لیگ ’ن‘ کی حکومت نے گردشی قرضہ اتارنے اور اپنا وقت پورا کرنے کیلئے 4 ستمبر کو ایک اور بڑا پیکیج لیا جس سے کھوکھلے اور غیر پیداواری شعبوں پر پیسہ لگا کر ترقی کی تشہیر اور دعوے کیے گئے۔ آئی ایم ایف کی واردات ہے کہ وہ غریب ممالک کو قرضہ دے کر اپنی معاشی پالیسیاں مسلط کرتا ہے جس کا مقصد چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس میں سود اتارنے کیلئے دوبارہ قرض لینا پڑتا ہے اور اسے ایک انقلاب ہی توڑ سکتا ہے۔ معاشی غلامی سیاسی طور پر بھی محکوم اور تابع بنا دیتی ہے۔

بڑھتے سیاسی خلا اور ’ن‘ لیگ سے ڈیپ سٹیٹ کے تعلقات کی بگاڑ کی کیفیت میں ریاست کے ایک دھڑے نے میڈیا کے تعاون سے ”تبدیلی سرکار“ کی راہ ہموار کی۔ جس میں کالی دولت کو سفید کرنے کے چکر میں پیدا ہونے والی نو دولتی اور لمپن قسم کی سرمایہ دار پرت کو بھرتی کیا گیا۔ کرپشن اور گورننس کو سارے سماجی مسائل کی جڑ قرار دیا گیا۔ قرضہ نہ لینے کی قسمیں کھائی گئیں۔ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرضہ لینے کی بجائے خود کشی کرنے کے وعدے کیے گئے۔ لیکن اقتدار کے بعد عمران خان کو پتا چلا کہ خزانہ ہمیشہ کی طرح خالی ہے اور معیشت تباہ ہے۔ انہیں بھی اپنے مائی باپ کے پاس جا کر واشنگٹن میں معافی مانگنی پڑی۔ ان کے پاؤں پکڑنے پڑے اور اپنی سیاسی زندگی کی بھیک مانگنی پڑی۔ جس کے نتیجے میں 3 جولائی 2019ء کو انتہائی سخت شرائط پر ایک پیکیج حاصل کیا گیا۔ جس میں ٹیکسوں میں اضافہ اور تمام ملکی وسائل کو گروی رکھنا شامل ہے۔ قرضے اور واجبات وغیرہ کم ہونے کی بجائے مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کے 106 فیصد تک چلے گئے ہیں۔ تین سالوں میں خزانے کے تین وزیر بدل چکے ہیں لیکن کوئی بہتری نہیں آئی۔ شوکت ترین نے تنبیہہ کی ہے کہ اگر وسط اکتوبر تک قرضہ نہیں ملا تو صورتحال مشکل سے ناممکن ہو جائی گی۔ سب سیاسی پارٹیوں کا معاشی پروگرام ایک جیسا ہے۔ جو کہ سرمایہ داری کی حدود میں ہی مقید ہے۔ سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ ان قرضوں کا بوجھ غریبوں پر ہی لادا جاتا ہے جس سے بجلی، گیس اور ایندھن کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔ حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیاں صرف اپنا وقت پورا کرتی ہیں اور لوٹ مار کی انتہا کرتی ہیں۔ ہر آنے والا مزید مہنگائی، بے روزگاری، لا علاجی اور دکھ لے کر آتا ہے۔ اس نظام کو اکھاڑے بغیر بقا کا کوئی راستہ نہیں۔

محنت کش طبقہ اور انقلابی سیاست

ماضی کو حال کے ساتھ جوڑے بغیر مستقبل کا منظر نامہ نامکمل اور ادھورا ہوتا ہے۔ آج یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ اس بد معاش اور رجعتی نظام کو یہاں کے مزدوروں، کسانوں اور طلبہ نے ایک وقت میں مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ حکمران طبقے کی طاقت، جاہ و جلال اور فرعونیت کو خاک میں ملا دیا گیا تھا۔ ریاستی طاقت ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی تھی۔ اس انقلاب کی داستان کا ذکر ہمارے عظیم انقلابی استاد کامریڈ لال خان نے اپنی کتاب ”پاکستان کی اصل کہانی: 68-69ء کا انقلاب“ میں تفصیل سے کیا ہے۔ جس کو سمجھے بغیر پاکستان میں انقلابی سیاسی تناظر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔

انقلاب یا کوئی بڑی عوامی تحریک جہاں عام مرد و زن کی عمومی سوچ میں غیر معمولی جرات، حوصلے، عزم اور اجتماعی احساس کو جگا دیتی ہے، ان کے سیاسی ظرف کو بلند کرتی ہے، ماضی کے بیہودہ تعصبات کو پرے جھٹک دیتی ہے، وہاں تحریک کی پسپائی پورے سماج کو ماضی کے اندھیروں میں بھی ڈبو دیتی ہے۔ ایسے میں حکمران طبقے کا لاؤ لشکر اپنی رجعتی اخلاقیات، افکار اور مسلح قوتوں سے دوبارہ حاکمیت میں آ جاتا ہے۔ جو بغاوت کرنے کا انتقام محنت کش طبقے سے بخوبی لیتا ہے۔ ہر اس سوچ کو مٹا دینے کی کوشش ہوتی ہے جو روشنی دے۔ ہر اس سر کو کچل دیا جاتا ہے جو جھکنے سے انکار کر دے۔ ہر اس قلم کو چھین لیا جاتا ہے جو سچ لکھنے کی جسارت کرے۔ ہر وہ زبان حلق سے کھینچ لی جاتی ہے جو خاموش رہنے سے انکار کرے۔ اس تاریخ کو مسخ کر دیا جاتا ہے جو انقلابی رجحانات کو شکتی دے اور ہر اس یاد کو کھرچ دیا جاتا ہے جو محکوموں میں حوصلہ پیدا کرے۔ روحانی پولیس اور اخلاقی مبلغین کے تسلط سے حکمران طبقہ ان خوابوں پر پہرا بٹھا دیتا ہے جن میں انسان اپنے خوشحال مستقبل کی امیدیں باندھتا ہے۔ ادھورے انقلاب نے یہ سماج تاراج کر دیا۔ بالخصوص ضیا الحق کی وحشت میں انقلابی سوچوں کو ختم کر دیا گیا۔ آج پاکستان میں مروجہ سیاسی افق پر نیم فسطائیت، رجعتی عناصر اور اجتماعی سیاسی بے حسی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں محنت کشوں کی مزاحمت کا ایک درخشاں باب بھی رہا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام، چین کی سرمایہ داری سے مصالحت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریاتی غداری نے وہ بھیانک اثرات مرتب کیے ہیں جہاں سوچ بدظن، مایوس اور خوفزہ ہو گئی ہے۔ مگر انقلابی سوشلزم کی سنجیدہ اور گہری بصیرت رکھنے والے انقلابیوں نے انقلاب کا پرچم بلند رکھا ہے۔ حالات کے رجعتی تھپیڑے ان کے آدرشوں سے زیادہ طاقتور نہیں تھے۔ لیکن مجموعی طور پر سوشلزم کو مروجہ سیاست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ حاوی دانش نے اسی نظام زر کو انسانیت کا آخری مقام بتایا ہے۔ تاہم 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش اور کورونا کے بحران نے اس نظام کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔ پوری دنیا میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اصلاح پسند سیاست بے بس اور متروک حالت میں پائی جاتی ہے۔ اصلاح پسندی کا پودا معاشی عروج میں ہی پرورش پا سکتا ہے۔ زوال اور قلت میں یہ پودا سوکھ جاتا ہے۔ سوشل ڈیموکریسی یورپ میں مر چکی ہے اور اس جیسے سیاسی نظریات اب ماضی کے مزار بن گئے ہیں۔

2020ء کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں لیبر فورس ساڑھے سات کروڑ ہے۔ یہ محنت کشوں کا بہت بڑا اجتماع ہے۔ اس کی ہر اول پرتیں اس نظام کے اداروں کی طاقت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر آج کوئی بھی حاوی سیاسی پارٹی عوام یا مزدوروں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے کی جرات نہیں کرتی۔ اس سیاسی خلا میں درمیانے طبقے کو مختلف بے معنی، مجہول اور تشکیک زدہ پروگراموں پر مبنی پارٹی بنانے کی بہت جلدی ہے۔ لیکن جو سیاست اور نظریات اس نظام کی حدود کو نہیں چیرتے، عالمی اور مقامی گِدھوں سے معیشت کو نہیں آزاد نہیں کرواتے، جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کرتے اور قومی اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ نہیں کرتے وہ غریب عوام کو سکھ اور آسودگی نہیں دے سکتے۔ آئی ایم ایف کی تلوار سرکاری اور غیر سرکاری محنت کشوں پر بلا تفریق چل رہی ہے۔ ساتھ ہی ٹیکسوں اور مہنگائی کے کوڑے برسائے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ ساری کٹوتیوں کے باوجود ریاست اپنے خسارے اور قرضے کم کرنے کی بجائے ان میں مزید دھنس چکی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی سہولیات سے بھی خود کو نکال رہی ہے۔ محنت کشوں اور عوامی اثاثوں کی بولیاں لگائی جا رہی ہیں۔ سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور رعایت دی جا رہی ہے جبکہ مزدوروں کے بچوں سے روٹی کا آخری نوالہ تک چھینا جا رہا ہے۔ یہ ریاست خود کو صرف سکیورٹی معاملات تک محدود کر رہی ہے۔ سود کی ادائیگیوں کے بعد بجٹ کا بڑا حصہ بارود اور تباہی کے آلات کی خریداری پر خرچ کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اتنے وسائل نہیں بچتے کہ فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر تعمیر ہو سکے۔

مزدور سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پرائیویٹ شعبوں میں محنت کشوں کی حالت زار انتہائی درد ناک ہے۔ یہ فیکٹریاں نہیں قتل گاہیں ہیں جہاں بوسیدہ سرمایہ داری میں حادثات معمول ہیں۔ بے روزگاری کے اس بحر میں 12 گھنٹے اوور ٹائم کے ساتھ مشقت کروانا معمول کی بات ہے۔ ٹریڈ یونین میں بھی ایک فیصد سے زیادہ مزدور منظم نہیں ہیں اور جو منظم ہیں ان کی زیادہ تر قیادتیں مالکوں کے ساتھ ساز باز کر کے مزدوروں کو دھوکہ دیتی ہیں۔ انقلابی سیاست کی عدم موجودگی میں جو سوچ پیدا ہوتی ہے وہ سرمایہ داری کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے۔ 99 فیصد مزدور خام مال ہیں۔ لیبر کورٹس، سوشل سکیورٹی کے ادارے اور ’آئی ایل او‘ کے قوانین سرمایہ دار کی جیب میں ہیں۔ مزدور کی طاقت اس کے کام میں ہے اور کام چھوڑ ہڑتال ہی وہ دباؤ پیدا کرتی ہے جو سرمائے کی وحشت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

سرکاری اداروں میں چلنے والی تحریکیں نجکاری یا آئی ایم ایف کے خلاف کم اور مزدوروں کا غصہ نکالنے کیلئے زیادہ چلائی جاتی ہیں۔ دہائیوں سے مراعات اور طاقت کے نشے میں بے کار اور بے عملی کی حالت میں بیشتر قیادت انقلابی سمجھ بوجھ سے محروم اور زنگ آلود ہو چکی ہے۔ اس طرح نئے بھرتی ہونے والے مزدور عارضی اور ٹھیکے پر ہیں۔ مستقل اور باعزت روزگار آج اس ملک میں ایک سہانا خواب بن چکا ہے۔ ایک حکم پر 16000 ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے جن کے احتجاجوں میں عوام دوستی کا ناٹک کرنے والی سیاسی پارٹی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں۔ شکوہ کیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل کے ذریعے 2010ء میں جو بھرتیاں کی گئی تھیں ان کو کوئی بھی عدالت کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ لیکن اگر سرسری نظر ڈالیں تو ریاست نے عدالتوں کے ذریعے بہت سے مزدور دشمن بل منظور کروائے ہیں۔ یہاں تک کہ عدالتی قتل بھی کروائے گئے ہیں۔ طبقاتی معاشرے میں کوئی بھی ریاستی ادارہ غیر جانبدار نہیں ہو سکتا۔ ان اداروں کا مقصد ہی سرمائے کا تحفظ ہوتا ہے۔ اسی نظام زر کے حامی مکتبہ فکر کے صحافیوں پر بھی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جو ریاست کے ڈھانچوں میں پڑنے والی دراڑوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ کالی دولت اتنی بے قابو ہے کہ نہ صرف یہ سفید معیشت کو بلیک میل کرتی ہے بلکہ اسے کنٹرول بھی کرتی ہیں۔ روپے کی بے قدری سے افراط زر کا طوفان ہے جس میں بے بس بیروزگار زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ معاشی حملوں کی یلغار سے لگنے والوں زخموں کے کرب میں مبتلا پرولتاریہ عارضی طور پر سکتے کی حالت میں ہے جو انفرادی بقا کی کشمکش میں سیاسی معاملات سے بیگانہ ہو گیا ہے لیکن مرا نہیں ہے۔ جینے کی جبلت بڑی طاقتور ہوتی ہے۔ یہ اندھیر نگری، یہ ظلم و ستم، یہ تشدد اور وحشت سدا نہیں چل سکتی۔ تغیر مادے کی بنیادی خاصیت ہے۔ تضادات حرکت کو مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ شعور مادی حالات کے تابع ہو تا ہے اور ایک وقت میں حالات پر اثرانداز ہو کر اس کی ڈگر بدل دیتا ہے۔ اس بڑھتے سیاسی خلا سے حکمرانوں کے دانشور بھی خوف زدہ ہیں۔ پرولتاریہ کا وجود اور سماج میں اس کا معاشی کردار اس کو سماج روک دینے اور اس پر قبضہ کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔

اس نظام میں رہتے ہوئے ہر حکمران اور ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ سامراجی دھونس اور جکڑ کا خاتمہ خود سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے۔ انقلابی کیڈروں پر مشتمل اور ملک گیر سطح پر منظم انقلابی تنظیم‘ انقلابی لٹریچر اور مضبوط ڈھانچوں کے ذریعے قومی سطح پر پھٹنے والے تضادات کے ماحول میں ایک عوامی طاقت بن سکتی ہے اور انقلابی سوشلزم کی منزل کو محنت کش طبقے کے قریب لا سکتی ہے۔ پورے خطے کے کچلے ہوئے عوام کیلئے یہ سرخ سویرا نئی زندگی کی نوید بن سکتا ہے اور معاشرے کو وحشت کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔