راہول

دنیا کے مختلف ممالک پر قابض انتہائی دائیں بازو کے حکمرانوں کی کورونا وبا سے متعلق ناکام پالیسیوں نے ان کی حکومتوں کوہلا کر رکھ دیا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں شکست سے لے کر برازیل میں بولسنارو کی حمایت میں کمی تک، اس وبا نے ان رجعتی حکمرانوں کی تاریخی نااہلی کو بے نقاب کیا ہے۔ ایسے حکمرانوں کی اس فہرست میں دو ماہ قبل تک محض بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی وہ واحد مثال تھا کہ جس کی اپنے اقتدار پر پکڑ دیگر رہنماؤں کے مقابلے میں کچھ بہتر معلوم ہو رہی تھی۔ اس کی ایک وجہ کورونا کی پہلی لہر میں اپنائی گئی مودی کی سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی تھی۔ مگر کسے خبر تھی کہ جس وائرس کے خلاف ”مودی جی“ فتح کا اعلان کر چکے ہیں اُس نے تو ابھی ہندوستان کی چوکھٹ پر سہی طرح دستک بھی نہیں دی تھی۔ کچھ ہی ہفتوں بعد اس وبا کے ایک ایسے جھونکے نے پورے ہندوستان کو اس شدت سے اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بھارت دنیا بھر میں کورونا وبا کا مرکز بن گیا۔

چند ہی روز میں کورونا کی شدت نے چکا چوند روشنیوں اور دمکتی راتوں میں چھپی اُن ویرانیوں کو بے نقاب کر دیا جنہیں بالی ووڈ کی مہنگی فلموں اور بیہودہ ڈراموں میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترقی کے جھوٹے دعوے خاک میں مل گئے۔ لوگوں کی اموات اور اُن کے انتم سنسکار کے لیے بلکتی غریب عوام کی تصاویر نے دنیا بھر کے سامنے بھارتی سرمایہ داری کی وحشت کو عیاں کر دیا۔ ایک جدید ریاست کی دعویدار بھارتی سرکار کے منہ پر دہلی، ممبئی، لکھنو اور پونا کے ہسپتالوں کے باہر ذلیل و رسوا ہوتے عوام کی تصاویر اور دل دہلا دینے والے مناظر کسی تمانچے سے کم نہیں ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں کے حکمران مسلسل گزشتہ کئی سالوں سے ”ترقی“ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے۔ وینٹیلیٹروں سمیت ہسپتالوں میں بستروں کی قلت اور آکسیجن کی عدم دستیابی نے اس نیو لبرلزم کے برج کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو جانے والے افراد کی ’انتم کریا‘ کے لیے لکٹریاں بھی اس قدر محدود ہو گئیں کہ لوگ اپنے پیاروں کی آخری رسومات کی ادائیگی سے بھی محروم ہوتے چلے گئے۔

28 اپریل کو عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ رپور ٹ کے مطابق بھارت میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کورونا کیس رپورٹ کیے جا چکے تھے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں رپورٹ کیے جانے والے 50 فیصد نئے کیسوں کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ اس دوران صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں 40 لاکھ کیس رپورٹ کیے گئے۔ اسی طرح کیرالا، کرناٹکا، اتر پردیش اور تامل ناڈو میں دس لاکھ کیس رپورٹ کیے گئے جبکہ اموات کے حساب سے بھارت دنیا میں اُس وقت تک 197,894 اموات کے ساتھ چوتھا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ وبا کی شدت اس قدر تھی کہ چند ہی روز میں یہ تمام اعداد و شمار دو گنے ہو گئے۔ صرف مئی کے پہلے ہفتے میں ہی بھارت میں ہر گھنٹے میں 150 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اسی ایک ہفتے میں یہاں 23.3 ملین کیس پورٹ کیے گئے جو کہ روزانہ کے حساب سے تقریباً 3 لاکھ 80 ہزار سے چار لاکھ کے درمیان بنتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کچھ غیر سرکاری اداروں اور ماہرین کے مطابق اس دوران بھارت میں روزانہ تقریباً 20 لاکھ تک نئے کیس رپورٹ کیے گئے جبکہ ڈاکٹر آشیش جھا کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی حقیقی تعداد روزانہ 25 سے 50 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر جھا کے مطابق حکومت کورونا کیسوں سے تو نظریں چرا سکتی ہے مگر اموات سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ ہسپتالوں میں لائے جانے والے کئی افراد کی اموات کی وجہ کو بظاہر کورونا نہیں گردانا جاتا حالانکہ جانچ کیے جانے پر ان سبھی افراد کی موت سانس لینے میں دقت (Respiratory Failure) کے سبب ہی ہو رہی ہے۔ حکومت بظاہر انفیکشن فیٹیلیٹی ریٹ (IFR) 1 فیصد کے لگ بھگ بتا رہی ہے حالانکہ یہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

بھارتی حکمرانوں کے پاس وبا کی اس دوسری لہر کا سامنا کرنے کے لئے کئی ماہ کا عرصہ موجود تھا۔ مگر اس دوران اُن کی ڈھٹائی، نااہلی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آئی بلکہ مودی خود اس وبا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذمہ دار ثابت ہوا۔ انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن کے صدر نے مودی کو اس لہر کے دوران سب سے زیادہ قصوروار ٹھہراتے ہوئے ”سپر سپریڈر“ کا لقب دیا۔ جنوری میں کورونا کے خلاف ”فتح“ کا اعلان کرتے ہوئے مودی سرکار نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ عوام کو گمراہ کیا اور تمام تر احتیاطی تدابیر کو ہوا میں اڑا دیاگیا۔ اپریل میں منعقد ہونے والے کمبھ میلے میں کچھ محتاط اندازوں کے مطابق کئی ہفتوں تک تقریباً 9 ملین لوگوں نے تک شرکت کی۔ ماہرین کے مطابق اگر اس میلے پر پابندی عائد کی جاتی تو شاید اتنے بڑے نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں حکومت بے بس نظر آئی تو دوسری طرف عوام میں کورونا ویکسین لگانے کی شرح میں بھی بدترین کمی دیکھی گئی۔ عوام میں شعوری طور پر یہ تاثر عام کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی کہ جیسے بھارتی عوام کے ”جینز“ میں قدرتی طور پر ایسی ”خوبی“ موجود ہے جو انہیں کسی طور پر وائرس سے متاثر نہیں ہونے دے گی۔

جنوری کے شروعاتی دنوں تک محض 10 فیصد آبادی کو ہی کورونا کی پہلی ڈوز جبکہ صرف 2 فیصد افراد کو ہی دوسری ڈوز لگائی جا سکی تھی۔ جبکہ کئی ایسی ریاستیں بھی موجود تھیں جن کے پاس ویکسینیشن کا آغاز کرنے کے لیے سرے سے ویکسین دستیاب ہی نہیں تھی۔ بڑے نقصان کے باوجود اب تک 1.3 ارب آبادی کے اس ملک میں محض تین فیصد افراد کو ہی ویکسین لگائی جا سکی ہے جبکہ گزشتہ ہفتے سے کاروبار بھی دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھارت میں تیسری لہر کی پیشین گوئی بھی کر رہے ہیں اور اُن کے مطابق جو کچھ ہوا وہ کسی بڑی تباہی کے آغاز کا بھی آغاز ہے۔

اسی کے ساتھ کورونا کیسوں کے عروج کے دنوں میں اعلیٰ سرکاری حکام کی طرف سے گائے کے پیشاب اور گوبر کے استعمال سمیت مختلف غلیظ قسم کے مشورے دیئے گئے جن سے لوگوں میں اب نئی قسم کی جلد کی بیماریوں نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔

حکمرانوں کے اس قدر غیر سنجیدہ رویوں کی وجہ سے ریاستی سطح پر کوئی موثر انتظامات نہیں کیے جا سکے۔ ہسپتالوں میں بیڈ، وینٹیلیٹر اور آکسیجن ناپید ہو گئے اور لوگوں کی بڑی تعداد فٹ پاتھوں پر سسکتے یا پھر ہسپتالوں کے کوریڈورز میں دم توڑتے دیکھی گئی۔ اسی دوران مختلف ریاستوں میں ریاستی انتخابات کا سلسلہ بھی جاری رہا جہاں حکومتی امیدواروں کی الیکشن مہم سمیت مخالفین نے بھی کورونا کے پھیلاؤ میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ مغربی بنگال میں ہوئے انتخابات میں اپنی مہم پر بی جے پی نے اربوں روپے خرچ کیے اور بنا کسی احتیاط کے لوگوں کے جلسے منعقد کروائے۔ جلسوں کے دوران مودی کی طرف سے ایسی ٹوئٹس بھی کی گئیں جن میں عوام کو اکھٹے ہونے پر ”سراہا“ گیا۔ البتہ بی جے پی کے وبا کے متعلق اس قدر غیر سنجیدہ رویوں اور معاشی طور پر اپنائی گئی تباہ کن پالیسیوں کے نتیجے میں کیرالا اور مغربی بنگال میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑاہے۔ آنے والے دنوں میں اتر پردیش میں بھی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جہاں حکومت کی فسطائی پالیسیاں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔ اتر پردیش حکومت نے پچھلے دنوں ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی کی شکایات کرنے پر عام لوگوں ہی کے خلاف قانونی کاروائیاں کیں اور حکومت کو بدنام کرنے کی ایف آئی آر درج کروائی ہیں۔ یوگی ادیتیاناتھ کی یہ فسطائی حکومت عوام کے لئے کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔ جس طرح مذہب و دھرم کی آڑ میں فسطائی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے یہ حکومت عوام پر مظالم کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے اس کے پیش نظر اس کی ساکھ بری طرح گرنے کی طرف گئی ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں مودی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ ایسے میں یو پی کے انتخابی نتائج مودی کے خلاف عوامی رائے عامہ کا اظہار ہو سکتے ہیں۔

2014ء میں عوام کو ”اچھے دنوں“ کا جھانسا دے کر اُن کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شہریت کے متعلق قوانین کا اجرا ہو یا پھر کسانوں کے خلاف بدترین قانون سازی، ہر سطح پر بی جے پی کی اس فسطائی حکومت نے محنت کش عوام کی زندگیوں کو مزید برباد ہی کیا ہے۔ ایک سو تیس ارب لوگوں پر مبنی اس ملک کے محنت کش عوام کی اکثریت گزشتہ کئی دہائیوں سے بدترین غربت، بیروزگاری، لاعلاجی اور غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ حالیہ کورونا وبا نے اُن کی زندگیوں کو مزید دشواریوں میں دھکیل دیا ہے۔ خاص طور پر شہروں میں زندگی گزارنا اب ناممکن بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سینٹر فار مانیٹرنگ اکانومی (CMIE) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مارچ کے اختتام تک بھارت میں اجرتی نوکریوں میں 9.8 ملین کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جبکہ اس سال کے اختتام تک اس میں مزید کمی دیکھی جائے گی۔ دوسری طرف بھارتی معیشت بھی اس وقت سست روی کا شکار ہے جس سے آنے والے دنوں میں بدتر صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور پینے کے صاف پانی سمیت اکثریت عوام سے جڑی تمام تر بنیادی ضروریات اس نظام میں اب غریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ کورونا وبا نے ہندوستانی سرمایہ داری کی ترقی کی جعلسازی کو بے نقاب کر دیا ہے۔

جہاں ہندوتوا کا جبر اور غلبہ دیکھا جا سکتا ہے وہاں گزشتہ پوری دہائی ہمیں ہندوستان میں عام ہڑتالوں اور احتجاجوں کی دہائی کے طور پر بھی نظر آتی ہے۔ مگر وہ تمام تحریکیں انقلابی قیادت کے فقدان کی بدولت کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں۔ بھارتی محنت کش طبقے کو آج جہاں مودی کی فسطائیت سے برسرِ پیکار ہونا ہے وہیں روایتی مصالحتی قیادتوں کے خلاف بھی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا ہے۔