طبقاتی جدوجہد

4 مئی 2021ء کی شب کامریڈ آصف بٹ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ ایک طویل عرصے سے گرودوں کے عارضے میں مبتلا تھے جو بعد ازاں جگر کی تکلیف کا سبب بنا۔ لیکن تکلیف کے اس عرصے میں بھی کامریڈ آصف بٹ اپنے کام کے ساتھ نہ صرف مخلص رہے بلکہ اس میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔ آصف بٹ کا نام پاکستان کے بائیں بازو میں کسی اجنبیت کا شکار نہیں ہے۔ یہاں کے بائیں بازو کی بیشتر اشاعتیں لاہور سے ہوتی رہی ہیں اور کامریڈ آصف بٹ کی صورت میں اس شعبے میں بائیں بازو کا ایک ہمدرد موجود تھا۔ وہ اپنی نوجوانی سے ہی شعبہ اشاعت اور ساتھ ہی ترقی پسند رحجانات سے منسلک ہو گئے۔ منو بھائی کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ سوشلسٹ نظریات کے قریب تر ہوئے اور پھر ان نظریات سے ان کی رغبت آخری لمحے تک قائم رہی۔ ڈاکٹر مبشر حسن سے آصف بٹ کی خصوصی محبت تھی اور کامریڈ لال خان کے ساتھ بھی انتہائی خلوص اور اپنائیت رکھتے تھے۔

کمیونسٹ تحریکوں میں پرنٹنگ پریس کی اہمیت کلیدی نوعیت کی ہے۔ لٹریچر اور پرچوں کی اشاعت کمیونسٹ تحریک کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ کارل مارکس سے لے کر لیون ٹراٹسکی تک کے مختلف خطوط میں پرنٹنگ پریس کی اہمیت کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ گو کہ طبقاتی جدوجہد کی اپنی پرنٹنگ پریس نہیں رہی لیکن کامریڈ آصف بٹ کی پرنٹنگ پریس نے اس کمی کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا۔ طبقاتی جدوجہد اور کامریڈ آصف بٹ کا ساتھ دہائیوں پر مشتمل ہے۔ کئی عشروں سے پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد کی باقاعدہ اشاعت میں کامریڈ آصف بٹ کا ایک کلیدی کردار رہا۔ پرچے کے علاوہ وہ طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز کی درجنوں کتابوں سے کی اشاعت کا فریضہ انتہائی دلجمعی سے سر انجام دیتے رہے۔ کامریڈ آصف بٹ رات گئے تک پرنٹنگ ہاؤس میں خود اپنی نگرانی میں ان تحریروں کی اشاعت یقینی بنواتے۔ اس کے علاوہ ہنگامی بنیادوں پر لیف لیٹ، سٹیکروں اور پوسٹروں کی بروقت اشاعت انہی کی مرہون منت ہوتی تھی۔ جدوجہد کے انگریزی جریدے ایشین مارکسسٹ ریویو میں بھی ان کی دلچسپی دیدنی ہوتی تھی۔ سالانہ کانگریسوں کی دستاویزات سے لے کر کارڈوں کی پرنٹنگ تک کے اہم فریضے کامریڈ آصف بٹ کی زیر نگرانی سرانجام دیے جاتے۔ پھر ہر کانگریس میں ان کی باقاعدہ شرکت بھی لازمی ہوتی۔ ہزاروں مندوبین میں کامریڈ آصف بٹ کا چہرہ مسکرا رہا ہوتا تھا۔ لیکن اس سفر میں کئی کٹھن گھڑیاں بھی آئیں۔ خصوصاً گزشتہ کچھ برسوں میں جب سے پاکستان میں نام نہاد تبدیلی کی زہر آلود فضا چلی اور ریاست کا دباؤ سخت ترین نوعیت اختیار کرتا گیا۔ کامریڈ علی وزیر کی قیادت میں جب پشتون تحریک نے لاہور میں جلسے کا انعقاد کیا تو ان کی پرنٹنگ پریس پر بھی یلغار ہوئی۔ لیف لیٹ اٹھا لیے گئے۔ جدوجہد کے شمارے کی اشاعت میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ لیکن کامریڈ آصف بٹ ہمیشہ کی طرح تاریخ کی درست سمت کھڑے رہے۔ وہ صرف طبقاتی جدوجہد کی اشاعت کا فریضہ سرانجام نہیں دیتے تھے بلکہ ایک نظریاتی ساتھی بھی تھے۔ سوشلسٹ انقلاب کی تیاری میں ان کا اہم کردار تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہم کامریڈ آصف بٹ کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور طبقاتی نظام کے خلاف سوشلسٹ فتح تک جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔