حسن جان
بھارت میں کسانوں نے دہلی کی طرف اپنے مارچ کو مزید وسعت دیتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ بھارتی کسان دراصل تین بلوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہیں ستمبر میں لوک سبھا سے پاس کر کے قانون کی شکل دے دی گئی ہے۔ ان قوانین کے تحت زرعی منڈیوں کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں زرعی مصنوعات کے لیے ”منڈی سسٹم“ کو ختم کر دیا جائے گا جس کے تحت کسانوں کی زرعی اجناس کو حکومت رعایتی نرخ پر خریدتی تھی۔ کسانوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان قوانین کے نافذ ہونے کے بعد انہیں منڈی کی قوتوں یعنی دیوہیکل زرعی کمپنیوں اور اجارہ داریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ ان قوانین سے پہلے کسان اپنی اجناس کو رعایتی نرخوں پر حکومت کی جانب سے مقرر کردہ آڑھتیوں کو بیچتے تھے۔ اگرچہ ان قوانین میں منڈی سسٹم کے خاتمے کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا گیا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگلا مرحلہ رعایتی نرخوں کے تحت رزعی مصنوعات کی خریداری کے نظام کا خاتمہ ہی ہے۔ کسان تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ یا تو ان تین قوانین کو منسوخ کیا جائے یا تمام متعلقہ کسان تنظیموں سے مذاکرات کر کے زرعی مصنوعات کے لیے رعایتی نرخوں کے نظام کو قانونی شکل دی جائے۔
ان تین قوانین میں سے سب سے اہم ’فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس بل 2020ء‘ ہے جو موجودہ تحریک کی ابتدائی وجہ بنی۔ اس قانون کے تحت کسانوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زرعی اجناس حکومت کی جانب سے مختص منڈیوں کے باہربھی بیچ سکتے ہیں۔ اس طرح کسان اب اپنی اجناس پروسیسنگ پلانٹوں، کولڈ سٹوریج یا انفرادی گاہکوں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔ بظاہر تو اس قانون پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے کسانوں کے پاس متعدد خریدار دستیاب ہوں گے اور انہیں اس قانون سے فائدہ پہنچنا چاہیے۔
جیسا کہ واضح ہے کہ احتجاجی کسانوں کی اکثریت پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش سے ہے۔ دیگر ریاستوں کے کسان احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان ریاستوں (پنجاب اور ہریانہ) میں زرعی اجناس کی حکومتی خریداری کا نظام بہت مضبوط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونیوالے زرعی انقلاب کا آغاز پنجاب سے ہی ہوا تھا اور زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے حکومت کی جانب سے متعدد مراعات اور سبسڈیوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک منظم نظام میں تبدیل ہو گیا۔ ہر سال حکومت تقریباً 23 زرعی اجناس کے لیے رعایتی نرخوں کا اعلان کرتی ہے لیکن حکومت زیادہ تر گندم اور چاول ہی خریدتی ہے اور ان ریاستوں میں کسان بھی زیادہ تر چاول اور گندم ہی کاشت کرتے ہیں۔ دوسری ریاستوں میں حکومتی خریداری کی شرح یا تو بہت کم ہے یا ہے ہی نہیں۔ ریاست بہار کی حکومت نے 2006ء میں ہی حکومتی خریداری کے قانون کو ختم کر دیا تھا۔ جیسا کہ نیتی آیوگ (ایک حکومتی تھینک ٹینک) کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ”مثلاً پنجاب میں چاول کاشت کرنے والے 95 فیصد اور ہریانہ میں 70 فیصد کسانوں کی اجناس کو حکومت خریدتی ہے جبکہ چاول کاشت کرنے والی دیگر بڑی ریاستوں اتر پردیش (3.6فیصد)، مغربی بنگال (7.3فیصد)، اڑیسہ (20.6فیصد) اور بہار (1.7فیصد) میں بہت کم کسان حکومتی خریداری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔“
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ اگلے مرحلے میں حکومت رعایتی نرخ کا خاتمہ کرے گی اور انہیں منڈی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اوردیو ہیکل کارپوریشنوں کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا۔ عمومی طور پر ان زرعی اجناس کے لیے رعایتی نرخ اوپن مارکیٹ کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو اپنی اجناس کے لیے ہر سال منافع یقینی ہوتا ہے۔ لیکن ان نئے قوانین کے بعد ان کے منافعے خطرے میں پڑ جائیں گے کیونکہ اگر حکومت نے خریداری ختم یا کم کر دی اور پرائیویٹ منڈیاں کھلنے لگیں تو اس سے زرعی اجناس کی قیمتیں فوراً نیچے گر جائیں گی۔
بھارت کی وزارت زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق، ”چند ریاستوں سے موصول شدہ اعداد و شمار کے مطابق حکومتی خریداری سے زیادہ تر درمیانے اور بڑے کسان مستفید ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے اور غریب کسانوں کا حصہ بہت کم ہوتا ہے۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں ان میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔“ اسی لیے احتجاجی کسانوں کی اکثریت نسبتاً خوشحال اور بڑے کسان ہیں۔
اسی طرح نئے قوانین کے تحت کنٹریکٹ فارمنگ کا بھی اجرا کیا جائے گاجس کے خلاف کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ یہاں بھی منڈی کی قوتوں یعنی دیوہیکل کارپوریشنوں کی تھانیداری کو مضبوط کیا جائے گا کیونکہ یہی کمپنیاں کسانوں کے ساتھ زرعی پیداوار کے لیے معاہدے کریں گی۔ لیکن ان کی قیمتوں کا تعین بھی یہی کمپنیاں ہی کریں گی۔ ظاہر ہے کہ کسانوں کو اپنی اجناس کے لیے حکومتی رعایتی نرخوں جیسی قیمت تو نہیں ملے گی۔ نجی ٹھیکیدار اپنے منافعوں کے لیے قیمتوں کو نیچے لانے کی کوشش کریں گے۔
2014ء میں جب سے مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت براجمان ہوئی ہے سرمایہ داروں اور بڑے کاروباریوں کی دولت میں دیوہیکل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان نئے زرعی قوانین کا مقصد بھی یہی ہے کہ مودی کے سرمایہ دار سرپرستوں کی دولت میں مڈل کلاس کسانوں کی قیمت پر اضافہ کیا جائے۔ سوشل میڈیا میں اِن دنوں ایک وڈیو بہت وائرل ہوئی ہے جس میں لوک تنترا ٹی وی (ایک یوٹیوب چینل) کا ایک رپورٹر چھپکے سے اڈانی گروپ (انڈیا کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں سے ایک) کے ایک زیر تعمیر گودام کا دورہ کرتا ہے۔ رپورٹر کے مطابق یہ زیر تعمیر گودام ہریانہ میں واقعہ ہے جس کا اپنا نجی ریلوے ٹریک بھی ہے۔ گودام کی تعمیر دراصل زرعی اجناس کے ذخیرے کے لیے ہے۔ یہ واضح طور پر بڑے کاروباریوں اور مودی حکومت کے گٹھ جوڑ کو دکھاتا ہے۔ یہ سرمایہ دار ان قوانین کے نفاذ کے بعد ہونے والے منافعوں کے لیے پہلے سے رال ٹپکا رہے ہیں۔ زرعی اجناس کی حکومتی خریداری کے خاتمے کے بعد بڑی کمپنیاں اور سرمایہ دار ان کی جگہ لیں گے اور اجناس کی قیمتیں نیچے لائیں گے۔
پچھلے سال بھارت کے عام انتخابات کے دوران کامیڈین کنال کامرا کی ایک وڈیو بہت مشہور ہوئی تھی جس میں وہ مذاقاً کہتا ہے، ”امبانی اور میرے بیچ مودی کیوں آتا ہے؟ میں براہ راست امبانی کو ووٹ کیوں نہیں دے سکتا؟“ یہ مذاق دراصل اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ باقی ممالک کی طرح بھارت میں بھی اصل اختیار اور حکومت بڑے سرمایہ داروں کی ہے۔ 2014ء کے انتخابات سے پہلے ہی بڑی کمپنیوں اور کارپویشنوں کی جانب سے اربوں روپے بی جے پی کے اکاؤنٹ میں جا رہے تھے کیونکہ ملک کے سرمایہ دار طبقات کی اکثریت نے مودی کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا تھا۔ مکیش امبانی بھی انہی سرمایہ داروں میں سے ایک تھا جو اس وقت ایشیا کا سب سے امیر آدمی ہے۔ 2014ء میں مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے اس کی کل دولت لگ بھگ 18 اَرب ڈالر تھی لیکن 2020ء میں اس کی دولت بڑھ کر 75 اَرب ڈالر ہو گئی۔ یعنی مودی کے چھ سالہ دور میں اس نے اپنی دولت میں چار گنا اضافہ کیا۔
ایک طرف سرمایہ دار طبقات اور مودی کے قریبی کاروباری ٹولے بی جے پی حکومت کی پرائیویٹائزیشن، ڈی ریگولیشن اور نیو لبرل معاشی پالیسیوں سے مستفید ہوتے ہوئے اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان پالیسیوں سے غریب مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارتی معیشت ایک مسلسل زوال کی کیفیت میں ہے۔ وزارت شماریات کے نیشنل سیمپل سروے آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 6.1 فیصد کے ساتھ پچھلے پینتالیس سال کی سب سے اونچی سطح پر ہے۔ مضحکہ خیزی یہ ہے کہ مودی حکومت نے اپنی ہی وزارت کی اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔ حتیٰ کہ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ہی جی ڈی پی گروتھ کم ہوتے ہوئے مالی سال 2019-20ء کی آخری سہ ماہی میں 3.1 فیصد تک گر گئی۔ حال ہی میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مودی سرکار نے چالاکی سے جی ڈی پی کو ماپنے کے طریقہ کار میں تبدیلی کر کے جی ڈی پی کی نمو کی شرح کو زیادہ دکھایا حالانکہ اصل اعداد اس سے کم تھے۔
یہ بھی قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ نوے کی دہائی میں کانگریس کی حکومت نے ہی معیشت کو عالمی اجارہ داریوں کے لیے کھول کرکے نیو لبرل معاشی نسخوں کو لاگو کیا جس سے انڈیا میں تیس کروڑ کے لگ بھگ ایک مڈل کلاس پیدا ہوئی۔ بعد میں یہی مڈل کلاس بی جے پی کے ابھار کی وجہ بنی اور انہوں نے ہی کانگریس کو اقتدار سے باہر پھینک دیا۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ مودی کی حکومت بڑی سرمایہ دار کمپنیوں اور کارپوریشنوں کی دولت میں اضافے کے لیے اسی مڈل کلاس کو ہی نچوڑ رہی ہے۔
تاہم مودی کے ان نیو لبرل معاشی نسخوں کے خلاف محنت کشوں کی مزاحمت بھی جاری ہے اور انہوں نے بار بار ان معاشی حملوں کے خلاف لڑنے کی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے محنت کش طبقے نے مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ نوجوان اور بالخصوص طلبہ‘ ہندو بنیاد پرست تنظیموں اور بی جے پی کی غنڈہ گرد تنظیموں کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام نے مل کر اس منافرت کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ لیکن ایک بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخی ارتقا کے موجودہ مرحلے پر ان نیو لبرل پالیسیوں، معاشی تباہ کاریوں اور مودی حکومت کی بنیاد پرستی کے خلاف جنگ بورژوا پالیمانی جمہوریت کی حدود میں رہ کر نہیں لڑی جا سکتی۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں میں ہمیشہ پیش پیش ہوتی ہیں لیکن انہیں سرمایہ داری کے خاتمے اور معیشت کے تمام کلیدی حصوں کو ضبط کرنے کا پروگرام دینا ہو گا۔ ہندوستان میں ایک سوشلسٹ فتح اور سرمایہ داری کے خاتمے سے پورے ایشیا میں انقلابات کا ایک طوفان آئے گا۔ تب ہی ایشیا حقیقی معنوں میں سرخ ہو گا۔