قمرالزماں خاں

اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام کے عذر خواہوں کی گفتگو پر دھیان دیں تو وہ اپنے نظریاتی دیوالیہ پن کو مجتمع کر کے ایک فتویٰ ضرور دیتے ہیں۔ جس کے مطابق ”طبقاتی کشمکش ختم ہو چکی ہے“ اور اب کسی انقلاب کا ہونا ناممکن ہے۔ ان کے خیال میں سماج اور نظام یونہی چلتا رہے گا اور اس میں کسی بڑی اور فیصلہ کن تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ اپنے اس تاثر کو تقویت دینے کیلئے جب بہت سے حیلے بہانے تراش رہے ہوتے ہیں تو اسی لمحے وقت بڑی تبدیلیوں سے ہمکنار ہو رہا ہوتا ہے۔ سوشلزم مخالف طبقے کا یہ نکتہ نظرآج پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ مارکس کے عہد میں بھی اتنے ہی تیقن سے طبقاتی کشمکش اور تاریخ کی پیشرفت سے انحراف کرتے پائے جاتے تھے۔ اگر ہم 103 سال سے پہلے کے روس اور بالخصوص سرمایہ دارانہ دنیا کے نظریہ دانوں اور سیاست دانوں کے سماجی تجزیے کا جائزہ لیں تو وہ آج سے مختلف نہیں تھا۔ تب بھی وہ آج کی طرح اپنے استحصال اور ظلم کے نظام کو دائمی قرار دیتے اور اس کے مخالف کسی فیصلہ کن جدوجہد اور تحریک کی کامیابی سے صاف انکاری تھے۔ مگر اس قسم کی سوچیں کسی ترقی پسند نظریے کے عکس کی بجائے ناکامی اور خوف کا ردعمل قرار دی جا سکتی ہیں۔ 103 سال پہلے روس میں اکتوبر انقلاب دراصل اپنی عظمت اور تاریخی طور پر بے نظیر پیش رفت کیساتھ ساتھ رجعت پرستوں اور سماجی بے حسی کے چالاک نظریہ دانوں کو عملی جواب تھا۔ یہ جواب اسی دھتکارے ہوئے محنت کش طبقے نے دیا تھا جس کی فوقیت اور فیصلہ کن قوت محرکہ کو ہمیشہ اور شعوری طور پر نظر انداز کیا جاتا تھا۔ تاریخ کی حرکت کو شہنشاہوں، بادشاہوں، مذہبی پیشواﺅں اورعظیم سپہ سالاروں سے منسوب کرنے والے تاریخ دانوں اور مفکروں کے منہ میں خاک بھر دینے والے اس بالشویک انقلاب نے ساتھ ہی ساتھ دنیا بھرکے عیاروں کی ان ضرب الامثال، تمثیلوں اور داستانوں کے غباروں سے ہوا نکال کر رکھ دی جن کا مقصد محنت کش طبقے کو حقیر ثابت کرنا ہوتا تھا۔ پیرس کمیون کے بعد دوسری دفعہ اور ایک دیوہیکل پیمانے پر پہلی مرتبہ انسانی تاریخ میں محنت کش طبقے نے ثابت کر دیا کہ بڑے بڑے بادشاہوں، وسیع و عریض مملکتوں، ناقابل تسخیر افواج ، ذہین ترین وزرا اور مقدس ترین پادریوں کو ان کے نظریات سمیت شکست دی جا سکتی ہے۔ ان کے بظاہر ناقابل شکست نظام کو پچھاڑا جا سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ مزدور اور کسان ایک دیوہیکل ریاست پر براجمان ریاستی اہلکاروں کو دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک سکتے ہیں اور زمام زندگی و نظامِ سماج چلا سکتے ہیں۔

زندگی کی ٹھوس اور تلخ کٹھنائیاں نسل انسان کو معاشی رشتے اور سماجی حالات بدلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ حالات بدلنے کی جہد مسلسل کوہی انسانی تاریخ کا محور قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے بالکل آغاز میں کہا تھا کہ انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ اس کے بالکل عین مطابق زندگی اور معاشرتی تبدیلیوں میں طبقاتی بغاوتوں کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ تمام تر ارتقائی تبدیلیوں کے باوجود زندگی اتنی نہیں بدل سکتی تھی‘ اگرمخصوص حالات کی وجہ سے جمود کا شکار ہو کر ٹھٹھر جانے اور لمبے ہو جانے والے عرصوں کو بغاوتوں اورانقلابی پھلانگو ں کے ذریعے عبور نہ کیا جاتا۔ 1917ءمیں اکتوبر کے مہینے (موجودہ کیلنڈر کے مطابق نومبر) میں روس میں بالشویک انقلاب بھی انسانی تاریخ میں ایک ایسی ہی عظیم الشان پھلانگ تھی جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ ہزاروں سالوں سے غلامی کے شکار محنت کش طبقے نے پہلی دفعہ اقتدار پر بطور طبقہ قبضہ کیا اور چند سالوں کے اندر ہی دنیا کے پسماندہ ترین ملک کو ایک عظیم سپر پاور میں بدل دیا۔ اس عظیم الشان انقلاب نے صدیوں پر محیط بے شمار دقیانوسی اور پسماندہ تصورات، عقائد اور نظریاتی مفروضوں کو رد کرکے روایتی حکمران طبقے کی جگہ مزدوروں کی کامیاب، فعال اور بہت ہی اثر پذیر قیادت کے نئے تصور کو عملی تعبیر پہنائی۔ 1871ءمیں پیرس کمیون کی جرات مندانہ لڑائی اور مزدوروں کے 69 دن تک اقتدار پر قبضے کے بعد تاریخ نے اس سے کہیں بڑا منظر دیکھا۔ روس میں کروڑوں مزدوروں اور کسانوں نے سینکڑوں سال پرانی زار شاہی کو اکھاڑ پھینک کر تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ روس انتہائی پسماندہ ملک تھا‘ مزدوروں کی قیادت میں محنت کشوں کے خشکی کے چھٹے حصے پر اقتدار نے دنیا بھر کی استحصالی قوتوں اور حکمران طبقات کے لئے زبردست خوف پیدا کر دیا تھا۔ وہ اپنے اس خوف کو چھپانے کے لئے انقلاب کے چند ہفتوں میںختم ہو جانے کی نوید سنا رہے تھے۔ مگر انقلاب کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا اور روس کے بعد ہنگری، پولینڈ، جرمنی، برطانیہ اور چین سمیت دور دراز کے ممالک میں طبقاتی تحریکیں اور بغاوتیں امڈنا شروع ہو گئیں۔ حتیٰ کہ برصغیر میں بننے والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا کردار انگریز کی برصغیر سے رخصتی میں اہمیت اختیار کر گیا۔

موجودہ عہد میں انقلاب روس کا جائزہ لینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے نظام کی ناکامی پر بوکھلا کر سوشلزم اور کمیونزم کو ایک بھیانک نظام سے تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ اورپاکستان میں عمران خان ہر ہفتے سوشلزم پر حملہ کر کے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی پر جھنجھلاتے نظر آتے ہیں۔ ان کو ڈراﺅنے خوابوں میں منڈی کی معیشت کا انہدام نظر آتا ہے۔ وہ اپنی ملکیت کے کھو جانے کے ڈر سے سوشلزم کے بارے میں مغلظات بکتے اور خود کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح حکمران طبقے کے مختلف دھڑے انقلاب کے لفظ کو بہت مسخ شدہ انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ کبھی انقلاب سے ڈرایا جاتا ہے۔ کبھی انقلاب کو خونی قرار دے کر اس کو اپنے موجودہ نظام سے بھی زیادہ ہولناک ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی اس انقلاب فرانس کی بات کی جاتی ہے جو کہ اپنے عہد کے لحاظ سے تو عظیم تھا مگر اس کو اکیسویں صدی میںبرپا کرنے کی بات ایسے ہی ہے جیسے جدید ٹرین کو انجن کی بجائے گدھے سے چلانے کی کوشش کی جائے۔ حکمران طبقہ سارے رنگوں کے انقلابات کی بات کرتا ہے مگر دنیا کے سب سے عظیم انقلاب یعنی بالشویک انقلاب کا ذکر کرنے سے گھبراتا ہے۔ جس کی وجہ اس انقلاب کا واضح طبقاتی کردار تھا۔ اس انقلاب نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ثابت کیا تھا کہ سماج کو منافع کی حرص اور ذاتی ملکیت کے بغیر بھی چلایا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر کے سرمایہ دار دانشور اور ماہرین جس لفظ سے زیادہ ڈرتے ہیں وہ ’منصوبہ بند معیشت‘ کا لفظ ہے۔ یہی وہ معاشی نظام ہے جس کو منڈی کی معیشت کے اصولوں اور اس کے مالیاتی (استحصالی) اداروں کے بغیر چلا کر سماج کو حقیقی جنت کی شکل دی جا سکتی ہے۔ چونکہ منصوبہ بند معیشت میں منافع اور ذاتی ملکیت کے بجائے مشترکہ سماجی ملکیت کے تصور کی حاکمیت ہوتی ہے اور اس وجہ سے سوشلسٹ نظام معیشت میں پیداوار کا مقصد لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ معاشی نظام سرمایہ داروں کی سماجی موت کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین اور مخالفین نے سوویت یونین کے خلاف لاکھوں کتابیں لکھیں مگر اس کی منصوبہ بند معیشت اور اس کے بے نظیر ثمرات کو لوگوں کے سامنے لانے میں ہمیشہ بد دیانتی کا مظاہرہ کیا۔ اگر ہم روس کی معیشت کاپہلی عالمی جنگ سے 1963ء تک جائزہ لیں تو اس کی صنعتی پیداوار میں 52 گنا اضافہ ہوا تھا جب کہ اسی دوران امریکہ کی پیداوار میں صرف چھ گنا اضافہ ہوا تھا۔ ایک نحیف اور پسماندہ روس سوویت یونین بننے کے بعد اپنی منصوبہ بند معیشت کی بنا پر لوہے، فولاد، ٹریکٹر سازی، سیمنٹ، معدنی تیل، گیس، کپاس اور کوئلے وغیرہ کی پیداوار اور خلائی ٹیکنالوجی میں دنیا پر سبقت لے گیا۔ 1980ء تک سوویت یونین کی پیداواری صلاحیت امریکہ کے علاوہ کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔ چند دہائیوں میں ایک پسماندہ زرعی معیشت دنیا کی دوسری طاقتور ترین معیشت بن گئی۔ وہاں ایک طاقتور صنعتی بنیاد قائم ہوئی اور ایک بلند ثقافتی معیار تخلیق ہوا۔ امریکہ اور جاپان کے کل سائنسدانوں سے زیادہ سائنسدان سوویت یونین میں تھے۔ اسی طرح انجینئروں اور اساتذہ کی تعداد بھی کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔ اوسط عمر دو گنا ہو گئی اور بچوں کی اموات میں 9 گنا کمی ہوئی۔ اتنے کم عرصے میں ایسی معاشی کامیابیوں کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ملتا۔ مکانوں کے کرائے ماہانہ آمدنی کے 6 فیصد پر مقرر کیے گئے تھے۔ 80ء کی دہائی تک بھی ماسکو میں ایک فلیٹ کا کرایہ 17 ڈالر تک تھا جس میں گیس، بجلی، ٹیلی فون اور گرم پانی کی سہولیات شامل ہوتی تھیں۔ سوویت یونین میں بے روزگاری کو جرم قرار دے دیا گیا تھا۔

ہمیں بالشویک انقلاب کی 103ویں سالگرہ کے موقع پر اس کی فتح یابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اس کے راستے کی رکاوٹوں کا بھی جائزہ لینا ہے تاکہ آنے والے وقت کی عالمی مزدور تحریک کی انقلابی جدوجہد کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر اپنی راہوں کا درست تعین کر سکے۔

جرمنی (1918-1923ء)، چین (1925-27ء) اور بہت سے دوسرے ممالک میں انقلابات کی ناکامی اور برطانیہ (1926ء) کی عام ہڑتال کو انقلاب میں تبدیل نہ کیا جانا‘ انقلاب روس کی تکمیل کی ابتدائی اور فیصلہ کن رکاوٹیں ثابت ہوئیں۔ دوسری طرف پوری سرمایہ دار دنیا مخاصمت اور مخالفت میں سوویت یونین کا معاشی، سیاسی اور عسکری گھیراﺅ کیے ہوئے تھی جس کے باعث روس کا انقلاب تنہا رہ گیا تھا۔ ٹیکنالوجی کی پسماندگی کے باعث انقلاب کی زوال پذیری کا عمل شروع ہو گیا۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ریاست اور انقلاب“ میں لینن نے سوویت نظام کے اصول واضح طور پر بیان کیے تھے۔

1۔ آزاد اور جمہوری انتخابات اور سوویتوں (مزدور پنچایتوں) کی جانب سے اہلکاروں کو کسی بھی وقت واپس بلائے جانے کا اختیار ۔

2۔ کسی بھی اہلکار کی تنخواہ ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی۔

3۔ مستقل فوج کی جگہ مسلح عوامی ملیشیا۔

4۔ بتدریج ریاست کو چلانے کے تمام امور باری باری ہر کوئی ادا کرے گا۔

لیکن ثقافتی و تکنیکی پسماندگی اور عالمی سطح پر معاشی و سیاسی تنہائی کے باعث لینن کے بعد انقلاب سٹالن کے زیر اثر ایک مسخ شدہ شکل میں تبدیل ہوتا گیا۔ سٹالن کی قیادت میں ایک بیورو کریٹک گروہ اقتدار پر قابض ہوتا گیا۔ لینن کے وضع کردہ مذکورہ بالا چار اصول بھلا دیے گئے۔ سٹالن کے اجرتی قاتل کے ہاتھوں 1940ء میں قتل ہونے والا ٹراٹسکی زندگی کے آخری لمحے تک اکتوبر انقلاب کے نظریات کے لئے لڑتا رہا۔ اس انقلاب کے قائدین نے خود ہی مشروط پیشین گوئی کر دی تھی کہ اگر انقلاب تنہا رہ کر ایک پسماندہ ملک میں مقید ہو گیا تو سوویت یونین زوال پذیر اور منہدم ہو سکتا ہے۔ 1921ء میں لینن نے کہا تھا کہ ”برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کا دل ہے۔ اگر جرمنی میں انقلاب نہیں ہوتا تو روس کا انقلاب ختم ہو جائے گا۔“

سرمایہ داری میں منڈی وسائل کے استعمال کا تعین کرتی ہے لیکن اس کے الٹ منصوبہ بند معیشت میں مسلسل منصوبہ بندی اور سمت کا تعین ضروری ہوتا ہے۔ منصوبہ بند معیشت کے لئے مزدور جمہوریت ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے آکسیجن۔ ٹراٹسکی نے اپنی اہم ترین تصنیف ”انقلاب سے غداری“ میں 1936ء میں لکھا تھا کہ ”اگر (سوویت یونین کی ) موجودہ بیوروکریٹک آمریت کو ایک سوشلسٹ اقتدار سے تبدیل نہ کیا گیا تو اس کا زوال سرمایہ داری کی طرف واپسی کا باعث بنے گا جس سے صنعت اور ثقافت میں بہت بڑی گراوٹ آئے گی۔“ 1991ء کے بعد کے حالات نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔

سوویت یونین کے انہدام اور وہاں سٹالنزم کی ناکامی کو سوشلزم کا خاتمہ قرار دینے والے اپنے مخالفانہ اور معاندانہ پراپیگنڈے میں یہ ہمیشہ ہی بھول جاتے ہیں کہ وہ خود پے در پے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قائم ریاستوں کے انہدام، اپنے نظام کے بار بار بحران میں جانے اور سرمایہ داری کو اس کے اپنے اصولوں کے برعکس چلانے کو سرمایہ داری کی ناکامی کبھی بھی قرار نہیں دیتے۔

ان کی نظریاتی بد دیانتی پر توجہ دلانا بے سود ہے کیونکہ ان کا پورا نظام ہی بد دیانتی اور لوٹ کھسوٹ پر قائم ہے۔ یہ اپنی مکمل موت سے پہلے اپنی بیماری تک کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ لیکن سوشلزم پر حملے کرنے والی آوازیں اب دم توڑتی جا رہی ہیں کیونکہ سرمایہ داری کے بدترین بحران اور مسلسل زوال پذیری نے ان سے ان کے جھوٹے بھرم بھی چھین لیے ہیں۔ سرمایہ داروں کے ہم نوا سوشل ڈیموکریٹ اور سابقہ سٹالنسٹ ہیں جو انقلاب کے مسخ ہوجانے کا درست تجزیہ نہ کر سکے اور تاحال روسی بیوروکریسی کی ناکامی کے صدمے سے نہیں نکلے۔ ان کے علم کی سطح ٹراٹسکی مخالف چیخم دھاڑ سے بلند نہیں ہو سکی۔ آج کے دن تک بھی وہ سٹالنزم کے انہدام کا سائنسی تجزیہ دینے سے قاصر ہیں۔

موجودہ عہد میں مصنوعی ذہانت اور جدید مشینری کو انسان کا بدل قرار دینے والے بھی آدھے سچ پر انحصار کر رہے ہیں۔ جن کے نزدیک صرف مشینیں ہی دنیا میں پیدواری عمل میں مصروف ہوں گی اور محنت کو خارج کر دیا جائے گا۔ وہ دراصل ایک ایسی دنیا کی بات کر رہے ہیں جو نسل انسان سے یکسر عاری ہو گی اور زمین پر انسان کی بجائے صرف اور صرف مشینیں ہی ہوں گی۔ یہ ایک بچگانہ تصور ہے۔ یہ طبقاتی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے نسل انسان کے خاتمے کا تصور ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ہونے والے لاک ڈاﺅن نے ثابت کیا ہے کہ محنت کش طبقہ اگر چند دن کے لئے بھی کام چھوڑ دے تو نظامِ زندگی رُک جاتا ہے۔

انسان نے اگر زندہ بھی رہنا ہے اور انسانی زندگی سے سرفراز بھی ہونا ہے تو زمین پر طبقات کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔ دنیا ایک تبدیلی چاہتی ہے اور وہ اس کے دروازے پر کھڑی ہے۔ منافع خور سرمایہ داری کے تحت بے روزگاری، بیماریاں، جنگیں اور لاشیں ہی دی جا سکتی ہیں۔ سرمایہ داری نے وسائل کو برباد کر کے ایک طرف قلت اور محرومی پیدا کی ہے اور دوسری طرف نکھٹو جونکوں کو ارب پتیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ سرمائے کے بہاﺅ کی یک رخی ہی سرمایہ داروں کا مقدس نقطہ نگاہ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف ہر آواز اور فلسفہ ان کو مشتعل کر دیتا ہے۔ مگر اب لوگوں نے جان لیا ہے کہ سرمایہ داری کے تحت دنیا آگے کی بجائے پتھر کے دور کی طرف جا رہی ہے۔ لوگوں کے شعور کو متبادل نظام کی جدوجہد سے ہٹانے کے لئے منتشر دماغ نظریہ دانوں کو گود لیا جا رہا ہے مگر اس سے کام نہیں چلے گا۔ موجودہ بد ترین بحران میں یہ واضح ہے کہ انقلاب سے کم کوئی چیز بھی محکوم عوام کو اس ظالمانہ نظام سے آزاد نہیں کرا سکتی ۔ واحد انقلاب جو کروڑوں افراد کی محرومیوں اور دکھوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتا ہے وہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ جب عوام تاریخ کے میدان میں اپنا مقدر بدلنے کے لئے باہر آئیں گے تو حکمران طبقات کانپ اٹھیں گے۔ لیکن محنت کش عوام کو کامیابی صرف بالشویزم کے نظریات، طریقہ کار اور لائحہ عمل کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔ اکتوبر انقلاب دنیا بھر کے محنت کش طبقات کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے۔ جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں ان کے خاتمے کی جدوجہد جاری رہے گی اور اب یہ جدوجہد دنیا بھر کے مزدوروں کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچا کر دم لے گی۔