راہول

لبنان ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے۔ جہاں پہلے سے موجود معاشی بحران نے لبنان کے عوام کا جینا مشکل کیا ہوا تھا وہیں کورونا وبا کے بعد بدتر ہوئی صورتحال نے اکثریتی عوام کی زندگیوں کو ایک ایسے تاریک دور میں دھکیل دیا ہے کہ جس سے موجودہ نظام میں باہر نکلنا اب ایک دیوانے کے خواب محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں بیروت میں ہوئے چار اگست کے لرزہ خیز دھماکوں نے صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔ یہ دھماکے سرمایہ داری میں پروان چڑھنے والے اس بدعنوان نظام ِحکومت کا ایک ناگزیر نتیجہ تھے کہ جس کے رحم و کرم پر دہائیوں سے لبنان کے عوام جینے پر مجبور ہیں۔

بیروت کے 4 اگست کے سانحے نے پوری دنیا کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ اس سے قبل شاید ہی کوئی ایسی بھیانک مثال ہو کہ راتوں رات تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہوں۔ اس واقعے نے دو سو سے زائدافراد کی جانیں نگل لیں اور چھ ہزار سے زائد لوگ اب تک زخمی ہیں جن کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔

اس دیو ہیکل دھماکے کی بنیادی وجہ بیروت بندرگاہ کے نزدیک ایک گودام میں گزشتہ چھ سالوں سے ذخیرہ کیا گیا 2750 ٹن ’امونیم نائیٹریٹ ‘ کیمیکل بتایا جارہا ہے جسے عام طور پر صنعتی استعمال کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ تر استعمال کھاد میں نائٹروجن کے حصول اور کان کنی کے لیے بنائے جانے والے دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں ہوتاہے۔ اس کیمیکل کو چھ سال قبل بندر گاہ پر ایک جہاز سے پکڑا گیا تھا اور تب سے یہ وہیں موجود تھا حالانکہ متعددبار انتباہ کے باوجود بھی اسے نہ ضائع کیا گیا اور نہ ہی وہاں سے ہٹایا گیا۔ الجزیرہ پر شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق لبنانی سکیورٹی حکام نے اس دھماکے سے دو ہفتے قبل 20 جولائی کو لبنان کے صدر اور وزیر اعظم کو ایک خط کے ذریعے یہ اطلاع دی تھی کہ بیروت بندرگاہ پر موجود یہ خطرناک کیمیکل پورے دارالحکومت کی تباہی کا موجب بن سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی کوئی حکومتی ایکشن نہ لینا اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ حکمران طبقات کے لئے عوامی جانوں کی کوئی قیمت نہیں اور نہ ہی عوام کے زخموں سے ان کو کوئی سروکار ہے۔

ان دھماکوں سے ہوئی حقیقی تباہی و جانی نقصان کے متعلق تاحال کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ دھماکے کی شدت کا ایک محتاط اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ریاست ’اوکلاہوما‘ میں 1995ءمیں ہوئے دھماکے (جس نے 168 لوگوں کی جانیں لیں) میں اس کیمیکل کا محض دو میٹرک ٹن سے بھی کم استعمال کیا گیا تھا۔ جانی نقصان کے متعلق بھی حکومت انتہائی بے شرمی سے جھوٹ بول رہی ہے حالانکہ حقیقی جانی نقصان سرکاری اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب جہاں بیروت شہر کی کئی تاریخی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے وہیں شہر بھر کی تمام بڑی عمارتیں اب رہنے کے قابل نہیں رہیں اور میونسپل کارپوریشن شہریوں کو یہ عمارتیں خالی کرنے پر زور دے رہی ہے۔ مگر پہلے سے معاشی طور پر تباہ حال لوگ، جن کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے، اس نقل مکانی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

اپنی ایک منفرد جغرافیائی حیثیت کے سبب یہ ملک ہمیشہ سے ہی کبھی مقامی جنگجو سرداروں کی تو کبھی سامراجی حملوں کی زد میں رہا مگر ہر دور میں عوام کو اسی طرح بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر لبنان کا مختصر سا تاریخی جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ صدیوں سے یہ علاقہ مختلف سامراجی طاقتوں کے مابین جکڑا رہا ہے۔ سب سے پہلے اس علاقے میں ایران کی اشمند سلطنت کے دور میں قبضہ ہوا۔ جس کے بعد اس پر سکندر اعظم نے قبضہ کیا اور پھر رومنوں نے یہاں پہلی صدی عیسوی میں اپنے پنجے گاڑے۔ اس کے بعد عرب خلافت تک یہاں وہی قابض رہے۔ عیسائیت کے آغاز میں یہاں کے قریبی علاقے ’گلیلی‘ کے ذریعے یہ مذہب پہنچا۔ پھر اسلامی خلافت کے آغاز پر عرب حکمرانوں کے ذریعے یہاں اسلام پہنچا۔ عہد وسطیٰ میں صلیبی جنگوں کے دوران لبنان پر عیسائی قابض رہے۔ بعد میں صلاح الدین ایوبی نے 1190ءمیں یروشلم سے عیسائیوں کے قبضے کو ختم کروایا لیکن تیرہویں صدی تک شام اور لبنان کے علاقوں پر عیسائیوں کا قبضہ رہا۔ فرانس کے لبنان پر قبضے سے پہلے تک لبنان عثمانیوں کے ہاتھوں میں رہا۔

اس کے بعد فرانسیسی سامراج نے لبنان کو مقامی جنگجو سرداروں کے درمیان نہایت متوازن انداز میں تقسیم کیا۔ 1926ءمیں بننے والا لبنان کا آئین مختلف مذہبی گروہوں کے حقیقی تناسب کو مدنظر رکھے بغیر ان کے درمیان طاقت کا توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ 1932ءکی مردم شماری کے مطابق پارلیمنٹ کی سیٹیں 6 عیسائی اور 5 مسلمان کے تناسب سے تقسیم کی گئیں۔ 1946ءمیں لبنان ایک ”آزاد ریاست“ کے طور پر وجود میں آیا مگر اس کے باوجود سیاسی ڈھانچہ پرانی طرز پر قائم رہا۔ آئین کے مطابق صدر ایک مارونائٹ عیسائی، اسپیکر ایک شیعہ مسلمان جبکہ وزیراعظم کے لئے ایک سنی مسلمان ہونا لازم قرار دیا گیا۔ 1948ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تقریباً ایک لاکھ دس ہزار فلسطینی مہاجرین لبنان آکر آباد ہو گئے۔ 1960ءتک لبنان میں مسلمان اکثریت میں ہوگئے لیکن قانونی طور پر وہ ”اقلیت“ تھے جس کے باعث ان میں بے چینی جنم لینے لگی۔ 1958ءمیں صدر کامیلی شمون کی مدت کے آخری مہینوں میں جمال عبدالناصر کی حمایت میں ایک تحریک ابھری۔ ساتھ ہی پانچ ہزار امریکی میرین بیروت میں بھیج دیئے گئے تاکہ سامراج کی حمایتی حکومت کی مدد کی جاسکے جس کے بعد سابق جنرل فواد شہاب کی حکومت مسلط کر دی گئی۔ 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں مزید فلسطینی مہاجرین لبنان میں آباد ہوئے اور 1970ءمیں اردن میں سیاہ ستمبر کے بعد لبنان میں ہزاروں فلسطینی مسلح اور منظم ہونا شروع ہوگئے۔ انہوں نے جنوبی لبنان میں اپنے اڈے بنائے جہاں سے وہ اسرائیل کے اندر حملے کرتے تھے۔ اس سب کے بعد 1975 ءمیں خانہ جنگی شروع ہوئی لیکن پھر سامراجیوں کے تسلط میں مختلف مذہبی فرقوں میں ’صلح ‘کروائی گئی اور 1992ءکے بعد جو آئین بنوایا گیا اس میں اس مذہبی تفریق کو نہ صرف قائم رکھا گیا بلکہ اس کو آئینی اور قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔ آج بھی لبنان میں موجود اہم سیاسی پارٹیوں کی بنیاد مذہبی فرقہ واریت پر مبنی ہے جو سماج میں مسلسل انتشار پھیلانے کا باعث بنتی رہتی ہے۔ مگر درحقیقت یہ سیاسی انتشار اس معاشی زوال کی عکاسی کرتا ہے جس میں نہ صرف لبنان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے بلکہ عام انسانوں کی زندگیاں تلخ ہوتی جا رہی ہےں۔

مسلسل حالت جنگ میں رہنے والے اس بد نصیب ملک کے عام انسانوں کو ہر دور میں ہی بد ترین سرمایہ دارانہ استحصال کا سامنا رہا ہے۔ یہاں تک کہ جنگوں کے نام پر اس ملک کو کئی بار پہلے برباد کیا گیا پھر مختلف ہتھکنڈے اپناتے ہوئے سامراجی اداروں نے ان بربادیوں سے بھی خوب مال بنایا۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں ہونے والی جنگوں سے تباہ کاریوں کے بعد لبنان کی ’تعمیرنو‘ میں سامراجی اجارہ داریوں نے ٹھیکے حاصل کر کے لبنان کے وسائل کو خوب لوٹا۔ اس ’تعمیر نو‘ کے لئے جو سامراجی قرضے دیے جاتے ہیں ان کا بڑا حصہ سامراجی اجارہ داریوں کے منافعوں اور ان کمپنیوں کے بڑے افسران اور منیجروں کی بھاری تنخواہوں پر صرف ہوتا ہے۔ پھر یہ قرضے ان تباہ حال ممالک کی معیشتوں پر مزید بوجھ بن جاتے ہیں اور ان کا دوہرا سامراجی استحصال جاری رہتا ہے۔ رفیق حریری سمیت ماضی کے حکمرانوں نے سامراجی دلالی کا کردار ادا کیا اور سودے بازی سے اربوں ڈالر کماتے رہے مگر لبنان کی معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی سسکتی رہی۔

خانہ جنگی کے بعد سے لے کر آج تک حکمران جماعتوں نے سامراجی اداروں کی گماشتگی کرتے ہوئے لبنان کی معیشت کو برباد کیا ہے۔ آج تک ملک کی معیشت کو قرضوں کے دم پر ہی چلایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ قرضے دینے والے ممالک میں سعودی عرب اور فرانس پیش پیش رہے جو لبنان پر پچھلے عرصے میں مسلسل نیو لبرل یعنی جارحانہ سرمایہ دارانہ پالیسیاں اپنانے کا دباو ڈالتے رہے۔ رفیق حریری کے قتل کے بعدلبنان کی معاشی صورتحال بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ 2004ءمیں لبنان کی شرح ترقی جو 6 فیصد تھی وہ 2005ءمیں گر کر 1 فیصد رہ گئی۔ کچھ سالوں میں معیشت میں عارضی استحکام بھی دیکھا گیا مگر جغرافیائی طور پر اس کے ایک طرف شام اور دوسری طرف اسرائیل ہونے کی وجہ سے یہ ملک مسلسل عدم استحکام میں ہی رہا اور 2011ءسے شام میں ہوئی خانہ جنگی اور اس کی بدولت ہوئی نقل مکانی کا دباو بھی اسی ملک پڑا جس کے نتیجے میں اس کی معیشت مزید برباد ہوئی اوراس کے بعد پھر سے سنبھل نہ سکی۔

نئے قرضوں کے ذریعے پرانے قرضوں کی ادائیگی کا ایک’فارمولا‘ اپنایا گیا جسے بڑی ڈھٹائی سے ”فنانشل انجینئرنگ“ کا نام دیا گیا۔ قرضوں کے اس گھن چکر نے لبنان کی معیشت کو موجودہ بربادی کے ڈگر پر لاکھڑا کیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2019ءمیں شائع ہوئی رپورٹ کے مطابق لبنان‘ پاکستان سے زیادہ کرپٹ ملک ہے۔

2006ءمیں شائع ہوئی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’لبنان اسرائیل جنگ‘ میں ڈاکٹر لال خان نے لبنان کی معیشت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ” لبنان کی موجودہ حکومت جو حریری جیسے خونخوار سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتی ہے کبھی بھی کوئی فیصلہ لبنانی حکمران طبقات اور سامراجی مفادات کے برعکس نہیں کرے گی۔ لبنان کی اشرافیہ جس کی دولت مغربی بینکوں میں ہے اپنے ملک میں یہ سرمایہ نہیں لے جائے گی۔ ان کو قرضوں کی معافی یا خاتمے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کا سارا بوجھ محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے لبنانیوں کو اٹھانا پڑے گا۔ آئی ایم ایف نے خود تسلیم کیا ہے کہ اگر ان قرضوں پر لبنان کو بڑی رعایتیں نہ دی گئیں تو لبنان کی معیشت کا انہدام ناگزیر ہو جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں بڑھتی ہوئی سود کی شرح سے سود کی ادائیگی کا بوجھ اتنا بڑھ جائے گا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر لبنان کی معیشت چل ہی نہیں سکتی۔ حکمرانوں کے اپنے اعداد و شمار اور معاشی تناظر بھی اب واضح کر رہے ہیں کہ لبنان سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صرف دیوالیہ پن، خانہ جنگیوں اور سماجی خلفشار اور بربریت میں ہی جا سکتا ہے۔ لبنان کی موجودہ کیفیت اور تناظر چیخ چیخ کر یہ پکار رہے ہیں کہ سوائے سوشلسٹ انقلاب کے لبنان کی بقا کا کوئی راستہ نہیں ہے۔“

لبنان اشیائے خوردونوش سمیت 80 فیصد اجناس درآمدکرتا ہے۔ ایسے میں لبنان کے پاس ڈالر حاصل کرنے کا ذریعہ محض بیرونی سرمایہ کاری، ترسیلاتِ زر یا قرضے ہی رہے ہےں۔ اسی دوران سعودی عرب جیسے ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم بند ہونے لگیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہونا شروع ہو گئی۔ گزشتہ عرصے میں لبنان کے بینکوں سے 100 بلین ڈالر غائب ہو چکے ہیں جس نے لبنان کی خستہ حال معیشت کا جنازہ نکال دیا۔ اس کے متعلق ناقدین کا یہ کہنا تھا کہ یہ لبنان کی اسی ”پونزی اسکیم“ کا ناگزیر نتیجہ تھا جس کے ذریعے بینک بلند شرح سود رکھ کے امریکی ڈالر حاصل کرتے تھے اور پھر انہیں حکومت کو قرض پر دے دیتے تھے۔

رواں سال مارچ کے مہینے میں غیرملکی بانڈز کی ادائیگی کی مد میں 1.2 بلین ڈالر ادا نہ کر سکنے کے باعث تاریخ میں پہلی مرتبہ لبنان کی معیشت کو باقاعدہ دیوالیہ قرار دے دیا جا چکا ہے۔ جس کا اعلان خود حکومتی نمائندوں کی جانب سے کیا گیا۔ اس وقت لبنان پر کُل قرضہ 92 بلین ڈالر ہے جوکہ اس کے جی ڈی پی کا 170 فیصد بنتا ہے۔ معیشت کے دیوالیہ ہونے کے بعد مئی کے مہینے میں لبنانی حکومت نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کیا اور 10 بلین ڈالر کی امداد کا مطالبہ کیا مگر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور سخت عوامی ردعمل کے باعث یہ معاہدہ اب تک کسی انجام پر نہیں پہنچ سکا۔ اس کے بعد بیروت دھماکوں میں ہوئے نقصان کی تلافی کے لئے بھی لبنان کواب تقریباً 15 بلین ڈالر کی رقم مزید درکار ہے جو کہ اس کے گزشتہ سال کے جی ڈی پی کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی عوام کی تنگی مزید بڑھ جائے گی۔ ان قرضوں کے ساتھ جو شرائط عائد کی جائیں گی ان میں لبنانی محنت کشوں کے استحصال میں مزید اضافہ، سامراجی کمپنیوں کے لئے مزید مراعات اور نجکاری وغیرہ شامل ہونگی۔ اس سب سے لبنان کے عوام شدید بدحالی، غربت اور استحصال کا شکار ہوجائیں گے۔

اس وقت بھی لبنانی پاونڈ کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ قدر گزشتہ سال اکتوبر سے لے کر اب تک 80 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ تجارتی خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جوگزشتہ سال 16 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ یہ رقم لبنان کی برآمدات سے بھی پانچ گنا زیادہ ہے۔ افراط زر کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف پچھلے دس ماہ میں لبنان کی افراط زر کی شرح 2 فیصد سے بڑھ کر 150 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جس کے باعث اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور ہر چیز تقریباً دو سو سے چار سو فیصد تک مہنگی ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پردو پاونڈ گوشت کی قیمت تقریباً 33 ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ لبنان کی آرمی نے اپنے فوجیوں کے لئے گوشت کی خریداری بھی بند کر دی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی درآمد بند کر دی ہے جس کے باعث روٹی اب لبنان میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ دودھ کے لئے فیس بک پر اپنے گھر کا سامان نیلام کرنے پر مجبور ہیں، میڈیکل سٹوروں سے ضروری ادوایات ختم ہونا شروع ہوگئیں ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی سرجریوں کو روکا جا رہا ہے کیونکہ آپریشن تھیٹروں میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی جنریٹروں کے لئے تیل کے پیسے۔ بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہونے کی بدولت غربت کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ شاپنگ مال خالی پڑے ہیں جبکہ شہروں میں جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میںبیروت میں ایک واقعہ پیش آیا جہاں ماسک پہنا ایک شخص بندوق لیے میڈیکل سٹور میں داخل ہوکر لوٹ مار کر نے پر مجبور تھا۔ کورونا وبا کے بعد لبنان میں بیروزگاری کی شرح 35 فیصد جبکہ غربت کی شرح 55 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسے میں لبنان کی 70 لاکھ آبادی میں سے 20 فیصد کے لگ بھگ شام سے آئے پناہ گزین ہیں جو تیزی سے بدتر ہوتی ہوئی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں جب کسی بھی معاشرے میں سماجی اور معاشی عذاب ناقابل برداشت ہو جائیں اور زندگی محال ہو جائے تو کوئی واقعہ یا کوئی حادثہ تحریکوں اور بغاوتوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسا ہی واقعہ چار اگست کو بیروت میں ہوا سانحہ بنا جس نے چند روز میں ہی لبنان کی عوام کو دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے بیروت کی رعنائیوں کی کوکھ میں پلتی مفلسی اور محرومی کو اس واقعے نے پھاڑ کے رکھ دیا ہو۔ یہ احتجاج انہی مظاہروں کا تسلسل تھا جو گزشتہ سال اکتوبر میں ہوئے تھے جب پیٹرول، تمباکو، کرپشن اور وٹس ایپ کالوں پر حکومت کی جانب سے مزید ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال سے ہی لبنان کی عوام سڑکوں پر ہیں مگر حالیہ احتجاجوں میں غصے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ عوام حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ کر کے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے تھے۔ شاہراہوں پر بانٹے جانے والے لیف لیٹوں پرواضح درج تھا کہ ”آج بیروت کو صاف کرنے کا آخری دن ہے۔ کل سے ہم بیروت سے بدعنوان حکمرانوں کا صفایا کریں گے۔“ 8 اگست کو ہزاروں لوگ بیروت شہر کے وسط میں شہید چوک پر جمع ہوئے اور اپنی تباہی کا جواب مانگتے رہے۔ مظاہرین پر ریاستی پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ سارا دن مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں جاری رہیں۔ پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کی بھاری شیلنگ کے باوجود لوگ پیچھے ہٹنے سے انکاری رہے اور سہ پہر تک انہوں نے لبنان کی وزارت ِ خارجہ کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح کے قبضوں کی کوششیں بینکوں اور دیگر وزارتوں کی عمارات پر بھی ہوتی رہیں۔ بالآخر دس اگست کو وزیر اعظم حسن دیاب نے استعفیٰ دیتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس استعفے کا مقصد بھی درحقیقت گزشتہ سال سعد حریری کے استعفے کی طرح تحریک کے دباو کو کم کرنا ہے۔ فوری طور پر کوئی بھی جماعت اس صورتحال میں اقتدار میں آنے کو تیار نہیں اور نئے انتخابات کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔ حزب اﷲ ہو یا فیوچر موومنٹ‘ سب اس نظام کو بچانے کے لئے ایک ہی پیج پر ہیں۔ مگر لبنان کے عوام اپنے تجربات سے مسلسل سیکھ رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف حالیہ مظاہروں کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ لبنان کی نئی نسل نے اپنے عمل کے ذریعے اس بات کا ثبوت دیا کہ انہوں نے تمام تر فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات کو جھٹک کر ایک نئی دنیا کے خواب کی تعبیر کا آغاز کر دیا ہے۔ ان تحریکوں میں حاصل ہونے والی کامیابیاں نوجوانوں اور لبنانی محنت کشوں کے حوصلوں کو مزید بلند کریں گی۔ آنے والے دنوں میں اس سے کئی بڑے واقعات جنم لیںگے۔ اس سال تیونس کے انقلاب کو ایک دہائی مکمل ہو رہی ہے جس نے عرب بہار کا آغاز کیا تھا۔ ان دس سالوں میں مشرق وسطیٰ کے عوام کے حالات زندگی بدتر ہی ہوئے ہیں۔ لیکن نوجوانوں اور محنت کشوں نے بہت اہم اسباق بھی حاصل کیے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ لبنان سے اٹھنے والی یہ چنگاری خطے میں انقلابات کی نئی لہر کا پیش خیمہ بن جائے۔