لال خان
جب بھی کوئی معاشرہ بحران کا شکار ہوتا ہے تو اس کے حکمران حالات کو قابو کرنے کے لئے جبر کو مزید بڑھاوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ جبر نظام کی طاقت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی غمازی کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے جو معاشی اور سماجی کہرام برپا کر رکھا ہے اس سے اس بدنصیب دیس کے عام انسان شدید کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ ظاہری طور پر لوگ ایک ’شاک‘ یا صدمے کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔ ریکارڈ توڑ مہنگائی، بیروزگاری اور افلاس نے عام لوگوں کی زندگیوں کو ایک عذابِ مسلسل بنا دیا ہے۔ حکمرانوں کی معیشت کے خساروں پر اپوزیشن کی تنقید اور تجزیہ نگاروں کی آرا محض رونے دھونے اور اپنی سیاست اوردانشوری چمکانے کی حد تک ہے۔ بجٹ اجلاس میں زور شور سے تقریری طعنہ زنی جاری رہی۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے پاس سوائے ماضی کی حکومتوں پر الزام تراشی اور گالم گلوچ کے کچھ نہیں ہے۔ موجودہ نظامِ حکومت کی معاشرے پرمسلط کردہ نیم فسطائیت کی جھلک اسمبلی میں بھی نظر آتی ہے۔ اجلاس سے پیشتر جیل میں قید دو ممبران اسمبلی آصف زرداری اور سعدرفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیئے گئے۔ فریال تالپور کو بھی سپیکر صاحب نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے جہاز سے منگوالیا۔ لیکن اسد قیصر کا یہی استحقاق شاید علی وزیر اور محسن داوڑ کے معاملے پر مجروح ہوتا ہے جن کے پروڈکشن آرڈر کے اجرا کی بلاول بھٹو سمیت کئی ممبران پارلیمنٹ نے پرزور اپیلیں بھی کیں لیکن ابھی تک یہ نمائندے پابند سلاسل ہیں۔
یوں بجٹ اجلاس میں شمالی و جنوبی وزیرستان کے ان نمائندوں کو بحث میں حصہ لینے سے بے دخل کر دیا گیا۔ میڈیا میں پہلے ان کے خلاف منافرت پھیلانے کی بھرپور مہم چلائی گئی۔ لیکن پھر اس نیم فسطائیت کے معماروں کو اندازہ ہوا کہ شاید اس بدنامی سے تو ان کا نام ہو رہا تھا۔ پھر ٹیلی ویژن سے لے کے اخبارات تک ان کے حق میں ہر بات سنسر شپ کا شکار بنا دی گئی۔ یہاں تک کہ اخبارات کے کالم تک بدل دئیے گئے۔ راقم کا اپنا مضمون بھی ایک نجی اخبار میں اس بے لگام سنسرشپ کا شکار ہوا۔
لیکن علی وزیر نے بالشویک اراکین پارلیمنٹ کی روایت کا علم سربلند رکھا جو منتخب ہونے کے بعد سیدھے جیل جاتے تھے۔ وہ اسی میراث کا امین ہے جس نے ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا ہے اور زنداں میں پابند سلال ہے۔ تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ محنت کش طبقے کے حقیقی نمائندے کسی ذاتی مفاد میں جھک نہیں سکتے‘ رک نہیں سکتے۔
ملک سے باہر بھی علی وزیر کے حق میں 50 سے زائد ممالک میں احتجاج منظم ہوئے ہیں۔ ’سوشلزم اور آزادی پارٹی‘ کے رہنما اور برازیل کے ممبر قومی اسمبلی ’ڈیوڈ میرانڈا‘نے برازیلین پارلیمنٹ کی قومی دفاع اور بیرونی تعلقات کی کمیٹی میں علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف نوٹ پیش کیا۔ 14 جون 2019ء کو ہونے والی عام ہڑتال کے دوران برازیل کے انقلابیوں نے سڑکوں اور چوکوں چوراہوں پر علی وزیر اور محسن داوڑ کے بینر اٹھا کر ان کی گرفتاری کی شدید مذمت کی اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں یکجہتی کے مظاہرے ہوئے اور آنے والے دنوں میں مزید ہوں گے۔ ارجنٹینا کے درالحکومت بیونس آئرس میں آئی ایم ایف مخالف احتجاجوں کے دوران بھی محنت کشوں، مزدور رہنماؤں اور نوجوانوں نے یکجہتی کے پیغامات بھیجے۔ 14 جون کو بیونس آئرس میں پاکستانی سفارتخانے کے سامنے ورکرز سوشلسٹ موومنٹ (MST) کے ساتھیوں نے سینکڑوں کی تعداد میں اکٹھے ہو کر ان کی گرفتاری کی مذمت کی۔ 31 مئی کو ترکی کے شہر انقرہ میں سوشلسٹ لیبررز پارٹی (SEP) کی طرف سے زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے بعد 20 جون کو خراب موسم کے باوجود ترکی کے درالحکومت استنبول میں موجود پاکستانی قونصلیٹ کے سامنے علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری اور شمالی وزیرستان میں کرفیوکے خلاف شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ ملیشیا میں موجود جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور عوامی ورکز پارٹی کے ساتھیوں نے سوشلسٹ پارٹی ملیشیا کے ساتھ مل کر ان گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا اور کوالالمپور میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کے حکام کو مذمتی درخواست جمع کروائی۔ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے انقلابی ساتھیوں نے کشمیر بھر میں احتجاج منظم کیے۔
اسی طرح ’MST‘ ،’SEP‘، انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ اور دنیا بھر کے انقلابی ساتھیوں نے روس، چلی، ارجنٹینا، یوکرائن، وینزویلا، ترکی، فرانس، سپین، ڈنمارک، پیراگوئے، بیلاروس، آسٹریلیا، بیلجیئم، فلپائن اور ہالینڈسمیت درجنوں دیگر ممالک سے سینکڑوں یکجہتی کے پیغامات نے سرمایہ داری کے جبر کے خلاف لڑنے والے انقلابی ساتھیوں کا جوش اور ولولے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ان احتجاجوں نے محنت کش طبقے کی قوت اور بین الاقوامی انقلابی جڑت پر یقین مزید مستحکم کیا ہے۔ اسی طرح عالمی پیمانے پر چلائی جانے والی دستخطی مہم میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ہے جس میں علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری کے خلاف مقدمات کے فوری خاتمے کے مطالبات کیے گئے تھے۔ اس مہم میں تیونس کے درجنوں اراکین پارلیمنٹ سمیت ارجنٹینا، ترکی، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، برازیل، میکسیکو، بنگلہ دیش، فلپائن، پولینڈ، نیوزی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، فرانس، پانامہ، یونان، پرتگال، الجزائر، یوراگوئے، کاتالونیا، جرمنی، ہالینڈ، کولمبیا، جاپان، سینیگال، بیلجیئم اور پاکستان کے سینکڑوں سیاسی و سماجی کارکنان، ادیبوں، فنکاروں اور طلباو طالبات نے شمولیت اختیار کی۔ یہ دستخطی مہم ہرروز وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے اور ابھی بھی جاری ہے۔
اسی طرح جہاں قومی اسمبلی کے فلور سے بلاول بھٹو اور امیر حیدر ہوتی نے ان دو ممبران کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی اپیل کی وہاں ٹی وی ٹاک شوز میں خود پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں ندیم افضل چن، ریاض فتیانہ اور دیگر نے اپنی ذاتی آرا میں ان کی پارلیمان میں حاضری کو ضروری قرار دیا۔ اسمبلی میں کرپشن کا شور بھی جاری ہے اور کرپشن کے الزامات میں قید ممبران کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہو جاتے ہیں۔ مگر جن دو ممبران کے لئے اسمبلی کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے ان پر کم از کم کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔
موجودہ حکومت میں شامل اختر مینگل نے اپنی تقریر میں نہ صرف ان کی اسمبلی میں موجودگی کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی حمایت میں ا شعار تک پڑھ ڈالے۔ لیکن مروجہ سیاست کی منافقت کا عالم یہ ہے کہ ایک ہی روز میں اختر مینگل نے پلٹا بھی کھا لیا۔ یہی اصل چہرہ ہے اس سیاسی اشرافیہ کا جو عوام کے سامنے بے نقاب بھی ہو رہا ہے۔
اس نظام کا بحران جہاں ایک طرف آبادی کی وسیع اکثریت کی زندگیاں اجیرن کرتا جا رہا ہے وہیں حکمرانوں کی اصلیت کو بھی ہر روز بے نقاب کر رہا ہے۔ محنت کش عوام اتنے بھی بھولے نہیں کہ حاکمیت کے ایوانوں کی نوراکشتیوں کو سمجھ نہ پائیں۔ وہ سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیں اور نتائج بھی اخذ کر رہے ہیں۔ فی الوقت وہ گھائل ہیں لیکن خاموشی سے جبر سہنے کی بھی ایک حد ہے۔
حالیہ کٹھ پتلی حکومت اور اس کے حواری جس شدت سے عام لوگوں کی زندگیوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں یہ تمام حدود پار کرنے کے درپے معلوم ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کے سنجیدہ حلقے بار بار یہی باور کروا رہے ہیں کہ ایک حد کے اندر رہتے ہوئے سماج کو نوچا جائے۔ وہ بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ معاشرہ اگر پھٹ پڑا تو صرف موجودہ حکمران ہی نہیں پورا نظام لپیٹ میں آ جائے گا۔ اس خدشے کا اظہار بار بار اسمبلی کی اپوزیشن کر رہی ہے۔ حکمران طبقے کی تمام سیاسی پارٹیاں آپسی لڑائیوں کے باوجود اس استحصالی نظام کو بچانے کی دُہایاں دے رہی ہیں۔ کیونکہ ان سب کا وجود اس استحصالی نظام کی بقا میں مضمر ہے اور اسی کو بچانے کی تگ و دو کی جا رہی ہے۔
اپوزیشن کی اے پی سی میں کون سا ایسا انقلابی فیصلہ ہوا ہے جس سے جمہوریت کے روپ میں یہ آمریت باز آجائے گی؟ آخر کار اپوزیشن کی سبھی بڑی پارٹیاں اسی نظام کی نمائندہ ہیں جس کے تحفظ کے لیے یہ بجٹ اور معاشی پالیسیاں مسلط کی جارہی ہیں۔ اے پی سی نے بھی تو ”سسٹم کو بچانے اور چلانے“ کی بات ہی کی ہے۔ جس جمہوریت کی بقا کی یہ حکمران لڑائی لڑرہے ہیں وہ پیسے کی جمہوریت ہے۔ اس کے بارے میں لینن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’ریاست اور انقلاب‘ میں جولائی 1917ء میں لکھا تھا کہ”سرمایہ دارانہ سماجوں کی جمہوریت درحقیقت ایک چھوٹی سی اقلیت اور امیروں کی جمہوریت ہوتی ہے۔ اگر ہم سرمایہ دارانہ جمہوریت کی مشینری اور ڈھانچوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف ”نمائندہ اداروں“ کی وہ تکنیک ملتی ہے جو عام لوگوں کے اجتماعی حقوق کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ پابندی در پابندی سے عوام کے جمہوری حقوق کی پامالی کے ہتھکنڈے بن جاتے ہیں۔ یہ پابندیاں، منہائیاں اور رکاوٹیں ظاہری طور پر معمولی نظر آتی ہیں۔ خصوصاً ایسے افراد کو جو کبھی محرومی اور مانگ سے آشنا ہی نہیں ہوتے۔ جنہوں نے عوامی زندگی سے کوئی تعلق استوار نہیں کیا ہوتا۔ جن کا جبر کے شکار طبقات سے کوئی رابطہ ہی نہ ہوتا۔ لیکن در حقیقت (مالیاتی) جمہوریت کے یہ قوانین، اقدار، پابندیاں اور روایات عام لوگوں کو سیاست سے ہی بے دخل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ غریبوں کو جمہوری عمل میں حقیقی شراکت سے محروم کر دیتی ہیں۔“
یہ سرمائے کی جمہوریت محنت کشوں کے خون پر پل رہی ہے۔ بورژواجمہوریت کی علم بردار تمام پارٹیاں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نواز لیگ کی اندرونی تقسیم اب کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ ایک طرف شہباز شریف مقتدر حلقوں کی خوشنودی کے حصول کے لئے تمام حدیں پار کر رہا ہے تو دوسری جانب مریم نواز اس تمام تر میثاق کو مذاق قراردے رہی ہے۔ پنجاب میں نواز لیگ کے کئی ممبران اسمبلی کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی بازگشت جاری ہے تو دوسری جانب نواز لیگ کے لیڈران ایسے اقدامات کے سنجیدہ نتائج کی بات کر رہے ہیں۔ نواز لیگ موجودہ کیفیت میں ایک حد تک تو ریاست مخالف موقف اپنا رہی ہے لیکن اس حد کو توڑنے پر خود نواز لیگ کی ٹوٹ پھوٹ شدت اختیار کرتی جائے گی۔
موجودہ حکومت نے جبراور کرکٹ کو استعمال کرتے ہوئے مقتدر قوتوں کی پشت پناہی سے بجٹ پیش بھی کر دیا اور پاس بھی کروالیا۔ ہر جگہ عوام دشمن معاشیات کی مزاحمت کرنے والوں پر شب خون مارا جا رہاہے۔ صادق آباد میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی رہنما قمرالزماں خان کو آئی ایم ایف اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کی پاداش میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ لاہور میں ٹریڈ یونین دفاتر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور مزدور رہنماؤں پر حالات تنگ کیے جا رہے ہیں۔
لیکن عوام میں کوئی بڑی تحریک بھڑک اٹھی تو پھر وہ اس نظام کے ہر ڈھانچے اور ہر جکڑ کو توڑ کے آگے نکل جائے گی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اسی خوف کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی رعونت اور ڈھٹائی شاید اس لئے زیادہ ہے کہ ان کے نزدیک عوام معاشی و سماجی مظالم سے اتنے نڈھال ہوچکے ہیں کہ اٹھیں گے نہیں۔ لیکن یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ حالات واقعات شاید بہت جلد انہیں ششدر کر دیں۔ فیض صاحب کے بقول:
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں!