لیون ٹراٹسکی

تلخیص و ترجمہ: عمران کامیانہ

لیون ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کی تیسری جلد سے اقتباس

انسانی رابطے اور نتیجتاً صنعت کا سب سے اہم اوزار زبان ہے۔اشیا (Commodities) کا تبادلہ، جو قوموں کو یکجا کرتا ہے، جب غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو زبان بھی قومی بن جاتی ہے۔ اِسی بنیاد پر سرمایہ دارانہ رشتوں کے سب سے موزوں، منافع بخش اور عمومی میدانِ عمل کے طور پر قومی ریاست کھڑی ہوتی ہے۔ اگر آپ ہالینڈ کی جدوجہد آزادی اور پانیوں میں گھرے برطانیہ کو چھوڑ دیں تو مغربی یورپ میں قومی ریاستوں کی تشکیل کا عہد عظیم انقلابِ فرانس کے ساتھ شروع ہوا اور بنیادی طور پر سو سال بعد جرمن سلطنت کی تشکیل کے ساتھ مکمل ہو گیا۔

لیکن جس عہد میں یورپ میں قومی ریاست پیداواری قوتوں کو مزید مقید رکھنے کے قابل نہیں رہی تھی اور پھیل کر ایک سامراجی ریاست میں تبدیل ہو چکی تھی، مشرق میں ایران، بالکان، چین اور ہندوستان میں 1905ءکے انقلابِ روس سے تحریک پکڑتے ہوئے قومی جمہوری انقلابات کا عہد ابھی شروع ہی ہو رہا تھا۔ 1912ءکی جنگ ِبالکان نے جنوب مشرقی یورپ میں قومی ریاستوں کی تشکیل کی تکمیل پر مہر ثبت کی۔ بعد کی سامراجی جنگ نے اتفاقاً یورپ میں قومی انقلابات کا ادھورا کام مکمل کر دیا اور آسٹریا -ہنگری کی علیحدگی، آزاد پولینڈ کے قیام اور زاروں کی سلطنت سے الگ آزاد سرحدی ریاستوں پر منتج ہوئی۔

روس ایک قومی ریاست کے طور پر نہیں بلکہ قومیتوں پر مشتمل ریاست کے طور پر تشکیل پایا تھا۔ یہ اِس کے تاخیرزدہ کردار کی وجہ سے تھا۔ وسیع زراعت اور گھریلو صنعت کی بنیاد پر تجارتی سرمایہ گہرائی میں پیداوار کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے نہیں بلکہ وسعت میں پیداوار کے حلقہ اثر کو بڑھاتے ہوئے ارتقا پذیر ہوا۔ نئی زمینوں اور محصولات سے آزادی کی تلاش میں زیادہ پسماندہ قبائل کے علاقوں میں سرایت کرنے والے کسان آباد کاروں کے پیچھے پیچھے تاجر، زمیندار اور حکومتی اہلکار بھی مرکز سے بیرونی علاقوں کی طرف بڑھے۔ریاست کا پھیلاﺅ اپنی بنیاد میں زراعت کا پھیلاﺅ تھا، جو اپنی تمام تر پسماندگی کے باوجود جنوب اور مشرق کے خانہ بدوشوں سے کچھ برتر تھی۔ ایک بڑی اور مسلسل وسیع ہونے والی اِس بنیاد پر تشکیل پانے والی افسرشاہانہ ریاست اِتنی مضبوط ہو گئی کہ مغرب میں کچھ ایسی اقوام کو مطیع کرسکے جو بلند تہذیب کی حامل تو تھیں لیکن اپنی کم تعداد یا داخلی بحران کی وجہ سے اپنی آزادی کا دفاع کرنے کے قابل نہ تھیں (پولینڈ، لتھوینیا، بالٹک ریاستیں، فن لینڈ)۔

ملک کی آبادی کا بڑا حصہ تشکیل دینے والے سات کروڑ دیسی روسیوں میں رفتہ رفتہ تقریباً نو کروڑ ”بدیسیوں“ کا اضافہ ہو گیا، جو واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم تھے: اپنی تہذیب میں روس سے برتر مغربی اقوام اور کم تر سطح پر کھڑی مشرقی اقوام۔ یوں ایک ایسی سلطنت تخلیق پائی جس کا صرف 43 فیصد حصہ حکمران قومیت پر مبنی تھا۔ باقی 57 فیصد میں 17 فیصد یوکرائنیوں، 6 فیصد پولینڈ والوں اور 4.5 فیصد سفید روسیوں سمیت مختلف سطحوں کی تہذیب اور محکومی کی قومیتیں شامل تھیں۔

ریاست کے لالچی مطالبات اور کسان بنیاد کی نقاہت نے استحصال کی بدترین اشکال کو جنم دیا۔ روس میں قومی جبر نہ صرف مغربی بلکہ مشرقی سرحدوں پر موجود ریاستوں سے بھی کہیں زیادہ تلخ تھا۔ حقوق سے محروم اِن قومیتوں کی وسیع تعداد اور اِن کی محرومی کی شدت نے زارشاہانہ روس میں قومی مسئلے کو دیوہیکل دھماکہ خیز قوت عطا کر دی۔

جہاں فرانس، اٹلی اور جرمنی جیسی قومی طور پر یکساں ریاستوں میں بورژوا انقلابات نے طاقتور مرکز مائل قوتوں کو ترقی دی، وہاں اِس کے برعکس ترکی، روس اور آسٹریا ہنگری جیسی قومی طور پر غیریکساں ریاستوں میں تاخیرزدہ بورژوا انقلاب نے مرکز گریز قوتوں کو جنم دیا۔ میکانکی اصطلاحات میں بیان کئے جانے پر متضاد ہونے کے باوجود اِن عوامل کا تاریخی فریضہ ایک ہی تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ بنیادی صنعتی ذخیرے کے طور پر قومی یکجہتی کے استعمال کا سوال تھا۔ اِس مقصد کے لئے جرمنی کو متحد جبکہ آسٹریا ہنگری کو تقسیم کرنا پڑا۔

لینن بہت پہلے ہی روس میں مرکز گریز قومی تحریکوں کے پنپنے کی ناگزیریت کو بھانپ چکا تھا، اِسی لئے کئی سال تک بالخصوص روزا لکسمبرگ کے خلاف پرانے پارٹی پروگرام کے پیراگراف 9 کے لئے سختی سے لڑتا رہا، جو قوموں کے حق خود ارادیت یعنی ریاستوں کے طور پر اُن کی یکسر علیحدگی کے حق پر مبنی تھا۔ اِس طرح سے بالشویک پارٹی کسی طور پر بھی علیحدگی کی تبلیغ نہیں کر رہی تھی، بلکہ کسی قومیت کو بڑی ریاست کی حدود میں زبردستی مقید رکھنے سمیت قومی جبر کی ہر شکل کے خلاف بے رحم جدوجہد کا فریضہ اپنے لئے متعین کر رہی تھی۔ روسی پرولتاریہ صرف اِسی طرح سے محکوم قومیتوں کا اعتماد بتدریج حاصل کر سکتا تھا۔

لیکن یہ معاملے کا صرف ایک رُخ تھا۔ قومی میدان میں بالشویزم کی حکمت عملی کا ایک دوسرا رخ بھی تھا، جو بظاہر پہلے رخ سے متضاد تھا، لیکن درحقیقت اُسے مکمل کرتا تھا۔ پارٹی اور بالعموم تمام مزدور تنظیموں کے ڈھانچے میں بالشویزم ایک غیرلچکدار مرکزیت پر زور دیتا تھا اور قوم پرستی کے ہر اُس کلنک کے خلاف بے رحم جنگ کرتا تھا جو مزدوروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرے یا اُنہیں غیرمتحد کرے۔ ایک قومی اقلیت پر لازمی شہریت یا ریاستی زبان مسلط کرنے کے بورژوا ریاستوں کے اختیار کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بالشویزم نے عین اسی وقت رضاکارانہ طبقاتی ڈسپلن کے ذریعے مختلف قومیتوں کے مزدوروں کو ہر ممکن حد تک مضبوطی سے یکجا کرنے کو حقیقی معنوں میں مقدس فریضے کا درجہ دیا۔ یوں بالشویزم نے پارٹی کی تعمیر میں قومی وفاق کے اصول کو یکسر مسترد کر دیا۔ ایک انقلابی پارٹی مستقبل کی مزدور ریاست کا نمونہ نہیں بلکہ محض اُس کی تخلیق کا اوزار ہوتی ہے۔ ایک اوزار کو پیداوار کی تخلیق کے لئے موزوں ہونا چاہئے؛اوزار میں ہی پیداوار کا شامل ہونا ضروری نہیں۔ یوں فریضہ اگر مرکزیت پر مبنی قومی جبر کو توڑنے کا بھی ہو تو ایک مرکزیت پر مبنی تنظیم ہی انقلابی جدوجہد کی کامیابی کی ضامن بن سکتی ہے۔

روس کی محکوم قومیتوں کے لئے بادشاہت کے دھڑن تختے کا ناگزیر مطلب اُن کا اپنا قومی انقلاب بھی تھا۔ تاہم اِس معاملے میں بھی تمام دوسرے شعبوں کی طرح ہم فروری انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والے نظامِ حکومت کی وہی چیز دیکھتے ہیں: سامراجی بورژوازی پر اپنے سیاسی انحصار میں جکڑی سرکاری جمہوریت پرانی زنجیروں کو توڑنے کے قابل نہیں تھی۔ دوسری قوموں کے مقدر کا فیصلہ کرنے کو اپنا مسلمہ حق گردانتے ہوئے اِس نے دولت، طاقت اور اثرورسوخ کے اُن ذرائع کی پہرہ داری جاری رکھی جنہوں نے عظیم روس [۱] کی بورژوازی کو اُس کا غالب مقام عطا کیا تھا۔

ظاہر ہے نئی حکومت مکروہ قانونی پھندے کو بالکل چھیڑے بنا تو چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ لیکن اِس کی خواہش اور کوشش تھی کہ بس انفرادی قوموں کے خلاف استثنائی قوانین کی منسوخی پر اکتفا کیا جائے، یعنی عظیم روس کی ریاستی افسر شاہی کے سامنے آبادی کے تمام حصوں کی برابری قائم کر دی جائے۔

لیکن ایک انقلاب اِسی وجہ سے انقلاب ہوتا ہے کہ یہ نہ تو معمولی خیرات اور نہ ہی قسطوں میں ادائیگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ زیادہ شرمناک قومی پابندیوں کے خاتمے نے قومیت سے قطع نظر شہریوں کی باضابطہ برابری تو قائم کر دی، لیکن اِس نے اتنی ہی شدت سے قومیتوں کی غیر مساوی صورتحال کو آشکار کر دیا، جن میں سے زیادہ تر کو عظیم روسی ریاست کے سوتیلے بچوں یا لے پالک بچوں کا درجہ حاصل تھا۔

فن لینڈ والوں کے لئے مساوی حقوق کا اعلان بے معنی تھا، کیونکہ وہ روسیوں کی برابری نہیں بلکہ روس سے آزادی چاہتے تھے۔ اِس نے یوکرائن والوں کو بھی کچھ نہ دیا، کیونکہ اُن کے حقوق پہلے ہی مساوی تھے اور اُنہیں زبردستی روسی قرار دیا جاتا تھا۔ جرمن جاگیردار اور روسی-جرمن شہر کے ستائے لیٹویا اور اسٹونیا والوں کی صورتحال میںبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اِس نے وسطی ایشیا کی پسماندہ اقوام اور قبائل کا مقدر بھی سہل نہیں بنایا، جنہیں قانونی پابندیوںمیں نہیں بلکہ ثقافتی زنجیروں میں جکڑا گیا تھا۔ لبرلوں اور مصالحت پسندوں کے اتحاد نے اِن تمام سوالات پر غور کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد والی بورژوا جمہوری ریاست اُنہی عظیم روسی منصب داروں والی پرانی ریاست ہی رہی جو اپنی جگہ کسی کو دینے کو تیار نہیں تھے۔

انقلاب جوں جوں سرحدی علاقوں [۲] کے عوام میں سرایت کرتا گیا، واضح ہوتا گیا کہ روس کی ریاستی زبان ہی وہاں کے ملکیتی طبقات کی زبان تھی۔ صحافت اور اجتماع کی آزادی سے باضابطہ جمہوریت کے نظام نے پسماندہ اور محکوم قومیتوں کو زیادہ دردناک انداز میں باور کروایا کہ انہیں کس حدتک ثقافتی ترقی کے انتہائی بنیادی ذرائع سے محروم رکھا گیا تھا۔ مستقبل کی آئین ساز اسمبلی کے حوالے اُنہیں زِچ ہی کرتے تھے۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ آئین ساز اسمبلی پر بھی وہی پارٹی حاوی ہو گی جس نے عبوری حکومت قائم کی تھی اور جو ابھی تک رسیفیکیشن [۳] کا دفاع کر رہی تھی۔

یہ درست ہے کہ ستمبر میں حکومت نے آخر کار روس کی تمام قومیتوں کے ”حق خود ارادیت“، جس کی حدود کا تعین آئین ساز اسمبلی نے کرنا تھا، کو تسلیم کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ لیکن مستقبل کے اِس بالکل بے ضمانت اور متضاد وعدے پر کسی کو اعتبار نہیں تھا۔ عبوری حکومت کے کرتوت چیخ چیخ کر اُس کے خلاف گواہی دے رہے تھے۔

جیسا کہ ہمیں یاد ہے کہ روسی بورژوازی کے سماجی عدم استحکام کی ایک وجہ یہ حقیقت تھی کہ اُس کا زیادہ طاقتور حصہ ایسے غیرملکیوں پر مشتمل تھا جو روس میں رہتے تک نہیں تھے۔ لیکن سرحدی علاقوں کی تو اپنی دیسی بورژوازی کا تعلق بھی اُس قوم سے نہیں تھا جس سے عوام کے کلیدی حصے کا تھا۔

اِن سرحدی علاقوں میں شہروں کی آبادی اپنے قومی اجزا میں دیہات کی آبادی سے بالکل مختلف تھی۔ یوکرائن اور سفید روس [۴] میں زمیندار، سرمایہ دار، وکیل اور صحافی ایک عظیم روسی، ایک پول، ایک یہودی، ایک پردیسی ہوتا تھا؛ دیہی آبادی مکمل طور پر یوکرائنی اور سفید روسی ہوتی تھی۔ بالٹک ریاستوں کے شہر جرمن، روسی اور یہودی بورژوازی کی جنت تھے؛ دیہات سارے کے سارے لیٹویائی اور ایسٹونیائی تھے۔ جارجیا کے شہروں میں روسی اور آرمینائی آبادی کا غلبہ تھا، جو نہ صرف اپنی زندگی اور ثقافت کے معیار بلکہ زبان کے لحاظ سے بھی عوام کے کلیدی حصے سے جدا تھی، جیسے ہندوستان میں انگریز ہیں۔ اپنی جائیدادوں اور آمدن کے لئے افسرشاہانہ تنظیم پر منحصر اور دوسرے تمام ممالک کے حکمران طبقات سے جڑے ہونے کی وجہ سے اِن سرحدی علاقوں کے زمینداروں، صنعتکاروں اور تاجروں نے اپنے گرد روسی اہلکاروں، کلرکوں، اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلا، صحافیوں اور کسی حد تک مزدوروں کا تنگ حلقہ جمع کر کے شہروں کو روسی ثقافت اور نوآبادکاری کے مراکز میں تبدیل کر دیا تھا۔

دیہات جب تک خاموش تھے، اُنہیں نظر انداز کرنا ممکن تھا۔ تاہم جب وہ زیادہ سے زیادہ بے صبری سے اپنی آواز بلند کرنے لگے تو شہر اپنے برتر مقام کے دفاع میں مزاحمت کرنے لگا۔عہدیدار، تاجر اور وکیل نے جلد ہی سیکھ لیا کہ بڑھتے ہوئے ”شاونزم“ کی مذمت کی آڑ میں صنعت اور ثقافت کے کلیدی شعبوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کو کیسے چھپایا جائے۔ ایک حکمران قوم کی مروجہ نظام کو برقرار رکھنے کی خواہش کو اکثر ”قوم پرستی“ سے ماورا ہونے کا لبادہ پہنایا جاتا ہے، بالکل جیسے ایک فاتح قوم کی مالِ غنیمت سے چمٹے رہنے کی خواہش بڑی آسانی سے امن پسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یوں گاندھی کے سامنے برطانوی وزیر اعظم میکڈونلڈ خود کو انٹرنیشنلسٹ گمان کرتا ہے۔ اِسی طرح جرمنی کی طرف آسٹریا والوں کی کشش فرانسیسی وزیر اعظم پونکارے کو فرانسیسی امن پسندی پر حملہ معلوم ہوتی ہے۔

عبوری حکومت میں یوکرائنی پارلیمنٹ کے وفد نے مئی میں لکھا، ”یوکرائن کے شہروں میں رہنے والے لوگ اپنے سامنے روسی انداز میں ڈھلی ہوئی سڑکیں دیکھتے ہیں اور بالکل بھول جاتے ہیں کہ سارے یوکرائنی عوام کے سمندر میں یہ شہر صرف معمولی جزیرے ہیں۔“ اکتوبر انقلاب کے خلاف اپنے مناظرے میں روزا لکسمبرگ نے دعویٰ کیا تھا یوکرائنی قوم پرستی پہلے صرف روایتی پیٹی بورژوا دانشوروں کی ”تفریح“ تھی، جسے حق خودارادیت کے بالشویک کلیے نے مصنوعی طور پر بڑھاوا دیا۔ روزا لکسمبرگ یہاں اپنی درخشاں سوچ کے باوجود ایک تاریخی غلطی کا شکار ہو گئی۔ یوکرائنی کسانوں نے ماضی میں قومی مطالبات اِس لئے نہیں کئے تھے کہ یوکرائنی کسان بالعموم سیاسی وجود کی سطح تک بلند ہی نہیں ہوئے تھے۔ فروری انقلاب کا اہم ترین کام (شاید یہ اِس کا واحد مگر بہت اہم کام تھا) ہی یہی تھا کہ اِس نے روس کے محکوم طبقات اور اقوام کو آخر کار بولنے کا موقع دیا۔ تاہم کسانوں کی سیاسی بیداری اُن کی اپنی آبائی زبان کے ذریعے ہی ممکن تھی۔ اِس کی مخالفت کا مطلب کسانوں کو واپس عدم وجود میں ہانک دینا ہوتا۔

شہروں اور دیہاتوں کے درمیان قومیت کا فرق تکلیف دہ انداز میں سوویتوں میں بھی محسوس کیا گیا، جو زیادہ تر شہری تنظیمیں تھیں۔ مصالحت پسند پارٹیوں کے زیر قیادت سوویتیں اکثر بنیادی آبادی کے قومی مفادات کو نظرانداز کر دیتی تھیں۔ یوکرائن میں سوویتوں کی کمزوری کی یہ ایک وجہ تھی۔ ریگا اور ریوال کی سوویتیں لیٹویائی اور ایسٹونیائی لوگوں کے مفادات بھول گئیں۔باکو میں مصالحت پسندانہ سوویت نے بنیادی ترکمان آبادی کے مفادات کی تضحیک کی۔ انٹرنیشنلزم کے جعلی پرچم تلے سوویتیں اکثر یوکرائنیوں اور مسلمانوں کی دفاعی قوم پرستی کے خلاف مزاحمت کر کے شہروں کی جابر روسی تحریک کو آڑ فراہم کرتی تھیں۔ کچھ عرصے بعد بالشویکوں کے زیر قیادت اِن سرحدی علاقوں کی سوویتوں نے دیہاتوں کی زبان بولنا شروع کر دی۔

دریائے وولگا کے ساتھ شمالی قفقاز اور وسطی ایشیا میں آباد اقوام اور قبائل، جنہیں فروری انقلاب نے پہلی بار قبل از تاریخ کے وجود سے بیدار کیا تھا، کی ابھی تک نہ تو کوئی قومی بورژوازی تھی اور نہ ہی قومی پرولتاریہ۔ کسان اور گلہ بان عوام کے اوپر ایک باریک پرت نے دانشور طبقہ تشکیل دیا۔ یہاں ابھی تک قومی خود انتظامی کے پروگرام تک بلند نہ ہونے والی جدوجہد زیادہ تر اپنے حروف تہجی، اپنے اساتذہ، حتیٰ کہ بعض اوقات اپنے پادری رکھنے جیسے معاملات سے متعلقہ تھی۔ اِن طریقوں سے انتہائی کچلے ہوئے لوگ یہ سیکھنے پر مجبور ہو رہے تھے کہ ریاست کے تعلیم یافتہ آقا رضاکارانہ طور پر اُنہیں دنیا میں ابھرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یوں جو سب سے پسماندہ تھے وہ مجبور ہو گئے کہ سب سے انقلابی طبقے سے اتحاد کی سعی کریں۔ اپنے نوجوان دانشوروں کے بائیں بازو کے عناصر کے ذریعے اُنہیں بالشویکوں کی طرف کا راستہ ملنے لگا۔

زارشاہی کے تحت بشکیروں، بوریاتوں، کرغزوں اور دوسرے خانہ بدوش قبائل سے چھینی گئی بہترین زمینیں ابھی تک زمینداروں اور امیر روسی کسانوں کی ملکیت میں تھیں، جو مقامی آبادی کے درمیان نوآبادیاتی جزیروں میں بکھرے ہوئے تھے۔ یہاں آزادی کی قومی روح کی بیداری کا مطلب سب سے پہلے اِن نوآبادکاروں کے خلاف جدوجہد تھا جنہوں نے زمین کی ملکیت کا ایک مصنوعی پٹی دار نظام قائم کر رکھا تھا اور خانہ بدوشوں کو بھوک اور بتدریج معدومی میں غرق کر دیا تھا۔ دوسری طرف نوآبادکاروں نے ایشیائیوں کی ”علیحدگی پسندی“ کے خلاف روس کی وحدت، یعنی اپنے قبضوں کے تقدس کا بھرپور دفاع کیا۔

مروجہ نظام کو جہاں تک ہو سکے برقرار رکھنے کی پریشانی میں نوآبادیاتی علاقوں کے تمام استحصالی اور غاصب طبقات اب آئین ساز اسمبلی کے حتمی اختیارات کا حوالہ دینے لگے۔ یہ لفاظی اُنہیں عبوری حکومت نے فراہم کی تھی، جسے یہاں اپنا یقینی تحفظ مل گیا تھا۔ دوسری طرف محکوم اقوام کے مراعت یافتہ حلقے بھی اب زیادہ سے زیادہ آئین ساز اسمبلی کا نام لینے لگے تھے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے مُلّا بھی، جو نیچے سے دباﺅ ناقابل برداشت ہو جانے پر بیدار ہوتی ہوئی پہاڑی اقوام اور شمالی قفقاز کے قبائل پر شریعت کا سبز پرچم لہرا دیتے تھے، اب سوال کو ”آئین ساز اسمبلی تک“ موخر کر رہے تھے۔ یہ پورے ملک میں قدامت پسندی، رجعت ، خصوصی مفاد اور مراعت کا نعرہ بن گیا۔ آئین ساز اسمبلی سے استدعا کا مطلب تاخیر اور وقت کا حصول تھا۔ تاخیر کا مطلب تھا: اپنی قوتوں کو یکجا کرو اور انقلاب کا گلہ گھونٹ دو۔

قیادت صرف پہلے پہل ہی اور صرف پسماندہ اقوام میں ہی (تقریباً صرف مسلمانوں میں ہی) مذہبی پیشواﺅں اور جاگیردار اشرافیہ کے ہاتھ آئی۔ بالعموم دیہاتوں میں قومی تحریک کی قیادت دیہی اساتذہ، دیہی کلرک، نچلے درجے کے حکام اور افسران اور کسی حد تک تاجر کر رہے تھے۔ زیادہ معزز اور خوشحال عناصر پر مشتمل روسی یا روسی رنگ میں رنگے دانشوروں کے ساتھ ساتھ سرحدی شہروں میں ایک نئی نوجوان پرت بھی تشکیل پائی، جو اپنے دیہی ماخذ سے جڑی ہوئی تھی اور سرمائے کی ضیافت تک رسائی نہیں رکھتی تھی۔ اِسی پرت نے بنیادی کسان عوام کے قومی اور کسی حد تک سماجی مفادات کی سیاسی نمائندگی کا بیڑا اٹھایا۔

قومی بنیادوں پر روسی مصالحت پسندوں کے مخالف ہونے کے باوجود اِن سرحدی علاقوں کے مصالحت پسندوں کا تعلق بھی اُسی بنیادی قسم سے تھا اور زیادہ تر اُنہی ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ جب کبھی بھی انفرادی علاقوں کے قومی دعووں کو معتدل بنانے یا روکنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو یہودی مصالحت پسندوں کی طرح جارجیائی مصالحت پسندبھی ہمیشہ عظیم روسی افسر شاہی کی ”خدمت کو حاضر“ ہوتے تھے۔تاہم یہ سب تب تک ہی جاری رہا جب تک جارجیائی سوشل ڈیموکریٹوں کو انقلاب کو بورژوا جمہوریت کے ڈھانچے میں مقید کر پانے کی توقع تھی۔ جوں ہی بالشویزم کی قیادت میں عوام کی فتح کا خطرہ نمودار ہونے لگا، جارجیائی مصالحت پسندوں نے روسی مصالحت پسندوں سے دور ہٹتے ہوئے خود جارجیا کے رجعتی عناصر کے ساتھ مضبوط اتحاد بنا لیا۔ جب سوویتیں فتح یاب ہوئیں تو واحد روس کے یہ جارجیائی علمبردار فوراً علیحدگی کا ڈھنڈورا پیٹنے لگے۔

سماجی تضادات، جو سرحدی علاقوں میں بالعموم کم پکے ہوئے تھے، کا یہ ناگزیر قومی بہروپ مناسب طور سے بیان کرتا ہے کہ اکتوبر انقلاب کو مرکزی روس کی نسبت محکوم قومیتوں میں زیادہ مخالفت کا سامنا کیوں کرنا پڑا۔ تاہم دوسری طرف قومیتوں کے مسئلے نے فطری طور پر فروری حکومت کو بے رحمی سے لرزا دیا اور مرکز میں انقلاب کے لئے موافق حالات پیدا کئے۔

اِن حالات میں قومی تضادات جب کبھی طبقاتی تضادات سے ہم آہنگ ہوتے تھے تو زیادہ تپ جاتے تھے۔ لیٹویائی دہقانوں اور کسانوں کی نشانچی رجمنٹوں کا شمار محاذ کے بہترین دستوں میں ہوتا تھا۔ تاہم مئی میں ہی وہ ایک سوویت حکومت کی حمایت کرنے لگے تھے۔ اُن کی قوم پرستی درحقیقت ایک نابالغ بالشویزم کا بیرونی خول تھی۔ ایسٹونیا میں بھی کچھ ایسا ہی عمل رونما ہوا۔

انقلاب کی ”قومی“ نبض پر لینن کی مضبوط گرفت تھی۔ ستمبر کے آخر میں لکھے گئے ایک مشہور مضمون ”بحران پک چکا ہے“ میں اُس نے زوردار انداز سے نشاندہی کی کہ جمہوری اجلاس میں قومیتوں کی نمائندگی ”ریڈیکلزم کے معاملے میں صرف ٹریڈ یونینوں سے پیچھے تھی اور مخلوط حکومت کے خلاف فیصدی ووٹوں میں سوویت نمائندگی سے آگے تھی۔“ اِس کا مطلب تھا محکوم اقوام کو عظیم روسی بورژوازی سے مزید کسی بھلے کی امید نہیں تھی۔ وہ آزادانہ عمل کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہی تھےں۔

پیٹروگراڈ کی سرکشی کے دنوں میں منعقد ہونے والی کُل یوکرائنی سپاہی کانگریس نے یوکرائنی سوویت کو اقتدار کی منتقلی کے خلاف قرارداد منظور کی، لیکن ساتھ ہی عظیم روسی بالشویکوں کی سرکشی کو ”جمہوریت مخالف عمل“ سمجھنے سے انکار کر دیا اور وعدہ کیا کہ پیٹروگراڈ میں سرکشی کو کچلنے کے لئے یوکرائن سے سپاہی بھیجنے کی روک تھام کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے۔ قومی جدوجہد کے پیٹی بورژوا مرحلے کی غمازی کرنے والے اِس ابہام نے پرولتاریہ کے اُس انقلاب کو سہولت دی جس نے تمام ابہاموں کا خاتمہ کرنا تھا۔

دوسری طرف سرحدی علاقوں کے بورژوا حلقے، جو قبل ازیں مسلسل اور ہمیشہ مرکزی اقتدار کی طرف مائل تھے، اب ایسی علیحدگی پسندی کے پرجوش حامی بن گئے جس کی زیادہ تر صورتوں میں کوئی قومی بنیاد نہیں رہی تھی۔ بالٹک کی بورژوازی، جو رومانوف بادشاہت کی پہلی فصیل تھی اور کل تک پرجوش قوم پرستی کی کیفیت میں جرمن نوابوں کی پیروی کر رہی تھی، اب علیحدگی پسندی کے پرچم تلے بالشویک روس اور اپنے ہی عوام کے خلاف کھڑی ہو گئی۔

قومیتوں کے مسئلے پر ایک مزید نوٹ

بالشویک پارٹی نے کسی طور بھی قومی سوال پر وہ موقف فروری انقلاب کے فوراً بعد نہیں اپنایا جسے لمبے عرصے میں اِس کی فتح کا ضامن بننا تھا۔ ایسا نہ صرف کمزور اور ناتجربہ کار پارٹی تنظیموں والے سرحدی علاقوں بلکہ پیٹروگراڈ مرکز میں بھی تھا۔ جنگ کے دوران پارٹی اِتنی کمزور ہو گئی تھی اور اِس کے کیڈروں کا نظریاتی اور سیاسی معیار اِتنا گر گیا تھا کہ لینن کی آمد تک اِس کے باضابطہ رہنماﺅں نے قومی سوال پر بھی انتہائی متذبذب اور ادھورا موقف اپنایا۔

یہ درست ہے کہ اپنی روایت کے مطابق بالشویکوں نے قوموں کے حق خودارادیت کا دفاع کیا۔ لیکن اِس کلیے کی حمایت تو لفاظی کی حد تک منشویک بھی کرتے تھے۔ دونوں پارٹیوں کے پروگراموں کا متن ایک ہی تھا۔ یہ اقتدار کا سوال تھا جو فیصلہ کن تھا۔ قومی اور زرعی سوالوں پر بالشویک نعروں اور جمہوریت کے بہروپ میں ایک بورژوا سامراجی نظامِ حکومت کے درمیان ناقابل حل تضاد کو سمجھنے سے پارٹی کے عارضی رہنما بالکل قاصر ثابت ہوئے۔

درحقیقت بادشاہت کے دھڑن تختے نے اِس حقیقت کو پہلی بار آشکار کیا کہ نہ صرف رجعتی زمیندار، بلکہ ساری لبرل بورژوازی اور اُس کے پیچھے ساری پیٹی بورژوا جمہوریت اور ساتھ میں محنت کش طبقے کی بالائی پرتیں بھی، قومی حقوق کی حقیقی برابری یعنی غالب قوم کی مراعات کے خاتمے کے بے رحم مخالف تھے۔ اُن کا سارا پروگرام محض تخفیف کے کام، ثقافتی ملمع کاری اور عظیم روسی غلبے کو جمہوریت کے لبادے میں چھپانے تک محدود ہو چکا تھا۔

اپریل کے اجلاس میں قومی سوال پر لینن کی قرارداد کے دفاع میں سٹالن اِس تھیسس سے آغاز کرتا ہے کہ ”قومی جبر وہ نظام ہے … وہ اقدامات ہیں جو سامراجی حلقے اپناتے ہیں۔“ لیکن اس کے فوراً بعد اور ناگزیر طور پر وہ پٹری سے اُتر جاتا ہے: ”ایک ملک جتنا جمہوری ہو گا، قومی جبر بھی اِتنا ہی کمزور ہو گا، یونہی اِس کے برعکس بھی۔“ یہ حقیقت کہ ذات پات سے بھرے جاگیردارانہ ہندوستان پر جمہوری برطانیہ جبر کر رہا ہے، پہلے کی طرح اُس کی محدود فہم سے اب بھی ماورا ہے۔ تاریخی ارتقا کا مشترک کردار، جو ”جمہوریت“ کو کمزور اقوام پر جبر کے ساتھ یکجا کر دیتا ہے، سٹالن کے لئے ایک بند کتاب ہی رہا ہے۔

روس نے اپنی تاریخی تاخیرزدگی کی وجہ سے قومیتوں پر مشتمل ریاست کی شکل اختیار کی تھی۔ لیکن تاخیرزدگی ایک پیچیدہ اور ناگزیر طور پر متضاد تصور ہے۔ ایک پسماندہ ملک، ترقی یافتہ ملکوں کے پیچھے پیچھے مستقل فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے نہیں چلتا۔ عالمگیر معیشت کے عہد میں ترقی یافتہ اقوام کے دباﺅ کے تحت ارتقا کے عمومی سلسلے میں شامل ہو کر پسماندہ اقوام کئی درمیانی مراحل کو پھلانگ جاتی ہیں۔ مزید برآں ٹھوس مروجہ سماجی اشکال اور روایات کی عدم موجودگی کم از کم کچھ مخصوص حدود میں ایک پسماندہ ملک کو بین الاقوامی تکنیک اور سوچ کی جدید ترین حاصلات کے لئے انتہائی زرخیز بنا دیتی ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ اِس وجہ سے پسماندگی، پسماندگی نہیں رہتی۔ بلکہ سارا ارتقا ایک متضاد اور مشترک کردار کا حامل ہو جاتا ہے۔ تاریخی انتہاﺅں کا غلبہ ایک تاخیرزدہ قوم کے سماجی ڈھانچے کی خاصیت ہے، یعنی ایک طرف پسماندہ کسانوں اور دوسری طرف ترقی یافتہ پرولتاریہ کا بورژوازی کی درمیانی تراکیب (Formations) پر غلبہ۔ ایک طبقے کے فرائض دوسرے کے کندھوں پر عائد ہو جاتے ہیں۔ قومی سطح پر بھی قرونِ وسطیٰ کی باقیات کو اکھاڑ پھینکنے کا فریضہ پرولتاریہ پر عائد ہوتا ہے۔

روس کو اگر ایک یورپی ملک گردانا جائے تو اِس کی تاریخی تاخیرزدگی کا اظہار اِس حقیقت سے بہتر کوئی چیز نہیں کر سکتی کہ اِسے بیسویں صدی میں جبری زمینی کرائے اور پیل [۵] کا خاتمہ کرنا پڑا۔لیکن اپنے تاخیرزدہ ا رتقا کی ہی وجہ سے اِن فرائض کی ادائیگی میں روس نے نئے اور بالکل جدید طبقات، پارٹیوں اور پروگراموں کا استعمال کیا۔ راسپیوٹن کے نظریات اور طریقوں کے خاتمے کے لئے اُسے مارکس کے نظریات اور طریقے درکار تھے۔

یہ درست ہے کہ سیاسی نظریات کی نسبت سیاسی عمل کافی پسماندہ رہا۔ کیونکہ نظریات کی نسبت چیزوں کو تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم نظریات نے عمل کے تقاضوں کو پورا کیا۔ آزادی اور ثقافتی بلندی کے حصول کے لئے محکوم قومیتیں مجبور تھیں کہ اپنے مقدر کو محنت کش طبقے کے مقدر کے ساتھ جوڑیں۔ اِس مقصد کے لئے اُنہیں خود کو اپنی بورژوا اور پیٹی بورژوا پارٹیوں سے آزاد کروانا تھا، اُنہیں تاریخی ارتقا کے راستے پر لمبی چھلانگ لگانا تھی۔

اگر آپ اِس پیچیدہ اور متضاد عمل کو بحیثیت مجموعی لیں تو نتیجہ واضح ہے: زرعی دھارے کی طرح قومی دھارا بھی اکتوبر انقلاب کے دریا میں شامل ہو رہا تھا۔

سیاسی، زرعی اور قومی نجات کے انتہائی ابتدائی فرائض سے ناقابل واپسی اور ناقابل مزاحمت انداز میں عوام کا پرولتاریہ اقتدار کے نعرے کی طرف جاناکسی ”جذباتی“ ایجی ٹیشن، کسی بنے بنائے منصوبے یا انقلابِ مسلسل کے نظرئیے کا نتیجہ نہیں تھا، جیسا کہ لبرل اور مصالحت پسند سوچ رہے تھے، بلکہ یہ روس کے سماجی ڈھانچے اور عالمگیر حالات کا نتیجہ تھا۔ انقلابِ مسلسل کے نظرئیے نے اِس ارتقا کے مشترکہ عمل کو صرف ایک قانون کی شکل ہی دی ۔

یہاں یہ صرف روس کا سوال نہیں ہے۔ تاخیرزدہ قومی انقلابات کے پرولتاری انقلاب کے ماتحت ہونے کا یہ عمل جس قانون کی پیروی کرتا ہے وہ پوری دنیا میں درست ہے۔ جہاں انیسویں صدی میں جنگوں اور انقلابات کا بنیادی مسئلہ پیداواری قوتوں کے لئے ایک قومی منڈی کی ضمانت فراہم کرنا تھا، وہاں ہماری صدی کا مسئلہ پیداواری قوتوں کو اُن قومی سرحدوں سے آزاد کروانا ہے جو اِن پیداواری قوتوں کے پیروں کی بیڑیاں بن چکی ہیں۔ وسیع تر تاریخی نقطہ نظر سے مشرق کے انقلابات درحقیقت پرولتاریہ کے عالمی انقلاب کے ہی مراحل ہیں، بالکل جیسے روس کی قومی تحریکیں ایک سوویت آمریت تک کے زینے بن گئیں۔

زارشاہی روس اور پوری دنیا میں محکوم قومیتوں کی جبلی انقلابی قوت کو لینن نے کمال گہرائی میں پرکھا تھا۔ اُس منافقانہ ”امن پسندی“، جو چین کو غلام بنانے کے لئے اُس کے خلاف جاپان کی جنگ اور اپنی آزادی کے لئے جاپان کے خلاف چین کی جنگ کی ”مذمت“ ایک ہی انداز سے کرتی ہے، کے لئے لینن کے پاس سوائے حقارت آمیز استرداد کے کچھ نہ تھا۔ اُس کی نظر میں سامراجی جبر کی جنگوں کے برخلاف قومی آزادی کی جنگ محض قومی انقلاب کی ہی ایک شکل تھی، جو بین الاقوامی محنت کش طبقے کی آزادی کی جدوجہد میں ایک لازمی کڑی ہے۔

تاہم قومی جنگوں اور انقلابات کی اِس پرکھ کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ نوآبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی قوموں کی بورژوازی کسی انقلابی نصب العین کی حامل ہے۔ اِس کے برعکس پسماندہ ممالک کی یہ بورژوازی اپنے دودھ کے دانتوں کے دنوں سے ہی بیرونی سرمائے کے آلہ کار کے طور پر نشونما پاتی ہے اور بیرونی سرمائے سے اپنی تمام تر حاسدانہ نفرت کے باوجود ہر فیصلہ کن صورتحال میں اُسی کے کیمپ میں نمودار ہوتی ہے اور ہو گی۔

قومی جدوجہدوں میں دانشوروں سمیت پیٹی بورژوازی کے بالائی حلقے ایک متحرک اور بعض اوقات بہت پرشور حصہ لے سکتے ہیں، لیکن وہ ایک آزادانہ کردار ادا کرنے سے بالکل قاصر ہوتے ہیں۔ صرف محنت کش طبقہ ہی قوم کی قیادت کرتے ہوئے ایک قومی یا زرعی انقلاب کو انجام تک پہنچا سکتا ہے۔

سٹالن کی مہلک غلطی یہ ہے کہ محکوم قومیتوں کی ترقی پسند تاریخی اہمیت کے بارے میں لینن کی تعلیمات سے اس نے نوآبادیاتی ممالک کی بورژوازی کے انقلابی نصب العین کا نتیجہ اخذ کر لیا ہے۔ سامراجی عہد میں انقلاب کے مسلسل کردار کو سمجھنے میں ناکامی، ارتقا کی روش کا بنا بنایا خاکہ، ایک زندہ اور مشترک عمل کو زمان میں الگ الگ مردہ مراحل میں کاٹ دینا… یہ تمام غلطیاں سٹالن کو جمہوریت کے اس پست تصور تک لے گئی ہیں جو حقیقت میں ایک سامراجی آمریت یا پھر ایک پرولتاری آمریت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔ اِس راستے پر قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے سٹالن کا گروہ قومی سوال پر لینن کے موقف سے بالکل کٹ چکا ہے اور چین میں اُن کی حکمت عملی تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اِن نقالوں کے نام نہاد بالشویزم نے ایک وفادار ہتھیار بردار کی حیثیت سے 11 اپریل 1927ءتک، یعنی اُس دن تک چینی بورژوازی کا ساتھ دیا جب اُس نے شنگھائی کے پرولتاریہ کا قتل عام کیا۔

اپنے تین انقلابات کے دوران روس کے پیش کردہ دیوہیکل تجربے میں آپ کو قومی اور طبقاتی جدوجہد کی ہر شکل مل سکتی ہے، سوائے ایک کے: وہ جس میں کسی محکوم قوم کی بورژوازی نے اپنے عوام کو آزادی دلانے کا کردار ادا کیا ہو۔ اپنے ارتقا کے ہر مرحلے پر ہر سرحدی علاقے کی بورژوازی ہمیشہ ایسے مرکزی بینکوں، ٹرسٹوں اور تجارتی اداروں پر منحصر تھی جو بنیادی طور پر روسی سرمائے کے آلہ کار تھے۔ وہ بورژوازی کو رسیفیکیشنکی تحریک کے تابع کرتے تھے اور لبرل اور جمہوری دانشوروں کے وسیع حلقوں کو بورژوازی کے تابع کرتے تھے۔ کسی سرحدی علاقے کی بورژوازی جتنی ”بالغ“ تھی، ریاستی مشینری سے اُتنی ہی زیادہ جڑی ہوئی تھی۔ بحیثیت مجموعی محکوم اقوام کی بورژوازی نے حکمران بورژوازی کے حوالے سے وہی کردار ادا کیا جو حکمران بورژوازی نے بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کے حوالے سے ادا کیا۔ تضادات اور باہمی انحصاروں کی یہ پیچیدہ درجہ بندی ایک دن کے لئے بھی سرکش عوام کے خلاف اِن تینوں کی بنیادی یکجہتی کی راہ میں حائل نہ ہوئی۔

تاہم تین انقلابات کے اِن دیوہیکل تاریخی اسباق نے بالخصوص سٹالن سمیت اِن میں حصہ لینے والے بہت سوں کی سوچ پر کوئی نقش نہیں چھوڑا ہے۔ نوآبادیاتی اقوام میں طبقات کے باہمی تعلق کے پیٹی بورژوا مصالحت پسندانہ تصور، وہ تصور جس نے 1925-27ءکے انقلابِ چین کا قتل کیا، کو اِن نقالوں نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے پروگرام میں بھی شامل کروا کے اِس پروگرام کو مشرق کی محکوم اقوام کے لئے ایک پھندے میں تبدیل کر دیا ہے۔

ڈیڑھ دہائی تک لینن نے عظیم روسی شاونزم کے تمام رنگوں کے خلاف بے رحم جدوجہد کرتے ہوئے تمام محکوم قومیتوں کے زاروں کی سلطنت سے علیحدہ ہونے کے حق کی تبلیغ کی۔ بالشویکوں پر روس کو توڑنے کی خواہش کا الزام لگتا تھا، لیکن قومی مسئلے کی اِسی بے باک انقلابی کلیہ سازی سے بالشویک پارٹی نے زارشاہی روس کی محکوم اور چھوٹی اقوام کا لازوال اعتماد جیتا۔ اپریل 1917ءمیں لینن نے کہا: ”جب یوکرائنی دیکھیں گے کہ ہمارے پاس ایک سوویت جمہوریہ ہے تو الگ نہیں ہوں گے، لیکن اگر ہمارے پاس ایک بورژوا جمہوریہ ہو گی تو وہ ہو جائیں گے۔“ اُس کی بات درست ثابت ہوئی۔ روس میں زارشاہی کے کھنڈرات کے اوپر قومیتوں پر مبنی ایک نئی ریاست تشکیل پا چکی ہے، جسے معاشی اور سیاسی طور پر بالشویک پارٹی نے یکجا کیا ہے۔

سوویت یونین کا مقدر کچھ بھی ہو (ابھی منزل بہت دور ہے) لیکن لینن کی قومی پالیسی کا شمار رہتی دنیا تک انسانیت کے خزانوں میں ہو گا۔

*****

[۱] ’عظیم روس‘ کی اصطلاح اصل روس یا وسطی روس کے اُن علاقوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جہاں آبائی روسی لوگ آباد تھے۔ اس سے باہر کی طرف روس کے ’سرحدی علاقے‘ تھے جہاں دوسری قومیتیں آباد تھیں۔
[۲] سرحدی علاقوں سے مراد زارشاہی سلطنت کے وہ علاقے جو ’عظیم روس‘ کے بیرونی حصوں پر واقع تھے اور جہاں دوسری قومیتیں آباد تھیں۔
[۳] "Russification” یا ”Russianization” سے مراد ایک طرح کی روسی ثقافتی جارحیت ہے، جس میں رضاکارانہ یا غیررضاکارانہ طور پر غیرروسی اقوام پر روسی ثقافت اور زبان کو مسلط کیا جائے اور اُنہیں اپنی ثقافت اور زبان ترک کرنے پر مجبور کیا جائے۔
[۴] سفید روس سے مراد آج کے بیلاروس (Belarus) کے مشرقی علاقے۔
[۵] پیل (Pale) سے مراد زارشاہی روس کے وہ مغربی علاقے جہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت تھی اور جن سے باہر اُنہیں مستقل رہائش کی اجازت نہیں تھی۔