لیفٹ ہورائزنز

تلخیص و ترجمہ: فرہاد کیانی

لیبر پارٹی کے قائد کے طور پر کیئر سٹارمر (Keir Starmer) کا انتخاب جیرمی کوربن کے دور سے بہت پیچھے کا قدم ہے۔ یہ مزدور تحریک کے بائیں بازو اور محنت کش طبقے و عوام کی اکثریت کے حق میں پالیسیوں کے لئے ایک دھچکا ہے۔ لیکن پارٹی کو ٹونی بلیئر کے دور کی جانب واپس لے جانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

اس موقع پر ہمیں مایوس ہو کر لیبر پارٹی کے ممبرشپ کارڈ پھاڑ کر نہیں پھینک دینے چاہئیں‘ جیسا کہ بد قسمتی سے بائیں بازو کے کچھ لوگ کر رہے ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ وہ اس کے بعد کیا کریں گے؟ سوشلزم کی لڑائی ایک لمبی دوڑ ہے اور جیرمی کوربن سوشلسٹ تبدیلی کا کوئی ”آخری موقع“ نہیں تھا۔ راستے کی رکاوٹوں کو نہ سمجھنا حقیقت پسندی نہیں ہے۔

کیئر سٹارمر اور ڈپٹی لیڈر اینجلا رینر (Angela Raynor) دونوں طرف سے متضاد طبقات کے دباؤ کی زد میں ہوں گے اور یہ بالکل بھی لازمی نہیں کہ پارٹی یکدم ویران ہو جائے۔

دائیں بازو کا دباؤ بہت شدید ہو گا۔ لیبر مخالف پریس کی اکثریت نے سٹارمر کی حمایت کی کیونکہ وہ لیبر پارٹی کو ’راہ راست‘ پر لانے کے لئے بہترین امیدوار تھا۔ لیبر پارٹی کے پرانے دائیں بازو کے دھڑے کی اکثریت اس کی حامی اور گزشتہ پانچ برسوں میں تیزی سے پھیلنے والی ریڈیکل ممبرشپ سے خائف تھی۔

جیرمی کوربن کی اہلیہ نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ قیادت کے ساڑھے چار سالوں کے دوران جیرمی کو میڈیا میں منظم طریقے سے بدنام کیا گیا اور اس پر ”اپنی ہی پارٹی کی جانب سے حملے کیے گئے۔“ ٹونی بلیئر کے سابقہ معاون الیسٹیئر کیمپبل نے کوربن کو ”لیبر پارٹی کے لئے تباہی“ قرار دیا تھا۔ شاید وہ یہ بھول گئے کہ اس دوران جدید دور میں لیبر پارٹی نے سب سے بڑی ممبر شپ حاصل کی اور صرف ممبر شپ فیس کے ذریعے اپنے تمام قرضے چکائے۔

2017ء میں جیرمی کوربن کی قیادت میں 1945ء کے بعد لیبر پارٹی کے ووٹوں میں سب سے بڑا اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ دسمبر کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے ووٹوں کا تناسب 2015ء اور 2010ء سے زیادہ تھا۔ اگر سکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کا انہدام نہ ہوتا تو وہ 2017ء اور 2019ء کے انتخابات باآسانی جیت سکتی تھی۔ اور سکاٹ لینڈ میں پارٹی کی تباہی کی ذمہ داری وہاں لمبے عرصے سے پارٹی پر حاوی دائیں بازو پر عائد ہوتی ہے۔

جیرمی کوربن کی کامیابی اور ممبر شپ میں اضافہ پورے محنت کش طبقے کی ریڈیکلائزیشن کا اظہار تھا۔ جس سے لیبر کا دایاں بازو خوفزدہ ہو گیا۔ عوام کٹوتیوں سے تنگ آ چکے تھے (اور اب بھی ہیں)۔ لیکن لیبر پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ عام محنت کشوں کی زندگیوں کی مشکلات سے کٹے ہوئے ہیں۔

2017ء اور2019ء میں ریڈیکل انتخابی منشور پیش کیے گئے جس کی دائیں بازو نے مخالفت کی تھی۔ پہلے دن سے ہی دائیں بازو نے کوربن کو سبوتاژ کرنا شروع کر دیا اور آخری دن تک کرتے رہے۔ اور یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کیئر سٹارمر بھی ان کیساتھ شریک تھا۔ بد قسمتی سے کئی لیبر اراکینِ پارلیمنٹ کے لئے بائیں بازو کے لیڈر کی فتح کی بجائے لیبر پارٹی کی شکست زیادہ قابل قبول ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اب سٹارمر کی قیادت میں کیا ہو گا؟ کئی پارٹی ممبران سٹارمر کی جانب سے ”اتحاد“ کی کال کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ لیکن بایاں بازواس کے خفیہ مقاصد کے خدشات کو محسوس کر رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ لیبر پارٹی کے دائیں بازو اور لیبر مخالف پریس نے سٹارمر کی حمایت کی ہے؟

دایاں بازو اب سٹارمر کے ذریعے اپنے پروگرام پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرے گا: یعنی بڑے پیماے پر تطہیر، پالیسیوں میں نرمی اور ٹونی بلیئر کے دور کی جعلی پارٹی ’جمہوریت‘ کی واپسی‘ جس میں پارٹی کی قیادت کے انتخاب میں ٹریڈ یونینوں اور عام ممبران کی نسبت اراکین پارلیمنٹ کا بہت زیادہ کردار ہوا کرتا تھا۔ 30 مارچ کے فنانشل ٹائمز نے بھی سٹارمر کو ”کوربن کے کٹر حامیوں کو نکالنے“ کا مشورہ دیا ہے۔

لیکن نئے لیبر لیڈر کو دباؤ کا سامنا بھی ہو گا۔ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی کروڑوں محنت کشوں اور غیر منصفانہ معاشی نظام کے درمیان مخاصمت بڑھ رہی تھی۔ پرانے سیاست دانوں اور پارٹیوں کو لوگ شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ یہ جاری عمل اس وبا کے بعد دس گنا تیز رفتار ہو جائے گا۔

سٹارمر کا پہلا امتحان یہ ہو گا کہ وہ وزیر اعظم بورس جانسن کیساتھ کیسے تعلقات قائم کرتا ہے۔ پارٹی ممبران کی اکثریت تو جانسن سے شدید نفرت کرتی ہے۔ سٹارمر نے کہا ہے کہ اس کی قیادت میں لیبر پارٹی ”حکومت کے ساتھ تعمیری انداز میں کام کرے گی اور مخالفت برائے مخالفت نہیں کرے گی۔“ کوربن کے ہٹ جانے کے بعد اب یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کو کابینہ اجلاسوں میں مدعو کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ تو 1940ء سے 1945ء کے دوران جنگ کے دنوں میں بننے والی مخلوط حکومت جیسے سیٹ اپ کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔

سابقہ ٹوری وزیر جارج فری مین نے کئی پارٹیوں پر مشتمل ”کورونا کابینہ“ کی تجویز پیش کی ہے۔ ٹونی بلیئر کے سابقہ مشیر پیٹر مینڈلسن کے مطابق ”اگر کیئر سٹارمر‘ حکومت پر مناسب دباؤ بنائے رکھتا ہے تو کسی طرح کی مخلوط حکومت بورس جانسن کو زیادہ پر کشش نظر آنے لگی گی اور اگر لیبر پارٹی کو ایسی کوئی دعوت دی جاتی ہے تو ان کے لئے انکار کرنا مشکل ہو گا“ (فناشل ٹائمز، 3 اپریل)۔ بدقسمتی سے کچھ ٹریڈ یونین رہنما بھی اس خیال کی حمایت کر رہے ہیں۔

لیبر پارٹی ممبران اور کچھ اراکین پارلیمنٹ (بشمول کوربن) کی مخالفت کی وجہ سے سٹارمر‘ بورس جانسن کے ساتھ با قاعدہ سمجھوتے کی بجائے غیر رسمی تعلقات کی جانب جا سکتا ہے۔ لیکن ٹوری حکومت کی حمایت جتنی بھی ”غیر رسمی“ ہو‘ بہت سے لوگ اسے ایک رجعتی حکومت کو دیا گیا سہارا ہی سمجھیں گے۔ ایک ایسی حکومت کو دیا گیا سہارا جوبے حد نالائق ہے اور ملک گیر ہنگامی حالات سے نمٹنے کی اہل نہیں ہے۔

پارٹیوں میں تعاون (یا مخلوط حکومت) کا اصل مقصد بوجھ بانٹنے کی بجائے حالات بے قابو ہونے پر الزام بانٹنا ہوتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران لیبر اراکین کو کابینہ میں شامل کرنے کا واحد مقصد ہڑتال مخالف قانون سازی اور کٹوتیوں کے لئے محنت کشوں کی حمایت حاصل کرنا تھا۔

کورونا وائرس کا بحران ابھی ختم نہیں ہوا لیکن جب یہ ہو گا تو اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔ عالمی معیشت کے کریش اور برطانوی معیشت کے بحران کے حالات میں ٹوری پارٹی اور اس کا طبقہ کورونا وائرس کیساتھ لڑائی کا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں اگلے دس سالوں میں شدید کٹوتیوں کا سامنا کرنا ہو گا جو کہ پچھلے دس سالوں کی نسبت کہیں بدتر اورزیادہ تکلیف دہ ہوں گی۔

سیاسی کالم نگار گڈئین ریکمین کے مطابق ”کورونا کے ہاتھوں انسانی اورمعاشی تباہی بڑھنے کے ساتھ پرانے سیاسی اختلافات کہیں زیادہ شدت سے ابھرنے اور مزید تلخ ہونے کے قوی امکانات ہیں“ (فناشل ٹائمز، 30 مارچ)۔ ہمارے خیال میں وہ بالکل درست کہہ رہا ہے۔ بلکہ آنے والے دور میں ابھرنے والے طبقاتی تصادم اس کے اندازے سے کہیں زیادہ شدید ہوں گے۔

کورونا وائرس سے پہلے ہی برطانوی اور عالمی معیشت سست روی کا شکار تھی۔ معاشی ماہرین کے مطابق عالمی لاک ڈاؤن کے نتیجے میں آنے والی کساد بازاری 2008ء سے بد تر ہو گی۔ کچھ لوگو ں کے مطابق تو یہ1929ء سے بھی بڑا بحران ہو گا۔ اور ہمیشہ کی طرح 99 فیصد سے کٹوتیوں کا مطالبہ کیا جائے گا اور 1 فیصد مزید امیر ہی ہو ں گے۔

اور ہمیں انسانیت کو درپیش سب سے بڑے مسئلے کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ اگرچہ کچھ عرصے سے یہ سرخیوں میں نہیں لیکن گلوبل وارمنگ اب بھی طویل مدت میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس سے شدید موسمیاتی واقعات جنم لیتے رہیں گے جو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا باعث اور پہلے سے بحران زدہ نظام کے معاشی اور سیاسی عمل کو مزید برباد کرتے رہیں گے۔

ہمیں لیبر پارٹی کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کو موجودہ طوفانی حالات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ یہ لازم ہے کہ نئی کٹوتیوں کے سماجی اور معاشی نتائج کے محنت کشوں، بڑی ٹریڈ یونینوں اور لیبر پارٹی کے ممبران کے شعور پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ان اثرات کا اظہار لیبر پارٹی کے متحرک ممبران کے ذریعے ہو گا۔ بشمول ان کے جنہوں نے سٹارمر کو ووٹ دیا ہے۔ وہ لیبر پارٹی کے پچھلے انتخابی منشور کی ایک نئے سرے سے حمایت کریں گے۔ وہ سٹارمر کے ”دس وعدوں“ کو پڑھیں گے اور اس کے ان پر قائم رہنے کی امید کریں گے۔ وہ لیبر پارٹی کے مقامی اداروں پر امید وار مسلط نہ کرنے کے وعدے کو نبھانے کی امید کریں گے۔ اس صورت میں سٹارمر اور اس کے ساتھی کیا کریں گے؟

یہ ابھی دیکھنا ہے طبقاتی طاقتوں کا توازن کس جانب جاتا ہے۔ کیونکہ لیبر پارٹی کے اندر بھی اسی کا اظہار ہو گا۔ ٹوری میڈیا کا حمایت یافتہ لیبر پارٹی کا دایاں بازو درحقیقت برطانوی سرمایہ داری کی سیاسی نمائندگی کا حصہ ہے۔ جبکہ لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینوں کے متحرک کارکن محنت کش طبقے کے نمائندہ ہیں۔ ان کا تصادم نا گزیر ہے۔
ہم اس پسپائی سے مایوس نہیں ہیں۔ کئی اور ناکامیاں بھی ہوں گی۔ یہ ناگزیر ہے۔ لیکن بائیں بازو کے امیدواروں ربیکا لانگ بیلی اور رچرڈ برگن کا بالترتیب 135,000 اور 92,000 ووٹ لینا بھی حوصلہ افزا ہے۔ ہم‘ ہماری رائے میں غلطی سے دوسرے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے والے پارٹی ممبران کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔

ہم لیبر پارٹی کے ممبران کے طور پر صبر کیساتھ اور جمہوری انداز میں سوشلسٹ نظریات اور پروگرام کی حمایت جاری رکھیں گے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 2017ء اور 2019ء کے انتخابات کے منشو ر عوام میں مقبول تھے۔ سوشلسٹ نظریات مزید مقبول ہو رہے ہیں۔ جبکہ لیبر پارٹی کا دایاں بازو عام لوگوں کی زندگیوں کے لئے غیر متعلقہ ہوتا جا رہا ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں سوشلسٹ نظریات کی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ لیبر پارٹی کی قیادت کو دیکھیں تو وقت کا دھارا ہمارے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر محنت کش طبقے اور لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینوں کے اراکین کی اکثریت کو دیکھیں تو یہ دھارا ہمارے ساتھ ہو گا۔