قمرالزماں خاں

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ اور دیوار برلن کے گرنے پر دنیا بھر میں سامراجی جشن جاری تھا اور سٹالنزم کے انہدام کو سوشلزم کی ناکامی قراردیا جارہا تھا۔ پاکستان میں بھی سرمایہ داری کے حلیف اور سامراجی طفیلی حلقے بغلیں بجا رہے تھے۔ اس جھوٹے جشن کی کان پھاڑدینے والی صداﺅں نے سٹالنزم کی نقالی کرنے والے مقامی انقلابیوں سے قوت گویائی چھین لی تھی۔ 70 سال کے جاہ وجلال، اقتدار، قوت اورپیداواری قوتوں کی بے نظیر پیش رفت کے باوجود روس میں درانتی ہتھوڑے والا پرچم سرنگوں ہورہاتھا !

ایساکیونکر تھا؟ ایک سپر پاور باہر سے کسی ضرب لگے بغیر پاش پاش کیسے ہوگئی تھی؟ کیا یہ سی آئی اے کی سازش تھی؟ کیا سوشلزم کا خاتمہ ہوگیا تھا؟ تو کیاپھر مارکس اوراینگلز ہی غلط تھے؟ کیا لینن نے زارشاہی کے بعد سرمایہ داری کا مرحلہ طے کیے بغیر سوشلزم کی طرف جلد بازی میں مراجعت کی تھی؟ یا پھرسوشلزم کا نظریہ ہی درست نہ تھا اور سرمایہ داری ہی دنیا کا حتمی مقدر ہے ؟ یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب اس وقت کے ماسکو اور پیکنگ کے ’پیروکار‘ دینے کی استعداد سے قطعی طور پر محروم تھے۔ ان کو چُپ لگ گئی تھی۔ کاٹو تولہو تک نہیں نکل رہا تھا۔ سامراجی پراپیگنڈے کی یلغار کے سامنے یہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے تھے۔ انکے دانشور! مگر کون تھا دانشور؟ یہ تو گھڑے گھڑائے فارمولوں کے اسیر تھے۔ ماضی کا ان کا ساراعلم، نظریہ، دانش، سوچ، تجزیے اور تحقیق کی بجائے کسی ”مکبّر“ کی بازگشت جیسا تھا، جو آواز ماسکو اور پیکنگ سے آتی وہ وہی دہرائے جاتے تھے۔ لہٰذا ماسکو سے درانتی ہتھوڑے والے پرچم کے سرنگوں ہوتے ہی ان کی بیٹریاں جواب دے گئیں۔ سامراجی پراپیگنڈے کو انہوں نے بھی سچ ہی مان لیا اوراگلے بیس تیس سال ایسا ہی سمجھتے رہے۔ نتیجہ محنت کش طبقے کے لئے بہت ہولناک تھا۔

دیانتدار سوشلسٹ کارکنوں کی پرتوں کی زندگی کاواحد مقصد سوشلزم کی منزل تک پہنچنا تھا اور سوویت یونین ان کا پوائنٹ آف ریفرنس تھا۔ سوویت یونین کے انہدام نے ان کی زندگی کے مقصد کو بے معنی کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کارکنان کی وسیع پرتیں دیانتدار سیاسی لوگوں پرمشتمل تھیں جنہوں نے ماضی میں بے پناہ قربانیاں دیں اور ہر قسم کی موقع پرستی سے خود کو بچائے رکھا تھا۔ بالکل انہی دنوں دو ردعمل واضح طور پر نظر آئے۔ یا تو مارکسی کارکن سیاست سے بالکل تائب ہوگئے۔ ان میں سے کئی تو اس صدمے کی تاب نہ لاکر جسمانی زندگی تک کھوبیٹھے۔ دوسری پرت نے انقلاب کی بجائے اصلاح پسندی میں پناہ لے لی اور بذریعہ این جی اوز (جس کو وہ انقلاب کی راہ میں سپیڈ بریکر کہا کرتے تھے) زندگی کا جواز تلاش کرنے میں لگ گئے۔ لیکن شکست خوردہ سٹالنسٹوں کی نامرادی کے اسی عہد میںپھر سے درانتی ہتھوڑے والا سرخ پرچم بلند ہوا۔ ایک زوردار آواز ابھری۔ جس نے مایوس مگر متجسس سماعتوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ گھن گرج کامریڈ لال خان کی تھی۔ وہ لال خان جس نے کہا تھا کہ ”موت کسی کی، ماتم کسی کا!“ جس نے سٹالنزم اورسوشلزم کے فرق کے ساتھ سوویت یونین میں زوال پذیر بیوروکریسی، اس کے مسخ شدہ نظریات اور جرائم کی نشاندہی کی۔ جس نے سرمایہ داری کے مقابلے میں سوشلزم کی لڑائی کاپھر سے نقارہ بجایا اور نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پورے برصغیر جنوب ایشیا میں سوشلزم کے نظریات کو ایک نئے عزم سے استوارکرنا شروع کیا۔ جس نظریاتی وسعت، صبرآزما وضاحت اور کشادہ دلی سے انہوںنے سوشلزم اور روس کے انقلاب کی زوال پذیری کی تشریح کی وہ انقلابی تاریخ کا شاندار اثاثہ ہے۔ انہوں نے اپنے مضامین، تقاریر، لیکچرز اور سٹڈی سرکلوں کے ساتھ ساتھ (کچھ دوسرے ساتھیوں کیساتھ مل کے) ”بالشویک انقلاب 1917ءاور آج کا روس“ نامی کتاب لکھی۔ یہ دیواربرلن کے گرائے جانے اور سوویت یونین کے انہدام سے پہلے مئی 1989ءمیں لکھی گئی تھی اور لینن اور ٹراٹسکی کی نظریاتی میراث پر مبنی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ لال خان کی بلند آہنگ آواز میں عذر خواہانہ نقاہت کی بجائے عزم وامید کی للکار تھی۔ جس انقلابی اعتماد، نظریاتی قوت اور مارکسزم کی عطاکردہ استقامت سے کامریڈ لال خان نے سرخ پرچم اپنے ہاتھ میں اٹھاکر بلند کیا تھا‘ اس نے بدترین مخالفین کو بھی حیران کر کے انکا استدلال سننے پر مجبور کردیا تھا۔

یہ ایک بہت ہی دلچسپ وقت تھا۔ شکست خوردہ سٹالنسٹ رہنما ہار مان کر شام غریباں منا رہے تھے۔ ملک میں ضیائی آمریت کی طویل سیاہ رات مسلط تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت (مفاہمت کے ساتھ)واپسی کے راستے تلاش کر رہی تھی۔ سوشلزم کا نام لیوا اگرکوئی تھا تو یہی چند نوجوان تھے جن میں ایک نمایاں لال خان تھا۔

اس سے کئی سال قبل 1970ء کی دہائی کے اواخر میں کرنل شیر زمان کا اکلوتا بیٹا لال خان ایک کیڈٹ کالج سے نشترمیڈیکل کالج پہنچا جہاں اس کو ایک ہی وقت میں مختلف قسم کے مربوط دشمنوں سے واسطہ پڑا۔ ایک طرف نشتر پر اسلامی جمعیت طلبہ کا راج تھا تو دوسری طرف فوجی آمریت ہر سوچ کو اپنا مطیع بنانے کے درپے تھی۔ دونوں عوام دشمن قوتوں کا گٹھ جوڑ پنہاں نہ تھا۔ 1979ءمیں بھٹو کی پھانسی کے بعد یہ تضادات گہرے ہوگئے جب لال خان اوراس کے دوستوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی غائبانہ نماز جنازہ کا بندوبست نشتر میڈیکل کالج میں کیا۔ یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے زخمی شیر کی طرح اپنے دشمن کو للکارا تھا۔ نشتر میں طلبہ انتخابات میں لال خاں کا جنرل سیکرٹری منتخب ہونا اور پولنگ کے دوران ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی گروپ فوٹو بنوانے کی فرمائش کو اس کے سامنے ہی رد کرنا ایک دلیر انقلابی کا وہ جنم تھا جس نے مستقبل میں کبھی بھی ایک لمحہ کی مصالحت یا مفاہمت کو بھی اپنی زندگی کو چھونے تک نہ دیا۔ جمعیت کے ساتھ تو دوبدو لڑائی کے بہت مراحل طے ہوئے مگر مارشل لا انتظامیہ نے ایک سال قید بامشقت اور کوڑوں کی سزا سنائی۔ یہ جیل کا دور ہی تھا جہاں ان کو نہ صرف مارکسزم بلکہ ٹراٹسکی کے نظریات سے واقفیت حاصل ہوئی۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے عزیرنیازی نامی ایڈووکیٹ کو وہ اپنا پہلا استاد مانتے تھے۔ ملتان میں ہی 1978ءمیں سینکڑوں مزدوروں کا قتل عام‘ طبقاتی کشمکش کواجاگر کرنے والا دلخراش سانحہ تھا۔ یہ قتل عام ضیا الحق کے حکم پر بلا ضرورت کیاگیا تھا۔ یہ سانحہ لال خان کی نظریاتی استواری اورانقلاب کی راہ میں قربانی کے جذبے کو زندگی بھر کا حصہ بنانے والا ایک ناقابل فراموش سبق تھا۔ سزا مکمل ہونے پر نشتر سے جبری طور پراسے پنڈی کے میڈیکل کالج منتقل کردیا گیا۔ ضیاالحق کے نام سے منسوب ایک بلاک کا نام بدلنے کے تنازعے پر طلبہ کے دو متحارب گروپوں کے مابین ریفرنڈم ہوا جس میں ضیا کے حامیوں کوزبردست شکست ہوئی۔ اسی دوران اسی کالج میں ضیا الحق کے بیٹے اور بیٹی بھی زیر تعلیم تھے جن کے ساتھ لال خان کی مڈبھیڑ نے بزدل آمر کو بھڑکا دیا۔ ایک فوجی عدالت سے لال خان کی موت کا حکم نامہ جاری ہوا اور سنگین جسمانی حملہ ہوا۔ پھر لال خان نے وطن چھوڑ دیا اور ایمسٹرڈیم میں اپنی طب کی تعلیم مکمل کی۔ وہاں انہوں نے مارکسی حلقے قائم کیے۔ جدوجہد (Struggle) نام کے گروپ نے پورے یورپ میں پاکستانی جلاوطن سیاسی کارکنان اور طالب علموں کو سوشلزم کی اس جدوجہد میں متحد کیا۔ 1986ءمیں وطن واپسی پر انقلابی کام یہاں شروع کیا۔ پہلے پہل جدوجہد کے نام سے کتابی سلسلے اور پھر ماہوار رسالے کا اجراکیا۔

انہی دنوں میری پہلے صادق آباد اور پھر چندرامی میں لال خان کے ساتھ طویل نشست ہوئی۔ لال خان کی سحرانگیز، تلاطم سے بھرپوراور انقلاب آفرین شخصیت کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات سے ان کی وفات تک میرا ان کے ساتھ اٹوٹ نظریاتی، انقلابی اور ذاتی رشتہ برقراررہا۔ اس دوران نہ جانے کتنی ابتلائیں، مصائب اور تنظیمی اتارچڑھاﺅ آئے مگر ہمارے تعلق میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ اس کی وجہ جذباتی نہیں تھی بلکہ ان کے قربانی کے جذبے اورانقلاب پر غیر متزلزل یقین نے ہمیشہ میرے کمزورارادوں کومضبوط اور ہم رکاب بنائے رکھا۔

اپنے مالدار پس منظر کے باوجود انقلابی جدوجہد کی راہ میں‘ میں نے انہیںانتہائی پست معیارزندگی گزارتے دیکھا ہے۔ ٹرین کے درجہ سوئم میںبغیر نشست کے فرش پر چوبیس چوبیس گھنٹے کا سفر۔ سفر کے بعد پھر سفر۔ کہاں یورپ کی زندگی اورپھریہ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں پست ترین معیار زندگی کے ساتھ سندھ کے بھٹ شاہ جیسے پسماندہ قصبے میں دوسال تک جوئے شیر لانے سے بھی بڑی تگ ودوکرنا۔ یہ دوسال ان کے ممبئی کی جھونپڑپٹیوں میں گزارے وقت سے بھی زیادہ کٹھن تھے۔

وہ اپنے وقت، اجلاسوں، دوروں اور بحث و مباحث کے معاملے میں بہت ہی اعلی منتظم تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے ساتھی بھی مکمل منصوبہ بندی سے انقلابی جدوجہد کریں۔ وہ ہرسال اپنے ساتھیوں کوپلانرز ڈائریاں گفٹ کیا کرتے تھے۔ کامریڈ لال خان انقلابی ساتھیوں کے لئے بہت نرم وکشادہ دل اور غلطیوں کوتاہیوں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے والے انسان تھے۔ مگر وہ یہ جذبات انقلاب دشمنوں، سازشیوں اور دھوکہ بازوںکیلئے قطعی نہیں رکھتے تھے۔ وہ بہت رومانٹک تھے۔ ان کا شاعری اورموسیقی کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ وہ فن تعمیرسے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ انقلابی کام کو مشقت کی بجائے لطف اندوز بنانے کا فن جانتے تھے۔ انہوں نے کبھی سٹالنسٹوں جیسے آہنی اصول و ضوابط اور تنظیمی قوانین وضع نہ کیے اور نہ ہی ایسا کرنے والے کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ نرم اور غیر محسوس انداز میں ساتھیوں کی تربیت کرتے۔ انہوں نے تربیتی کام، سیاسی مباحثوں اور تنظیمی فیصلوں کے لئے کی جانے والی مجالس اور سیاحتی ذوق کو یکجا کرکے اپنے تمام ساتھیوں کو پاکستان کے خوبصورت ترین حصوںمیں گھمایا۔ ہر روز اعلیٰ درجے کے موضوعات کو محفلوں کا ایجنڈا بناتے۔ یہ سب کچھ غیر محسوس اور خوشگوار انداز میں ہرروز ہوتا۔ ملک بھر کے دانشور، سیاسی کارکنان، بڑی بڑی جماعتوں کے رہنما اور صحافی ان شام کی محفلوں کا حظ اٹھاتے۔ جہاں تاریخ کے اوراق کو پلٹاجاتا اور بالکل نئے زاویے سے ان کا جائزہ لیا جاتا۔ تاریخ اور انقلابی ادوارکی پرتوں کویوں کھولا جاتا کہ محسوس ہوتا گویا کسی سینما کی وسیع سکرین پر سجا دیا گیا ہو۔ وہ خود اعلیٰ درجے کے ثقافتی ذوق کے حامل تھے اور ان کی محفلیں ثقافتی فیسٹول کا درجہ رکھتی تھیں۔

انہوں نے انقلابی نظریات کے پھیلاﺅ کے لئے سینکڑوں مضامین لکھے اورلیکچر دیئے۔ متعددکتابیں لکھیں جن میں ”بالشویک انقلاب 1917ءاور آج کا روس“، ”چین: انقلاب کی تلاش میں“، ”1968-69ءکا انقلاب : پاکستان کی اصل کہانی“، ”کشمیرکی آزمائش“، ”بین الاقوامی صورتحال اور اکیسویں صدی کا سوشلزم“ بٹوارے پر” Partitation! Can it be undone?“، ”مارکسزم اورقومی سوال“، ” پاکستان پیپلز پارٹی: مجوزہ منشور“، ”کمیونزم اور ہندوستان کا انقلاب“، ”نکاراگواکاانقلاب“، ”لبنان اسرائیل جنگ“، ”تاریخ اور مستقبل“، ”جینوا معاہدہ: افغان انقلاب کس موڑ پر؟“، ”پاکستان میں قومی سوال اور کنفیڈریشن کا نظریہ“، ”پاکستان میں بائیں بازو کا کردار“، ”جدلیاتی مادیت “، ”مارکسی فلسفے کاتعارف“، ”نجکاری: جدوجہد یا موت“، ”اسلامی بنیاد پرستی“، ’ ’پاکستان سوشلسٹ انقلاب یا خونی کھیل (انگریزی)“، ”پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پروگرام اور حکمت عملی)“، ‘’سوشلسٹ انقلاب اور پاکستان “اور دیگر موضوعات پر تیس کے قریب دستاویزاتی اور کتابی شکل میں اشاعتیں شامل ہیں۔

لال خان نے ملک کے طول و عرض میں ہزاروں انقلابی کیڈرز تیار کیے۔ انقلابی سوشلزم کے لئے دہائیوں پرمشتمل ان کا کام ہی وہ بنیاد ہے جس کی بنا پر اب ملک میں پچھلے کچھ سالوں سے مختلف ناموں اور شناختوں سے بائیں بازو کے گروہوں کا احیا ممکن ہوسکا۔ ان میں سٹالنزم کی وہ باقیات بھی شامل ہیں جو پچیس اٹھائیس سال قبل سٹالنزم کے انہدام کے وقت (جب تاریخ نے بہت سے سوال پیدا کیے تھے) بغیر کسی وضاحت یا تاویل کے غائب ہوگئے تھے۔ آج پھر کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں مگر اپنی تاریخی اور مجرمانہ نظریاتی غلطیوں سمیت۔ گویا تاریخ سے انہوں نے اب بھی کچھ نہیں سیکھا۔ جن لاکھوں انسانوں کا لہو انقلاب کی راہ میں بہا اور پھر سٹالنزم کے جرائم کی وجہ سے رائیگاں چلاگیا، ان کے پاس نہ تو اس کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی انقلاب کے رہنماﺅں پر بہتان تراشی کے علاوہ ان کے پاس کوئی نیا راہ عمل ہے جو وضاحت کرسکے کہ آج کے حالات اور سٹالنزم کی ناکامی کے تناظر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کیا لائحہ عمل اختیارکیا جائے۔

کامریڈ لال خان نے اپنی تحاریر اور تقاریر کے ذریعے سابق نوآبادیاتی ممالک کے طفیلی حکمران طبقے کی تاریخی نااہلیت کی وضاحت کی اورواضح کیا کہ وہ کیوں کرعالمی اجارہ داریوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا نہ ہی قومی جمہوری انقلاب کے فرائض نبھانے کے قابل ہے۔ یوں انہوں نے ’انقلاب مسلسل‘ پر بے تکے اور سیاق وسباق سے ہٹ کر کیے جانے والے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے ایک ملک کی بجائے پورے برصغیر جنوب ایشیا کے انقلاب کو ایک دوسرے کے لئے ناگزیر قراردیتے ہوئے برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کے نظرئیے کومتعارف کرایا۔

کامریڈ لال خان کو انگریزی، اردو، پنجابی، دھنی اور ڈچ زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ وہ جرمن اور یورپ کی کئی دیگر زبانوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ انہوں نے انقلابی سفر شروع کیا تو پھر ان کی زندگی کے آخری لمحے تک ترجیح انقلابی کام ہی رہا۔ وہ ملک کے بڑے اردو اور انگریزی اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھا کرتاتھے۔ ان کے انٹرویوز اور ٹاک شوز میں کی گئی گفتگو، لکھے ہوئے مضامین، پمفلٹ اور کتابیںان کے علم، نظریاتی گہرائی، مدلل انداز گفتگو اورموضوعات پر مضبوط گرفت کو ظاہر کرتے ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کا یہ انتھک سپاہی، میرا استاد اوردوست پچھلے ڈیڑھ سال سے پھیپھڑوں کے کینسر سے لڑائی کر رہا تھا۔ 21 فروری 2020ءکی شام کامریڈ لال خان اپنی بے پناہ یادیں، نظریاتی و تنظیمی کام اور انقلابی علم کا سرمایہ نئی نسل کے حوالے کرکے داغ مفارقت دے گئے۔ لال خان کی زندگی جہد مسلسل کا دوسرا نام تھی۔ ان کا سیاسی ورثہ پاکستان اور برصغیر کے سوشلسٹ انقلاب کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرکے ان کو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ یادگار بنائے رکھے گا۔ ان کا بلند کیاہوا سرخ پرچم سربلند رہے گا۔ ان کا قافلہ اس پرچم کو سماج کی حتمی نجات اور فتحیاب جدوجہد تک تھامے رکھے گا۔