حمید شیراز مل

کئی مہينوں کے مذاکرات کے تسلسل اور تعطل کے وقفوں کے بعد امريکہ اور تحريک طالبان افغانستان کے بيچ ايک امن معاہدہ طے پايا۔ امريکی فوج کے افغانستان سے انخلا کی اميد پر صرف بھارت کو چھوڑ کر روس، چين اور خطے کے ديگر ممالک بھی اس معاہدہ پر فريقين کے مابين اتفاق کرانے کيلئے سہولت کار کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستانی رياست اس تمام مذاکرات اور ڈپلوميسی کے عمل ميں اپنی سٹريٹجک ڈيپتھ (تذويراتی گہرائی) کے تحت بنائے گئے اثاثوں کے دستانوں ميں آہنی مکے کی صورت ميں فيصلہ کن عامل کےطور پر شريک رہی۔ اور سہولت کاری کا يہ کردار پاکستان ميں موجودہ نیم فسطائی نظام حکومت کی خارجہ پاليسی ميں ايک بڑی تبديلی کے بعد نسبتاً تيز اور فيصلہ کن مرحلے پر پہنچا۔ جبکہ خارجہ پاليسی ميں تبديلی کی وجہ ٹرمپ کی جانب سے کوليشن سپورٹ فنڈ کی بحالی، امريکی سفارش پر آئی ايم ايف سے بيل آوٹ پيکج کی سہولت اور اسٹيبلشمنٹ کے برسر اقتدار دھڑے کی امريکہ کے تعاون سے اقتدار کے تسلسل کی خواہش بنی۔ اور ٹرمپ کی اپنے صدارتی انتخابات ميں کاميابی کے حصول کی خواہش اس معاہدے کی بنياد بنی۔

اس معاہدے کو طالبان امريکہ کی شکست اور اپنی کاميابی بنا کر پيش کر رہے ہيں ليکن ساتھ ميں ان کے زمين پر موجودہ لڑاکا گوريلوں، جو اس معاہدے سے ناخوش ہيں، کو يہ پيغام دے رہے ہيں کہ يہ صرف تکنيکی معاہدہ ہے جس کے ذريعے آگے جا کر اہم فتوحات حاصل کی جائيں گی۔ جبکہ امريکی انتظاميہ ميں ملے جلے ردعمل کا اظہار کيا جا رہا ہے۔ افغانستان ميں سابقہ امريکی سفیر، فوجی ماہرين اور ديگر سابق منتظمين اس معاہدے کو ايک شکست گردان رہے ہیں۔ جبکہ افغان عوام کو طالبان سميت ديگر رجعتی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ ديا گيا ہے۔ مجموعی طور پر ٹرمپ کی انتخابی کمپئين کے ايک نکتے کہ اس نے افعانستان سے فوجی انخلا کيلئے حالات سازگار بنانے کا وعدہ پورا کيا، کے علاوہ شکست خوردگی کے رویے پوری امريکی انتظاميہ کے اوپر غالب ہيں۔

اس معاہدے کو اور اس کے خطے پر پڑنے والے اثرات کو حاليہ ماضی کے آئینے اور تسلسل کے بغير سمجھنا مشکل ہے کيونکہ اس معاہدے کو لے کر کے جنگ سے تباہ حال افغان عوام کو امن کی اميد دلائی جا رہی ہے۔ جب امريکہ، روس اور چين سميت خطے کے تقريباً تمام ممالک اس امن معاہدہ پرمتفق ہيں۔ تو وہ کونسے سماجی ناگزیر عوامل ہو سکتے ہيں کہ جو پيش منظر کو ان کی خواہشات کے مطابق ڈھالنےکی بجاۓ اس کے برعکس ثابت کریں۔

تمام کارپوريٹ اور بورژوا ميڈيا، امريکی سامراج اور اس کے حواری بنیاد پرستی کو ابھارنے کی اپنی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بڑی عیاری سے صرف پچھلے بيس سال کا ذکر کرتے ہيں۔ نيو لبرل سامراجيت اور سرمايہ داری کے گل سڑ جانے سے کالے دھن کی خوراک پر پیھلتی  بنياد پرستی دراصل ايک ہی آدم خور بلا کے دو سر ہيں۔ اس دو سری بلا نے اپنی پوری وحشت، درندگی اور تباہی کے سامان کے ساتھ افغان سماج، محنت کش عوام اور انفراسٹرکچر کو تاراج کيا ہے۔ اس پوری بربادی پر پردہ ڈال کر ان کی تاريخ کا آغاز 2001ء سےکر دیا جاتا ہے۔ 2001ء ميں امريکہ‘ طالبان اور القاعدہ سميت ديگر بنياد پرستوں کے خاتمے کے لئے افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ جارحيت کی انتہاؤں کو چھو کر کارپٹ بمبنگ سے لے کر "تمام بموں کی ماں” کو بھی برباد افغانستان ميں ‎ہی ‎آزمايا گیا۔ امريکی جارحيت کے وقت جب انقلابی کارکن اور محنت کش اس ننگی سامراجی جارحيت کے ساتھ ساتھ بنياد پرستی کی درندگی کی مظاہروں اور جلسوں کی شکل ميں مذمت کر رہے تھے تو عين اسی دوران کئی لبرل قوم پرست پارٹياں اور ليڈر ببانگ دہل امريکی سامراجی جارحيت کی کھل کر حمايت ميں دلائل ديتے رہے اور ہر قسم کے نظريات کو پس پشت ڈال کر اس بیانیے کو نيچے کيڈروں تک پروان چڑھايا کہ دنيا اب دو کيمپوں‘ بنياد پرستی اور لبرلزم ميں تقسيم ہو چکی ہے۔ صدر بش کے بيانیے کو نئی عبارت ميں يوں بيان کيا کہ جو سامراجی لبرلزم کی مخالفت کرے گا اس کا مطلب يہ ہو گا کہ وہ بنياد پرستی کی صف ميں کھڑا ہے اور جو اس سامراجی ننگی جارحيت کی حمايت کرتا ہے وہ رجعت مخالف ترقی پسند سياسی کیڈر کہلائے گا۔

بین الاقوامی طور پر دانستہ اور منصوبہ بندی کے ذريعے کچھ استثنائی حالات کو چھوڑ کر پورے عالمی سياسی افق پر اس مظہر کو ابھارا جا رھا ھے کہ سماج ميں بنيادی لڑائی سرمايہ داری کے اپنے ہی دو رحجانات (لبرلزم اور بنیاد پرستی) کے درمیان ہے۔ جبکہ پوری بيسویں صدی اور اکیسوی صدی کے دو عشرے اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ دنيا ميں جہاں بھی محنت کشوں اور قومی آزاری کی تحريکوں نے جب جب انقلابی نظريات کے تحت سماج کو استحصال اور جبر سے آزادی دلانے کی خاطر تحريک منظم کی تو ان تحريکوں کو براہ راست سامراجی جبر کے ساتھ ساتھ سامراج نےمختلف رد انقلابی رجعتی بربريت پر مبنی گروہوں کے ذریعے خون ميں نہلايا۔ پھر انہی پروردہ رجعتی گروہوں کے خلاف طبل جنگ بجا کر اپنے استحصال کو لاکھوں معصوم انسانوں کے قتل عام کی قيمت پر جاری رکھا۔ ‎شام، عراق، مصر، انڈونيشيا، پاکستان، ايران اور ديگر ممالک اس درندگی کی زندہ مثالیں ھيں۔ جبکہ ضياالحق، سہارتو، خمينی، البغدادی اور داعش و القاعدہ وغيرہ اس کے نمونے ھيں۔

افغانستان اس سامراجی قتل وغارت اور رجعتی بربريت کی ايک الگ ہی بد قسمت مثال ہے کہ جہاں امريکی سامراج، نيٹو ميں شامل يورپی سامراجی رياستوں، مشرق وسطیٰ‌ کی عرب و ايرانی و  اسرائیلی ریاستوں اور چين تک نے بھی اس پسماندہ ملک اور سماج کو پتھر کے دور ميں دھکيلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ ديا۔ جبکہ پاکستانی رياست ان تمام ممالک کی تخريب اور بربادی کا مورچہ اور رجعتی يلغار کا لانچنگ پيڈ بنی رہی۔ مہاجرين ميں رجعتی قوتوں کی تلاش، انہيں تربيت دينے اور افغانستان کو تاراج کرنے کا پورا ميکنزم تشکيل ديا گيا۔ رجعت اور درندگی کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے متبادل کالی معيشت جو ہر قسم  کی منشيات کی سمگلنگ پرمبنی تھی کھڑی کی گئی۔ اگر صرف ہيروئين سے پچھلے چاليس سال کے دوران ہلاکتوں کی تعداد لی جائے تو يہ کسی بڑی جنگ سے زيادہ ہلاکتوں اور خاندانوں کو برباد کرنے کا باعث رہی ہے۔ ان تمام حالات ميں بد قسمت افغانستان پر استہزا يہ کہ سوویت يونين کی افغان انقلاب کے نتيجے ميں قائم ہونے والی انقلابی حکومت اور خلق پارٹی ميں بے جا مداخلت رہی۔ اپنے رياستی مفادات کی تکميل کے لئے خلق پارٹی ميں موجود گروہوں ميں وفاداری پر پسند ناپسند کے طريقے سے دراڑيں ڈالی گئيں۔ پارٹی کی  سماج پر گرفت کو کمزور کيا گيا جبکہ انقلاب کے دفاع اور بنيادی مسائل کے حل سے انقلابی قيادت کی توجہ داخلی مسائل کی طرف موڑ دی گئی۔ دسمبر 1979ء ميں سوويت يونين نے باقاعدہ افغانستان ميں براہ راست فوجی مداخلت کی۔ افغانستان کے انقلابی صدر حفيظ اللہ امين کو قتل کر کے اس کی جگہ اپنے بندے ببرک کارمل کو صدر کے طور پر افغانستان پر مسلط کر ديا۔ اس خونی واردات سے سامراج اور اس کی گماشتہ رياستوں اور رد انقلابی قوتوں کو کھل کر افغانستان ميں خون ريزی اور انقلاب کے خلاف کام کرنے اور معصوم افغانوں کے قتل عام کا جواز ميسر ‍آیا۔ سامراجيوں اور ان کے گماشتوں نے پوری دنيا کے اخبارات، رسائل اور ديگر ميڈيا کو پروپیگنڈا اور نفرت سے بھر ديا۔ اگرچہ سوويت يونين کی باقاعدہ فوجی مداخلت سے بہت پہلے امريکی سامراج نے خفيہ آپريشن کے ذريعے رجعت کو مضبوط  کرنے اور انقلاب کو خون ميں نہلانے کی پاليسی منظور کر لی تھی اور اس کے لئے مئی 1979ء ميں امريکہ  نے پاکستان کی مدد سے آپريشن سائکلون کے نام سے انقلاب کے خلاف نام نہاد مجاہدين کے ذريعے گوريلہ جنگ کا آغاز کر ديا تھا۔ اس تخريبی جنگ کو تقويت دينے اور زيادہ مہلک بنانے کے لئے پوری مسلم دنيا سے رجعتی طاقتيں اکھٹی کی گئيں۔ امريکی سفارش پر ہی اسامہ بن لادن اور ديگر عرب تاجر و شہزادے افغان جنگ ميں شامل ہوئے۔ آج کے سامراجی لبرل اور بنياد پرست دونوں ايک ہی صف اور مورچے سے انقلابيوں کے خلاف مقدس جنگ ميں مصروف تھے۔ القاعدہ سے لے کر سات مجاہد تنظيموں تک اور طالبان سے لے کر موجودہ داعش تک، يہ ساری تنظيميں امريکی سامراج کی پيدا کردہ ہيں جن کو مختلف ادوار ميں مختلف اہداف کے حصول کيلئے تخليق کيا گيا۔ طالبان کے خلاف امريکی مخالفت کا آغاز اس وقت ہوا کہ جب طالبان نے امريکی تيل و گيس کمپنی یونوکال کے پراجيکٹ ميں سستے داموں سہولت کار بننے سے انکار کيا۔ جو آخر کار امريکی ملٹری انڈسٹريل کمپليکس کے سودوں کے ساتھ ساتھ امريکہ کی سنٹرل ایشیا میں سامراجی وسعت اور افغانستان ميں قيمتی معدنيات کے حصول کيلئے 2001ء ميں براہ راست مداخلت اور جنگ کا باعث بنی جبکہ حملے کے جواز کے لئے نائن اليون کو استعمال کیا گیا۔

طالبان کی منطق رہی کہ اسامہ ہمارا مہمان اور ہم اپنی روايات کے امين ہیں۔ بيس سال کی تباہی اور بربادی کے بعد وہی القاعدہ آج امريکی سرپرستی ميں شام ميں شامی حکومت کے خلاف برسر پيکار ہے جبکہ طالبان امن معاہدے ميں امريکہ کو يہ باورکرا رہے ہيں کہ افغانستان کی زمین کو القاعدہ يا کسی بھی گروہ يا شخص کے ہاتھوں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اس شرمناک معاہدے سے قبل امريکہ نے بمباريوں، فضائی حملوں، حراستوں، پابنديوں اور مختلف حربوں کے ساتھ بھرپور کوششيں کی کہ شکست کی خفت کے بغير وہ افغانستان ميں اپنے مفادات کے تحفظ کو يقينی بنا سکے۔ اس نے داعش کی وہ باقیات بھی جو موصل اور ادلب ميں شکست کے بعد منتشر ہو رہی تھیں انہيں افغانستان لا کر محفوظ ٹھکانے فراہم کیے تاکہ طالبان کو شکست دينے کے ساتھ ساتھ روس، ايران اور چين کو پريشان رکھا جا سکے۔ اسی طرح القاعدہ کی چھتری ٹوٹنے کے بعد چھوٹے چھوٹے جہادی گروہ داعش کا حصہ بنتے گئے۔ داعش نے طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستانی رياست اور اس کی پروردہ اشخاص پر بھی حملے کیے اور کافی نقصان کا باعث بنی۔ ليکن تمام تر ٹيکنالوجی سے ليس امريکہ ہر قسم کی تباہ کاريوں اور حکمت عملیوں کے باوجود طالبان کو منتشر کرنے اور شکست دينے ميں ناکام رہا۔ شکست ديتا بھی کيسے؟ کہ ديگر وجوہات (جو ذيل ميں زير بحث لائی گئی ہیں) کے علاوہ بڑی وجہ افغانستان کا وسيع ديہی اور پہاڑی علاقہ اور کم آبادی ہے۔ اس لئے گروہوں ميں تقسيم اور آبادی ميں منحل دشمن کو شکست دينا دشوار ہوتا ہے۔ اسی بنياد پر طاقت اور درندگی کے گھمنڈ ميں بے چينی اور اضطراب کے شکار امريکی سامراج کے پرائيويٹ قاتلوں کی کمپنی بليک واٹر کے مالک پرنس ايرک نے ايک بار کہا کہ افغانستان کے لئے کسی وا‏ئسرائے کا انتخاب کيا جائے اور اسی کے ذريعے وہاں انتظامی امور چلائے جائيں۔ تا کہ آگ اور خون کا کھيل کھل کر کھيلا جا سکے۔ شکست خوردگی کے دباو تلے يہی ذہنيت اور اضطراب ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے ميں بھی نظر آيا کہ جب اس نے افغانستان ميں لاکھوں لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دينے کی پاگل پر مبنی بڑھک ماری تھی۔ يہ ذہنيت دراصل افغانستان ميں سامراجی جنگی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی مکمل ناکامی اور شکست کا اظہار تھی۔

امریکہ کی اس شکست کی وجوہات ميں ايک طرف طالبان اور پاکستانی پالیسی سازوں کی اس جنگ کو ڈيورنڈ لائن کے دونوں اطراف ميں پھيلا کر اور محفوظ پناہ گاہيں ممکن بنا کر گوريلا جنگ کو تسلسل دينے کی حکمت عملی بھی کارفرما تھی۔ جس کے نتيجے ميں ڈيورنڈ لائن کے قريب صرف پاکستان کی طرف رہنے والے شہروں اور قصبوں کے ايک لاکھ کے قريب لوگ لقمہ اجل بنے۔ ان علاقوں ميں تہذيب و ثقافت اور مثبت سماجی اقدار کی بربادی کی دردناک داستانيں الگ ہیں۔ دوسری جانب شکست سامراج کے اپنے ہی داخلی تضادات کے اندر موجود تھی۔ مختلف اداروں کے متضاد مفادات جنگ کی طوالت اور تھکاوٹ کا باعث بنے جس سے اضطراب کا پيدا ہونا يقينی تھا۔ امريکی ٹھیکے دار کمپنيوں اور  ملٹری انڈسٹريل کمپليکس کو اس جنگ کے تسلسل کی ضرورت تھی۔ سامراجی قوتوں اور رياستوں کی افغانستان سے ناياب اور قيمتی معدنيات کی لوٹ مار جنگ زدہ ماحول ميں ہی ممکن تھی۔ اسی طرح پينٹاگون اور وائٹ ہاوس انتظاميہ کے درميان تضادات اور جنگ میں  متضاد اہداف کا حامل ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ يہ ريکارڈ کا حصہ ہے کہ سی آئی اے  کے اہلکار، کچھ ڈپلوميٹس اور فوجی افسران ہيروئين اور افيون کی سمگلنگ ميں ملوث رہے ہيں۔ جس کے لئے جنگ کا تسلسل اور افيون کی کاشت کا محفوظ علاقوں ميں جاری رہنا اشد ضروری تھا اور سب سے بڑھ کر امريکا کی افغانستان پر غير قانونی، غير اخلاقی اور اقوام متحدہ کو روند کر کی جانے والی چڑھائی تھی جس کے بوجھ تلے امريکی فوجيوں کے ضمير پر شروع ہی سے ايک بھاری بوجھ تھا۔ ان کا مورال ابتدا ميں ہی پاتال کی گہرائياں ناپ رہا تھا۔ افغانستان میں امريکہ کی سامراجی جارحيت کے خلاف امريکہ ميں ہی امريکی سپاہيوں اورچھوٹے افسران کا اپنے جذبات اور خيالات کا اظہار اس ظلم کے احساس کا اظہار تھا۔ ان سارے عوامل نے تاريخ کے سب سے طاقتور سامراج کے ماتھے پر شکست کا کالا داغ لگايا۔ شکست کے اس بدنما داغ کی شرمندگی سے بچنے کی خاطر امريکہ اپنے سے تکنیکی طور پر ہزاروں گنا کمزور دشمن سے واپسی کی بھيک مانگتا رہا۔ جس طرح افغانستان پر 2001ء کی جارحيت کے بعد حامد کرزئی کو اقتدار پر مسلط کر کے 2002ء ميں تاپی گيس پائپ لائن کا طالبان کے بعد کرزئی سے ايک بار پھر معاہدہ کروايا تھا دراصل یہ اسی کہانی کی تکرار تھی کہ جب امريکہ نے رابرٹ اوکلے جو پاکستان ميں امريکی سفير تھا، کے ذريعے پاکستان کے تعاون سے طالبان کو تخليق کر کے اور ڈالر دے کے شہروں پر قبضے کروائے تھے اور ڈالر مجاہدين گروہوں کی وفاداری کی خريداری کروائی تھی۔ رابرٹ اوکلے نے امريکی تيل و گيس کی کمپنی يونوکال کيلئے طالبان سے افغانستان ميں سے گيس پائپ لائن کے گزارنے کا معاہدہ کروايا تھا جو کہ ترکمانستان کی ترکمن گيس پروم، امريکی يونوکال اور سعودی شاہ عبداللہ کی ڈيلٹا آئل کمپنی کا پراجيکٹ تھا۔ جو ترکمانستان اور افغانستان سے ہوتا ہوا بھارت تک جانا تھا۔ یہ تاپی پراجيکٹ کہلايا۔ ان عوامل کے ساتھ ساتھ امن معاہدے کی شکل ميں طالبان امريکہ کو شکست کی ميز پر لانے کيلئے اپنی پاليسيوں ميں تبديلی لانے کی بنياد پر ہی کامياب ہوئے۔ ملا عمر کے بعد طالبان کے امير ملا اختر منصور دسمبر 2015ء ميں دوشنبہ ميں روسی صدر ولاديمير پيوٹن سے ديگر طالبان رہنماوں کے ساتھ ملے جس ميں مبينہ طور پر پيوٹن نے طالبان کو داعش کے خلاف جنگ کے لئے رقم، اسلحہ اور تربيت کا وعدہ کيا۔ اس ميٹنگ کے يقينی ہونے کا ثبوت ايک دوسرے واقعے کی کڑی سے ثابت ہوا کہ جب طالبان امير ايران ميں داعش کے خلاف ايرانی ذمہ داران سے ملاقات کے بعد واپسی پر بلوچستان ميں چاغی کے قريب 21 مئی 2016ء کو امريکہ کی طرف سے ايک ڈرون حملے ميں ہلاک کر ديے گئے۔ اس طرح طالبان پاکستان ميں محفوظ پناہ گاہوں ‌اور آزادانہ‌‌‌‌ نقل و حمل کی نعمت کے ساتھ‌ ساتھ ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے سٹريٹجک تعلقات استوار کرنے ميں کامياب ہو‎ئے جو افغانستان کے ساتھ بارڈر رکھتے ہيں۔ اس طرح طالبان اپنے لئے وہ نيٹ ورک اور ڈھانچہ بنانے ميں کامياب ہوئے جس کے ذريعے ان کے لئے اسلحہ، پيسہ، افرادی قوت اور تمام تر جنگی لوازمات کا حصول نہايت آسان بنا۔ اور وہ ماحول ميسر آيا کہ وہ امريکہ اور افغان حکومت کو نشانہ بنا سکيں۔ امريکہ کو افغان جنگ ميں اربوں ڈالر جھونکنے اور اتحاديوں سميت تقريباً چار ہزار فوجيوں کی ہلاکت جو کہ جڑواں ٹاورز ميں ہلاک ہونے والے امريکيوں کی مجموعی تعداد سے زيادہ ہے  کے باوجود شکست نوشتہ ديوار نظر آ رہی ہے۔ کرزئی کو دو مرتبہ اقتدار پر مسلط رکھ کر امريکہ افغانستان ميں کوئی بہتری لانے ميں کامياب نہيں ہو سکا۔ بلکہ کرپشن و اقربا پروری اپنےعروج پر رہی۔ انتخابات اور جمہوريت کے نام پر افغان سماج کو قوميتوں اور لسانيات کی بنياد پر بہت وسعت اور گہرائی ميں تقسيم کيا گیا جس سے ہر صدارتی اميدوار صرف اپنی کميونٹی اور زبان بولنے والوں سے ووٹ بٹورتا رہا ہے۔ کرزئی آخر کار بہت بڑے مالياتی سکينڈل کے بوجھ تلے خاندان کے ساتھ اپنی اوقات اور اصليت پرپہنچا۔ کرزئی کا جانشين کبھی اس کا وزير مالیات رہ چکا اشرف غنی بنا۔ اشرف غنی مغرب سے ناکام رياستوں کو سنبھالا دينے کے تحقيقی کام ميں اعلیٰ تعليم يافتہ ہے۔ زلمے خليل زاد کا کلاس فيلو اور ورلڈ بينک کا ملازم رہا ہے۔ نہايت گرم دماغ آدمی ہے جس کی وجہ اس کےمعدے کا کينسر ہے۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے لئے امريکہ کی شہريت چھوڑ کر افغان شہريت اپنائی اور اپنے افغان لباس سے اپنے مغربی طرز زندگی کو کاميابی سے اپنے حاميوں کی نظروں سے اوجھل کرانے ميں کامياب ہوا۔ اشرف غنی بہت وسيع مطالعے کا حامل اور علم دوستی کيلئے مشہور ہے۔ اس کے اصلاحات کے ساتھ لگاؤ، اين جی اوٹک ماضی اور ذہنيت کے حوالے سے مذاقاً کہا جاتا ہے کہ اشرف غنی اين جی اوز کا کميونسٹ کيڈر ہے۔ استرداد کی شکار سرمايہ داری ميں اين جی اوز کے ذريعے اصلاحات کی ذہنيت نے اسے اپنے دوستوں ميں ايک يوٹوپيائی زہن رکھنے والے شخص کے طور پر مشہور کر رکھا ہے۔ افعانستان کے جنوب اور جنوب مشرق ميں ايک حکمت عملی کے تحت پوری ترقی پسند قيادت کا پہلے ڈالر مجاہدين، القاعدہ اور پھر طالبان کے زريعے صفايا کرنے کے بعد ايک ايسا سياسی خلا مستقل طور پر پيدا کيا گيا کہ جسے سامراج کی طرف سے ابھارے اور مسلط کئے گئے لوگوں کے ذريعے پر کيا جاتا ہے۔ کرزئی جيسے متلون مزاج عاميانہ شخص سے غنی جيسے مغربی دنيا کے باسی تک جو افغان سماج سے پوری زندگی لاتعلق رہا اسی سياسی خلا سے مستفيد ہوتے رہے اور اپنی سامراجی گماشتگی کے ذريعے يہ ايک کٹھ پتھلی حکومت بنانے ميں تو کامياب رہے ليکن افغان سماج ميں اپنی سياسی جڑيں پيوست کرنے ميں کبھی کامياب نہيں ہو سکے۔ ان کمزور بنيادوں پر يہ شخصيات اپنے ہی سامراجی آقا کی نظروں ميں بے وقعت رہی ہيں۔ جب امريکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ميز پر تھا تو دنيا کی تاريخ کی انہونی يہ تھی کہ جس ملک کے مستقبل کا فيصلہ ہونے جا رہا تھا ان مذاکرات ميں اس ملک کی حکومت کو بٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اور جب ايک بار افغان حکومت  کے مذاکرات ميں بيٹھنے پر طالبان راضی ہو‎ئے تو حکومت نے 270 کے قريب نمائندوں کا حکومتی  وفد تشکيل ديا جس کو طالبان نے رد کرتے ہوئے طنزيہ کہا کہ حکومتی  وفد مذاکرات ميں نہيں بلکہ  کسی شادی کی بارات میں شریک ہو رہا ہے۔ طنز کو صرف نظر کر کے ديکھا جائے تو اتنے بڑے وفد کی تشکيل دراصل افغان حکومت کے انتشار اور طاقت کے کئی مراکز ميں تقسيم کا اظہار ہے۔ مزيد برآں دونوں کٹھ پتھلی صدور کو اپنے سامراجی آقا سميت وار لارڈز کے دباؤ کے ساتھ شمالی اتحاد کی طرف سے ہميشہ بليک ميلنگ کا سامنا رہا ہے۔ پچھلے اليکشن کے نتيجے ميں صدر کے ساتھ شمالی اتحاد کے صدارتی اميدوار عبداللہ عبداللہ کو شکست کے بعد راضی اور اتحادی رکھنے کی خاطر آئين ميں گنجائش نہ ہونے کے باوجود چيف ايگزيکيٹو کا عہدہ تخليق کر کے دیا گیا۔ اور موجودہ 2019ء کے اليکشن کے بعد بھی عبداللہ عبداللہ کی طرف سے نتيجے کو تسليم نہيں کيا جا رہا اور دھمکی دی گئی ہے کہ اگر غنی کی جيت کا اعلان کر ديا گيا تو وہ اپنی متبادل حکومت اعلان کر ديں گے (9 مارچ کو دونوں نے صدارتی حلف اٹھايا)۔

طالبان امريکہ نام نہاد امن معاہدے کے نکات ميں مجموعی طور پر ايک تاثر واضح طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ يہ معاہدہ امريکی سامراج کے افغانستان سے بھاگ جانے کی عجلت کا شاہکار ہے۔ اگرچہ بين الافغان مذاکرات کی اصطلاح اور پراسيس کا ذکر تو موجود ہے ليکن امريکہ کی ان داخلی مذاکراتی امور ميں مداخلت سے دست کشی واشگاف الفاظ ميں بيان کی گئی ہے۔ اس معاہدے ميں انسانی حقوق کے خود ساختہ چيمپيئن امريکی سامراج کی طرف سے خواتين سميت ديگر عوامی جمہوری حقوق و ذمہ داريوں کا ذکر تک موجود نہيں اور نہ ہی کسی شکل ميں کسی ظلم و جبرکی حالت ميں کسی تيسرے فريق کی مداخلت کی  ضمانت کا ذکر ہے۔ امن معاہدے کی شروعات افغان حکومت اور طالبان کے درميان قيديوں کے تبادلے کے عمل سے ہو گی ليکن اس پہلےمرحلے پر ہی روايتی الفاظ ميں کہ معاہدے کی سياہی خشک ہی نہيں ہو پائی تھی کہ افغان حکومت نے قيديوں کی رہائی سے انکار کر ديا اورطالبان نے جنگ بندی کاخاتمہ کر کے اپنے کمانڈروں کو افغان سکيورٹی فورسز پر حملے کی ہدايات جاری کر ديں جس سے فوری طور پر ہلمند ميں چيک پوسٹ پر حملہ اور لشکر گاہ ميں موٹر سائکل بم دھماکہ ہوا اور ديگر چوبيس چھوٹے بڑے حملوں کی رپورٹیں آئيں۔ امريکی فضائیہ نے بھی جواباً طالبان پر فضائی حملہ کيا۔ اس سے يہ نتيجہ بھی اخذ کيا گيا کہ امن معاہدہ بکھر کر يکسر ناکام ہو گیا ہے۔ ليکن  صورتحال اس کے برعکس ہے۔ امن معاہدہ ايک سراب اور دھوکہ ہے جس کی کاميابی اور ناکامی کا سوال سرے سے بنتا ہی نہيں۔ بلکہ يہ تو سامراج کی شکست کا اقرار نامہ ہے۔ صدر اشرف غنی طالبان قيديوں کو رہا نہ کرنے کے فيصلے پر تنہا ہيں۔ دوسری طرف امن معاہدے کی نوعيت نے طالبان کے حوصلوں کو بڑھايا  ہے اور افغان سکيورٹی فورسز کے مورال کو بہت حد تک گرا ديا ہے۔ اس گرتے ہوئے مورال کے ساتھ طالبان کے نئے حملوں سے سکيورٹی فورسز کی دفاع کی قوت شديد متاثر ہو گی۔ جلد يا بدير امريکی دباؤ پر يا اتحاديوں کے دور ہونے کے خوف سے اشرف غنی طالبان قيديوں کی رہائی پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ پانچ ہزار قيديوں کی رہائی سے طالبان کی افرادی قوت اور درندگی ميں اضافہ ہو گا۔ امن معاہدے ميں اگرچہ چودہ ماہ ميں مکمل انخلا کی ڈيڈ لائن دی گئی ہے ليکن صدر ٹرمپ کے پاگل پن پر مبنی انتخابی  ضرورت کے فيصلے اس ڈيڈ لائن کو وقت سے پہلے لا سکتے ہیں۔ اور امن معاہدے کے کارگر ہونے کے عمل ميں چونکہ بہت سارے عوامل کارفرما ہيں جس کی وجہ سے کوئی ايک پيش منظر ممکن نہيں۔ ليکن سب سے زيادہ ممکنہ پيش منظر جو ابھر کر سامنے آتا ہے وہ يہی بنتا ہے کہ امريکی اپنے انخلا کو جلد ازجلد مکمل کرنے کی راہ پر چل نکليں گے۔ وہ افغان سماج اور غنی حکومت کو رجعتی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتے ہيں۔ امريکی سامراج اپنے گماشتوں کے ساتھ يہ بے وفائی پہلی دفعہ نہيں کر رہا بلکہ اس سے پہلے ويتنام کے اندر جنوبی وتينام کی کٹھ پتلی حکومت کو اسی طرح بے سہارہ چھوڑا گیا تھا۔ جنوبی وتينام کی حکومت افغانستان کی غنی حکومت سے زيادہ مضبوط اور طاقتور تھی ليکن امريکی انخلا کے بعد جنوبی وتينام سوکھے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ امريکہ نے يہی کام اور بربادی عراق ميں عراقی حکومت اور عوام کے ساتھ انخلا کے بعد داعش کے ہاتھوں کروائی۔ اسی طرح شام ميں کردوں کو استعمال کرنے کے بعد دھوکہ دے کر اردگان جيسے درندے کے آگے نہتا چھوڑ کر تيل کے کنووں کے قبضے تک محدود ہوا۔ زيادہ امکانات يہی ہيں کہ وہ بين الافغان مذاکرات سے غير متعلقہ رہ کر اپنے گماشتوں کو تنہا چھوڑ سکتا ہے جس سے طالبان کو اپنی پوری وحشت کے ساتھ تباہی اور بربادی کے جوہر دکھانے کا موقع ملےگا۔ کيونکہ طالبان جب امريکی سامراج کو مذاکرات کی ميز پر لا کر ايک توہين آميز معاہدہ کروا سکتے ہيں تو غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کی نوعيت بارے تصور کرنا زيادہ مشکل نہيں۔ جنوب اور جنوب مشرقی افغانستان ميں سياسی خلا سے طالبان ايک بار پھر مستفيد ہوں گے۔ طالبان جنگ و بربادی کی صورت ميں برسر اقتدار آئيں يا بين الافغان مذاکرات کے کسی بندوبست کی شکل ميں، گل بدين اور ديگر جنگی سرداروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے اقتدار پر براجمان ہوںے کی ہر صورت ان کے پاس سماج کو ترقی دينے اور معيشت کو درست کرنے سميت تعليم، علاج اور روزگار کی فراہمی کا کوئی پروگرام نہيں ہے۔ ایسے میں وہ اپنے پيش رو کرزئی اور غنی کی طرح اور اپنی سابقہ حکومت کی طرز پر امريکہ کے ہی محتاج رہیں گے۔ طالبان کے پاس پاکستانی اسٹيبلشمنٹ کے پسنديدہ سياسی رہنما کی طرح صرف خيرات اور صدقات کی معيشت کا ہی فارمولا ہے۔ وہ فارمولا جو ايک نسبتاً بڑی معیشت اور رياست ميں لوگوں کی خفت اور عوامی اشتعال کاباعث بنا ہے۔ وہ افغانستان ميں بھی جلد عوامی شعور کی بيداری ميں اہم کردار ادا کرے گا۔ ڈيورنڈ لائن کےاس پار پشتون قوم پرست پارٹياں اس معاہدے پر حيرت زدہ ہيں اور افغان حکومت کو اس معاہدے سے باہر رکھنے پر امريکہ سے خفا اور مشتعل بھی۔ اور اس معاہدے پر تحفظات و خدشات کا اظہار بھی کرتے ہيں۔ ليکن ساتھ ميں اگر بين الافغان مذاکرات ممکن بنتے ہيں تو يہ پارٹياں جو بہت حد تک مسلسل کرپشن کر کے عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہیں انہیں ايک کردار ملنے کے امکانات بھی نظر آتے ہيں۔ اور بعيد نہيں کہ امارات اسلامی افغانستان ميں طالبان کی افغان حکومت ميں شراکت داری يا تنہا پرواز کی حلف برداری کی تقریب میں یہ محبان قوم  پورے اہتمام کے ساتھ شریک ہوں۔ یہ لبرل قوم پرست ڈاکٹر نجیب حکومت کے خاتمے اور ثور انقلاب کے سقوط کے بعد افغان وحدت کے نام پر ڈالر مجاہدین برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار جيسے قاتلوں کے گٹھ جوڑ کی حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔ یہ امریکی سامراج کی افغانستان کو ترقی دینے، جمہوری راستے پر چلانے اور بنیاد پرستی کے خاتمے کے بیانیے کی دامے درمے سخنے وکالت کرتے رہے ہیں لیکن آج سامراجی موجودگی کے تقریباً دو عشروں بعد بھی حالت یہ ہے کہ افغانستان میں افیون کی کاشت میں ریکارڈ اضافے کے علاوہ کوئی صنعت قائم نہیں کی جاسکی۔ فصلوں اور باغات کے لئے دیہات سے منڈی تک کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوئی۔ تعلیم، صحت اور روزگار سمیت کسی قسم کا کوِئی سماجی ڈھانچہ تعمیر نہ ہوسکا ہے۔ امن ایک خواب ہے اور خوشحالی کا تصور ہی محال ہے۔ شہروں میں بڑی بڑی مغربی طرز کی تجارتی عمارات تعمیر ہوئیں جن میں خارجی اجناس کی ڈالروں میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ سامراج اپنی بیس سالہ موجودگی میں، جس میں پوری ایک نسل جوان ہوئی، افغانستان کو انیس سو اناسی کے درجے تک بھی نہیں لے جا سکا، جہاں سے امریکہ اور اس کے بنیاد پرست حواریوں نے افغانستان کو  تباہ و برباد اور تاراج کرنا شروع کیا تھا۔ افغانستان کی پسماندگی اور بد امنی کا حل افغانستان کی تخریب میں شامل کرداروں کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ ان سب  کرداروں کے درمیان ایک قدر مشترک ہے کہ سب اپنی اپنی پراکسیوں کو افغانستان کے اقتدار تک رسائی اور اپنے سامراجی ریاستی مفادات کے تحفظ کے لئے  تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اور ان ریاستوں کے اجرتی قاتل وحشت اور بربریت کی بد ترین مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ عملیت پرستوں کے تمام تر خواب برباد اور کوششیں عبث ثابت ہوئی ہیں۔  آج بھی خلق ڈیموکریٹک پارٹی کا کور، ڈوڈئی، کالی (روٹی، کپڑا اور مکان) کا طبقاتی اور سوشلسٹ پروگرام ہی افغانستان کے مسئلے کا واحد حل ہے۔ کٹھ پتلی اجرتی قاتلوں اور جنگی سرداروں کی باگیں ان کے سامراجی آقاوں سے کاٹے بغیر افغانستان میں امن کا خواب ایک سراب ہے اور شاید ہی افغان مسئلے کا حل ہمسایہ ممالک میں مثبت اور انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ جڑ گیا ہے۔

2008ء کے معاشی زوال کے بعد انتہائی سرعت اور شدت کے ساتھ نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریکوں کا ابھار پوری دنیا کے سیاسی افق پر چھایا رہا ہے اور ایک کے بعد ایک تحریک ایک ریاست سے دوسری ریاست اور خطے میں منتقل ہوکر سرمایہ داری کے مسترد ہونے اور نیو لبرلزم کے ناقابل برداشت ہونے کا بہت واضح اظہار کرتا رہا ہے۔ مشرق وسطی اور یورپ و لاطینی امریکہ تواتر کے ساتھ ان انقلابی تحریکوں کے زیر اثر رہے ہیں۔ افغانستان کے پڑوس میں ایران میں بھی حالیہ وقتوں میں نوجوانوں کی کئی ریڈیکل تحریکیں ابھریں جنہیں ایرانی ملا اشرافیہ نے بڑے ظالمانہ طریقوں سے قتل عام اور جبر کے زریعے کچلا۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے ایران میں مہنگائی اور بے روزگاری پہلے سے موجود غم و غصے کو مہمیز دے کر نئی تحریک کے اٹھنے کے بہت زیادہ امکانات پيدا کرے گی۔ بھارت میں اگرچہ مودی کی ہندوتوا پر مبنی نیم فاشسٹ حکومت ایک بار پھر سے اقتدار  پر براجمان ہوئی ہے لیکن عوامی رجحان اور مزدوروں کی حالت اور ریڈیکلائزیشن کا صحیح اندازہ وہاں پر مودی کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد کروڑوں مزدوروں کی ہڑتال اور شہریت کے متنازعہ قانون اور کشمیریوں پر ریاستی ظلم کے خلاف مظاہروں سے ہوتا ہے۔

افغانستان میں تخریب اور بربادی کے سب سے اہم کردار پاکستانی حکمران اپنی تاریخ کے سب سے گہرے ریاستی، معاشی، اقتصادی اور سماجی بحران کا شکار ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انتشار اور زوال گہرا اور وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ سماج تحریک کے آغاز کے کنارے پر کھڑا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر کسی عوامی تحریک کے شدت کے ساتھ برپا  ہونے کی تمام  شرائط پوری ہیں۔ سیاسی پارٹیاں دائیں سے بائیں تک کوئی بھی بنیادی مسائل اور ایشوز کے گرد پروگرام دینے سے خوفزدہ ہیں۔ چین میں بیوروکریسی منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر ترقی کی انتہاوں کو چھو کر زوال کے عہد میں داخل ہو رہی ہے۔ چین میں دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور پرولتاریہ جنم لے چکا ہے جس کی  بڑی اور ابتدا سے ہی انقلابی تحریکوں کا بیوروکریسی سے ٹاکرا ہوگا۔   وہ تحریک کہ جس کا پہلا مرحلہ ہی معیشت کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کا پروگرام بنتا ہے۔ یہ خطہ مستقبل قریب میں ہمارے اندازوں سے بہت پہلے تحریکوں کے بننے اور چلنے کا عالمی مرکز بن سکتا ہے۔ بھارت سے پاکستان اور ایران سے افغانستان تک مصنوعی بنیادوں پر ان سماجوں پر مسلط کی گئی بنیاد پرستی کی کمزور پرت تحریک کے پہلے ہی جھٹکے سے بکھر جائے گی۔ اس خطے میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد افغانستان کی پسماندگی اس کی فوقیت بنے گی۔ طبقاتی یکجہتی اور انقلابی ہم آہنگی کی بنیاد پر تعاون اور ترقی صرف  ایک نسل کے عرصے میں ہی افغان سماج کو اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ کی ترقی سے زیادہ ترقی دے سکتے ہیں۔ افغانستان کو سامراجی گماشتگی و دلالی یا خیرات و صدقات کی معیشت سے ترقی نہیں دی جا سکتی۔ ایک آزاد انقلابی افغانستان کا دنیا کے نقشے پر دوبارہ سے ایک نئے اور بلند پیمانے پر ابھرنا اس خطے کی انقلابی تبدیلی سے منسلک ہے۔ مختلف قوموں کے مظلوم و استحصال زدہ عوام تاریخ کے اس موڑ  پر تحریکوں ميں مظلومیت اور مشترکہ درد کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑیں گے اور اس خطے کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار کریں گے۔