چنگیز ملک

ترقی پذیر ممالک بالخصوص ہندوستان اورپاکستان میں سرمایہ داری کسی قومی جمہوری انقلاب کے ذریعے روشناس نہیں ہوئی بلکہ ان ممالک میں سرمایہ داری کا کردار سامراجیت کی پیروی کی شکل میں متعارف کرایا گیا۔ قومی جمہوری انقلاب کے وہ اقدامات جو بورژوا انقلابات کے نتیجے میں کئے گئے تھے، سرمائے کے سامراجی کردار کے حاوی ہونے کی وجہ سے اپنے اُلٹ میں دکھا ئی دیتے ہیں۔

اس لیے مارکس نے 1851ء نیویارک ٹریبیون کے اپنے ایک مضمون میں وہ پردہ چاک کیا ”بورژوا تہذیب کی کامل منافقت ہمیں نوآبادیاتی ممالک میں نظرآتی ہے۔ اپنے گھروں میں بظاہر مہذب نظر آنے والے یہ ممالک کس قدر ننگے اور بے ہودہ ہیں اور ہندوستانی سماج کی جو تشکیل اب مرتب ہوئی ہے وہ اسی صورت میں بدل سکتی ہے کہ برطانیہ کا محنت کش طبقہ بغاوت کر دے یا پھر ہندوستان کے لوگ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے تاج ِبرطانیہ سے چھٹکارہ حاصل کریں۔ “

مارکس کے 168 سال پہلے لکھے گئے الفاظ تاریخ نے سچ ثابت کر دکھائے۔ تاجِ برطانیہ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں ہندوستان میں وارد ہوا نے یہاں کے سماجی، سیاسی اورثقافتی ڈھانچے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دستکاروں کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔ سماجی اکائی کو ذات پات، برادری اور مذہبی منافرتوں میں تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے، رومن شہنشاہیت کے اس مقولہ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کو ہندوستان میں جزو لاینفک قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں غلام داری اور جاگیر داری کبھی اپنی کلاسیکل شکل میں نہیں ملتی جیسی ہمیں مغرب میں دکھائی دیتی ہے۔ تاجِ برطانیہ کے ساتھ وفا داری دکھانے والے ہندو، مسلم، سکھ اورعیسائی اکابرین کو بڑی بڑی جائیدادوں سے نوازاگیا۔ 1878ء میں پہلی بار سرکاری دستاویزات میں مذہب کا خانہ متعارف کرایا گیااور برصغیر کی عوام کو قومیتوں میں تقسیم کیا گیا اور سارے برصغیر میں لوٹ مار کو پروان چڑھایا گیا۔

1857ء کی جنگ آزادی کی لڑائی ہندوستان کے باسیوں کی ایک شاندار جدوجہدتھی اوراسی طرح فروری 1946ء کی جہازیوں کی بغاوت نے برصغیر کے حالات کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس وقت یہاں کی کمیونسٹ پارٹی کے نظریاتی بانجھ پن نے یہاں کی کروڑوں عوام کی جدوجہد کو خونی بٹوارے میں بدل دیا اور یوں مذہبی بنیادوں پر تقسیم نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور 27 لاکھ لوگوں کے خونِ ناحق کو جنم دیا۔ یہ قتل و غارت گری دونوں نام نہاد آزاد ریاستوں میں آج تک جاری ہے۔ جہاں ”شائننگ انڈیا“ کی وسیع آبادی روٹی، کپڑا، مکان و دیگر سہولیات سے محروم ہے تو دوسری جانب پاکستان کی ریاست اور یہاں کے حکمران طبقات بھی اپنی تاریخی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جس کی واضح مثال پاکستان ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل و دیگر اداروں کی تباہی و بربادی کی صورت میں نظر آتی ہے۔

1947ء میں پاکستان ریلوے کے پاس 10726کلومیٹر کارآمد ٹریک تھاجو کم ہو کر 7791 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ زیا دہ تر ریلوے ٹریک 80سے 90 سال پرانے ہیں۔ لوکو موٹیو رسالپور جو 1996ء میں بنایا گیا تھا کی پیداواری صلاحیت سالانہ پچیس انجن تیار کرنے کی تھی لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں کی نااہلی کے سبب اب تک صرف 23 انجن تیار کئے جاسکے ہیں اور لوکوموٹیو میں اب صرف ریپئر نگ کا کام کیا جاتا ہے۔ مال گاڑی جو ریلوے کی آمدن میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی تھی کی آمدن کے بڑے ذریعے کو اب’NLC‘ اور دیگرپرائیویٹ اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ریلوے کی آمدن پر شب خون مارا گیا۔

’PIA‘ کی بات کریں تواس ادارے نے 1985ء میں امارات ایئر لائین کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج امارات کے پاس دو سو سے زائد جہاز ہیں جبکہ’PIA‘کے پاس 64 جہازوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہوئی ہے جو اب صرف 32 رہ گئے ہیں۔ کسی بھی ملک میں صنعتوں کی ماں سٹیل انڈسٹریز ہوتی ہیں لیکن آج قومی ادارہ پاکستان سٹیل ملز بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

کسی بھی ملک یا ریاست کی سب سے بنیادی ترجیحات تعلیم اور صحت کے شعبہ جات ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا اُلٹی بہتی ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی کیلئے گورنمنٹ ہسپتال 1167، ڈسپنسری 5695، بنیادی مراکز صحت 5464، چائلڈ میٹرنٹی ہومز 733، رورل ہیلتھ سینٹرز 675، ’TB‘ سینٹرز 339، مجموعی ڈاکٹرز کی تعداد 110,000ہے جن میں 25 ہزار ڈاکٹرز بیرون ملک اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 28 جنوری 2018ء ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق 6325 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ اسی طرح ایک ہزار مریضوں کیلئے صرف ایک بیڈ ہے۔ پیرامیڈکس اور نرسنگ سٹاف کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں جدید لیبارٹریزاور جدید مشینری کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہاں کے تعلیمی شعبے کی حالت بھی مختلف نہیں ہے۔ پاکستان میں مجموعی سکولوں کی تعداد دولاکھ ہے ان میں پرائمری، مڈل اور ہائر سیکنڈری تمام سکول شامل ہیں۔ اڑھائی کروڑ طلبہ ان سکولوں میں زیرِتعلیم ہیں۔ ان بچوں کو پڑھانے کیلئے صرف چھ لاکھ اساتذہ ہیں۔ جبکہ اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے ہی محروم ہیں۔ 188 پبلک پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں صرف دو فیصد طلبہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف تبدیلی سرکار نے آتے ہی ”انقلابی“ قدم اٹھاتے ہوئے ’HEC‘کے بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کرڈالی ہے۔

اس تاریخی پسِ منظر اور مختلف اداروں کے اعداد و شمار کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ موجودہ تبدیلی حکومت نے جو بلند و بانگ دعوے کئے تھے آج وہ تمام دعوے اپنی نفی میں بدل چکے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی سابقہ حکومتوں کی کرپشن کی گردان میں گُم ہو چکی ہے۔ ڈیڑھ سال میں اتنے قرضے لئے جا چکے ہیں جتنے نواز حکومت نے پانچ سال میں لئے تھے۔ اشیا خوردونوش، ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے پہلے سے مفلوک الحال عوام کے زخموں کو اور بھی زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ ’IMF‘ کے حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے تبدیلی سرکار نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ اور لبرلائزیشن جیسے عوام دشمن اقدامات کرنے کیلئے پَر تول رہی ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور سے لے کر اب تک سینکڑوں ادارے بیچے جا چکے ہیں اور ان بیچے گئے اداروں کے حوالوں سے کبھی عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان اداروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم کہاں خرچ کی گئیں اور ان رقوم سے عام عوام کے معیارِ زندگی میں کیا اضافہ ہوا۔ ان سوالات کا جواب آج تک کوئی حکومت یا ان کے نمائندے دینے سے قاصر ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ان اداروں کو خریدنے والے اربوں کھربوں روپے ان اداروں سے کما چکے ہیں اور اپنے اثاثہ جات میں کئی گُنا اضافہ کر چکے ہیں۔ ان بیچے ہوئے اداروں میں گھی کے 23 کارخانے، چینی کے 11کارخانے، سیمنٹ کے سولہ کارخانے، تیل اور گیس کے 14 ادارے، بجلی کے 2 ادارے، کپڑے کے 4 کارخانے، اخبارات کے 10 ادارے، ٹورازم کے 7 ادارے، کیمیائی کھاد اور کیمیکل کے 19 کارخانے، انجینئر نگ کے 8 ادارے، مواصلات کے 12 ادارے، پانچ بینکیں اور دیگر مالیات کے ادارے شامل ہیں۔

کسی بھی ملک یا براعظم میں جتنے میگا پروجیکٹس بنائے گئے وہ ریاستی معیشت کے ذریعے بنائے گئے، پورا یورپ اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ 1973ء کے مالیاتی بحران کے بعد ریاستی معیشت کی جگہ آزاد منڈی کی معیشت کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ آزاد منڈی کی معیشت میں سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ جہاں چاہیں سرمایہ کاری کریں اور جب چاہیں اپنا پیسہ وہاں سے نکال باہر کریں۔ اس طرزِ معیشت نے امیر ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک کا دیوالیہ نکال دیا۔ 2008ء کے عالمی بحران کے بعد سے ’G20‘ ممالک اس بحران سے نکلنے کیلئے ان عوام دشمن اقدامات کو تیزی سے لاگو کرنے کیلئے لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ وقت اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ ان پالیسیوں سے منڈیاں مزید سکڑنے کی طرف گئی ہیں۔ شرح منافع کی دوڑ میں سرگرداں یہ سرمایہ دار بھیڑیئے پاگل پن کی حد تک جاچکے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے 98 فیصد لوگ کیا زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نظام کے رکھوالے وحشت اور بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ ریاستی معیشت ہو یا آزاد منڈی کی معیشت اس سے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں تو بھر سکتی ہے لیکن اس کرہ ارض پر بسنے والے کئی ارب انسانوں کی زندگیوں کو سہل نہیں بنایا جا سکتا۔ دنیا کے 8 افراد کے پاس نصف آبادی سے زیادہ دولت کا ارتکاز اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آزاد منڈی کی معیشت کے دعوے داروں کے لئے چلی کی تحریک کو مد نظر رکھنا چاہیے جہاں عوام نے یہ نعرہ بلند کیا”نیولبرل ازم چلی میں پیدا ہوا اور چلی میں ہی دفن ہو گا“۔ آزاد منڈی کی معیشت ترقی یافتہ ممالک میں ناکام ہو چکی ہے تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا نے 30 دسمبر 2019ء کو ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ مہنگائی 9 سال کی بلند ترین سطح 12.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ 2019ء میں گیس 55، بجلی 18، غذائی اشیا33 اور صحت کی سہولیات 16 فیصد تک مہنگی ہوئی ہیں۔ ریاستی معیشت یا آزاد منڈی کی معیشت میں محنت کشوں کو اتنی اُجرت دی جاتی ہے کہ وہ صرف زندہ رہ سکیں اور کسی ادارے یا فیکٹری میں اپنی قوتِ محنت فروخت کر کے اپنے لئے زندگی خرید سکیں۔

پاکستان میں نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور لبرلائزیشن جیسے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف مختلف تحریکیں جو زیادہ تر پبلک سیکٹر کے اندر ابھریں، ’OGDCL‘، واپڈا، ’PIA‘، ریڈیو پاکستان، یوٹیلٹی سٹورز اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کی تحریکوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ ا ن تحریکوں نے سابق حکو مت اور موجودہ تبدیلی سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا لیکن یہ تحریکیں معاشی مطالبات سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کی طرح ٹریڈ یونین قیادتیں بھی نظریات سے عاری ہو چکی ہیں۔ پاکستان کی کل ورک فورس کے ایک فیصد کا بھی کم کسی یونین کے ساتھ منسلک ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں جان لیوا حادثات معمول بن چکے ہیں۔ ’IRA-2012‘ صرف سترہ فیصد محنت کشوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ 83 فیصد محنت کش ان قوانین کے زمرے میں ہی نہیں آتے۔ مقرر کردہ کم سے کم اجرت جو 17500ہے بیشتر پرائیویٹ اداروں میں دی ہی نہیں جارہی۔ زیادہ تر مزدور دہاڑی دار ہیں اور اس بے روزگاری کے سمندر میں کم سے کم اجرت میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ان حالات میں جہاں سیاسی جماعتیں اور ٹریڈ یونین قیادتیں مستقبل کا کوئی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں وہاں سب سے بڑا سوال ان مارکس وادی قوتوں پر ہے جو سچے نظریات اور درست حکمتِ عملی کے ذریعے محنت کشوں کی ایڈوانس قوتوں کو متحرک کرسکتے ہیں۔ چلی، فرانس، ایکواڈور، لبنان، عراق اور بھارت میں اٹھنے والی تحریکیں محنت کشوں کی ایک نئی کروٹ کا عندیہ دے رہی ہیں۔ لیکن سوال اس متبادل حقیقی مارکسسٹ، لینن اسٹ قیادت کا ہے۔