خواجہ زبیر

امریکہ کا تصور کرتے ہی ایک سامراجی بدمعاش کا نقش ابھرتا ہے جو دنیا کے ممالک کو لڑوا کے اور اسلحہ بیچ کے اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ لیکن اس سامراجی طاقت کے اندر محنت کشوں کی ایک دنیا بھی آباد ہے جسے زندہ رہنے کے لئے اسی طرح خون پسینہ بہانہ پڑتا ہے اور اسی طرح اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑتا ہے جیسے دنیا کے کسی اور حصے کے مزدور کو۔ امریکہ بھر میں جنرل موٹرزکے لگ بھگ 50,000 ملازمین گزشتہ 6 ہفتوں سے ہڑتال پر ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں یہ امریکہ میں ہونے والی سب سے بڑی ہڑتال ہے۔ اس ہڑتال کو سمجھنے کے لیے ہمیں امریکی معیشت میں آٹو انڈسٹری کے کردار، اس کے حجم اوراس میں یونین سازی کی تاریخ کو دیکھنا ہو گا۔

امریکی معیشت میں گاڑیاں بنانے کی صنعت ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے۔ اس سے جڑے کچھ اعداد و شمار پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ امریکہ میں پیداواری شعبے سے حاصل جی ڈی پی کا سب سے بڑا حصہ آٹو انڈسٹری سے آتا ہے۔ ایکسپورٹ کو دیکھیں تو گذشتہ نصف دہائی میں امریکی آٹو انڈسٹری نے گاڑیوں اور پرزہ جات پر مشتمل 692 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی جو دوسری بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری ایروسپیس سے 50 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی بات کریں تو امریکی آٹو انڈسٹری اس شعبے میں بھی امریکہ کی سب سے بڑی صنعت ہے جبکہ دنیا بھر میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ روزگار کو دیکھیں تو بھی پیداواری سیکٹر میں آٹو انڈسٹری کسی بھی دوسری صنعت سے زیادہ افراد کو براہ راست روزگار مہیا کرتی ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے کہ اس معاشی نظام میں ہر صنعت اور شعبہ دیگر بہت سے شعبوں اور صنعتوں سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح جڑا ہوتا ہے۔ ہر صنعت کے فارورڈ اور بیک ورڈ روابط ہوتے ہیں۔ ایک صنعت میں روزگار بڑھنے یا گھٹنے سے اس سے جڑی صنعتوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور ان کے ہاں بھی روزگار بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ یہ معاشی تصور ”اثر ضرب“ ( Multiplier Effect) کہلاتا ہے۔ امریکی آٹو انڈسٹری براہ راست روزگار میں تو سب سے بڑی ہے ہی ساتھ میں اس کااثر ضرب بھی سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں ایک کار اسمبلی پلانٹ کی جاب 17، انجن ٹرانسمیشن پلانٹ کی جاب 7 اور پرزہ جات بنانے کی فیکٹری میں ہر نئی جاب 6 مزید ملازمتوں کے مواقع دیگر صنعتوں میں پیدا کرتی ہے۔

آئیے اس امریکی صنعت کے حجم کا بھی اندازہ کرتے چلیں۔ گزشتہ برس امریکہ میں 1,74,00,000 گاڑیاں اور ٹرک فروخت ہوئے جن میں سے 1,13,00,000 گاڑیاں اور ٹرک امریکہ کے اسمبلی پلانٹس میں بنے۔ امریکی آٹو انڈسٹری میں ایک سال میں بننے والے ٹرک اور کاروں کو آگے پیچھے کھڑا کر دیا جائے تو کراچی سے پشاور تک 34 لین کی شاہراہ چاہیے ہو گی۔ ایک آٹو اسمبلی پلانٹ لگانے کے لیے ایک سے دو ارب ڈالر کا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ جو دو سے تین ہزار محنت کشوں کو روزگار فراہم کرتا ہے، سالانہ لگ بھگ دو لاکھ گاڑیاں تیار کرتا ہے اور جی ڈی پی میں اوسطاً 6 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتا ہے۔ امریکہ میں ایسے 46 اسمبلی پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ جن میں جی ایم (جنرل موٹرز) کے 12، فورڈ کے 9 اورایف سی اے کے 6 پلانٹس ہیں۔

امریکہ میں بننے والی ایک کروڑ تیرہ لاکھ گاڑیوں کا 52 فیصد ’بیگ 3‘ نام سے مشہور یہ کمپنیاں بناتی ہیں۔ ایک گاڑی میں چھوٹے بڑے ملا کے کوئی بارہ سے پندرہ ہزار پرزے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں یہ پرزے بنانے کے 5600 کارخانے کام کر رہے ہیں جن میں 8,71,000 افراد کام کر رہے ہیں۔ صرف ان پرزہ جات بنانے والی کمپنیوں نے گذشتہ سال ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ک مد میں 21,00,00,00,000 ڈالر خرچ کیے۔ امریکی آٹو انڈسٹری امریکہ میں ربڑ، شیشہ، لوہے اور اسٹیل کی سب سے بڑی خریدار ہے۔

2008ء کی کساد بازاری سے قبل جنرل موٹرز کے پاس مسلسل 77 سال تک دنیا کی سب سے بڑی آٹوموبائیل کمپنی اور فورڈ کے پاس مسلسل 56 سال تک دنیا کی دوسری سب سے بڑی آٹوموبائیل کمپنی کا اعزاز رہا۔ لیکن ٹویوٹا نے 2007ء میں فورڈ سے اور 2008ء میں جنرل موٹرز سے ان کے اعزاز چھین لیے۔ بورژوا تجزیہ کاروں نے اس کا الزام محنت کشوں پر ڈال دیا کہ جنرل موٹرز اور فورڈ کے ملازمین چونکہ یونین کے ممبر ہیں اور ٹویوٹا کے ہاں یونین نہیں ہے اس لیے فورڈ اور جنرل موٹرز لاگت میں ٹویوٹا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ 2008ء کی کساد بازاری کے ساتھ دنیا نے تیل کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ دیکھی۔ ایندھن سستا ہونے سے صارفین نے کاروں کی بجائے ’ SUVs ‘ اور پک اپ ٹرکس کو ترجیح دینا شروع کر دی۔

گذشتہ برس ہی کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑیوں کے اعداد وشمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے تین پک اپ ٹرک اور پھر تین ’ SUVs ‘ کے بعد ساتویں نمبر پر کہیں ایک کار آتی ہے۔ یہ 2008ء کی کساد بازاری کے بعد سستے تیل کی وجہ سے ابھرنے والی ’ SUVs ‘ مارکیٹ تھی جہاں امریکن کمپنیاں اپنی جگہ نہ بنا پائیں۔ جبکہ پک اپ ٹرک میں جاپانی کمپنیاں امریکی کمپنیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ صارفین کی پسند کے ساتھ خود کو نہ ڈھال سکنے کا الزام ٹریڈ یونین اور مہنگی اجرتوں پر لگانا محض حقیقت سے آنکھیں چرانا ہے۔

امریکی آٹو انڈسٹری میں بیگ 3 یعنی جنرل موٹرز، فورڈ اور ایف سی اے کے محنت کش یونائیٹڈ آٹو ورکرز یونین (UAW)کے ممبر ہیں۔ ’UAW ‘ کی تاریخ 1930ءکے عشرے سے شروع ہوتی ہے جب امریکہ اور کینیڈا کے آٹو انڈسٹری مزدوروں نے یونین کے تحت خود کو منظم کرنا شروع کیا۔ اس وقت شمالی امریکہ دنیا کی سب سے بڑی آ ٹو انڈسٹری اور گاڑیوں کی منڈی تھا۔ پوری آٹو انڈسٹری میں بیگ 3 کا راج تھا۔ جنرل موٹرز، فورڈ اور ایف سی اے کے منافع آسمان چھو رہے تھے۔ مگر ان کمپنیوں کے محنت کش کسمپرسی کی حالت میں اپنے روز و شب گزار رہے تھے۔ اجرتیں بہت قلیل جبکہ کام کرنے کے اوقات نہایت طویل اور غیر معین تھے۔ دیگر مراعات جیسے علاج معالجے کی سہولیات، تعطیلات اورپنشن نہ ہونے کے برابر تھیں۔ حد تو یہ کہ آٹو انڈسٹری کے مزدوروں کو کھانے کے وقفے کے دوران ایک دوسرے سے بات کرنے تک کی اجازت نہیں تھی۔ ایسے میں جب آٹو انڈسٹری کے مزدوروں نے’ UAW ‘کے تحت خود کو منظم کرنا شروع کیاتو یونین سازی کا یہ عمل کمپنی انتظامیہ کو ایک آنکھ نہ بھایا اور یونین ممبران پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔

انتظامیہ یونین کے وجود کو تسلیم کرنے اور ان سے کسی قسم کے مذاکرات اور معاہدہ کرنے پر تیار نہ تھی۔ مزدوروں کے مطالبات بہت سادہ تھے۔ باوقار اجرت، طبی سہولیات کی فراہمی، پنشن، آٹھ گھنٹے کے اوقات کار اور ’ UAW ‘ کو آٹو انڈسٹری کے مزدوروں کی نمائندہ یونین کے طور پر قبولیت۔ مگر ان سادہ مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے آٹو انڈسٹری مالکان نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔

مجبوراً اٹلانٹا جارجیا میں قائم جنرل موٹرز کے ملازمین نے دھرنا دے دیا۔ مگر مالکان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کے فوراً بعد جنرل موٹرز کے فلنٹ مشی گن کے ملازمین 29 دسمبر 1936ء کو ہڑتال پر چلے گئے۔ جنرل موٹرز اس قدر طاقتور تھی کہ فلنٹ مشی گن کی سیاست کو کنٹرول کرتی تھی۔ پولیس اس کی مٹھی میں تھی اورکارخانے ان کے بھرتی کیے ہوئے پرائیویٹ جاسوسوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھی جاتی۔ یونین ممبران اور افسران کا پیچھا کیا جاتا اور موقع ملنے پر ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ اس وقت کے ایک یونین اہلکار مورٹیمرویندھام یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ کمرے میں فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھانے پر انہیں دھمکایا گیا کہ وہ جہاں سے آیا ہے وہاں واپس چلا جائے بصورت دیگر اسے لاش کے شکل میں تابوت میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ ایک موقع پر مشی گن کے گورنر نے دھمکایا کہ وہ نیشنل گارڈز (فوج) کو طلب کر لے گا۔ 11 جنوری 1937ء کو بندوقوں اور آنسو گیس کے گولوں سے مسلح پولیس کے دستوں نے ہڑتالی مزدوروں پر دھاوا بول دیا۔ گولہ باری سے 14 مزدور زخمی ہوئے مگر ہڑتال جاری رہی۔ فلنٹ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ مزدور یونین کے فلنٹ کی دیگر تنظیموں، مقامی آبادی، چھوٹے کاروباری لوگوں اور کمیونسٹ قیادت سے بہت اچھے روابط تھے۔ شہریوں نے ہڑتالیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہڑتال کے پورے عرصے ایک مقامی ہوٹل سے مفت کھانا مہیا کیا جاتا رہا۔ یکم فروری 1937ء کو کمپنی انتظامیہ عدالت سے ہڑتال ختم کروانے کا حکم نامہ لے آئی جسے مزدوروں نے ردی کی ٹوکری کی نذر کرتے ہوئے ہڑتال کا دائرہ وسیع کر دیا۔ علاقے میں موجود ایک اور جنرل موٹرز کے پلانٹ میں بھی ہڑتال کر دی گئی۔ حالات پر گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو امریکہ کے اس وقت کے نائب صدر جون نینسی گارنر نے وفاقی حکومت کی مداخلت کرنا چاہی مگر’ UAW‘ کی طاقت، مزدوروں کا عزم اور ڈھیلی پڑتی سیاسی گرفت کو بھانپتے ہوئے صدر روزویلٹ نے نائب صدر نینسی کی تجویز مسترد کر دی اور جنرل موٹرز کو یونین سے معاملات طے کرنے کا مشورہ دیا۔ جب کچھ نہ بن پایا تو مشی گن کے گورنر کو بیچ میں کودنا پڑا۔ گورنر فرینک مردی نے نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا مگر ہڑتال کو کچلنے کے لیے نہیں بلکہ ہڑتالی مزدوروں کو پولیس اور کرائے کے غنڈوں سے بچانے کے لیے۔

44 دن کی ہڑتال کے بعد گیارہ فروری 1937ء کو جنرل موٹرز نے گھٹنے ٹیک دیے اور اس نے’ UAW ‘ کو مزدوروں کی نمائندہ یونین کے طور پر تسلیم کر لیا۔ ملک بھر کے تمام جنرل موٹرز کے پلانٹس ’یونینائز‘ ہو گئے۔ دیگر مراعات کے ساتھ اجرت میں پانچ فیصد کا اضافہ بھی ہوا۔

یونین سازی کا یہ عمل جنرل موٹرز فلنٹ مشی گن سے شروع ہوا اور اس کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ پہلے امریکہ بھر کے جنرل موٹرز کے پلانٹ یونینائز ہوئے۔ پھر اس کے اثرات امریکہ سے نکل کے کینیڈا اور جنرل موٹرز سے نکل کے فورڈ اور ایف سی اے پر بھی پڑے۔ فلنٹ مشی گن سے تین سو میل مشرق میں اوشوا اونٹاریو کینیڈا کے جنرل موٹرز کے محنت کش فلنٹ کی جدوجہد سے تیزی سے سیکھ رہے تھے۔ یہاں بھی جنرل موٹرز کے مزدوروں کی حالت بہت خستہ تھی۔ دو ماہ بعد 8 اپریل 1937ء کو جنرل موٹرز اوشوا کے مزدوروں نے بھی ہڑتال کر دی۔ فلنٹ کی طرح یہاں کینیڈا میں بھی مطالبات بہت سادہ تھے۔ فلنٹ کی ہڑتال سے ایک تحریک پھوٹ پڑی تھی۔ جس نے آٹو انڈسٹری کے مزدوروں کو غربت اور ذلت کی زندگی سے نکلنے کا راستہ دکھایا تھا۔ ایسی تحریک کے ابھار میں محنت کش طبقہ بہت تیزی سے سیکھتا ہے جبکہ بورژوازی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے۔ یہی کچھ اوشوا میں دیکھنے کو ملا۔ جنرل موٹرز اوشوا کینیڈا کے مزدور سیکھ چکے تھے کہ لڑے بغیر ان کے حقوق نہیں ملنے والے اور بورژوازی یہ نہیں سیکھ پائی تھی کہ جب محنت کش طبقہ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اسے طاقت کے بل بوتے پر نہیں دبایا جا سکتا۔

اس وقت اونٹاریو کینیڈا کے وزیر اعلیٰ ہیپ برن میچل اور جنرل موٹرز میں گہرے مراسم تھے۔ دونوں نے اونٹاریو اور جنرل موٹرز کینیڈا کو ایسی یونین سے پاک رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے سوشلسٹوں سے روابط ہوں۔ ہڑتال کا سر کچلنے کے لیے لبرل پارٹی کے وزیر اعلیٰ نے کرائے کے غنڈوں پر مشتمل پرائیویٹ پولیس بھرتی کر لی۔ ’ Hepburn’s Hussars‘ اور ’Sons of Mitches‘کے ناموں والی غنڈہ تنظیموں نے مزدوروں کو ہراساں کرنے کا ہرحربہ استعمال کیا۔ بائیں بازو کی سوشلسٹ جماعت’ CCF ‘ (موجودہ’NDP‘)، ارد گرد کی دیگر مزدور تنظیمیں، مقامی آبادی اور دیگر سوشلسٹ ایکٹوسٹ’ UAW ‘ کے ساتھ آن کھڑے ہوئے۔ خود لبرل پارٹی کے اندر سے اپنے وزیر اعلیٰ کی اس غنڈہ گردی کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وزیر اعلیٰ کے دو قریبی ساتھی لیبر وزیرڈیوڈکرول اور اٹارنی جنرل روئیبک آرتھر وزیر اعلیٰ کی پشت پناہی اور سرکاری سرپرستی میں کی جانے والی اس غنڈے گردی کے خلاف احتجاجا ًمستعفی ہو گئے۔ محض دو ہی ہفتوں میں 23 اپریل 1937ء کو جنرل موٹرز کینیڈا نے گھٹنے ٹیک دیے اور مزدوروں کے زیادہ تر مطالبات کو مانتے ہوئے’ UAW ‘ کو ان کی نمائندہ یونین کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اس ہڑتال کے باعث یونین سازی کینیڈا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

اب جبکہ ہمیں امریکی آٹو انڈسٹری کے معیشت اور روزگار میں کردار، اس کے حجم اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی یونین کی تاریخ اور جدوجہد سے واقفیت ہو گئی ہے تو آئیے چھ ہفتوں سے جاری جنرل موٹرز میں 50,000 محنت کشوں کی ہڑتال کا جائزہ لیتے ہیں۔

آج سے ایک دہائی قبل سرمایہ داری کے بحران نے جب امریکی معیشت کو کساد بازاری میں دھکیلا تو یہاں کی آٹو انڈسٹری دھڑام سے منہ کے بل زمین پر آن گری۔ کساد بازاری سے قبل امریکی آٹو انڈسٹری میں دس لاکھ سے زائد اور ڈیلرز کے ہاں انیس لاکھ افراد کام کر رہے تھے۔ 2010ء میں یہ تعداد نصف رہ گئی تھی۔ لاکھوں افراد کا روزگار چھن چکا تھااور مزید کروڑوں کا داﺅ پر لگا تھا۔ بہت نازک صورت حال تھی اور ہر نازک صورت حال سے مال بنانا سرمایہ دار کو خوب آتا ہے۔ آٹو انڈسٹری کے بڑے مگر مچھوں نے دیوالیہ کی درخواست دے دی۔ مزید کروڑوں افراد کو بیروزگار کرنے اور صنعت کو بند کر دینے کی دھمکی دے کے حکومت سے 80 ارب ڈالر بٹور لیے۔ ایک عام محنت کش کی زندگی سینکڑوں اور ہزاروں کی گنتی پر ہی ختم ہو جاتی ہے اس کے لیے کروڑوں اربوں کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ محض موازنے کے لیے بتاتے چلیں کہ تب پورے پاکستان پر کل غیر ملکی قرضہ 45 ارب ڈالر تھا۔ یعنی امریکی آٹو انڈسٹری کو ملنے والی امداد اس وقت پاکستان کے کل بیرونی قرضہ جات سے لگ بھگ دوگنا تھی۔ ماہرین معیشت کی رپورٹس کے مطابق اس 80 میں سے محض 40 ارب ہی لوٹائے جاسکے ہیں۔

لیکن معاملات یہیں نہیں تھمے۔ آٹو انڈسٹری کے بیگ 3 نے دو دھاری تلوار سے امریکی آٹو انڈسٹری کے محنت کشوں کا معاشی قتل عام کیا۔ ایک طرف تو 80 ارب ڈالر کی امداد محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کیے ہوئے ٹیکس سے نکالی گئی دوسری جانب کساد بازاری اور بیروزگاری کا جن دکھا کے یونین سے اجرتوں، مراعات اور بھرتیوں کی شرائط میں تبدیلی کروائی گئی۔ نئے ملازمین کو انتہائی کم اجرت اور مستقل اسامیوں پر عارضی اور کنٹریکٹ ملازمین کو رکھا گیا۔ کساد بازاری اور بیروزگاری کے ڈسے محنت کش اس وقت تو کڑوا گھونٹ بھر گئے مگر منافع کی ہوس ختم نہ ہوئی۔ سستی اجرت اور کمزور لیبر قوانین کے لالچ میں گاڑیوں اور پرزہ جات بنانے کی فیکٹریوں کو میکسکو بھیجنے کا عمل جاری رہا۔ امریکی آٹو انڈسٹری کے محنت کش غم و غصے سے بھرے، موقع ملنے کا بے بسی سے انتظار کر رہے تھے کہ گذشتہ برس امریکی آٹو انڈسٹری دوبارہ کساد بازاری سے پہلے والی سطح پر آگئی۔ اس میں کام کرنے والے مزدوروں جو کساد بازاری سے قبل دس لاکھ تھے اور اس کے بعد گھٹ کے ساڑھے چھ لاکھ رہ گئے تھے دوبارہ دس لاکھ سے زائد ہو گئے۔ ڈیلرز کے ملازمین بھی جو بیس لاکھ سے کم ہو کے سولہ لاکھ رہ گئے تھے واپس بیس لاکھ ہو گئے۔ کمپنیاں کافی حد تک کساد بازاری سے نکل آئی تھیں۔ گاڑیوں کی فروخت اور منافع کافی حد تک بحال ہو گیا تھا۔ تو ایسے میں مزدور بھی توقع کر رہے تھے کہ ان کی جو مراعات کساد بازاری کے باعث چھن گئیں تھیں وہ اب واپس مل پائیں گی۔ لیکن مزدوروں کے حقوق اور روزگار پر ڈکیتیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

امریکی آٹو انڈسٹری اور اس سے جڑی زیادہ تر صنعتیں امریکہ کے مڈ ویسٹ کی ریاستوں میں قائم ہیں۔ جنرل موٹرز، فورڈ اور ایف سی اے اور آٹو ورکرز کی نمائندہ یونین’ UAW ‘کے ہیڈ کوارٹرز یہیں قائم ہیں۔ پرولتاریہ یہاں کی سیاست میں اہم کردار کا حامل ہے۔ روایتی طور پر یہ علاقہ ڈیموکریٹس کو جتاتا آیا ہے۔ بل کلنٹن اور بارک اوبامہ کی جیت میں مڈ ویسٹ ریاستوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اس وعدے کے ساتھ مڈ ویسٹ گیا کہ وہ یہاں مزید کوئی صنعتی مرکز بند ہونے نہیں دے گا بلکہ جو صنعتی مراکز یہاں سے جا چکے ہیں انہیں واپس لائے گا۔ یہ ایک شاندار سیاسی جھانسہ تو ہو سکتا تھا مگر عملاًیہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر کے بس کی بات نہیں تھی۔ مڈ ویسٹ ریاستوں کے محنت کش اس جھانسے میں آگئے اور بل کلنٹن اور بارک اوبامہ کو جتانے والی ریاستوں نے اس بار ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ نے امریکی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے جو جو اقدامات کیے اس سے معاشی بحران بہتر ہونے کی بجائے مزید گہرا اور گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ ’ NAFTA ‘ میں چھیڑ چھاڑ، درآمدی ڈیوٹیاں اور پابندیاں، کینیڈین ایلومینم، اسٹیل اور اس سے بننے والی مصنوعات پر ڈیوٹیاں اور اس جیسے بہت سے اقدامات نے علاقائی تجارت اور پیداواری شعبے خاص کر آٹو انڈسٹری کو مشکلات میں ڈال دیا۔ ان اصلاحات کا الٹا اثر اس امر کی دلیل ہے کہ بورژوا حکمرانوں کے پاس معاشی بحران سے نکلنے کا کوئی سنجیدہ، مستقل، کارگر اور قابل عمل حل موجود ہی نہیں ہے۔ اس سے نکلنے کی ہر کوشش انہیں اس دلدل میں مزید اندر دھکیلتی جاتی ہے۔ جب ٹرمپ یہ سب اچھل کود کر کے تھک گیا تو سارے تماشے کے بعد جنرل موٹرز نے امریکہ میں چار پلانٹ بند کرنے کا عندیہ دے دیا جو دکھاتا ہے کہ سرمایہ دار اپنے نظام کے حکمرانوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔

اس سیاسی اور معاشی پس منظر میں’UAW‘ اور جنرل موٹرز کے مابین چار سالہ معاہدے کی تجدید کا وقت آگیا۔ پچھلے وعدے وفا نہ ہوئے تھے، کمپنی کا منافع آسمان چھو رہا تھا مگر محنت کشوں کے شب و روز میں کوئی بدلاﺅ نہیں آیا تھا۔ چار پلانٹ بند ہونے کے اعلان سے ہزاروں کا روزگار چھننے جا رہا تھا۔ ایسے میں نئے معاہدے کی پیشکش میں طبی سہولیات میں بڑی کٹوتیاں تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں۔ 14 ستمبر کو پرانے معاہدے کی معیاد پوری ہوئی۔ 15 ستمبر کو یونین نے ہڑتال کی کال دے دی اور اگلے دن رات بارہ بجے سے امریکہ بھر میں جنرل موٹرز کے تمام پلانٹس میں کام بند ہو گیا۔ لگ بھگ پچاس ہزار ملازمین ہڑتال پر چلے گئے۔ معاہدے کی معیاد پوری ہونے اور ہڑتال میں محض دو دن کا فرق بورژوا تجزیہ کاروں کے نزدیک ناقابل فہم حد تک مختصر مدت تھی۔ جنرل موٹرز کے محنت کشوں نے راتوں رات ہڑتال پر جانے کا فیصلہ نہیں کر لیا بلکہ یہ ایک دہائی کا لاوا تھا جو معاہدے کی مدت پوری ہوتے ہی پھٹ پڑا۔

قدرتی آفات اور کسی ممکنہ ہڑتال کے خطرے کے پیش نظر جنرل موٹرز 90 دن کی گاڑیاں‘ کچھ اپنے پاس اور کچھ ڈیلرز کے ہاں رکھتی ہے۔ جہاں بورژوا طبقہ اپنے اندر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتا ہے وہاں محنت کش طبقے میں بھی ایک کا زخم سب کا زخم ہوتا ہے۔ جنرل موٹرز میں ہڑتال ہوئی تو ان کی گاڑیاں اور پرزہ جات کی ترسیل کرنے والے کمپنیوں کی یونین’Teamsters‘نے ’UAW‘ سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جنرل موٹرز کی مصنوعات لانے لے جانے سے انکار کر دیا۔ پرزہ جات کی ترسیل رکی تو ہڑتال کے چند دن کے اندر ہی جنرل موٹرز کو میکسیکو اور کینیڈا کے پلانٹ بھی بند کرنے پڑ گئے۔ جب امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں جنرل موٹرز کے تمام پلانٹس بند ہوئے تو انہیں پارٹس مہیا کرنے والی درجنوں کمپنیوں کے ہزاروں کارخانوں کا کام بری طرح متاثر ہوا۔ میگنا، لیناماراور مارٹینریا اور ان جیسے بہت سے ’OEM ‘سپلایئرز کا کام بھی ٹھپ ہو گیا۔ اب تک صرف لینامار نے اپنے نمبر بتائے ہیں جن کے مطابق ہڑتال سے اسے ایک ملین ڈالر کا روزانہ نقصان ہو رہا ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور میکسیکو میں جنرل موٹرز کو پارٹس مہیا کرنے والی درجنوں کمپنیوں نے ہزاروں ملازمین کو کام سے عارضی طور پر فارغ کر دیا ہے۔ محتاط تخمینوں کے مطابق جنرل موٹرز کو صرف ایک ماہ کی ہڑتال سے 1.2 سے 1.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پارٹس کی عدم دستیابی کے باعث ڈیلرز کو بہت سی گاڑیوں کی مرمت ملتوی کرنا پڑی ہے۔

ایک موقع پر صدر ٹرمپ نے خود ثالثی کی پیشکش کی جسے’UAW‘نے مسترد کر دیا۔ دنیا بھر سے مزدور تنظیموں اور اتحادوں نے ’UAW‘سے اظہار یکجہتی کے پیغامات بھیجے۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے تین رکنی نمائندہ وفد نے بیلجیئم، کینیڈا اور امریکہ سے آ کر’ UAW ‘کے وفد سے ملاقات کی۔ انٹرنیشنلزم کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان، بیلجیم اور کینیڈا کے محنت کشوں کی جانب سے ان کی جدوجہد کو سرخ سلام پیش کیا اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ حالیہ صورت حال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر سیر حاصل گفتگو کی۔

جنرل موٹرز جیسے دیو سے’UAW‘ کا بھِڑ جانا کوئی آسان نہیں تھا جبکہ جنرل موٹرز 90 دن کی گاڑیاں رکھتی ہے۔ ہڑتال کے طوالت پکڑ جانے کی صورت میں اس کے ناکام ہو جانے کا خدشہ تھا۔ جنرل موٹرز مزدوروں کی اس کمزوری سے بخوبی واقف تھی۔ مذاکراتی عمل شروع ہوا تو کمپنی نے غیر سنجیدہ پیشکشوں کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال بھی کیا۔ بورژوا اخبارات، رسائل اور میڈیا کے ذریعے ہڑتالی مزدوروں کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی گئی کہ اجرت میں چند ٹکوں کے اضافے کے لیے لاکھوں مزدوروں کا روزگار داﺅ پر لگا دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ’ UAW‘ فورڈ اورایف سی اے کے مزدوروں کی نمائندہ یونین بھی ہے اور ان سے معاہدے بھی اپنی معیاد پوری ہونے کے قریب ہیں۔ جنرل موٹرز اور’UAW‘کے مابین طے پانے والا معاہدہ فورڈ اور ایف سی اے کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا پیمانہ ہو گا۔ یہ ہڑتال صرف جنرل موٹرز ہی کی نہیں بلکہ پوری آٹو انڈسٹری کی پوری صنعت کے محنت کشوں کے مستقبل پر اثر انداز ہو گی۔ مذاکراتی عمل کے دوران سٹاک مارکیٹ کے سٹہ باز کمپنی کی کمر ٹھوکتے رہے کہ خبردار جو کمزوری دکھائی ورنہ انوسٹرز کا اعتماد ٹوٹ جائے گا اور وہ جنرل موٹرز کے سٹاکس میں سے پیسہ نکال لیں گے۔ مذکرات کے عین درمیان حکومتی انتظامیہ نے بھی اپنے بدنما چہرے سے نقاب اٹھانے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کی اور اینٹی کرپشن محکمے کی ٹیموں نے’ UAW‘ کے دو سابقہ اہلکاروں کی رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا۔ جنرل موٹرز کے پلانٹ کی جانب جانے والی خالی سڑک پر ایک گاڑی نے ہڑتالی مزدور کو کچل کر ہلاک کر ڈالا۔ مذاکرات کے لیے انتہائی نا موافق حالات میں محنت کشوں کے لیے چھوٹی سی مراعت جیتنا بھی شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے کے برابر تھا۔ سب سے بڑھ کے یہ کہ خود ’UAW‘ وہ تیس کی دہائی والی لڑاکا یونین نہیں رہی جس کے بائیں بازو کی قیادتوں سے قریبی مراسم تھے۔ موجودہ ’UAW ‘ ستر کی دہائی میں اپنا عروج دیکھ چکی ہے۔ اسی کی دہائی سے’ UAW‘ انقلابی سوشلسٹوں سے پہلے والے روابط برقرار نہیں رکھ سکی اور تب سے داخلی تنزلی کا شکار ہے۔

بہرحال اب جو نیا معاہدہ طے پا رہا ہے اس میں محنت کشوں نے بہت سی فتوحات جیتی ہیں۔ اجرت میں اضافہ تو ہوا ہی ہے ساتھ میں کمپنی طبی سہولتوں میں کٹوتیاں کرنے کے فیصلے سے بھی دستبردار ہو گئی ہے۔ انتظامیہ نے اضافی بونس کے ساتھ عارضی سٹاف کو تیزی سے مستقل کرنے اور قلیل مدت میں ان کو دیگر مستقل ملازمین کے برابر اجرت دینے کی حامی بھی بھری ہے۔ جنرل موٹرز نے جن چار پلانٹوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا ان میں سے سب سے بڑے پلانٹ میں کام جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ دو چھوٹے پلانٹ جہاں چند سو افراد کام کر رہے تھے وہ بند کر دیے جائیں گے۔ اور ان کے ملازمین کو دوسرے پلانٹ میں روزگار کی پیشکش کی جائے گی۔ ایک درمیانے سائز کے پلانٹ میں یا اس کے قرب و جوار میں نئے پلانٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں بنائی جائیں گی۔ کل ملا کے یہ کوئی برا سودہ نہیں ہے۔ اب یہ یونین ممبران پر ہے کہ وہ اس معاہدے کو تسلیم کرتے ہیں یا مذاکراتی میز پر واپس جاتے ہیں۔