لال خان

سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری ذلتوں کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی بحران کے زوال نے خواتین پر جاری مسلسل ظلم و جبر کی لعنت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عورتوں پر تشدد مثلاً غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی اور تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان واقعات کے خلاف بڑے پیمانے پر کسی قسم کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف ملااور رجعتی سیاستدان بالواسطہ اور خاموش طریقے سے جاہلانہ رویوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جس سے اس طرح کے مکروہ جرائم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ آزاد خیال سیاسی و سماجی عناصر کی جانب سے ان اقدامات کے خلاف کی جانے والی کوششیں سطحی پیمانے کی ہیں اور ناکام رہی ہیں۔ 31سال گزر جانے کی بعد بھی ’جمہوری‘ حکومتیں وحشی آمر ضیاالحق کے خواتین دشمن قوانین کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ مردانہ تعصب و تسلط (Male Chauvinism) پر مبنی سوچ اور رویے موجودہ سماج کے سماجی و ثقافتی رجحانات کا حصہ بن چکے ہیں۔ عورتوں پر تشدد اور جنسی تفریق کی روک تھام کرنے والے ہر قانون کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن بے شمار قانون سازیوں کے باوجود عورتوں، خاص کر محکوم و محنت کش طبقے کی خواتین کی حالتِ زار میں بہتری نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ محنت کش عورتیں دوہرے، بلکہ تہرے جبر کا شکار ہیں۔ محنت کش عورتوں کو کام کرنے کی جگہ، معاشرے اور خاندان میں نہ صرف متعصبانہ رویوں کانشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جنسی استحصال کی سماجی و معاشی وجوہات کو سمجھے بغیر محض جنسی بنیادوں پر خواتین کے رنج و غم کا نہ تو کوئی ازالہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جاسکتاہے۔ جنسی و معاشی استحصال سے آزادی کے لئے ہمیں طبقے اور جنس کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہو گا۔

آج پاکستان میں بڑی تعداد میں خواتین سیاست، کاروبار، فنونِ لطیفہ اور دوسرے شعبہ جات میں شہرت کما رہی ہیں لیکن ان میں سے تقریباً تمام کا تعلق حکمران یا درمیانے طبقے سے ہے۔ ان کے مسائل، مصائب اورنصب العین، سب کچھ محنت کش عورتوں کے ساتھ متضادہیں۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی کوئی عورت اگر معاشی و سماجی طور پر بلند ہوتی بھی ہے تو وہ بالادست طبقے کا حصہ بن کر اپنی اصل طبقاتی بنیادوں سے منحرف ہو جاتی ہے۔ آخر مادی و سماجی حالات ہی شعور کا تعین کرتے ہیں نہ کہ اس کا الٹ۔ آزاد خیال سوچ کا المیہ یہ ہے کہ وہ عورت کو تجارتی مال (Commodity) اور کاروباری تشہیر کے ایک ذریعے سے زیادہ خیال نہیں کرتی۔ اگر مذہبی سوچ عورت کو ذاتی ملکیت اور غلام تصور کرتے ہوئے قید و بند کرتی ہے توآزاد خیال اشرافیہ اسے کاروبار اور منافعوں کی بڑھوتری کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اگر رجعتی ذہنیت رکھنے والوں کا عورتوں پر ظلم و جبر غیر انسانی فعل اور غلامی ہے تو عورتوں کے جسموں کو اشیابیچنے اور منافع کمانے کے لئے استعمال کرنا بھی ان کی نجات نہیں ہے۔ عورتوں کی طرف تعصب و تفریق پر مبنی رویے ان سماجی رشتوں سے برآمد ہوتے ہیں جو لالچ اور ہوس پر مبنی معیشت تخلیق کرتی ہے۔ لہٰذا یہ رویے جو سماجی نفسیات میں گہری سرایت کر چکے ہیں دراصل اس سماجی نظام کی پیداوار ہیں جو انہیں پروان چڑھاتا ہے۔ یہ رویے تب تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک ان مادی حالات اور بنیادوں کا خاتمہ نہ کیا جائے جن پر یہ سماجی و اقتصادی نظام کھڑا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں گھریلو کام کاج اور خواتین کی جانب سے کی جانے والی دوسری کئی طرح کی محنت و مشقت کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا۔ گھربار اور اہلِ خاندان کا خیال رکھنا، بچوں کی پرورش اور تربیت اور اس طرح کے دوسرے بے شمار کام یہ نظام عورتوں سے بلا اجرت لیتے ہوئے ان کے سماجی رتبے اور معاشی حالات میں ابتر ی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن یہ سب ایک ایسے نظام کی پیداوار ہی تو ہے جس میں شرح منافع کو بڑھانے کا سب سے اہم طریقہ اجرتوں میں کٹوتی ہے۔ لینن نے پراودا میں ایک بار لکھا تھا ”موجودہ سماج میں غربت اور جبر کی بہت سی صورتیں پہلی نظر میں پوشیدہ رہتی ہیں۔ انتہائی اچھے عہد میں بھی پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریبوں، دستکاروں، مزدوروں اور ملازمین کے بکھرے ہوئے خاندان انتہائی مشکل حالات میں گزارہ کرتے ہیں اور دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کی لاکھوں عورتیں ’گھریلو غلاموں‘ کی سی زندگی گزارتی ہیں۔ اپنے خاندان والوں کو روٹی اور کپڑا دینے کے لئے یہ خواتین ہر چیز پر ایک ایک پائی بچت کرتی ہیں۔ تاہم اپنے کام کاج اور مشقت میں وہ بچت نہیں کر سکتیں۔ یہی عورتیں سرمایہ داروں کے لئے شرم ناک حد تک کم اجرت پر کام کرتی ہیں تاکہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے روٹی کے چند مزید ٹکڑے کما سکیں۔ “

آج کے عہد میں امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر خواتین کی زندگی فیشن یا شادی بیا ہ کی تقریبات سے متعلق بحث مباحثے کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی بنیاد دولت، سماجی معیار یا کاروبار کی وسعت اور ملازمت کی نوعیت ہوتی ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے بھی عورتوں سے متعلق غلامانہ تصورات سماج پر تھونپتے ہیں۔ اس جنسی غلامی کو ملا”اچھے کردار“ کا معیار قرار دیتے ہوئے مزید پروان چڑھاتے ہیں۔ اس سب کا اصل مقصد استحصال پر مبنی نظام کی ضروریات کے مطابق عورتوں کے سماجی کردار کو برقرار رکھنا ہے۔

گھروں میں ملازمت کرنے والی اور محنت کش خواتین کی ضروریات اور مسائل بالکل مختلف ہیں۔ گھریلو غلامی کا جال جس نے آج کی عورت کو جکڑ رکھا ہے تب ہی ٹوٹ سکتا ہے جب ذرائع پیداوار پر ملکیت کے رشتے بدلے جائیں۔ معاشی طور پر بد حال اس ملک میں عورت کی اصل آزادی تب شروع ہو گی جب گھریلو استعمال کے لئے انتہائی مشقت طلب طریقے سے پانی کی بالٹیاں بھر کر لانے کی بجائے اسے محض گھر میں موجود پانی کی ٹوٹی کھولنی ہوگی۔ آج ٹیکنالوجی کی ترقی کے زیرِ اثر گھریلو مشقت کا خاتمہ ممکن ہے۔ اشتراکی باورچی خانوں اور چھوٹے بچوں کی تعلیم و پرورش کے مراکز سمیت، عورتوں کو مساوی سماجی رتبہ دینے کے لئے بے شمار اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ گھریلو تشدد کے زیادہ تر واقعات کا تعلق تلخ معاشی حالات سے ہے لہٰذا قلت اور بے لگام مانگ پر مبنی سماج میں اس کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ اسی طرح فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کی اجرت ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی مردوں سے کم ہے۔ اجرتی غلامی سے جسم فروشی تک لے جانے والا طبقاتی نظام عورتوں کا اصل مسئلہ ہے جہاں ان کابڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتا ہے تاکہ اوپر بیٹھی ہوئی کچھ بڑی جونکوں کو چوسنے کے لئے زیادہ خون میسر آ سکے۔ عورتوں کے استحصال کو جاری رکھنے کے لئے معاشرے پر جھوٹی اقدار اور اخلاقیات مسلط کی جاتی ہیں جو اس نظام کی ضرورت بھی ہے۔ خاندان پر مردانہ تسلط بھی اسی نظام کی ضرورت ہے۔ اس نظام کا خاتمہ محنت کش مرد و زن متحد ہو کر ایک طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ ہر وہ رجحان جو اس طبقاتی جڑت کو توڑے، چاہے وہ تحریکِ نسواں (Feminism)، وطن پرستی یا مذہب ہو، رجعتی اور ردِ انقلابی ہے۔