لتا

برسوں بیت گئے پاکستانی عوام کی سماعتوں نے کچھ اچھا نہیں سنا۔ آنکھیں ہیں کہ ہر روز کسی نئے صدمے سے پھٹی ہی چلی جا رہی ہیں۔ احساس شل ہوچکے ہیں اور حق بولنے والوں کی زبانیں آئے روز بند کی جا رہی ہیں۔ میڈیا ہے کہ گولی،بارود،موت،جرائم، دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ جیسی لفاظی کا اس قدر عادی ہوچکا ہے کہ کہنا کچھ بھی چاہ رہا ہو اصطلاحات یہی استعمال کرتا ہے۔ کتنے ہی نوجوان ہیں جنہوں نے جوانی روزگار کی تلاش میں لٹادی۔ کتنی ماؤ ں کے لخت جگر دہشت گردی کی نذر ہوگئے۔ یہ سماج جہاں عمومی طور پر انسانیت کو روندتا چلا جارہا اور انسانی زندگی ہر روز مزید تنزلی کا شکار ہوتی جارہی ہے وہیں پہلے سے ایک جنس تصورکی جانے والی ’عورت‘ کئی درجوں کی اذیت کا شکارہے۔

ماں جسے خاندان کو جوڑے رکھنے کا مرکزی نقطہ تصور کیا جاتا تھا‘ اب خود منتشر ہوچکی ہے۔ آج صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ برصغیر میں بسنے والی کروڑوں خواتین یہاں غیر انسانی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس اذیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سماجی پیداوار کا ایک بڑا حصہ پیدا کرنے والی عورت آج خود ایک جنس میں تبدیل ہوچکی ہے۔ گویا اگر آج اس دور میں عورت کی وضاحت کی جائے تو عورت ایک ایسی کٹھ پتلی بنا دی گئی ہے جو ستم بھی سہے، کوٹھوں کی زینت بھی بنے، مرد کی ’خدمت ‘بھی کرے لیکن خود کے لئے کسی قسم کی انسانی زندگی کا تقاضا نہ کرے۔ یہاں جو لبرل خواتین و حضرات عورت کی آزدی کی بات بھی کرتے ہیں ان کی ’’آزادی‘‘ محض عورتوں کے لئے فیشن شوز کے اہتمام اور سلیو لیس کپڑے پہن کر گاڑی چلانے تک محدود ہے! بد قسمتی سے یہاں یہی عورت کی آزادی کا اعلیٰ مقام سمجھا جاتا ہے۔

درحقیقت عورتوں کی آزدی محض ’فیشن کرنے کی آزادی‘ نہیں ہے بلکہ سماج میں عورتوں کے تاریخی مقام اور کردارکو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ میں جھانکیں جہاں عورت نہ تو آج کی طرح لاچارتھی اور نہ ہی کسی ’فیشنی آزادی‘ کی مرہون منت ہوا کرتی تھی۔ بلکہ ہمیں ماضی میں عورت کاایک اعلیٰ رتبہ نظر آتا ہے جہاں اس کی سربراہی تلے نہ صرف گھر بلکہ پورا قبیلہ چلتا تھا اور مردوں سمیت کوئی بھی کسی پر جبر نہیں کرتا تھا بلکہ مشترکہ اور رضا کارانہ طور پر سارا نظام چلتاتھا۔ یہ ایک امن کا نظام تھا۔ قدیم اشتراکی دور میں مشترکہ ملکیت پر مبنی اس نظام میں سب مل جل کر رہتے تھے اور مل بانٹ کر کھاتے تھے۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو اس دور میں نجی ملکیت کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ دراصل عورت نے ہی اس سماج کی بنیادی جڑیں قائم کی تھیں۔ عورت نے آغاز ہی سے ضروریات زندگی کی پیداوار میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ خوراک کی منتظم بھی عورتیں ہوا کرتی تھیں جو سماج کے ہر فرد میں برابری سے خوراک تقسیم کرتی تھی۔ اگر یوں کہا جائے کہ قدیم اشتراکی سماج میں عورت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈ ی کی تھی تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ سب محض ابتدا تھی۔ آگے چل کر عورتوں نے تمام شعبوں میں اپنا حصہ ڈلا اور خاص طور پر جس وقت مرد شکار میں مصروف ہوتے تھے اس وقت میں عورتیں چمڑے کی اشیا اور مٹی کے برتن بنانے اور مختلف قسم کے دوسرے کاموں میں مصروف ہوتی تھیں۔

ایسے ہی کلیدی اقدامات تھے جو انسانی تہذیب کی بنیاد بنے اورجن کی بدولت انسان موجودہ شکل میں زندہ ہے۔ یہ عورت ہی کی لازوال قربانیوں اور محنت کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان اعلیٰ قسم کے پیداواری عمل کے قابل ہوسکا ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ سماج میں عورتوں کی حیثیت کم سے کم تر ہوتی چلی گئی۔ خاص طور پر نجی ملکیت کے ظہورکے ساتھ عورت بھی آلات پیدوار کی طرح مرد و خاندان کی ملکیت بنتی چلی گئی۔ لیکن مرد کی ذاتی ملکیت سمجھے جانے کے باوجود بھی ہر دور میں محنت کش خواتین کے عظیم کردار کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جاگیر داری سے لے کے سرمایہ داری تک ہر نظام میں جہاں عورتوں نے سماجی پیدوار میں ہاتھ بٹایا وہیں ہر ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے میں بھی عورتیں کبھی پیچھے نہیں رہیں۔

آج اگر عورت کی سماجی حالت کو دیکھا جائے تو نہ صرف پسماندہ ممالک بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی عورت نابرابری اور ظلم کا شکار ہے۔ تیزاب چھڑکنے سے لے کے بلادکاراور گھریلو تشدد اب محض تیسری دنیا کے مسائل نہیں بلکہ یہ واقعات اب ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام ہیں۔ برطانوی ادارے ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر انفارمیشن سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پچھلے دس سالوں میں دوگنا ہوئے ہیں۔ ازدواجی ساتھی کے ہاتھوں ہر ہفتے دو سے زائد عورتیں انگلینڈ جیسے ممالک میں قتل ہوتی ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ہر سال فرانس میں 2 لاکھ 23 ہزار خواتین اپنے پارٹنر ز کے جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ہندوستان کی معاشی ترقی کے بھی بہت چرچے ہیں لیکن جس تیزی سے بلادکار کے واقعات ہندوستان میں بڑھ رہے ہیں شاید ہی دنیا میں کسی اور ملک میں بڑ ھ رہے ہوں۔ بھارتی شہر دہلی محض بھارت کا کیپٹل نہیں بلکہ یہ اب دنیا کا ’ریپ کیپٹل‘ بن چکا ہے۔ اس شہر سمیت پورے ہندوستان ہی میں خواتین ریپ جیسے واقعات سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں اور جینے سے زیادہ مناسب اپنی اذیت ناک زندگی کا خاتمہ کرنے کو سمجھتی ہیں۔ اسی طرح 2018ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی مطابق بنگلہ دیش میں ہر روز 49 بچوں اور بچیوں کا بلادکار ہوتا ہے جب کہ 28 بچے قتل کر دئیے جاتے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں اگرپاکستان کی بات کی جائے تو یہاں جس طرح مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور افلاس اپنی بلند ترین سطح پر ہے وہیں عورتیں بھی بدترین استحصال کا شکار ہیں۔ یہاں عزت اور غیرت کے نام پر عورتوں کاقتل اب معمول بن چکا ہے۔ عزت و غیرت کا نام دے کے عورت کو کبھی گھر کی چار دیواری میں قید کیا جاتا ہے ، کبھی جلایا جاتا ہے تو کبھی زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غیرت کو انا بنا کر عورت کو تعلیم سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بدترین پسماندگی کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے 2011ء میں پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے 720 واقعات رپورٹ کیے تھے جبکہ یہ تعداد 2012ء میں 960 تک جاپہنچی تھی۔ 2015ء سے اب تک 1200 کے قریب خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاچکا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ محنت کش خواتین کا فیکٹریوں و کارخانو ں میں بدترین استحصال بھی اپنے آپ میں ایک وحشت ہے۔

جہاں خواتین کو مردوں کے عوض کم اجرت پر رکھا جاتا ہے وہیں انہیں بدترین طریقوں سے ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں بہت سے واقعات میڈیا یا سرکاری دستاویزات میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے صورتحال، جو ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بدتر ہے، کی حقیقی تصویر کشی نہیں ہو پاتی ہے۔

آج سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک یہ استحصال قائم رہے گا اور کب تک عورت کو دبایاجاسکے گا؟ اگر ہم جدلیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو جس چیز کو جتنی شدت سے دبایا جاتا ہے وہ اتنی ہی تیزی اور شدت سے اپنا اظہار کرتی ہے اور اتنی ہی تیزی سے پھیل کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں جب بھی کوئی بغاوت کی چنگاری بھڑکی ہے عورت آگے بڑھی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ اور کئی صورتوں میں مردوں سے آگے کھڑے ہوکر ظالموں کو کو للکارا ہے۔ ہم مارکس وادی یہ سمجھتے ہیں کہ آج مسئلہ جنس سے بڑھ کر طبقاتی سماج اور نجی ملکیت کا ہے۔ یہ نظام آج انسانی سماجوں میں تعفن پھیلا رہا ہے اور اس کا خاتمہ کیے بغیر کسی نابرابری و ناانصافی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ ہی سماج کو ملکیت اور تسلط کے سوال سے نجات دلا سکتا ہے۔ جب تک سرمایہ داری کی قومی ریاست کی جگہ مزدور ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک محنت کش طبقے کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ مسئلہ پھر طبقاتی بنیادوں پر ہی حل ہوسکتا ہے۔ عورت کی آزادی محنت کش طبقے کی آزادی سے کسی طور الگ نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی ایک مشترکہ طبقاتی جڑت اور جدوجہد سے ہی لڑی اور جیتی جاسکتی ہے۔