عمران کامیانہ
اِس بدنصیب ملک کے مفلوک الحال باسیوں کی روح اور جسم پر مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی، جرائم، ریاستی جبر کے گھاؤ کیا کم تھے کہ اب غیرمعمولی طور پر شدید بارشوں اور سیلابوں کا موسم پھر سے عود کر آیا ہے۔ فطرت کی بے رحم سختیاں اور شدید موسمی حالات ہمیشہ سے انسان کے دشمن رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں جو تباہ کن قسم کے موسمی واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں ان میں سے بیشتر کی ذمہ داری فطرت پر نہیں بلکہ فطرت کے ساتھ کیے جانے والے اس کھلواڑ پر عائد ہوتی ہے جو سرمایہ داری نے اپنے جنم سے جاری رکھا ہوا ہے۔ مارکس کے لازوال الفاظ میں‘ پیسہ اگر دنیا میں اپنے ایک گال پر خون کا پیدائشی دھبہ لے کے آیا تو سرمایہ‘ سر تا پا اپنے ایک ایک مسام سے خون اور غلاظت ٹپکاتے ہوئے وارد ہوا۔ نظامِ سرمایہ کے متاثرین میں محکوم انسانوں کے ساتھ ساتھ فطرت بھی روزِ اول سے شامل رہی ہے۔ جسے منڈی اور منافع خوری کی نفسیات نے انسان کے ساتھ اَن ٹوٹ نوعیت کے اَن گنت بندھنوں میں بندھے زندہ وجود کی بجائے خام مال کے حصول کا ذریعہ اور صنعتی فضلے کے نکاس کا گٹر ہی سمجھا ہے۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس ماحولیاتی تباہ کاری کی شدت بڑھتی گئی ہے۔ کیونکہ انسان کی تکنیکی و پیداواری صلاحیتوں میں ہونے والا اضافہ تیز سے تیز تر (Exponential) ہوتا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بذات خود ایک انتہائی مثبت اور ترقی پسندانہ پیش رفت ہے جس کے پیچھے نسل انسان کی لامحدود اجتماعی محنت اور اٹل قوتِ ارادی کارفرما ہے۔ لیکن ان صلاحیتوں کا ہر طرح کے استحصالی، تخریبی اور تباہ کن مقاصد کے لئے استعمال سرمایہ داری کی بنیادی خصلتوں میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے ماحول کو مسلسل مجروح کرنے کا عمل گزشتہ کئی دہائیوں کی غیر معمولی تیزی کے بعد اب زیادہ واضح انداز میں اپنے نتائج دے رہا ہے۔ سیارے کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلوں کی آگ، کہیں خشک سالی تو کہیں بارش کی شدت یا طوالت میں اضافہ، سموگ اور غیر متوقع موسمی واقعات وغیرہ اسی عمل کے ناگزیر مضمرات ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ سلسلہ ایسی ماحولیاتی، سماجی و معاشی بربادیوں پر منتج ہو سکتا ہے جو تہذیب و ثقافت کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پہلے درجوں پہ آتا ہے۔ عالمی سطح پر 41 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہر سال فطرت میں انڈیل کر فطرت سے اسی ردِ عمل کی توقع کرنی چاہئے جو وہ دے رہی ہے۔ لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی گیسوں کے اخراج میں ہمارے جیسے ممالک کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ حقیقت ایک بار پھر سرمایہ داری کے خلاف بین الاقوامی و عالمی جدوجہد کی ضرورت کو عیاں کرتی ہے۔ غور کریں تو گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان جیسے ممالک میں بھی سموگ، فلیش فلڈ (اچانک آ جانے والا سیلاب)، اربن فلڈنگ (شہری علاقوں میں سیلابی کیفیات)، کلاؤڈ برسٹ (بادل کا پھٹنا) وغیرہ جیسے سائنسی قسم کے الفاظ نہ صرف میڈیا پر عام ہوئے ہیں بلکہ عام لوگوں کی لغت میں بھی شامل ہو چکے ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیاں جاری ہیں، شدت اختیار کر رہی ہیں اور روز مرہ زندگی کو متاثر بھی کر رہی ہیں۔ان حقائق کا ادراک عوام کو بھی بتدریج انداز میں ہو رہا ہے۔ مثلاً ماحولیات کے ماہرین کے مطابق گزشتہ سالوں کے دوران بادل پھٹنے (کلاؤڈ برسٹ) کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ باضابطہ تعریف کے مطابق ایک گھنٹے سے کم وقت میں 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش کلاؤڈ برسٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسا بالعموم بلند و بالا پہاڑوں والے علاقوں میں شدید نوعیت کی گرم اور سرد ہواؤں کے ٹکرانے سے ہوتا ہے۔ یہ کوئی نیا مظہر نہیں ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں (بالخصوص عالمی درجہ حرارت بڑھنے سے ہوا میں نمی کے تناسب میں اضافے) نے اس کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس قسم کی بارشوں سے بہت کم وقت میں سیلابی صورتحال (فلیش فلڈنگ) پیدا ہو جاتی ہے جس میں بچاؤ کے انتظامات کرنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ اسی طرح لینڈ سلائیڈنگ اور انفراسٹرکچر کی تباہی کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملک کے شمالی علاقوں میں ایسی ہی تباہ کن کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
بی بی سی کے مطابق گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان اور زیر انتظام علاقوں میں تیز بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں 300 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ 9 ہلاکتیں پاکستان زیر انتظام کشمیر جبکہ 5 گلگت بلتستان میں ہوئی ہیں۔ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں امدادی عملے کے 5 افراد بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پختونخوا میں ہوا ہے۔ جہاں بونیر، بٹگرام، مانسہرہ اور باجوڑ وغیرہ کو سرکاری طور پر تباہی سے دو چار علاقے قرار دے دیا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آج مورخہ 17 اگست سے 21 اگست تک ملک کے طول و عرض میں مزید بارشوں کے امکانات موجود ہیں۔ جو نہ صرف شدید ہو سکتی ہیں بلکہ مزید سیلابوں کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
پسماندہ ممالک میں مسئلہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے فقدان، بوسیدہ انفراسٹرکچر اور بے ہنگم قسم کی تعمیرات کا بھی ہے۔ اربن فلڈنگ کی وجوہات میں پانی کے نکاس کا زبوں حال اور ناکافی نظام بھی شامل ہے۔ تعمیرات کی بھرمار ہے۔ جو کئی صورتوں میں غیر قانونی جبکہ زیادہ تر صورتوں میں بھدی اور غیر ضروری ہوتی ہیں۔ جلد اور بھاری منافعوں کی دوڑ میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر سوسائٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ جن کی تعمیر میں ایک طرف قیمتی زرعی زمینوں اور جنگلات کو برباد کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف نہ سیوریج کے نکاس کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ نہ سیلابی پانی کے قدرتی راستوں کا کوئی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل ہونے والی بارشوں میں خود دارالحکومت میں یہ صورتحال نظر آئی ہے۔ جس سے باقی ملک کے حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ پختونخوا کی جنت نظیر وادیوں میں بھی دریاؤں یا بارشوں کے پانی کے قدرتی راستوں کے بیچوں بیچ یا بالکل قریب ہوٹلوں اور دکانوں وغیرہ کی تعمیرات معمول بن چکی ہیں۔ جو آئے روز حادثات اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا موجب بنتی ہیں۔ سول ڈیفنس جیسے اداروں کا وجود بھی یہاں برائے نام ہے۔ ریسکیو کے انتظامات ناکافی شکل میں بھی چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں۔ ملک کے بیشتر حصوں میں حادثات رونما ہونے کے کئی گھنٹوں یا دنوں بعد ہی ان اداروں کی کاروائیاں نظر آتی ہیں۔ جس میں قصور ظاہر ہے ان کے اہلکاروں کا بھی نہیں ہے۔ وہ تو محنت کش ہیں جو بیشتر صورتوں میں متاثرین کی مدد کے لئے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن یہ بحران زدہ معیشت اتنے وسائل ہی میسر نہیں کر پاتی کہ ان معاملات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا بھی جا سکے۔ رہی سہی کسر یہاں کی کرپٹ اور نااہل ریاستی بیوروکریسی پوری کر دیتی ہے۔
حالیہ بارشوں سے شدید متاثرہ باجوڑ (اور سابق فاٹا کے دیگر قبائلی علاقوں) کے لوگ پہلے ہی بنیاد پرست مسلح گروہوں، جن میں سرِ فہرست نام نہاد پاکستانی طالبان یا ’ٹی ٹی پی‘ والے ہیں، کی دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ بچوں اور خواتین سمیت اَن گنت عام‘ امن پسند لوگوں کے علاوہ شطرنج کے پیادوں کی حیثیت رکھنے والے سکیورٹی اداروں کے جوانوں کی ہلاکتوں کا بھی کوئی شمار نہیں ہے۔ باجوڑ میں گزشتہ کچھ ہفتوں سے صورتحال ایک بار پھر سنگین شکل اختیار کر گئی ہے اور امن جرگوں کے ذریعے کیے جانے والے مذاکرات بھی بے ثمر رہے ہیں۔ جس کے پیش نظر 55 ہزار سے زائد لوگوں کو جان بچانے کے لئے پھر سے در بدر ہونا پڑا ہے۔ ٹی ٹی پی، القاعدہ اور اس قبیل کے دوسرے دہشت گرد گروہوں کے خلاف پشتون خطے کے مذکورہ علاقوں میں 2001ء سے اب تک 12 بڑے اور اعلانیہ فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ ذیلی آپریشن اور چھوٹے پیمانے کی بے شمار ٹارگٹڈ کاروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن 1979ء میں افغان ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج اور اس کے کاسہ لیس خلیجی حکمرانوں کی ایما پر شروع کیا گیا یہ کھیل آج کہیں زیادہ خونی اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔آج سے تقریباً نصف صدی قبل یہ قبائلی معاشرے پسماندہ ضرور تھے لیکن افغانستان کے ڈالر جہاد نے ریاستی سرپرستی میں ان کی معاشرت میں کالے دھن اور بنیاد پرستی کا جو زہر گھولا اور پھر اس خطے میں تاخیرزدہ سرمایہ داری نے جو ناہموار اور مشترک قسم کی ترقی دی اس سے یہ پسماندگی کہیں زیادہ زہریلی اور وحشی شکلیں اختیار کرتی گئی ہے۔ جبکہ قدیم اشتراکی قدروں، انسانی تعاون، قبائلی لحاظ یا رکھ رکھاؤ، مزاحتمی ادب اور انسانی روح کو ترو تازہ کرنے والے مزاح اور موسیقی جیسے ثقافتی پہلو مجروح ہوئے ہیں۔
افغانستان پر طالبان کے دوبارہ تسلط نے پاکستانی ریاست کی توقعات سے بالکل اُلٹ نتائج مرتب کیے ہیں۔ جبکہ چین اور بھارت جیسی علاقائی طاقتوں کی زیادہ گہری مداخلت سے صورتحال مزید گنجلک ہو گئی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف اِن دہشت گرد گروہوں بلکہ ان کے خلاف ریاستی کاروائیوں سے جڑی کالے دھن کی معیشت بھی اپنی منطق آپ پیدا کرنے لگی ہے۔ جو دہشت گرد گروہوں میں تقسیم در تقسیم، نئے گروہوں کی پیدائش اور متضاد یا منافقانہ نوعیت کی ریاستی پالیسیوں کے ساتھ اضافی کنفیوژن اور پیچیدگی کا باعث ہے۔ یوں اس مکروہ سامراجی نظام نے ان علاقوں کی سماجی زندگی کو دہشت گردی، فوجی آپریشنوں اور جبری ہجرتوں کے نہ ختم ہونے والے عذابوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ جہاں جان بچا لینا بھی کسی معرکے سے کم نہیں ہے۔
المیہ یہ بھی ہے اس سارے خونی کھلواڑ کے خلاف ابھرنے والی پی ٹی ایم جیسی مستند اور جرات مندانہ عوامی تحریکیں بھی قیادت کے نظریاتی و سیاسی ابہاموں یا کمزوریوں اور دور رس حکمت عملی کے فقدان کے زیر اثر تقسیم، زوال پذیری اور نشان راہ کھو دینے کی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہیں۔ جبکہ اے این پی جیسی روایتی قوم پرست جماعتیں کوئی یکجا اور ٹھوس پوزیشن لینے سے ہی قاصر رہی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر قوم پرستی کی محدودیت اور بحران کا غماز مظہر ہے۔ لیکن محکوم اور گھائل طبقات کے نوجوانوں کی باشعور اور ہراول پرتیں ان غداریوں اور پسپائیوں سے اسباق حاصل کرتے ہوئے دوبارہ ضرور ابھریں گی۔
انگریز نوآباد کاروں سے ’آزادی‘ کی تقریباً آٹھ دہائیوں بعد اس خطے کی حالت یہ ہے کہ حادثے، سانحے اور المیے ایک معمول بن کے رہ گئے ہیں۔ ساتھ ہی کروڑوں محنت کشوں کا معاشی قتل عام بھی ایک نسبتاً غیر محسوس انداز سے جاری ہے۔ ایک مسلسل اقتصادی، ثقافتی اور ماحولیاتی بربادی ہے جس میں وقتی ٹھہراؤ یا بہتری کو ترقی قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہ کیفیت صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ جنوب ایشیا سمیت دنیا بھر میں نوآبادیاتی قبضہ گیری اور ڈاکہ زنی کا تاریخی پس منظر رکھنے والے تقریباً تمام معاشرے انہی اذیتوں سے دوچار ہیں۔ لوگ جب حالات و واقعات کی داخلی منطق کو سمجھنے سے عاری یا کسی منطقی و سائنسی تشریح کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں تو سازشی نظریات کا سہارا لیتے ہیں۔ جس میں چیزوں کو مبالغہ آرائی سے پیش کرنے اور حقائق میں حسب ضرورت من گھڑت باتوں کی آمیزش کر کے مرضی کے نتائج حاصل کرنے جیسے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگوں، وباؤں اور دہشت گردی وغیرہ کے حوالے سے ایسی بیہودہ قسم کی تھیوریاں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دنیا میں چھوٹی بڑی سازشیں یقینا ہوتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس دنیا کا نظام کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ ایک کھلے بندوبست کے تحت چل رہا ہے جسے سرمایہ داری کہا جاتا ہے اور جو کوئی سازش نہیں بلکہ ایک طویل تاریخی سماجی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آج نسل انسان کی وسیع اکثریت کو درپیش سلگتے ہوئے مسائل کی وجوہات یا بنیادی وجہ بھی بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اصل ’’سازش‘‘ یہی ہے کہ سماجی دولت و ذرائع پیداوار پر قابض ایک چھوٹی سی اقلیت کے مفادات اس نظام کے دوام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنے نظام کو بچانے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ چاہے بھوک، جنگ اور بیماری سے لاکھوں کروڑوں لوگ مارے جائیں یا ماحولیاتی بربادی سے ساری انسانیت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔ رضاکارانہ یا ’’بتدریج‘‘ انداز سے وہ اپنی دولت چھوڑیں گے نہ ملکیت۔ نہ ہی ماضی کے ’’اچھے وقتوں‘‘ میں فرار یا نئی اصلاحات وغیرہ کے ذریعے اتنے گھمبیر مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ ان بے قابو بارشوں اور سیلابوں کا حل ڈیم نہیں ہیں۔ اس سامراجی نظام کے فوجی آپریشنوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اور سرمایہ داری کی ریاست کو اکھاڑے بغیر سامراجی و ریاستی ظلم سے نجات ممکن نہیں۔
ہر قسم کے جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت کی تمام شکلوں اور تحریکوں کو اسی کلیدی نکتے کی بنیاد پر یکجا کرنا ہو گا اور اسی طور سے فوری مطالبات کو دوررس مقصد اور نصب العین کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ بصورت دیگر سرمایہ داری کے رکھوالے دولتمند بھی ہیں‘ شاطر اور جابر بھی۔ ویسے وہ چاہتے ہوئے بھی رحمدل نہیں ہو سکتے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس بے حس و بے رحم نظام کی بساط لپیٹ کر ہی درد کی انجمن بن چکے اس دیس اور دنیا کو تعمیر و ترقی، محبت اور مسرت کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے جہاں انسان اپنی تکنیکی طاقت و صلاحیت کے ذریعے اپنے ماحول اور فطرت کو مسخ نہیں بلکہ مسخر کرے۔ اور تسخیر کے عمل سے دنیا کو وہ رعنائی و خوبصورتی بخشے جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
