قمر الزماں خاں

یوم مئی صرف تقویم کا دن نہیں بلکہ خون سے لکھی گئی ایک انقلابی داستان ہے۔ یہ وہ میراث ہے جب شکاگو کے مزدور رہنماؤں نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آج ہماری آواز کو پھانسی دے دی جائے گی لیکن کل تمہارے ظلم کی چکی ہماری جدوجہد کے پتھر سے چور چور ہو گی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ہر دور کے محنت کش کے لئے جرات اور بغاوت کی چنگاری ہے۔ 1886ء میں شکاگو کی ’ہے مارکیٹ‘میں پولیس کی گولیوں سے بہنے والا خون، وہ بے گناہ مزدور رہنما جنہیں جھوٹے مقدمات میں پھانسی دی گئی اور آٹھ گھنٹے کام کے دن کی جیتی ہوئی لڑائی‘ یہ سب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ استحصال کے خلاف جدوجہد ہی فتح کی کنجی ہے۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر کا محنت کش اسی تاریخی جدوجہد کو دہرا رہا ہے۔

پنجاب میں صحت کارکنوں کا دھرنا اور سکولوں کی نجکاری کے خلاف احتجاج، سندھ میں پیرا میڈیکل مزدوروں کی تحریک، پختونخوا میں اساتذہ اور شعبہ صحت کے ملازمین کی کئی سالہ جدوجہد، نادرا کے محنت کشوں کی مسلسل لڑائی، اجرتوں میں کمی اور مہنگائی کے خلاف غم و غصہ… اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک طرف کسان کو گندم کی فصل کا ریٹ اتنا کم مل رہا ہے کہ اس کی پانچ مہینوں کی محنت اور لاگت کے بعد جو کچھ بچے گا اس سے زیادہ ماں باپ بچے کو جیب خرچ دے دیتے ہیں۔ کسان فصلوں کے نرخ پر پریشان ہے تو دوسری طرف زراعت کے میدان میں نئی جہتوں کو متعارف کرانے اور پانی کے وسائل بڑھانے کی بجائے سندھ دریا کا گلا گھوٹنے اور کارپوریٹ فارمنگ جیسے تباہ کن سامراجی منصوبے لائے جا رہے ہیں۔ جو چھوٹے کاشت کاروں کے ساتھ ساتھ پانی کے پہلے سے کم وسائل کی مزید بربادی کا سبب بنیں گے۔ اس منصوبے کے ذریعے چولستان میں آباد کاری کے نام پر پہلے سے آباد زمینوں کو پانی سے محروم کر دیا جائے گا۔ سندھ مزید خشک سالی کا شکار ہو گا۔ ماحولیاتی تباہی بڑھے گی۔ زرعی سماج میں پانی جیسے بنیادی وسیلے سے محرومی‘ مزید بے روزگاری اور سماجی بدحالی کے نتائج ہی لائے گی۔ اس قسم کی پالیسی جس میں کسی ایک علاقے یا صوبے کا پانی لے کر کہیں اور آبپاشی کی جائے اور پانی سے محروم علاقوں کے بنجر بننے کے امکانات پیدا ہو جائیں‘ سے محنت کش طبقے کی ہم آہنگی متاثر ہو گی۔ جو طبقاتی جدوجہد کے لئے شدید نقصان دہ ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کے محنت کش عوام کی حالیہ مزاحمت انتہائی جرات اور اہمیت کی حامل ہے جس نے ریاست کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ لیکن یہ حکمران پلٹ کر وار کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔

آج جدوجہد کی جدید شکلیں ابھر رہی ہیں۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ آج کے محنت کش کے سامنے صرف سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں بلکہ ایک کمزور، غیر نظریاتی اور مفاد پرست قیادت بھی حائل ہے۔ جو تحریک کو بکھرنے سے بچانے کی بجائے اپنی مفاداتی سیاست میں الجھا دیتی ہے۔ مہنگائی نے محنت کشوں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے ہیں۔ نجکاری نے تعلیم و صحت کو امیروں کی جاگیر بنا دیا ہے اور کنٹریکٹ سسٹم نے مزدور کو جدید دور کا غلام بنا کے رکھ دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محنت کش طبقہ اس ظلم کے خلاف متحد ہو کر کوئی بڑا اقدام اٹھائے گا؟ ہم ذرا اس سوال کے جواب سے پہلے پاکستان میں مزدور تحریک کا پس منظر دیکھتے ہیں۔

90ء کی دہائی سے پاکستان میں مزدور تحریک کا زوال ایک سوچے سمجھے اقتصادی اور سیاسی عمل کا نتیجہ ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ) کے دباؤ میں نافذ کی گئی نیو لبرل پالیسیوں نے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، ڈی ریگولیشن اور دیگر مزدور دشمن‘ عوام دشمن پالیسیوں کو جنم دیا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں 150 سے زائد سرکاری ادارے نجکاری کے نام پر فروخت (یا برباد) ہوئے ہیں جن میں پی ٹی سی ایل اور پاکستان سٹیل جیسے دیوہیکل ادارے بھی شامل ہیں۔ اول الذکر ماضی قریب میں 80 ہزار جبکہ موخرالذکر ادارہ 1980ء تک تقریباً 30 ہزار مزدوروں کو براہِ راست روزگار دیتا تھا۔ نجکاری کے بعد ان کی زمینیں اور اثاثے سرمایہ داروں نے ہڑپ کر لیے۔ عالمی بینک کے 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق نجکاری کے بعد صرف 12 فیصد اداروں نے پیداواری صلاحیت برقرار رکھی۔ مزدوروں کو رخصتی کے نام پر بے روزگار کیا گیا جبکہ نئے مالکان نے پیداواری صلاحیت کو بڑھانے یا برقرار رکھنے کی بجائے جائیدادیں اور اثاثے بیچ کر منافع کمانے کو ترجیح دی۔ کراچی میں کپڑے کی ملیں اور پنجاب کے سرکاری فارمز کی زمینیں رئیل اسٹیٹ مافیا کے ہاتھوں فروخت ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر تمام مروجہ جماعتوں نے انہی مزدور دشمن پالیسیوں کو اپنایا۔ پارلیمنٹ میں معاشی لٹیروں کا نیٹ ورک قائم ہوا۔ جس نے شوگر مافیا اور نجی پاور سیکٹر کی لوٹ اور کارپوریٹ فارمنگ جیسے سکینڈلوں کو قانونی تحفظ دیا۔

لیکن اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ مزدور تحریک کی کمزوری صرف حکومتی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں نظریاتی انحطاط کا عنصر بھی کارفرما ہے۔ بلکہ اس نظریاتی زوال پذیری (جس میں سوویت یونین کے انہدام کا بھی بڑا کردار ہے) کی وجہ سے ہی حکمرانوں کو قومی اثاثوں اور محنت کشوں پر حملہ آور ہونے کی جرات ہو سکی۔ ٹریڈ یونین قیادتوں نے مزدوروں کے مفادات کو عدالتوں اور میڈیا تک محدود کر دیا۔ لیبر کورٹس میں کیسوں کا فیصلہ ہونے میں اوسطاً سات سال لگتے ہیں (پاکستان لیبر جرنل، 2023ء)۔ فیڈریشنز میں وکلا کی بھرتی نے تحریک کو بورژوا قانونی شعبدہ بازی میں تبدیل کر دیا۔ نیسلے کے مزدور آصف جٹ کی المناک موت واضح کرتی ہے کہ پاکستان کی 133 ویں رینک والی عدلیہ میں بھی لیبر کورٹس کی کارکردگی سب سے نیچے ہے۔ 2023ء میں پنجاب کے اساتذہ کی تحریک کو ریاست لاٹھی چارج اور گرفتاریوں سے شکست نہ دے سکی۔ لیکن قیادت کی سودے بازی نے اس عظیم الشان تحریک کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس تحریک کے دوران 1200 سے زائد اساتذہ گرفتار ہوئے۔ لیکن نچلی سطح کے کارکنوں کی بے مثال قربانیوں کے باوجود بالائی قیادت کی غداری نے تحریک کو شکست سے دوچار کیا۔

قیادت کی غداریوں اور مسلسل گراوٹ کے بعد ہی ’یونی کوڈ‘ نامی مزدور دشمن قانون کو میدان میں لایا گیا۔ جس کے نفاذ کے لئے پھر مزدور اشرافیہ نے خود کو پیش کیا۔ یہ قانون ٹریڈ یونینوں کو ختم کر کے مزدوروں کو انفرادی معاہدوں پر مجبور کرتا ہے۔ اس میں ایسی شقیں ڈالی گئی ہیں جس سے ٹریڈ یونین اور سی بی اے کی اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ٹھیکے داری نظام کو تقویت دینے کا قانون ہے جہاں مزدور کو پہلے سے حاصل شدہ تقریباً تمام بنیادی حقوق سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ فیکٹری کا مزدور اب فیکٹری کا نہیں رہے گا بلکہ اس کو ٹھیکے داری کے تحت بھرتی کیا جائے گااور ٹھیکے دار اس کو فٹ بال بنا ڈالے گا۔ وہ مزدور کو جس فیکٹری، ادارے یا شعبے میں بیچنا چاہے‘ بیچ سکے گا۔ گویا فرٹیلائیزر کے مزدور کو چینی کے کارخانے یا سیمنٹ فیکٹری بھیجا جا سکے گا۔ یعنی مزدور کسی ایک جگہ یا ادارے کی بجائے مسلسل در بدر ہو گا۔ اس طرح اسے ایک مستقل فیکٹری کے سالانہ منافع میں پانچ فیصد کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔ جب مزدور کے کام کرنے کا ایک شعبہ، کارخانہ یا ادارہ نہیں ہو گا تو اس کو وہ تمام سہولیات بھی نہیں ملیں گی جو ایک طے شدہ یا مستقل کام کے مقام پر ملتی ہیں۔ گویا مزدور کے خاندان کی رہائش، بچوں کی تعلیم اور ہسپتال وغیرہ کے حقوق کاغذی شاید ہوں لیکن عملاً ختم ہو جائیں گے۔ ٹھیکے داری کا سادہ سا مطلب ہے غیر مستقل جاب۔

یہ ایک بھیانک مستقبل ہے جو نام نہاد انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) اور اس کے مقامی گماشتوں کی مدد سے تخلیق کیا جا رہا ہے اور اس کو ’یونی کوڈ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس قانون کے خلاف محنت کش طبقے میں شدید نفرت، بے چینی اور ہیجان ہے۔ لیکن مسئلہ پھر قیادت اور تنظیم سازی کا ہے۔ پاکستان بھر کی لیبر فیڈریشنز اور مزدور قیادتیں (چند ایک استثنائی صورتوں کے علاوہ) عملاً اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ الٹا تحریک کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ان مزدور تنظیموں کے انقلابی بنیادوں پر احیا اور وسعت کے بغیر محنت کشوں کی حالت زار میں بہتری کی کوئی صورت نہیں ہے۔

اسی طرح آج سب سے بڑا حملہ سرکاری علاج معالجے کے نظام اور تعلیمی اداروں پر کیا جا رہا ہے۔ سرکاری شعبے کے علاج معالجے کے انفراسٹرکچر، جو عوام کے ٹیکسوں سے 70 سالوں میں قائم ہوا ہے، کو نجی شعبے کی ٹھیکے داری میں دیا جا رہا ہے۔ یہ کرنے سے پہلے لاکھوں ملازمین کو نکالا جا رہا ہے۔ یہی ملازمین جو پہلے نسبتاً مناسب تنخواہ پر سرکاری ملازم تھے اور گھرکے ساتھ ان کو دیگر مراعات بھی ملتی تھیں‘ نجی شعبے میں جانے کے بعد یہ اپنی خدمات انتہائی شرمناک اجرتوں پر دینے پر مجبور ہوں گے۔

نجی سکولوں کی ایسوسی ایشن کی 2024ء کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پرائیویٹ سکولوں میں 62 فیصد اساتذہ کی تنخواہیں 15,000 روپے ماہوار سے بھی کم ہیں۔ جبکہ نجی ہسپتالوں میں نچلے درجے کے بیشتر ملازمین کو بارہ گھنٹے کام کا معاوضہ 12 تا 15 ہزار روپے تک ادا کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ڈاکٹروں اور نرسز کی اجرتیں بھی ناکافی جبکہ اوقات کار انتہائی تلخ اور طویل ہیں۔ لیکن سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی نجکاری سے مزید بیروزگاری پیدا ہو گی جس کی وجہ سے اجرتوں میں مزید کمی جبکہ استحصال میں اضافے کی راہیں کھلیں گی (اسی قسم کا منصوبہ امریکہ کے سرکاری شعبے میں ٹرمپ بھی نافذ کر رہا ہے)۔ پاکستان میں 28 محکموں کی بندش سے 15 لاکھ ملازمین کے بیروزگار ہو جانے کا خدشہ موجود ہے۔

یوٹیلیٹی سٹورز کے 45 ہزار ملازمین کو کنٹریکٹ لیبر میں بدلنے سے تین لاکھ خاندان متاثر ہوئے ہیں اور یہ عمل ابھی جاری ہے۔ اس وقت پنجاب بھر کے محکمہ صحت کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے احتجاج لاہور سمیت صوبے بھر میں جاری ہیں۔ لیکن ماضی سے نہ سیکھتے ہوئے ایک سنگین غلطی پھر دہرائی جا رہی ہے۔ یہ تحریک ابھی تک تنہا ہر طرح کے ریاستی جبر اور دیگر حملوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور باقی تنظیمیں یا شعبے اس کے ساتھ کسی طرح کی سانجھ نہیں بنا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مال روڈ لاہور کے کلیدی دھرنے کو اکھاڑنے اور قیادت کی گرفتاریوں کا موقع ریاست کو ملا ہے۔ اگر ہسپتال ملازمین کی یہ تحریک فتحیاب ہوتی ہے تو اس سے دیگر نجکاری کی زد میں آنے والے اداروں کے محنت کشوں کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ لیکن ہارنے کی صورت میں حکمرانوں کو باقی شعبوں کے ملازمین پر حملہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس یوم مئی کا بنیادی ایجنڈا ہونا چاہئے کہ سکولوں کی تمام یونینیں فوری طور پر ہسپتالوں کے ملازمین کی تحریک کا حصہ بنیں۔ اسی طرح دوسرے شعبوں کی ٹریڈ یوینیں، ایسوسی ایشنز اور دیگر تنظیمیں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے کندھے سے کندھا ملا کر اس جدوجہد میں کردار ادا کریں۔ نہ صرف ٹریڈ یونیز بلکہ اس تحریک کو عوامی حمایت دلوانے کے لئے تمام ترقی پسند تنظیموں کو اپنا کردار ادا کر کے نجکاری کے خلاف ایک وسیع عوامی اتحاد بنانا چاہئے۔ بائیں بازو کے متحرک کارکنوں کو سوشل میڈیا پر مزدور حقوق کی مہم چلانی چاہئے۔ ویڈیوز اور گرافکس کے ذریعے عوامی شعور بیدار کیا جانا چاہئے۔ یوم مئی کے جلسوں اور ریلیوں میں نجکاری مخالف بینرز آویزاں کرنے چاہئیں اور نعروں سے عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہئے۔ عام لوگوں کو بتانے والی اہم بات یہ ہے کہ اگر سرکاری تعلیمی ادارے اور علاج گاہیں ٹھیکے داروں کے حوالے کر دی گئیں تو پھر ہر روز کروڑوں طالب علم اور علاج معالجے کے طلبگار بیمار‘ جہالت اور لاعلاجی کے اندھیروں میں غرق ہو جائیں گے۔ مطلب واضح ہے: جس کے پاس پیسے ہوں گے وہ تعلیم اور علاج خرید سکے گا۔ غریبوں کے بچے جاہل رہیں گے اور جو بیماریوں کا شکار ہوں گے ان کا مقدر تڑپ تڑپ کر مرنا ہو گا۔

انقلاب روس کے معمار لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ زندگی کمزور کو نشانہ بناتی ہے۔ محنت کش طبقے کو اپنی یکجہتی اور جدوجہد سے ثابت کرنا ہو گا کہ نہ وہ کمزور ہیں‘ نہ ہی کسی حملے پر وہ چپ بیٹھیں گے۔ شرط صرف یہ ہے اور یہی اس سال یوم مئی کا پیغام ہے کہ تحریک نظریاتی طور پر مضبوط، تنظیمی طور پر منظم اور قیادت کی غداریوں اور مصالحتوں سے پاک ہو۔ اور فوری حملوں کے خلاف مزاحمت کو سرمایہ داری کے خلاف وسیع تر ملکی و عالمی طبقاتی جدوجہد کیساتھ جوڑے۔ ایسا کرنے کے لئے میدان عمل میں اترنا ہو گا اور کارل مارکس کا یہ نعرہ پھر سے بلند کر نا ہو گا، ”مزدورو! تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں۔ جبکہ جیتنے کو پورا جہاں پڑا ہے۔“