ڈاکٹر چنگیز ملک
برصغیر کے خونی بٹوارے کے بعد یہاں کے حکمران طبقات اپنی تاریخی تاخیر زدگی و نااہلی کے باعث کبھی اس قابل ہی نہیں رہے اور نہ آج اس قابل ہیں کہ ایک فلاحی مملکت قائم کر سکیں۔ فلاح تو دور کی بات یہاں کروڑوں دکھیارے محنت کش عوام کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ بڑھتی مہنگائی ، بجلی و گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافے نے عام محنت کشوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں۔ زندگی کو زندگانی دینے والے محنت کش طبقات عذاب مسلسل میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
ضیا دور سے لے کر اب تک بننے والی تمام حکومتیں یہی راگ الاپ رہی ہیں کہ ملکی معاشی و سیاسی استحکام کیلئے کچھ مشکل اور تلخ فیصلے ناگزیر ہیں۔ جن کے کچھ عرصہ بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ انہی چند ناگزیر فیصلوں میں مختلف قومی اداروں کی نجکاری اس لئے ضروری قرار دی جاتی ہے کہ ان اداروں کو فرخت کر کے حاصل شدہ رقم سے اندرونی و بیرونی قرضہ جات کو ختم کیا جا سکے گا اور خسارے کم ہوں گے۔
یہاں نام نہاد جمہوری حکومتوں کی جانب سے نجکاری کا باقاعدہ آغاز فروری 1991ء میں الائیڈ بینک کو 97 کروڑ روپے میں بیچ کر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 100 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سینکڑوں قومی اداروں کو محض 5 ارب ڈالر میں بیچ دیا گیا۔ ان بیچے ہوئے اداروں میں گھی کے 23 کارخانے، چینی کے 11 کارخانے، سیمنٹ کے 16 کارخانے، تیل اور گیس کے 14 ادارے، بجلی کے 2 ادارے، آٹے اور چاول کے 23 کارخانے، کپڑے کے 4 کارخانے، ذرائع ابلاغ کے 10 ادارے، ٹورازم کے 7 ادارے، کیمیائی کھاد اور کیمیکل کے 19 کارخانے، انجینئرنگ کے 8 ادارے، مواصلات کے 2 ادارے، 5 بینک اور مالیاتی ادارے وغیرہ شامل تھے۔
ان اداروں کو بیچنے کے وقت غیر ملکی قرضہ 13 ارب ڈالر تھا جو 2024ء میں 148 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ شاید اس سے بھی برا حال داخلی قرضے کا ہے۔ اس سے یہ پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ نجکاری سے قرض نہیں ختم ہوتا بلکہ سامراجی پالیسیوں کے تحت ملکی پیداواری، معاشی اور اقتصادی وسائل تباہ ہوتے ہیں۔ نجکاری کے عمل سے چند مٹھی بھر سرمایہ دار تو ضرور اپنے اثاثہ جات میں کروڑوں اربوں روپے کا اضافہ کرتے ہیں لیکن آبادی کی اکثریت کا معیار زندگی مزید گر جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی موجودہ مخلوط حکومت اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کی مزدور دشمن پالیسیوں کو تیزی سے لاگو کرنے کی جانب جا رہی ہے۔ ان پالیسیوں میں نجکاری کا عمل سرفہرست ہے۔ نجکاری کی اس قرعہ اندازی میں سب سے پہلا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا نکلا ہے۔ کیونکہ یہ ادارہ طویل عرصہ سے اربوں روپے کے خسارے میں ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا قیام 29 اکتوبر 1946ء کو اورینٹل ایئرلائن کے نام سے کلکتہ میں عمل میں آیا تھا۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد اس ایئرلائن کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
پاکستان میں پی آئی اے ان قومی اداروں میں شامل ہے جن کا تمام متعلقہ انفراسٹرکچر اپنا رہا ہے۔ ایک چپڑاسی سے لے کر پائلٹس، انجینئرز، کچن سٹاف، مالی، ٹیکنیکل فلائٹ عملہ وغیرہ بھی پی آئی اے کے ریگولر ملازمین ہیں۔
ریاستی اداروں کے بنیادی تصور کے مطابق پی آئی اے بھی بنیادی طور پر ایک رفاہی ادارہ ہے جس کا کام عوام کو اچھی اور سستی سفری سہولیات مہیا کرنا ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی محنت کش اگر کسی ملک میں کسی بھی ناگہانی صورتحال سے دوچار ہوں یا کسی کی موت واقع ہو جائے تو آج بھی نامساعد حالات کے باوجود پی آئی اے متعلقہ سفری خدمات سرانجام دیتا ہے۔ اسی طرح ہنزہ، گلگت بلتستان سمیت ایسے متعدد روٹس ہیں جہاں نجی ایئرلائنز اس لئے جہاز اڑانے سے گریزاں ہیں کہ ان روٹس پر انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ تاہم پی آئی اے یہ سروس فراہم کرتا ہے۔
1959ء میں ایئرمارشل نورمحمد خان کو پی آئی اے کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اپنی تقرری کے دورانیہ میں انہوں نے پی آئی اے ملازمین کے تعاون سے پی آئی اے کو دنیا کی چند صف اول کی ایئرلائنز میں لا کھڑا کیا۔ ایک وقت میں ہر 6 منٹ کے بعد پی آئی اے کا جہاز کہیں ٹیک آف اور کہیں لینڈ کر رہا ہوتا تھا۔ آج دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہونے والے کئی غیرملکی اداروں کو تعمیر کرنے والا بھی پی آئی اے ہے۔ اسی کارکردگی کی وجہ سے پی آئی اے دنیا بھر میں اربوں روپے کے اثاثہ جات کا مالک بنا (جن پر سرمایہ داروں کی طویل عرصے سے نظر ہے)۔ تاہم مختلف ادوارحکومت میں ایک سوچی سمجھی سازش اور آئی ایم ایف جیسے نیولبرل سامراجی اداروں کی ہدایات کے تحت ادارے کو آج تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت اب پی آئی اے کی نجکاری کا باقاعدہ اعلان کر چکی ہے۔ پی آئی اے کے فلائٹ کچن کا ایک ادارہ پہلے ہی نجی کمپنی ‘کچن کوزین ’کو بیچا جا چکا ہے۔ اب موجودہ حکومت انتظامی امور سمیت 51 فیصد شیئرز کسی نجی اکائی کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 49 فیصد شیئرز تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ حکومت کے پاس رہیں گے۔ اس طرح نام نہاد ‘پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ’ کے بدعنوان ماڈل کے تحت انتظامی فیصلہ جات سمیت منافعوں اور لوٹ مار کی سرمایہ داروں کو چھوٹ ہو گی۔ جبکہ تمام تر خسارے اور بوجھ حکومت (یعنی پبلک) کے ذمے ہوں گے۔ ماضی میں یہ واردات ‘کے الیکٹرک’ اور پی ٹی سی ایل کے ساتھ بھی کی جا چکی ہے۔
انتظامی امور نجی سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کا سیدھا مطلب ہے کہ ایگزیکٹو ملازمتیں موجود رہیں گی لیکن چھوٹے ملازمین کی چھانٹیاں اور آؤٹ سورسنگ کا عمل شروع ہو گا۔ اس عمل کے نتیجے میں ہزاروں خاندانوں کو روزی روٹی سے محروم کر دیا جائے گا۔ انتظامی امور فروخت کرنے سے ٹکٹوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے نسبتاً متمول شہریوں کیلئے بھی ہوائی سفر تقریباً ناممکن ہو کر رہ جائے گا۔
پی آئی اے محنت کشوں کی جدوجہد
پی آئی اے کے محنت کشوں کی جدوجہد بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود پی آئی اے ہے۔ اورینٹل ایئرلائنز کے زمانے میں ہی ایئر ویز ایمپلائز یونین کی داغ بیل ڈالی گئی اور طفیل عباس اس کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ یونین بنانے کی پاداش میں 900 محنت کشوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ اس جبر کے خلاف پھر ایک جدوجہد منظم ہوئی اور محنت کشوں کو اس شرط پر بحال کیا گیا کہ ادارے میں یونین سرگرمیاں نہیں کی جا سکتیں۔ یوں یونین پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم یہ پابندی زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔ محنت کشوں کی جدوجہد کے ذریعے یہ پابندی ختم ہو گئی۔
اس دوران پی آئی اے کے محنت کشوں نے آمریت اور جمہوریت دونوں میں مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ حکومتوں کی جانب سے تقسیم اور گروہ بندیوں کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کے درمیان مسابقت کا عمل بھی جاری رہا۔
پی آئی اے کے محنت کشوں نے ادارے پر لٹکتی نجکاری کی تلوار کے خلاف بھی طویل لڑائی لڑی ہے اور نجکاری کے کئی حملوں کو ناکام بھی بنایا ہے۔ ایوی ایشن کے شعبہ میں دنیا کی چند بڑی ہڑتالوں میں سے ایک’ 4 روزہ ہڑتال کا اعزاز بھی پی آئی اے کے محنت کشوں کو حاصل ہے۔ پوری دنیا میں فلائٹ آپریشن روک کر پی آئی اے کے محنت کشوں نے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ محنت کش ہی ہیں جو اس نظام کو چلاتے ہیں اور جب چاہیں اس نظام کا پہیہ روک بھی سکتے ہیں۔ محنت کشوں کی اس لڑائی نے اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور نجکاری کے وار کو ناکام بنا دیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی 2016ء میں پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی۔ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پی آئی اے کو کارپوریشن سے تبدیل کر کے کمپنی بنانے کا حکم نامہ جاری ہوا۔ اس مرتبہ پی آئی اے کے محنت کشوں کیلئے کڑا امتحان اس لئے بھی تھا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کی ہی حمایت یافتہ ‘ایئرلیگ’ سی بی اے یونین تھی اور اس کی قیادت حکومتی موقف کی حمایت کر چکی تھی۔ تاہم پیپلز یونٹی نے دیگر یونینز اور ایسوسی ایشنز کو ساتھ ملا کر ـ‘جوائنٹ ایکشن کمیٹی’ بنائی اور پورے پاکستان میں پر امن احتجاج کا آغاز کر دیا گیا۔ تاہم بعد ازاں کراچی میں پی آئی اے کے محنت کشوں کے خلاف ریاستی جبر کے استعمال نے اس احتجاج میں شدت پیدا کی۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس، لاٹھی چارج اور براہ راست گولیاں تک چلائیں۔ رینجرز کی فائرنگ سے 2 محنت کش شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ قیادت کو گرفتار کیا گیا، دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے، گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ تاہم 7 روزہ ہڑتال، 2 محنت کشوں کی شہادت ، قید و بند و مقدمات کے بعد پی آئی اے کو فروخت ہونے سے ایک بار پھر بچالیا گیا۔
اب کیسے لڑا جائے؟
اب ایک بار پھر حکمران پی آئی اے کو فروخت کرنے جا رہے ہیں۔ اس مرتبہ امتحان کٹھن اور مشکل اس لئے بھی ہے کہ ایوان میں موجود تمام جماعتیں اس عمل میں شامل ہیں۔ حکمران اتحاد کے علاوہ اپوزیشن میں موجود سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی ) بھی اس نجکاری کی اندرون خانہ حمایت کر رہی ہے۔
اس لئے اب محنت کشوں کی قوت اور طاقت کی بنیاد پر ہی نہ صرف پی آئی اے بلکہ دیگر فروخت ہونے والے اداروں کو بچایا جا سکتا ہے۔ پیپلز یونٹی ایمپلائز یونین سی بی اے کو فوری طور پر ماضی کے تجربات کی بنیاد پر تمام کیڈرز پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے قیام کی طرف بڑھنا پڑے گا اور نجکاری کے خلاف کثیرالجہتی جدوجہد کا آغاز کرنے کے علاوہ پی آئی اے کے محنت کشوں کے پاس کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
بائیں بازو کی تنظیموں سمیت دیگر اداروں کی ٹریڈ یونین قیادتوں کو نجکاری کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف متحد ہو کر لڑائی کو منظم کرنا ہو گا۔ آج اگر پی آئی اے کا نجکاری میں پہلا نمبر ہے تو اس کے بعد ریلوے، واپڈا، او جی ڈی سی ایل سمیت متعدد اداروں کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔ جن کو فروخت کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی پالیسیوں کو یکسر ختم کرنے اور نجکاری کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے قومی اداروں کو محنت کشوں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جانے اور فعال کرنے کے مطالبات کے گرد ہی جدوجہد کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ ماضی کے تمام تر تجربات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نجکاری کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوئے۔ بلکہ مزید گھمبیر ہی ہوئے ہیں۔ بیروزگاری مزید بڑھی ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور بھاری سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا ہے۔ اس عمل کے ذریعے سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا راستہ تو ہموار ہوتا ہے لیکن محنت کشوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہوتی ہیں ۔ اس لئے محنت کشوں کے پاس بقا کا راستہ صرف طبقاتی جدوجہد کا راستہ ہی ہے۔