ساجد نعیم

(زیر نظر مضمون ایران پر اسرائیل کے تازہ حملے سے چند گھنٹے پہلے تحریر کیا گیا جس میں غزہ میں جاری صیہونی بربریت اور ایران اسرائیل کشیدگی کے محرکات کا جائزہ لیا گیا ہے)

13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر 300 کے لگ بھگ میزائل اور ڈرون داغے۔ 1979ء میں ملاؤں کے اقتدار پر قبضے کے بعد خطے میں اسرائیل ایران کا ازلی دشمن قرار دیا گیا تھا اور اسرائیل کا خاتمہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی بازیابی ہمیشہ سے ایرانی ملائیت کا مقبول عام نعرہ رہا ہے۔ لیکن اس تمام تر عرصے میں کبھی بھی ایران سے براہِ راست اسرائیل پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نعروں اور خواہشات کے ساتھ ساتھ تلخ زمینی حقائق کا وجود بھی ہوتا ہے۔ اگر جلدبازی یا جنون کے اندھے پن میں ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی قسم کی کوئی مہم جوئی کی جائے تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوتے ہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملہ تھا۔ بعض فلسطینی ذرائع کے مطابق حماس کی قیادت کو مکمل یقین تھا کہ یہ حملہ فیصلہ کن ثابت ہو گا اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ثابت ہوئے۔ اسرائیل تو ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوا لیکن غزہ پرقیامت برپا ہو گئی۔ اب تک 33 ہزارسے زائد بے گناہ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 10 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جن کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ وہ ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور زندہ بچ جانے والے انسانی لاشے اب نہ صرف شدید قحط کا شکار ہیں بلکہ صحت، تعلیم اور رہائش کے انفراسٹرکچر سے تقریباً محروم ہو چکے ہیں۔ غزہ کے موجودہ حالات میں شاید زندہ بچ جانے والے مرنے والوں پر رشک کر رہے ہوں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حماس نے گزشتہ دنوں جنگ کی اذیتوں کے شکار غزہ کے باسیوں سے معافی مانگی ہے۔ غالباًایسا اس تنظیم کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ تاہم اس پیغا م میں ساتھ ہی ”فتح اور آزادی“ تک جنگ جاری رکھنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

حماس اور ایران

اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی میں ایران براہ راست ملوث تھا یا نہیں۔ ایرانی پراکسیوں کے بارے میں بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران ان کی مالی اور جنگی سامان کی فراہمی تک مدد کرتا ہے۔ جبکہ آپریشنل معاملات میں زیادہ تر پراکسیاں آزادانہ کام کرتی ہیں۔ ایران اور اس کی پراکسیوں کے داخلی تعلقات جس بھی نوعیت کے ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ حماس، جو کبھی اسرائیل اور امریکی سامراج کی بغل بچہ تنظیم تھی، ایرانی مدد پر خاصا انحصار کرتی ہے۔ لہٰذا حماس، حزب اللہ، حوثیوں یا شامی یا عراقی ایرانی پراکسیوں کی طرف سے اٹھایا گیا کوئی بھی قدم فطری طور پر ایران سے ہی منسوب ہو گا۔ اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کا سفارتی فائدہ ایران کو ہوا جو خطے میں تنہائی کا شکار ہو رہا تھا۔ وہ تمام مسلم یا عرب حکومتیں جو اسرائیل کے بہت قریب جا چکی تھیں یا جانے کی کوشش کر رہی تھیں عوامی رد عمل سے خوفزدہ ہو کر محتاط ہونے پر مجبور ہوئیں۔ کچھ نے (مثلاً متحدہ عرب امارات، سعودی عرب) زبانی کلامی اور ترکی نے برآمدی اشیا پر حالیہ پابندی کی صورت میں اسرائیل سے دوری اختیار کی۔

ایران کی جنگی حکمت عملی

کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ جنگ صرف اور صرف اپنے طبقاتی مفادات کے پیش نظر کرتا ہے۔ جنگ کے لبادے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان میں قومی غیرت، مذہب اور ظالم کے خلاف جہاد کی نعرہ بازی تو ہو سکتی ہے لیکن اصل مقصد حکمران طبقے کے اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ رجب طیب اردگان کی مذہبی لفاظی کسی طور ایرانی ملاؤں سے کم نہیں۔ لیکن اسے محض چند دن قبل ترکی سے اسرائیل کو برآمد کی جانے والی اشیا پر پابندی کا خیال آیا۔ وہ بھی اس وقت جب اسرائیل نے اسے فضا سے غزہ پر امدادی سامان گرانے کی اجازت نہ دے کر ذلیل و رسوا کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تیل کی سپلائی مسلسل جاری ہے۔ ایسے میں ایران کی طرف سے فلسطینیوں یا ان قوتوں کی حمایت جو اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہیں، کو بھی بالکل اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایران کا قومی مفاد، جو آخری تجزیے میں ملاؤں اور ان کے کاسہ لیسوں پر مبنی حکمران طبقے کا مفاد ہے، اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کی نہ صرف نعرہ بازی کرے بلکہ ان تمام قوتوں کی حوصلہ افزائی اور عملی مدد کرے جو اسرائیل کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ درحقیقت ایرانی حکمران اشرافیہ اتنی احمق نہیں جتنا کہ لوگ خیال کرتے ہیں۔ اس تمام عرصے میں ایران نے جنگ میں براہِ راست شرکت سے اجتناب برتا ہے اور موجودہ حملے کے بعد دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ ان کی طرف سے معاملے کو تمام سمجھا جائے‘ ایران کی اسی جنگی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔

اسرائیل کی چالبازیاں

آج کے عہد کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کا المیہ یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ حکمرانوں کیلئے ماضی کے طریقوں سے حکمرانی کرنا محال ہو چکا ہے۔ اسرائیل کا حکمران طبقہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ جنگ شروع ہونے سے قبل نیتن یاہو (اسرائیلی وزیر اعظم) کرپشن کے بدترین الزامات کی زد میں تھا۔ عدالتی احتساب سے بچنے کیلئے اس نے عدلیہ سے متعلقہ قوانین میں رد و بدل کرنے کا سوچا۔ جس پر ایک طرف شدید عوامی رد عمل تھا تو دوسری طرف جنگ کے دوران ہی اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس کی طرف سے کی جانے والی تمام ترامیم کو غیر آئینی قرار دے کر کوڑے دان میں ڈال دیا۔ دوران جنگ بھی قومی شاونزم کو ابھارنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود نیتن یاہو ایک حالیہ سروے کے مطابق اسرائیلی تاریخ کا غیر مقبول ترین وزیر اعظم ہے۔ جنگ کا آغاز کرتے وقت اس نے اپنا واحد جنگی مقصد حماس کا خاتمہ قرار دیا تھا۔ اس پیمانے پر پرکھا جائے تو نیتن یاہو اور اس کی انتہائی رجعتی کابینہ، جس میں کھلے فسطائی عناصر اہم عہدوں پر براجمان ہیں، آج بھی اپنے مقصد سے کوسوں دور کھڑے ہیں۔ جنگ میں حماس کے چند ہزار جنگجو مارے گئے ہوں گے لیکن حماس کا خاتمہ اسی طرح کا دیوانے کا خواب نظر آ رہا ہے جس طرح حماس کا اسرائیل کو فتح کرنے کا خواب ہے۔ جو تباہی اور بربادی صہیونی وحشت نے پھیلائی ہے اس سے آنے والے وقتوں میں حماس کو بے پناہ خام مال میسر آئے گا۔

دوسری طرف جنگ کی طوالت اور ہزاروں کی تعداد میں معصوم انسانوں کے قتل عام نے اسرائیل کے حامی سامراجی ممالک اور خود اسرائیلی ریاست کو گہری مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط طور پر منسلک ممالک کے حکمرانوں کیلئے اپنے عوام کی طرف سے بڑھتا ہوا دباؤ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے اور ایک ایک کر کے ان ممالک کے حکمران اسرائیلی حکومت یا کم از کم نیتن یاہو پر تنقید کرنے یا کچھ دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یوں اسرائیل کی عالمی سطح پر تنہائی میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیلی حکمران غزہ کی موجودہ جنگ کے حوالے سے بھی انتہائی تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کوئی واضح روڈ میپ نہیں ہے۔ اگرنیتن یاہو جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے تو کتنے عرصے تک؟ کوئی بھی جنگ ہمیشہ جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ اگر جنگ ختم ہوتی ہے تو غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ ایسے میں بے پناہ رسوائی اور بڑھتی تنہائی سے بچنے کیلئے نیتن یاہو ٹولے کی شدید خواہش ہے کہ ایران کو براہِ راست جنگ میں گھسیٹا جائے۔

یکم اپریل کو شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ عالمی سفارتی قوانین کے مطابق کسی بھی ملک کے سفارتخانے پر حملہ اس ملک کی سرزمین پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ ایران کے براہ راست جنگ میں شریک ہونے سے اسرائیل کو دو فوری لیکن وقتی نوعیت کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ایران کی جنگ میں شرکت سے جنگ کا دائرہ کار غزہ سے نکل کر پورے مشرق وسطیٰ تک پھیل جائے گا اور اس وسیع منظر نامے میں غزہ نظروں سے اوجھل ہوتا جائے گا اور اسرائیلی وحشت کی تباہ کاریاں لوگوں کی نظروں میں ماند پڑ جائیں گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ایران کیساتھ جنگ کی صورت میں مغربی سامراج کو ایک بار پھر کھل کر اسرائیل کی حمایت اور پشت پناہی کرنی پڑے گی اور یوں اسرائیل جس عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے اس سے نکل جائے گا۔

حالیہ ایرانی حملہ

حالیہ ایرانی حملے کے مقاصد جنگی کم اور سیاسی و سفارتی زیادہ تھے۔ حملہ کرنے کے باوجود اس امرکو ملحوظ خاطر رکھا گیا یا رکھنے کی کوشش کی گئی کہ براہ راست جنگ نہ کھلے۔ سی این این جیسے ایران مخالف میڈیا چینلوں نے تو اسے جنگی حملے کی بجائے آتش بازی قرار دیا ہے۔ بہر حال حملے سے 72 گھنٹے قبل پڑوسی اور دیگر متعلقہ ملکوں کو آگاہ کرنے اور امریکہ اور دیگر ملکوں کی انٹیلی جنس رپورٹوں کے عین مطابق حملے کا مقصد دشمن کا کوئی زیادہ جنگی نقصان کرنا نہ تھا بلکہ یہ باور کروانا تھا کہ اگر اسرائیل کی جانب سے دوبارہ حملہ یا حد سے تجاوز کیا گیا تو ہم بھی جوابی کاروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سالہا سال کی پابندیوں کی وجہ سے معاشی حوالے سے ایران کیلئے براہِ راست جنگ بہت محال ہے۔ داخلی سماجی اور سیاسی حالات بھی ایرانی حکمرانوں کیلئے موافق نہیں۔ ایرانی ملاں اشرافیہ کے جبر و استحصال اور بدعنوانی سے بہرہ مند ہونے والی سماجی پرتوں کو اگر الگ کر دیا جائے تو ایرانی سپریم لیڈر علی خامنائی اورنیتن یاہو کی عوامی مقبولیت شاید ایک ہی سطح پر آ جائے۔ ان حالات کے پیش نظر ایران حتی المقدور کوشش کرے گا کہ اسے براہ راست جنگ میں نہ کودنا پڑے۔ لیکن اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔

گارڈین کے مطابق 15 اپریل کو اسرائیلی جنگی کابینہ کے دو ارکان موجودہ وزیر دفاع یوآو گالانٹ (Yoav Gallant) اور سابق وزیر دفاع بینی گانٹز (Benny Gantz) تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایرانی حملے کے کامیاب دفاع کے بعد جوابی کاروائی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس ضمن میں حتمی فیصلہ جات تیسرے رکن نیتن یاہو کے ہاتھ میں ہیں جو شاید اپنی بقا کی ناکام جنگ لڑ رہا ہے اور تذبذب اور ہیجان کے عالم میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے یکم اپریل کے حملے کی امریکہ سمیت اپنے کسی بھی اتحادی کو پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ اگر اس عمل کا ایران کی پیشگی اطلاع کے ساتھ تقابل کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کون کیا چاہتا ہے۔

جنگ ایک وحشت ہے لیکن حکمران طبقات اس وحشت کو اپنے عوام میں قابل قبول بنانے کیلئے ہمیشہ مذہب اور قومی وقار جیسے بظاہر خوبصورت پہناوے پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ پہلے ہی شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایک پھیلتی ہوئی جنگ اس عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دے گی۔ لیکن ہر جنگ کا ایندھن بالعموم غریب اور پسے ہوئے عوام ہی بنتے ہیں۔ جنگ پہلے سے تباہ حال لوگوں کو مزید برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ اپنی زندگیوں میں سدھار لانے کیلئے خطے کے محنت کشوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مذہبی اور قومی جنگوں کی بجائے اپنے اپنے ظالم حکمرانوں کے خلاف طبقاتی جنگ منظم کریں اور سرمایہ دارانہ جبر و استحصال سے نجات حاصل کریں۔ کیونکہ جب تک یہ استحصالی نظام باقی ہے‘ جنگیں اس کی ناگزیر ضرورت رہیں گی۔