حارث قدیر

دوسری جنگ عظیم کے بعد بتدریج دنیا بھر میں نو آبادیاتی قبضے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے نیو نو آبادیاتی کنٹرول کا راستہ اختیارکیا گیا۔ براہ راست مختلف خطوں اور ریاستوں پر سامراجی قبضے کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں، تجارتی پالیسیوں اور بڑی معیشتوں کے ذریعے مالیاتی جکڑ بندیوں کے نتیجے میں نو آبادیاتی قبضے کا نیا طریقہ رائج کیا گیا۔ تاہم اب بھی دنیا کے مختلف علاقے اور خطے ایسے ہیں جنہیں حق خود ارادیت سے محروم رکھتے ہوئے نو آبادیاتی قبضہ جمائے رکھا گیا ہے۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں براہ راست نو آبادیاتی قبضہ ایک سے زائد علاقائی سامراجی طاقتوں کی جانب سے جمایا گیا ہے۔ ان خطوں میں کچھ ایسے خطے بھی ہیں جہاں ایک قومیت آباد ہے۔ تاہم جموں کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس میں مختلف قومیتوں، نسلوں اور ثقافتوں کے لوگ آباد ہیں اور یہ غلامی کی ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے۔

جبر کے ذریعے سے جوڑے گئے مختلف خطوں پر مشتمل جموں کشمیر عملی طور پر 5 ٹکڑوں میں تقسیم ہے جبکہ آبادی پر مشتمل 4 ٹکڑوں کی تقسیم برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں جنم لینے والی دو ریاستوں کے مابین ہے۔ جبر کی نوعیت اور کیفیت کے فرق کے باوجود مشترک کردار کے باعث اس خطے میں بسنے والے پونے دو کروڑ انسان محرومی و محکومی کی اذیت کے ساتھ ساتھ مستقبل کے فیصلے کے منتظر اور شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔

اس نو آبادیاتی جبر کے خلاف جدوجہد بھی مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ منقسم جموں کشمیر کے مختلف حصوں میں نوعیت و ہیت کے فرق کے ساتھ جاری رہی ہے۔ طبقاتی مسائل کے گرد ابھرنے والی تحریکیں ہمیشہ اپنے کردار میں نو آبادیاتی جبر کے خلاف تحریکوں کی صورت میں سامنے آتی رہی ہیں۔ تاہم مسلح جدوجہد بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مخصوص حصے تک محدود رہتے ہوئے دونوں اطراف اپنے اثرات ضرور مرتب کرتی رہی ہے۔

اس نو آبادیاتی جبر کو طوالت دینے میں سب سے بھیانک کردار ہمیشہ اس خطے کی مقامی حکمران اشرافیہ کی طرف سے ادا کیا گیا ہے۔ قومی محرومی اور طبقاتی جبر کے خلاف مزاحمت کو کچلنے اور سامراجی ریاستوں کے نو آبادیاتی قبضے کو برقرار رکھنے کی وکالت کرنے کے عوض مقامی اقتدار کے حصول کی جنگ میں یہ حکمران اشرافیہ ہر دو اطراف چاروں منقسم حصوں میں ایک مخصوص اور مشترک کردار کی حامل ہے۔

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران بڑھتا گیا ہے‘ سماجی گراوٹ کے اثرات میں حکمران اشرافیہ کی اخلاقی، مالیاتی، سیاسی اور ثقافتی گراوٹ میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اب المیہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ کے یہ نمائندے اپنے نام نہاد اختیارات، بجٹ سمیت اپنا سب کچھ سامراجی ریاستوں کے حکمرانوں کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں۔ اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کیلئے اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مقدر اندھیر کرنے میں وہ تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔

سیاحتی مراکز کی اراضی کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنا ہو، وسائل اور معدنیات کی سامراجی لوٹ مار میں سہولت کاری اور حصہ داری ہو یا ڈیموگرافی تبدیل کر کے سامراجی ریاستو ں کے مفادات کا تحفظ ہو‘ ہر دو اطراف ان عوامل پر تیزی سے کام کیا گیا ہے۔ اس خطے کے باسیوں کو ان وسائل پر اختیار تو درکنار اپنی مدد آپ کے تحت بیرون ملک محنت فروخت کر کے ارسال کیے گئے اربوں ڈالر کے ترسیلات زر اور وسائل کے استحصال کے ذریعے لوٹی گئی رقوم سے عوامی خدمات کی مد میں کچھ اخراجات بھی میسر نہیں ہیں۔ سہولیات کی فراہمی کی بجائے اسی خطے میں پیدا ہونے والی بجلی بھی مقامی شہریوں کو انتہائی مہنگے داموں فروخت کر کے مقامی حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں کا سامان کیا جاتا ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی بے اختیار اور کٹھ پتلی تو تھی ہی‘ تاہم اب تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد پوری کی پوری اسمبلی کی بولیاں سرعام لگائی گئی ہیں۔ ماضی کی روایات کے عین مطابق موجودہ اسمبلی نے بھی ابھی تک تین وزرائے اعظم کا انتخاب کر لیا ہے۔ آنے والے تین سالوں میں مزید تبدیلیوں کے امکانات بھی موجود ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کیلئے ایک اندازے کے مطابق 20 ارب روپے سے زائد رقم وزیر امور کشمیر، طاقتور حلقوں، ممبران اسمبلی اور ووٹ بینک رکھنے والے افراد کی خرید پر خرچ کیے۔ اپنی ہی جماعت کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر وزارت عظمیٰ پر برجمان ہوئے۔ تاہم جن طاقتوروں نے بھاری رقوم کے عوض تنویر الیاس کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پرپہنچایا تھا انہی کے ایک اشارے پر وہ وزارت عظمیٰ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ایک روزہ عدالتی کارروائی میں وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے بعد اکثریتی جماعت تحریک انصاف بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

کئی روز کی تگ و دو کے بعد رات 12 بجے ایک گھنٹے کی کارروائی میں وزیر اعظم کا انتخاب یوں ہوا کہ چند گھنٹے تک کسی کو خبر ہی نہیں ہو سکی کہ وزیر اعظم کس جماعت کا ہے۔ 53 کے ایوان میں 48 ووٹ لے کر وزیر اعظم بن گیا اور اس وقت تک صورتحال یہ ہے کہ تمام پارٹیاں حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی ہیں۔ 53 کے ایوان میں 34 وزیر رکھنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر بھی حکمران جماعتوں کا ہو گا، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی حکمران جماعتوں سے ہوں گے۔ مشیروں کی تعیناتی بھی کر لی گئی تو پورا ایوان ہی حکومت اور وزارتوں پر تعینات کیے جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود وزارت عظمیٰ کو تحفظ صرف اسی صورت مل سکتا ہے کہ وزارت امور کشمیر اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو۔

وسائل سے مالا مال اس خطے کی ’آزاد‘کہلانے والی اس ریاست کے حکمران اعلانات اور دعووں میں ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ تاہم حکومت عملی طور پر کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس خطے کے عوام کا مقدمہ لڑنا تو ایک طرف، میسر بجٹ کو استعمال میں لانے کیلئے کوئی اقدامات کرنے میں بھی حکومت ایک پیج پر یا کم از کم حاضر بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اپریل میں گزشتہ وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد ابھی تک حکومت سازی کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ وزیر اعظم گڈ گورننس کے جعلی اعلانات کے علاوہ محض ترقیاتی سکیموں کو بلدیاتی نمائندوں کی بجائے ممبران اسمبلی کے حوالے کرنے کا ایک حکم نامہ ہی جاری کر سکے ہیں۔

تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد انوسٹمنٹ بورڈ کو فعال کرنے، 300 تعلیمی ادارے اپ گریڈ کرنے، سیاحت کیلئے اقدامات، ہر ضلع میں کاٹیج انڈسٹری لگانے، آئی ٹی پارکس بنانے، ڈرائی پورٹ کو فعال کرنے، بیروزگار نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، ایئرپورٹس کو فعال کرنے سمیت متعدد اعلانات اور وعدے کیے تھے۔ تاہم ایک بھی وعدے اور اعلان پر ابھی تک ابتدائی گفتگو بھی نہیں کی جا سکی تھی کہ حکومت ہی چلتی بنی۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق 40 لاکھ (جو درحقیقت اس سے کافی زیادہ ہے) آبادی کے حامل اس خطے کی حکومت سرکاری سطح پر 92 ہزار 565 سرکاری ملازمتیں فراہم کر رہی ہے۔ یہی اس خطے میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ 41 ہزار 203 پنشنرز کے ہمراہ اس حکومت کے کل بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ یعنی 92 ارب روپے سے زیادہ تنخواہوں اور پنشنوں پر ادا کیا جاتا ہے۔ انتظامی اخراجات کی دیگر مدات کو شامل کرتے ہوئے ترقیاتی بجٹ محض 28.5 ارب روپے تک محدود ہے۔ روزگار کے دیگر ذرائع میں نجی سکولوں کے 35 ہزار ملازمین، سمال اور میڈیم انڈسٹری میں کام کرنے والے 4408 ملازمین اور نجی بینکوں میں کام کرنے والے 3447 ملازمین کو اس خطے میں روزگار میسر ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کا ایک بڑا حصہ چھوٹا کاروبار ہے۔ جس میں ہول سیل، ریٹیل کی دکانوں کے علاوہ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز وغیرہ ہیں۔ مجموعی طور پر 1 لاکھ 8 ہزار 827 چھوٹی بڑی دکانیں اور ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز وغیرہ اس ریاست میں موجود ہیں۔ یوں مجموعی طور پر اس ریاست میں 3 لاکھ سے کچھ زیادہ لوگ روزگار کے ساتھ منسلک ہیں۔

اس خطے کے باسیوں کیلئے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک محنت کی فروخت ہے۔ جس کے عوض بڑے پیمانے پر غیر ملکی زرمبادلہ ارسال کیا جاتا ہے۔ تاہم بیرون ملک موجود اس خطے کے شہریوں کے اعداد و شمار آج تک جمع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف دعوے ہی اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس ریاست اور حکومت کے پاس صرف ان افراد کے اعداد و شمار ہیں جنہوں نے اوورسیز شناختی کارڈ بنوائے ہیں۔ جو بیرون ملک شہریت حاصل کر چکے ہیں اور خاندانوں سمیت بیرون ملک مقیم ہیں ان کے اعداد و شمار کہیں موجود نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6 لاکھ 64 ہزار 440 افراد ایسے ہیں جنہوں نے اوورسیز شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں۔

نوجوان 18 سال عمر پوری کرتے ہی بیرون ملک جانے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ عرب ملکوں میں سرکاری سکیموں کے ذریعے بیرون ملک جانے کے علاوہ سب سے مقبول راستہ ’ڈنکی‘ لگانا ہے۔ ایران اور ترکی کی سرحد غیر قانونی طور پر عبور کر کے یورپ داخل ہونا ہو، لیبیا سے کشتیوں کے ذریعے یورپ تک رسائی ہو یا پھر لاطینی امریکہ کے کئی ملکوں کی سرحدیں پیدل عبور کر کے امریکہ اور کینیڈا پہنچنے کی کوشش ہو‘ روزی روٹی کی اس تگ و دو میں کئی نوجوان اپنی زندگیاں کھو دیتے ہیں۔ جون کے دوسرے ہفتے میں لیبیا سے اٹلی کے لئے محو سفر ایک سمندری جہاز کے ڈوبنے سے 79 تارکین وطن ہلاک ہوئے۔ اس کشتی میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ایک ہی گاؤں کے 21 افراد سوار تھے۔ آخری اطلاعات تک ان نوجوانوں میں سے صرف ایک ہی زندہ بچ سکا تھا۔ زندہ بچنے والوں میں اس خطے کے دیگر علاقوں کے نوجوان بھی شامل تھے۔ آزاد کہلانے والے اس خطے کے نوجوانوں کو روزگار کیلئے موت کا جوا کھیلنا پڑتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگار کی شرح 10.71 فیصد ہے جبکہ انہی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 7.8 فیصد ہے۔ تاہم خواتین میں بیروزگاری کی شرح 22.89 فیصد ہے، نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 18.44 فیصد ہے، 20 سے 25 سال کے نوجوانوں میں 24.63 فیصد اور 25 سے 30 سال کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 16.1 فیصد ہے۔

شرح خواندگی 77.50 فیصد ہے۔ تاہم محض 17.10 فیصد آبادی میٹرک تک تعلیم حاصل کرتی ہے۔ 7.30 فیصد انٹرمیڈیٹ تک اور محض 7.50 فیصد گریجویشن یا اس سے آگے تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ صحت کی صورتحال بھی پاکستان کی قومی صورتحال کی نسبت زیادہ پسماندہ ہے۔ اس خطہ میں 2839 افراد پر ایک ڈاکٹر موجود ہے جبکہ پاکستان میں 898 افراد پر ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ تاہم ان ڈاکٹروں کی قابلیت اور اہلیت پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ دوسری دنیا میں آبادی کے مطابق ڈاکٹرز کی موجودگی کی سب سے زیادہ شرح رکھنے والے آسٹریا میں 133 افراد پر ایک ڈاکٹر موجود ہے جو بین الاقوامی معیارکے مطابق قابلیت کا حامل ہے۔

دوسری طرف اس خطے کے وسائل پر نظر ڈالی جائے تو اس خطے کے لوگوں کی زندگیاں انتہائی مثالی ہونی چاہئیں۔ اس خطے میں 9 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس وقت بھی اس خطے سے 3085.52 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جس میں سے 720 میگا واٹ کا ایک منصوبہ مقامی حکومت کی اطاعت گزاری کی بدولت پنجاب حکومت کی ملکیت میں دے دیا گیا ہے۔ 5880.9 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبہ جات زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ منصوبہ جات زیر غور بھی ہیں۔

اس خطے کی ضرورت محض 354 میگا واٹ بجلی ہے۔ اس بجلی کیلئے مقامی حکومت پاکستان کے محکمہ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو سالانہ 6 ارب روپے ادا کرتی ہے جبکہ بجلی کی ترسیل سے سالانہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18 ارب روپے جمع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلات میں شامل ٹیکسز کے عوض سالانہ 12 ارب روپے بھی جمع کیے جاتے ہیں۔ باقی ماندہ 2700 میگا واٹ بجلی کے عوض محض 7 کروڑ روپے مقامی حکومت کو ادا کیے جاتے ہیں۔ اس طرح اس خطے سے پیدا ہونے والی بڑے پیمانے پر سستی ترین بجلی سے اس خطے کے باسیوں کو کوئی استفادہ نہیں حاصل ہو رہا ہے۔

متنازعہ خطے سے پیدا ہونے والی بجلی حکومت پاکستان کو فروخت کرتے ہوئے بھاری ریونیو جمع کیا جا سکتا ہے اور اسے مقامی آبادی پر خرچ کرتے ہوئے تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس خطے میں قائم ہونے والے بجلی کے ڈیم اور بڑی لائنیں اس خطے کے ماحول اور ایکو سسٹم پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور بدلے میں اس خطے کے شہریوں کو انتہائی مہنگی بجلی فراہم کی جاتی ہے۔

سیاحت کے نام پر زمینیں سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی ہر حکومت میں بنائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر مقامی حکومت سیاحت کے فروغ کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے تاہم حقیقت میں سیاحت کے لئے محض ترقیاتی بجٹ کا 1.43 فیصد مختص کیا جاتا ہے۔ 28 ارب روپے میں سے ڈیڑھ فیصد بجٹ سیاحت کیلئے مختص کرتے ہوئے سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ دینا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ تاہم اس خطے میں سیاحت کی صلاحیت کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

اس خطے میں 30 سرکاری و نجی بینکوں کی مجموعی طور پر 575 برانچیں موجود ہیں۔ جن میں مجموعی طو ر پر 500 ارب روپے سے زائد کے ڈپازٹ ہیں۔ تاہم یہ بینک کم از کم شرح 25 فیصد کے مطابق اس خطے میں قرضے دینے کے اصول پر بھی پورا نہیں اترتے ہیں۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی کے طور پر بھی کوئی سرمایہ کاری اس خطے میں نہیں کی جاتی ہے۔ 500 ارب روپے کے ڈپازٹس سے محض 15.9 ارب روپے کے قرضے ایڈوانس تنخواہوں، ایچ بی اے اور گاڑیوں کی مد میں دیئے گئے ہیں۔ یہ کل ڈپازٹس کا 3 فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ ان بینکوں کو کم از کم 25 فیصد کمرشل قرضہ جات دینے کا پابند بناتے ہوئے مقامی آبادی کو سیاحت اور چھوٹی صنعت میں سرمایہ کاری کیلئے حکومتی سرپرستی میں سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں جس کے ذریعے سے بڑے پیمانے پر اسی ڈھانچے کے اندر روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس نظام کے اندر حکمران اشرافیہ کا کوئی بھی منصوبہ سرمایہ دار حکمران طبقے کے مفادات کے برعکس ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کے علاوہ اس کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تاہم ان مسائل کو مطالبات کا حصہ بناتے ہوئے سیاسی جدوجہد میں نہ صرف اجاگر کیا جا سکتاہے بلکہ ان کے گرد عوامی مزاحمت کو منظم کرتے ہوئے عوامی طاقت کے ذریعے کم از کم بہتری کے کچھ اقدامات کروائے جا سکتے ہیں۔

گزشتہ 50 سال میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 995 ملین ٹن معدنیات اس خطے سے نکالی جا چکی ہیں۔ تاہم یہ اعداد و شمار بہت کم ہیں۔ اصل میں اس سے بہت زیادہ معدنیات نکالی جا چکی ہیں۔ اے کے ایم آئی ڈی سی کے مطابق اس خطے میں 700 ارب روپے مالیت کے منرلز موجود ہیں۔ یہ اعداد و شمار بھی اصل صورتحال سے کافی کم ہیں۔ جنگلات بھی اس خطے کی آمدن کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ 73 سال قبل 48 فیصد رقبہ پر جنگلات موجود تھے جو اب 42 فیصد رقبہ تک محدود ہو چکے ہیں۔ جنگلات کا کٹاؤ تیزی سے جاری ہے۔

بیرون ملک سے آنے والا زرمبادلہ بھی اس خطے کی آمدن کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کی عدم موجودگی کے باوجود ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ 8 سے 10 ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر اس خطے کے محنت کش دنیا کے مختلف ملکوں سے ارسال کرتے ہیں۔ تاہم وہ ترسیلات زر اس خطے کے اپنے بینکنگ نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس خطے کے باسیوں کے کسی کام نہیں آ رہے ہیں۔ سوائے اس کے کہ ان ترسیلات زر کے نتیجے میں حاصل رقوم سے ان کے خاندان یہاں خریداری کرتے ہیں اور ایک کنزیومر مارکیٹ جنم لیتی ہے۔ اسی کنزیومر مارکیٹ کی بنیاد پر تقریباً دو لاکھ افراد کو چھوٹے کاروبار کے طور پر روزگار میسر ہے۔ بینکنگ نظام کے قیام سے ان ترسیلات زر کو استعمال کرتے ہوئے مقامی سطح پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور آزادانہ تجارت کی بنیادیں رکھی جا سکتی ہے۔

مقامی سطح پر جمع ہونے والے جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں، جو پاکستان کی وفاقی حکومت جمع کرتی ہے، سے پاکستانی حکومت مقرر کردہ شیئر بھی اس خطے کے بجٹ کیلئے فراہم نہیں کرتی۔ مقامی سطح پر ٹیکس نظام بھی بڑے پیمانے پر ریونیو جمع کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم مقامی حکمران اشرافیہ کی اطاعت گزاری اور اس خطے کے باسیوں کے استحصال اور محکومی کو دوام دینے کی قیمت پر حاصل کیے گئے اقتدار کے باعث یہ اقدامات اٹھانے کی جسارت کی جانا ممکن نہیں ہے۔

اس خطے کے لوگوں نے بار بار اس نظام کو چیلنج کیا ہے۔ نو آبادیاتی تسلط کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ تاہم قیادتوں کی غداریوں، دھوکہ دہی اور نظریاتی دیوالیہ پن کی وجہ سے عوامی ابھار کو ہمیشہ پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سماج میں ہونے والے انہی واقعات اور تجربات سے محنت کش اور نوجوان سیکھتے ہیں۔ ماضی کے تمام تر تجربات نوجوانوں کو نئے امکانات کو دیکھنے اور جدوجہد کے نئے راستے تلاشنے پر مجبور کریں گے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی حمایت کرنے اور ان سے حمایت لینے کے باہمی تعاون کے عمل سے اس جدوجہد کے عمل میں ایک جست لگ سکتی ہے۔ بار بار قیادتوں اور ریاست کی جانب سے پہنچائے گئے زخموں سے گھائل نوجوان اور محنت کش اس نظام کو چیلنج کرنے کی روش کو ترک کرنے والے نہیں ہیں۔ تاہم محکوم اور استحصال زدہ عوام کی نئی نسل کو قیادت کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے اس خطے کے معروض، وسائل اور مستقبل کی تعمیر کے حوالے سے نئے مطالبات اور پروگرام ترتیب دینا ہوں گے۔ محنت کش طبقات کا اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے طبقاتی مفادات کیلئے فیصلہ سازی کرنے کا عمل ہی اس خطے کی معاشی اور سیاسی غلامی سے نجات کی جانب سفر کا آغاز کر سکتا ہے۔