ظفر اللہ

عالمی معیشت، سیاست اور سفارت ایک نئے مرحلے اور نئی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے۔ طویل عرصے تک معمولی تبدیلیوں اور محرکات کے ساتھ معروض بظاہر معمول کے مطابق چل رہا ہوتا ہے۔ جبکہ مختلف عوامل اور عناصر سطح کے نیچے مسلسل نشونما پا رہے ہوتے ہیں جو پھر نئی صورت حال کو بڑے واقعات کی شکل میں منظر عام پر لانا شروع کر دیتے ہیں۔ 2008ء کے بحران کے بعد عالمی سرمایہ داری کو کوئی طویل اور دور رس استحکام نصیب نہیں ہو سکا۔ کوئی ایسا ’بیرونی عامل‘ ایجاد نہیں ہو سکا جو ایک طویل ابھار کا باعث بنتا۔ جیسا دوسری عالمی جنگ کے بعد ہمیں نظر آتا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے استحکام کے دورانئے مختصر ہوتے چلے گئے ہیں اور عدم استحکام معمول بن گیا ہے۔ پچھلے ایک سال سے ایسے چھوٹے اور درمیانے درجے کے جھٹکے سامنے آ رہے ہیں جو بڑے پیمانے پر معاشی و ماحولیاتی بحرانات کا موجب بن سکتے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ میں ایک سوئس اور تین امریکی بینک دیوالیہ ہوئے ہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن اور پھر روس یوکرائن جنگ کے بین الاقوامی معیشت پر معیاری اثرات جیسے عوامل کی یہ بینک پیش بینی نہیں کر سکے۔ ان واقعات سے تحریک پکڑنے والے عالمی سطح کے بلند افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑھائی جانے والی شرح سود کی وجہ سے یہ مالیاتی ادارے پیسوں کی کمی کا شکار ہو کر دیوالیہ ہو گئے۔ اگر چہ وقتی طور پر امریکی حکومت نے بیل آؤٹ کی شکل کے اقدامات کر کے ممکنہ سماجی ہیجان کو کنٹرول کر لیا ہے مگر یہ وقتی اقدامات ہی نظر آ رہے ہیں۔ یہ واقعات ایک بڑے پیمانے کے ممکنہ بحران اور انہدام کے ابتدائی اشارے ہو سکتے ہیں جس کی اصل وجہ پیداواری شعبے کی زوال پذیری ہے۔ ان بینکوں کی طویل المدتی حکومتی بانڈز میں کم شرح سود پر سرمایہ کاری اور موجودہ بلند شرح سود کے فرق سے ہونے والے نقصان اور ’لیکویڈیٹی‘ (ڈالروں کا ناپید ہونا) کے بحران نے ان کو موجودہ صورت حال سے دو چار کر دیا ہے۔ جلد یا بدیر بحران بڑے مالیاتی اداروں کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔ یہ ہولناک انہدام ہو گا جو 2008ء سے زیادہ بڑے پیمانے، گہرائی اور وسعت کا حامل ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ نے کہا ہے کہ ”سطح کے نیچے ایک انتشار پنپ رہا ہے اور صورت حال انتہائی نازک ہے۔ افراط زر چند ماہ قبل کے اندازے کے مقابلے میں زیادہ اور لمبے عرصے تک رہے گا۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سخت مانیٹری پالیسی (شرح سود میں اضافہ وغیرہ) مالیاتی شعبے پر انتہائی سنجیدہ منفی اثرات مرتب کرے گی۔“ آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ نے مزید کہا ہے کہ ”اگر چہ بینکنگ سسٹم 2008ء کی نسبت کہیں زیادہ لچکدار اور جھٹکے برداشت کرنے کا اہل ہے مگر پالیسی سازوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا غلط ہو سکتا ہے۔ پہلے ہم کسی انفرادی ادارے کی ناکامی…. کو ایک الگ تھلگ واقعہ قرار دیتے تھے جبکہ ایسا نہیں تھا۔“

عالمی سامراجی اداروں کے یہ پالیسی ساز اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ حالات کافی دگرگوں ہیں۔ لیکن ایک بحرانی کیفیت میں آپ ان سارے عوامل کو دیکھتے ہوئے بھی ان کو کنٹرول کرنے اور ان پر مکمل طور پر حاوی ہونے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ سرمائے کی معیشت و مالیاتی نظام کا ایک پیچیدہ مظہر ہے۔ حالات تیزی سے کسی بڑے واقعے کے رونما ہونے کی چتاونی دے رہے ہیں۔ عالمی معیشت کی 2023ء کی گروتھ کا تخمینہ 2.8 فیصد اور 2024ء کا 3 فیصد لگایا گیا ہے جو 2028ء تک اسی سطح پر رہ سکتی ہے۔ اتنی شرح نمو بھی بہترین صورتوں میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ جمود‘ بلکہ گراوٹ کا تناظر ہے۔ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا گیورگیورا نے کہا ہے کہ ”1990ء کے بعد عالمی معیشت میں یہ کمزور ترین پیش منظر ہے۔“ اس پس منظر میں مرکزی بینکوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ افراط زر کو نیچے لانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور پہلے کورونا وبا اور بعد میں توانائی بحران کی وجہ سے دی گئی مالیاتی امداد کو مکمل ختم کریں۔ یہ وہ نسخہ ہے جس پر تمام ممالک پورے زور و شور سے عمل درآمد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ پالیسیاں نئے سیاسی، معاشی اور سماجی تضادات کو بھڑکا رہی ہیں۔

ایک طویل عرصے کے عالمی معاشی عدم استحکام اور سست روی کا تناظر ہمارے سامنے ہے جو سیاسی و سماجی انتشار کا باعث بنے گا۔ افراط زر سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں ہوشربا اضافے کی اپنی محدودیت ہے جو پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ عالمی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق یہ ”ہارڈ لینڈنگ“ یعنی اچانک اور تیز معاشی گراوٹ پر منتج ہو سکتی ہے۔ عالمی کساد بازاری کے امکانات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ اس میں کچھ وقت بھی لگ سکتا ہے۔

ایسے میں پاکستان جیسے ممالک بارے آئی ایم ایف کی رپورٹیں بہت تشویشناک ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق اکیانوے کم آمدنی والے ممالک قرضوں کے شدید دباؤ میں ہیں۔ ان ممالک کی آمدن کا اوسط اٹھارہ فیصد قرضوں اور سود کی ادئیگی میں 2023ء میں خرچ ہو گا۔ پاکستان دیوالیہ پن کے شدید خطرے سے دوچار ہے جس کی 2023ء کی سالانہ آمدنی کا 47 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو گا۔ یہ ایک ہولناک صورت حال ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ میں ان ممالک کو قرضوں میں ریلیف دینے کی بحث ہو رہی ہے مگر مشکلات بہت ہیں۔ اس وقت پاکستان کا انتہائی تشویشناک چیلنج کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہے جس نے اسے تقریباً دیوالیہ کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری التوا کا شکار ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری نہیں دیتا تو پاکستان کے پاس خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ یہ اس سامراجی نظام میں پاکستان جیسے ممالک کی سالمیت اور خودمختاری کی حقیقت ہے۔ معروف ماہر معیشت ثاقب شیرانی کے مطابق ”پاکستان کو جلد از جلد آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنا چاہیے۔ ورنہ قرضوں کی واپسی سے معذوری ظاہر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔“ حکومت نے پہلے ہی آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، 1300 ارب کے نئے ٹیکسوں کی منصوبہ بندی اور تین سو ارب روپے کے ٹیکس فوری طور پر نافذالعمل کر کے عوام پر معاشی حملہ کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف چار ارب ڈالر کے شارٹ فال کی دوست ممالک سے فوری گارنٹی کا طلبگار ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اس مرتبہ آسانی سے قابو نہیں آ رہے۔ نواز شریف کا حالیہ دورہ سعودی عرب اسی تناظر میں ہو رہا ہے۔ یہ سو پیاز اور سو جوتے کھانے کے مترادف ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے باوجود بھی پاکستان کا معاشی اور مالیاتی مسئلہ دور رس بنیادوں پر حل ہونے والا نہیں ہے۔ بے تحاشہ قرضوں کے بوجھ اور درآمدی معیشت کی خاصیتوں کا حامل یہ ملک چھ ماہ سے ایک سال کے دوران دوبارہ اسی بحران کا شکار ہو گا۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے پنپ رہا تھا اور جو اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں بالخصوص عالمی معیشت کی نئی طرز اور زراعت اور صنعت کی بڑے پیمانے پر تباہی نے ملک کو اس کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔ اس نظام میں کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔

روپے کی قدر میں دیوہیکل گراوٹ نے جہاں قرضوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے وہاں تاریخی مہنگائی نے معیشت اور عوام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں گروتھ کا اس سال کا تخمینہ صرف 0.4 فیصد لگایا گیا ہے۔ جو معیشت کے سکڑاؤ کے زمرے میں ہی آتی ہے۔ اس کا مطلب مزید ہزاروں فیکٹریوں یا کارخانوں کی بندش، زرعی شعبے اور صنعت میں گراوٹ اور لاکھوں لوگوں کی بیروزگاری ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور 45 فیصد افراط زر کے ساتھ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس کے عام لوگوں اور معیشت پر خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

یہ سب اچانک سے نہیں ہوا ہے۔ ان حالات و واقعات کا تجزیہ و تناظر انہی صفحات پر ہمارا رجحان ایک لمبے عرصے سے پیش کر رہا ہے۔ صورتحال میں اب معیاری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ معیشت کی اس خستہ حال‘ بلکہ دیوالیہ کیفیت کی عکاسی ہمیں ریاست، سیاست اور سماج میں واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ ریاستی تضادات کی شدت بھڑک کر منظر عام پر آ چکی ہے۔ ریاست کے اعلیٰ ترین ادارے نہ صرف منقسم ہیں بلکہ سر عام آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ یہ غیر معمولی کیفیت ہے۔ مقدس سمجھے جانے والے ادارے جیسے فوج اور عدلیہ وغیرہ، جن کے ذریعے غیر جانبداری کے لبادے میں ریاست سماج پر اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے، اپنے ہی داخلی تضادات کا شکار ہو کر عوام کے سامنے اپنا تقدس تار تار کر چکے ہیں۔ انصاف کے مندر میں بیٹھی اندھی دیویوں کا ٹکراؤ اور دھڑے بندی جہاں بھونڈے انداز میں عوام کے سامنے آشکار ہو رہی ہے وہیں محنت کش عوام کے اجتماعی شعور کو آگے بڑھانے کا موجب بھی بن رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں اور نفسیات سے جہاں ان اداروں کی غیرجانبداری، پارسائی اور تقدس کے لبادے تار تار ہو رہے ہیں وہاں یہ احساس بھی ابھر رہا ہے کہ یہ درحقیقت مختلف مالیاتی مفادات کے حامل گروہ اور دھڑے ہیں۔

حکمران دھڑوں کی لڑائی کی شدت انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ درمیانے طبقے کی مختلف پرتیں مختلف سمتوں میں جھول رہی ہیں اور پولرائزیشن روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے۔ مڈل کلاس کے سیاسی طور پر سب سے زیادہ متحرک حصے فی الوقت عمران خان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں جو ان کے اندر کی بے چینی اور اضطراب کی علامت ہے۔ زیادہ تر کاروباری و نوکری پیشہ سفید پوش یا نسبتاً متمول طبقات کے یہ لوگ ایک سنجیدہ سیاسی متبادل کی پیروی یا تلاش کی بجائے سماجی اور معاشی استحکام کی خواہش میں روایتی سیاسی پارٹیوں کی دہائیوں کی لوٹ مار اور ناکامی کے رد عمل میں تحریک انصاف کے گرد متحرک ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف در اصل ان کا اپنا سیاسی عکس ہے جو کسی بھی قسم کے سنجیدہ سیاسی پروگرام سے عاری ایک طرح کی لمپن بورژوازی کی نمائندہ ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کروانے نہ کروانے کی تکرار کے اس تھیٹر اور رسہ کشی نے ریاست کے اندر موجود دراڑوں کو کہیں زیادہ واضح کیا ہے۔ عمران خان عجلت میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی شدید فرسٹریشن کا شکار ہے جبکہ پی ڈی ایم کی شکل میں اقتدار پر براجمان گروہ عوام پر شدید مہنگائی و بیروزگاری جیسے معاشی حملوں، اقتصادی بحران اور مزدور دشمن پالیسیوں کے نفاذ سے کی وجہ سے الیکشن سے گریزاں ہے۔ ریاست کے ’فیصلہ کن‘ ادارے اور افراد بھی عمران خان کو دوبارہ برسر اقتدار میں دیکھنے کے خواہشمند کم ہی ہیں مگر یہ ٹکراؤ جب اپنی انتہاؤں کو پہنچتا ہے تو کسی بڑے نقصان سے بچنے اور ممکنہ عوامی بغاوت کے خوف سے پھر بیک ڈور مذاکرات کے سلسلے بھی جاری ہو جاتے ہیں اور ریاستی ادارے ان مذاکرات میں مصالحت کا کردار بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی ریاستی اور سیاسی تصادم میں سارا بند و بست ہچکولے کھا رہا ہے۔ سیاسی میدان میں ایک طرف پیپلز پارٹی و ن لیگ وغیرہ کی شکل میں ایک بد عنوان دھڑا بر سر اقتدار ہے جس سے محنت کش عوام‘ بالخصوص نوجوان شدید نفرت کرتے ہیں۔ یہ دہائیوں سے عوام کا خون چوس کر ان کی بربادی اور ذلت کے ذمہ دار بنے ہیں۔ دوسری طرف نو دولتیوں اور درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں کی حمایت پر مبنی نیم فسطائی رجحان ہے جو اپنی عارضی اور کمزور مقبولیت کے نشے میں بدمست ہو کر ظاہری طور پر ریاست اور اس کی پرانی ٹیموں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔ محنت کش طبقے کے مفادات کے نمائندہ کسی سیاسی رجحان کی عدم موجودگی ہی ان رجعتی رجحانات کے درمیان تصادم کی طوالت کا بڑا سبب ہے۔ معاشی گراوٹ اور طویل المدت عدم استحکام کے تناظر کی اس کیفیت میں اقتدار کا کھیل بہت نازک اور خطرناک ہے۔ ریاست کی رٹ مسلسل کمزوری کا شکار ہے اور اس کی سماج پر گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ دراصل اس کیفیت میں جہاں ایک طرف عوام شدید معاشی مشکلات اور سماجی مسائل کا شکار ہوں اور دوسری طرف نظام کی داخلی تقسیم انتہاؤں کو چھو رہی ہو تو ریاست اور حکمران طبقے کے پاس وہ اعتماد ہی نہیں ہوتا جس سے وہ سماج پر اپنی گرفت مضبوط کر سکیں اور اپنی سیاسی اتھارٹی قائم کریں۔ اس کے نتیجے میں سماج میں انتشار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور عملاً انارکی یا نیم انارکی کی کیفیت کا راج ہوتا ہے۔ کسی بھی ممکنہ ریاستی جبر یا معاشی حملے کے نتیجے میں ایک عوامی بغاوت کے مشتعل ہونے کے کہیں زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اس کیفیت میں ریاست ایک تقسیم اور تذبذب کا شکار ہونے کے باوجود زیادہ جابر اور زہریلی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ روایتی سیاسی پارٹیوں سے مایوسی اور بیگانگی اور کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں محنت کش عوام بڑے پیمانے کے کسی ترقی پسندانہ سیاسی اظہار کی بجائے خاموشی سے کنارہ کشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو پھر حکمران طبقات کی لوٹ اور باہمی لڑائیوں میں طوالت کا باعث بنتی ہے۔ یہ طبقے کی نفسیات، معروض کی کیفیت اور انقلابی متبادل کی تکون کی جدلیاتی شکل ہے جسے ایک انقلابی رجحان کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی انقلابی پارٹی بغیر انقلابی تحریک کے حاوی سیاسی افق پر نمودار پر نہیں ہو سکتی۔ اور محنت کش طبقہ بغیر انقلابی پارٹی کے نجات کی منزل حاصل نہیں کر سکتا۔ ایک انقلابی پارٹی معروض میں مسلسل اپنے آپ کو محنت کش طبقے کے سامنے ایک متبادل کے طور پر منوانے کی جدو جہد کر رہی ہوتی ہے۔ ایک انقلابی کیفیت ہی طبقے اور پارٹی کو اس تاریخی سنگم پہ جوڑتی ہے جہاں صدیوں کے استحصالی نظام سے نجات کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔