رک کہن

تلخیص و ترجمہ: شفا

(اسرائیل گزشتہ کئی مہینوں سے سیاسی عدم استحکام، احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کی لپیٹ میں ہے جن میں حالیہ دنوں تیزی آ گئی ہے۔ زیر نظر مضمون، جو تقریباً ایک ہفتہ قبل آسٹریلیا کے مارکسی جریدے ’ریڈ فلیگ‘ (سرخ پرچم) میں شائع ہوا، موجودہ صورتحال کے پس منظر کی وضاحت کرتا ہے۔)

بڑی بڑی آنکھوں والی آٹھ یا دس سال کی چھوٹی سی بچی قدرے پرسکون اور مدھم آواز میں الجزیرہ کے ایک صحافی کو بتاتی ہے کہ فروری کے آخر میں مغربی کنارے کے ایک فلسطینی قصبے حوارا میں اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ”ہمیں گھر کے باہر سے آوازیں آنے لگیں۔ میں اپنے کمرے کی کھڑکیوں کی طرف چلی گئی لیکن وہاں گولیاں چل رہی تھیں۔ اس لئے میں فرش پر لیٹ گئی۔ پھر انہوں نے کھڑکیاں توڑ دیں۔“

یہ ایک بچی کا آنکھوں دیکھا منظر تھا جو اسرائیلیوں اور ان کی نسل پرستانہ ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف دہائیوں کی طویل جارحیت کے سب سے زیادہ تکلیف دہ واقعات میں سے ایک تھا۔ حوارا اسرائیلی آبادکاروں کی طرف سے ایک حملے کا شکار تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں یہ یہودی‘ فلسطینیوں کے مبینہ تشدد کی جوابی کارروائی کا دعویٰ کرتے ہوئے علاقے میں گھس گئے۔ انہوں نے بلے اٹھائے ہوئے تھے جن سے انہوں نے کھڑکیاں توڑ دیں۔ پٹرول گاڑیوں اور گھروں پر چھڑک کر انہیں آگ لگا دی۔ ہوائی فائرنگ کی۔ مقامی فلسطینیوں پر حملہ آور ہو گئے۔ یہ مناظر وحشت ناک تھے۔ فلسطینی زمین پر لیٹے اورسہمے ہوئے تھے۔ یہ ایک بلوہ تھا۔

اسرائیلی فوج نے قصبے تک تمام رسائی پہلے سے بند کر کے اور اس ہجوم کو داخلے کی اجازت دے کر حملے کی سہولت کاری کی۔ اس سے ڈاکٹروں اور صحافیوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد ہو گئی۔ اسرائیلی حکومت میں فسطائی سیاست دانوں نے اس کارروائی کی بھرپور حمایت کی۔ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ”ایک مقید اور جل کے راکھ ہو چکا حوارا… میں یہی دیکھنا چاہتا ہوں…. میں جلتے ہوئے گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔“

دوسرے سیاستدان قدرے ”اعتدال پسند“ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ہوا وہ مثالی نہیں تھا۔ بلکہ اسرائیلی فوج کو اس طرح کی کارروائیوں کا انچارج ہونا چاہیے۔ لیکن یہی تو اسرائیلی فوج کرتی آ رہی ہے۔ جس میں غزہ پر باقاعدہ بمباری، اسرائیل کے اندر رہنے والے فلسطینیوں پر جبر میں مسلسل اضافہ اور فلسطینی شناخت کے کسی بھی پہلو بشمول فلسطینی پرچم لہرانے کو روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔

یہ بات ناقابل تردید ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران فلسطینیوں کی صورت حال مزید گھمبیر ہو چکی ہے۔ اسرائیلی ریاست مزید دائیں طرف جھک چکی ہے۔ 2018ء کے بعد سے اسرائیل میں شدید سیاسی عدم استحکام رہا ہے جس کی عکاسی پارلیمان ’کنیسٹ‘ کے متعدد انتخابات میں ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں متناسب ووٹنگ کے نظام کے نتیجے میں بہت سی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ مارچ 2021ء کے انتخابات کے نتیجے میں آخرکار نفتالی بینیٹ اور یائر لیپڈ کی قیادت میں حکومت بنی جس کا لبرل اور قدامت پسندوں کا اکثریتی اتحاد گزشتہ سال جون میں ٹوٹ گیا۔ نومبر 2022ء کے انتخابات میں سابق وزیر اعظم نیتن یاہو، جو کہ کنیسٹ کی سب سے بڑی جماعت ’لیکود‘ کا سربراہ ہے جس کی 120 میں سے 32 نشستیں تھیں، کی قیادت میں ایک اور اکثریتی حکومت بنی۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے مذہبی اور دائیں بازو کی حکومت ہے جس میں فسطائی عناصر بھی شامل ہیں۔ کنیسٹ میں اس وقت دس جماعتیں ہیں۔ حکومتی اتحاد چھ پر مشتمل ہے۔

لیکود کی سیاست دائیں بازو کی صیہونیت سے نکلتی ہے۔ عملی وجوہات کی بنا پر لیکود نے ”عظیم تر اسرائیل“ جس میں غزہ، مغربی کنارے اور اردن کے کچھ حصے بھی شامل ہیں، کے خیال سے خود کو کچھ دور کر لیا ہے۔ لیکن یہ مغربی کنارے کی نو آبادکاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو بین الاقوامی قانون اورخود اسرائیلی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔

لیکود کی انتخابی بنیادوں میں سے ایک مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے یہودی ہیں جنہیں میزراہیم کہا جاتا ہے جو اسرائیل کی یہودی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ اشکنازی یہودیوں (یہ یورپی وراثت کے حامل ہیں جو اسرائیل میں دوسرا بڑا یہودی گروپ ہیں) کی اشرافیہ اور فلسطینی آبادی کے خلاف میزراہیم یہودیوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔

نیتن یاہو کے خلاف مختلف جرائم کے چار مقدمات عدالتوں میں ہیں لیکن اس کے وزیر اعظم رہنے تک مقدمات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ (اقتدار میں رہنے کی) اسی مجبوری کے تحت وہ خاص طور پر اپنے اتحادیوں کی طرف سے دباؤ کا شکار ہے۔

اس حکومتی اتحاد میں ایک فسطائی تنظیم ”جیوش پاور“ بھی شامل ہے جس کا لیڈر اتمار بن گویر قومی سلامتی کا وزیر ہے جو مغربی کنارے میں ایک نوآبادکار ہے اور سزا یافتہ دہشت گرد ہے۔ ان کی سیاسی جماعت ”کہانسٹ“ ہے جو یہودیوں کی بالادستی ثابت کرنے کی غرض سے مذہبی جوازات تراشتی ہے۔ یہ ریاست کی طرف سے ”یہودی قانون“ کے نفاذ، نسل پرستی، نسلی تطہیر (Ethnic Cleansing) اور مغربی کنارے پر باضابطہ قبضے کے ذریعے توسیع پسندی کی حمایت کرتی ہے۔ کہانسٹ فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث رہ چکے ہیں۔ کاچ (عبرانی میں ”لہٰذا“)، جو ’جیوش پاور‘ کی سیاسی پیش رو تنظیم تھی، پر اسرائیل اور امریکہ میں دہشت گرد تنظیم کے طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 1995ء میں کاچ سے منسلک ایک شخص نے لیبر پارٹی کے وزیر اعظم یتزاک رابن کو قتل کر دیا تھا۔

اس اتحاد میں مذہبی صیہونی پارٹی بھی شامل ہے جس کا رہنما بیزالل سموترچ (ایک اور نوآبادکار جو خود کو ”فسطائی ہوموفوب“ قرار دے چکاہے) وزیر خزانہ ہے اور صہیونی کالونیوں کے ذمہ دار کے طور پر مغربی کنارے میں شہری امور کا انچارج ہے۔ یہ جماعت آبادی پر یہودی مذہبی قانون نافذ کرنا چاہتی ہے۔

حوارا کے بلوے کے بعد سموترچ نے ٹویٹ کیا: ”حوارا کو مکمل طور پر مٹانے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اسرائیل کی ریاست کو یہ کرنا چاہیے۔“ اس نے حال ہی میں عظیم تر اسرائیل کے نقشے، جس میں اردن کا علاقہ بھی شامل تھا، کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ فلسطینی لوگ ایک ”اختراع“ ہیں۔ فلسطینیوں کے وجود سے انکار کا اظہار صہیونی نعرے ”سرزمین کے بغیر لوگوں کے لیے لوگوں کے بغیر ایک سرزمین“ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ دونوں فسطائی پارٹیاں مشترکہ ٹکٹ کے ذریعے چودہ سیٹیں جیت کر کنیسٹ میں تیسرا سب سے بڑا گروپ اور حکومت میں دوسرا بڑا گروپ بنی ہیں۔

اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے اس حکومت نے سپریم کورٹ کو قابو کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ عدالت بھی دائیں بازو کی ہے لیکن حکومت کا یہ اقدام نہ صرف نیتن یاہو کو ذاتی اور قانونی تحفظ فراہم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں، خواتین اور ایل جی بی ٹی لوگوں پر مزید جبر کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ یہ فسطائی عناصر مغربی کنارے میں مظالم ڈھانے والی اسرائیلی مسلح فورسز کے لیے قانونی استثنیٰ چاہتے ہیں۔

اس مجوزہ عدالتی تبدیلی کے خلاف احتجاجی تحریک 7 جنوری کو شروع ہوئی۔ پہلے احتجاج میں 20,000 سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔ لیکن اس کے بعد سے مظاہرے ہفتہ وار یا زیادہ کثرت سے ہونے لگے اور ڈرامائی انداز میں شدت اختیار کر گئے۔

اسرائیلی فورسز نے جنوری کے اواخر میں مغربی کنارے میں جینین پناہ گزین کیمپ پر دھاوا بولا جس میں دس افراد ہلاک ہو گئے۔ اس طرح کے حملے کوئی نئی بات نہیں۔ اسرائیلی مسلح افواج نے 2022ء میں 30 بچوں سمیت 170 فلسطینیوں کو قتل کیا۔ لیکن اس حملے کا وقت اور جلد ہی جیریکو کے عقابت جبر کیمپ اور بعد میں نابلس شہر پر مہلک حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ فلسطینیوں کو بھڑکانے کی واردات ہے تاکہ لوگوں کو اسرائیلی قوم پرستی کی بنیاد پر اکٹھا کیا جا سکے۔

ایک ماہ بعد دو یہودی آبادکاروں کو حوارا کے قریب ایک فلسطینی جنگجو نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ معاملات میں بالکل اسی قسم کی شدت اسرائیلی حکومت چاہتی تھی۔ اسی رات حوارا والا بلوہ ہوا تھا۔

اس کے باوجود حکومت کی جانب سے محاصرے کی ذہنیت اور قومی اتحاد قائم کرنے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ احتجاج جاری رہے اور شدت اختیار کرتے گئے۔ ڈاکٹروں، ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں و دیگر نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ فوج کے ریزرو سپاہیوں نے بھی احتجاج میں حصہ لیا اور ٹریننگ لینے سے انکار کر دیا۔ مظاہرین نے تل ابیب میں اہم سڑکوں کو بلاک کر دیا ہے جس میں ایالون ہائی وے بھی شامل ہے جو ایک اہم انٹرسٹی فری وے ہے۔

احتجاج کے منتظمین کے مطابق 26 مارچ کو اسرائیل بھر میں ہونے والے مظاہروں میں 600,000 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین اس وقت مزید پرعزم ہو گئے جب نیتن یاہو نے وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو مجوزہ عدالتی اصلاحات پر تنقید کرنے پر برطرف کر دیا (اس نے کہا تھا کہ یہ اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچائیں گی)۔

ہستادرت یونین فیڈریشن نے 27 مارچ کو ایک عام ہڑتال کا اعلان کیا جس کی کچھ بڑی کارپوریشنیں بھی حمایت کر رہی تھیں۔ رسمی صدر آئزک ہرزوگ نے قانون سازی کے عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ حکومت کے حامی چھوٹے مظاہرے بھی ہوئے جن کی حوصلہ افزائی بن گویر نے کی۔ بشمول یروشلم جہاں حکومت کے حامی مظاہرین نے فلسطینیوں پر حملہ کیا۔

اس رات نیتن یاہو نے عدالتی قانون سازی کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دیا اور فسطائیوں کی سہولت کے لیے بن گویر کے ماتحت ایک نیشنل گارڈ قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 2,000 پر مشتمل مضبوط نیشنل گارڈ میں ممکنہ طور پر ظالمانہ بارڈر پولیس کے افسران شامل ہوں گے اور رضاکاروں کو بھرتی کیا جائے گا۔ اس سے فسطائیوں کو فلسطینیوں اور اس کے ساتھ ہی انتہائی دائیں بازو کے یہودی سیاسی مخالفین پر حملہ کرنے کے لیے ایک ملیشیا مل جائے گی۔

حکومت نے حساب لگایا ہے کہ عدالتی قانون سازی کو ملتوی کرنا اسے دوبارہ حمایت حاصل کرنے کا وقت دے گا۔ ایک جنگ یا کم از کم بڑھتے ہوئے فوجی تنازعات اسے ایسا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس لیے مزید اشتعال انگیزی کا امکان موجود ہے۔ نہ صرف مغربی کنارے پر حملے اور غزہ پر بمباری بلکہ دیگر ہمسایہ ریاستوں کے خلاف جارحیت بھی کی جا سکتی ہے۔ اس سے قبل شام میں دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میزائل حملوں کے بعد دمشق کے قریب فضائی بمباری کی جا چکی ہے۔

اس کے باوجود احتجاج جاری ہیں جن میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ عدلیہ سے متعلقہ قانون سازی مکمل طور پر ختم کی جائے اور نیتن یاہو مستعفی ہو۔ یکم اپریل کو سڑکوں پر 165,000 سے زیادہ لوگ موجود تھے۔

اسرائیلی سیاست میں ابھرنے والی تقسیم صیہونیت یا نسلی تطہیر کے گرد بھی نہیں ہے۔ مغربی کنارے میں یہودی کالونیاں 1967ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے پھیل رہی ہیں۔ مسئلہ اس عمل کی رفتار کا ہے۔

اسرائیلی سرمایہ دار طبقے کا بڑا حصہ (سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے) بینکوں سے رقوم کے اخراج اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے خاتمے سے پریشان ہے۔ وہ سیاست دان جو حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد مزید قانونی تبدیلیوں کے ذریعے اقتدار سے مستقل طور پر خارج ہونے سے ڈرتے ہیں۔ اور عام یہودی اسرائیلی موجودہ محدود جمہوریت کو لاحق خطرے سے پریشان ہیں۔

لیکن لیکود اور فاشسٹ یا تو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرمائے کے اخراج کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں یا یہ سمجھتے ہیں وہ اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے بعد اس صورت حال کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ اسرائیل سے باہر کے لبرل صیہونیوں اور ملک کے مضبوط اتحادیوں جیسے کہ امریکہ کی تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عدالتی اصلاحات پر امریکی صدر بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان مارچ کے آخر میں کھلم کھلا تلخ کلامی ہو چکی ہے۔ لیکن سعودی عرب اور چین کے قریبی تعلقات کے پیش نظر ان کا اتحاد قائم ہے کیونکہ اسرائیل مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں امریکی پالیسی کے لیے اہم ہے۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت میں ثالثی کی ہے اور وہ سعودی عرب کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چنانچہ اسرائیل امریکہ کا سب سے قابل اعتماد اتحادی ہے اور مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ طاقتور فوج رکھتا ہے۔

کچھ فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی ہے لیکن ان کو اکثر اوقات مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ ان مظاہروں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی تشکیل دیتے ہیں جن کے شرکا کی اکثریت صیہونی ہے۔

نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات سے فلسطینیوں پر ظلم بڑھے گا اور مغربی کنارے میں نوآبادکاری کے عمل میں تیزی آئے گی۔ یہ نسل پرستانہ اسرائیلی جمہوریت کو ایک آمرانہ حکومت میں تبدیل کرنے کا راستہ کھول دیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ہم فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کے لیے اپنی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ اور غیر جمہوری بنیادوں پر تنقید کرتے ہیں اور تاریخی طور پر فلسطین کی سرزمین پر ایک جمہوری و سیکولر ریاست کی وکالت کرتے ہیں۔