عالم یار

فریڈرک اینگلز نے 150 سال پہلے ایک کتاب’خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘ کے نام سے شائع کی تھی جس میں یہ بتایا گیا کہ کیسے خاندان معرض وجود میں آیا اور ملکیت کا تاثر پیدا ہوا۔ انسان نے کیسے زمین اور زمین پر موجود مختلف چیزوں کو ملکیت میں لانا شروع کیا اور کس طرح زمین انسانوں کی ملکیت بنتی گئی۔ آخر ایک ایسا وقت آیا کہ ریاست کے وجود کی ضرورت بن گئی اور غلام داری، بادشاہت اور جاگیرداری نظام شروع ہوا۔ ان نظاموں سے پہلے انسان آزاد تھا۔ وہ پوری زمین پہ کہیں بھی زندگی گزار سکتا تھا۔ ریاستیں جب نہیں تھیں تب انسان ایک گروہ کی شکل میں رہتے تھے جنہوں نے قبیلے کی شکل اختیار کر لی۔ اُن قبیلوں کے لوگ اپنے لئے ایک سردار یا رہنما منتخب کرتے تھے۔ وہ سردار قبیلے کی مرضی سے منتخب ہوتا تھا۔ اگر وہ صحیح رہنمائی نہیں کر سکتا ہوتا تو پھردوسرا سردار منتخب کر لیا جاتا اور اگر سردار مر جاتا تو ایسا نہیں تھا کہ اس کا بیٹا ہی سردار بن جاتا بلکہ قبیلہ بیٹھ کر اچھی خاصیتوں کی بنیاد پر کوئی اور سردار منتخب کر لیتا تھا۔ اس سردار کی ذمہ داری یہ تھی کہ اگر قبیلے کے لوگ آپس میں کسی چیز پر ایک دوسرے سے ناراض یا گتھم گتھا ہو جاتے تو سردار ایمانداری اور انصاف سے ان کے درمیان خیر کا فیصلہ کرتا تھا لیکن جب سرمایہ داری اور سامراجیت شروع ہوئی تو جس طرح نظام بدلا اسی طرح ہر چیز نظام کے ساتھ بدلی اور یہ سردار انگریزوں کے دور میں انگریز منتخب کرتے تھے اور قبیلے کے لوگوں سے میر، ملک، خان، نمبردار، وڈیرے اور نواب وغیرہ کے ذریعے ٹیکس لیتے تھے اور اس ٹیکس میں ہر میر، ملک، نمبردار، سردار اور نواب کا حصہ ہوتا تھا اور اگر قبیلے کا کوئی فرد ٹیکس دینے سے انکار کرتا تو انگریز یہ ٹیکس میر، ملک اور سردار کے حصے سے کاٹ لیتے تھے۔ یوں قبیلوں کے یہ بڑے سامراجی اور طبقاتی نظام میں استحصالی کردار کے حامل ہو گئے۔

جس طرح فریڈ رک اینگلز نے کتاب میں خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا ذکر کیا ہے اسی طرح ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ خاندان میں جائیداد اور ملکیت پر مرنے مارنے کی حد تک جھگڑے عام ہوتے ہیں۔ حالیہ بارکھان واقعہ کو بھی اگر ہم اس نظام اور تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو ہمیں کافی کچھ سمجھ آئے گا۔ سردار عبدالرحمان کھیتران اور خان محمد مری کا رابطہ 2017ء سے شروع ہوتا ہے جب خان محمد مری کا لاپتہ بھائی سردار کھیتران کی کوششوں سے مل جاتا ہے۔ اس واسطے خان محمد مری سردار کا باڈی گارڈ بن جاتا ہے اور خان محمد مری سردار کے لئے ہر قربانی اور کام کے لئے تیار ہو جاتا ہے کیونکہ سردار صاحب نے جو اتنی مہربانی کی اور خان محمد مری سردار کیلئے قتل و غارت بھی کرتا رہتا تھا۔ اسی دوران سردار صاحب اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کا آپس میں جا ئیداد و معتبری پر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی دوران انعام کھیتران نے ڈی جی خان میں والدکے بنائے ہوئے بنگلے پر قبضہ کر لیا جس کی مالیت کروڑوں میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئلے کی دو لیز پر بھی قبضہ کر لیا جس کی مالیت تقریباً چھبیس کروڑ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردار اور سردار زادہ کے درمیان باقاعدہ دشمنی شروع ہو گئی۔ سرداروں کے اس جھگڑے کے درمیان خان محمد مری بدستور استعمال ہوتے رہے۔ اس دوران سردار صاحب نے خان محمد پر زور دیا کہ انعام کے خلاف گواہی دے لیکن خان محمد مری نے آخرکار اس فرمان سے انکار کیا اور فرار ہونے پر مجبور ہوا۔ اِدھر سردار نے خان محمد کا پورا خاندان قید میں رکھ لیا۔ ایسے میں گراں ناز کی ویڈیو سامنے آئی اور جس لڑکی نے انعام کے لئے ویڈیو بنائی تھی وہ قتل کر دی گئی اور ابھی تک لاوارث ہے۔ چار دن اس کی لاش پر دھرنا بیٹھا رہا۔ جو خان محمد کے خاندان کی بازیابی کی وجہ بنی۔ اس سے پہلے تو وہ لڑکی خان محمد کی بیوی بتائی گئی تھی لیکن جب پوسٹ مارٹم ہوا تو وہ ایک 18 سالہ نا معلوم لڑکی نکلی جسے انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ اس نظام کے یہ بڑے معتبر لوگ کس قدر حیوان اور ظالم ہو تے ہیں۔ دھرنے میں جو مطالبات رکھے گئے تھے وہ یہ تھے کہ خان محمد کا خاندان قید سے آزاد ہو اور سردار کو گرفتار کر کے انصاف کے لئے کمیشن بنا یا جائے۔ بظاہر تو یہ سارے مطالبے پورے ہو گئے اور دھرنا ختم بھی ہو گیا ہے لیکن اس دوران ایک مائل نامی بلوچ لڑکی جو سی ٹی ڈی کی طرف سے اٹھائی گئی تھی اس کے لئے الگ دھرنا بیٹھ گیا اور جو لا وارث لاش تھی اس کو انتظامیہ سرکاری طور پر دفنانے لے گئی۔

نئے دھرنے میں موجود عوام، جس میں بلوچ، پشتون اور ہر قوم اور پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، کہہ رہے ہیں کہ سرداری نظام ایک لعنت ہے جسے ختم کیا جانا چاہئے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ اس طرح کی قومی اور قبائلی رنجشوں اور جھگڑوں کو طول دے کر قبیلوں کو آپس میں دست و گریبان کراتا ہے اور اپنے ظالم مقاصد اور عزائم حاصل کر تا ہے۔ اب سوال اس نظام پر آتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کتنا تعفن پھیلا رہا ہے۔ اس نظام میں غریب عوام کو کچھ دینے کی بجائے سب کچھ چھینا جاتا ہے جس میں ریاست سے لے کر اس کے گماشتے یہ میر، ملک، وڈیرے، سردار، نواب، کارپوریٹ میڈیا اور اس نظام کے دوسرے ادارے سب شامل ہیں۔ اس نظام کو ختم کیے بغیر اور ایک نیا سوشلسٹ نظام نافذ کیے بغیر انسان اور اس زمین پر رہنے والے ہر ذی روح کی زندگی زندگی نہیں ہو سکتی۔ اصل میں سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف انسان کو جکڑے رکھا ہے بلکہ اس سیارے میں موجود ہر سائیکل کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ جاگیرداری اور قبائلی پسماندگی کی استحصالی باقیات کے خاتمے کے لئے سرمایہ داری کا خاتمہ ضروری ہے۔