الترنیتیوا سوسیالستا (سوشلسٹ متبادل)
برازیل کے صدارتی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کے حکمران صدر بولسنارو کو شکست ہو چکی ہے۔ ورکرز پارٹی (پی ٹی) سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے سابق صدر لولا 1.8 فیصد (21 لاکھ ووٹ) کی برتری سے کامیاب ہو چکے ہیں۔ عوام کی اکثریت نے محنت کش طبقے اور غریبوں کے خلاف جنگ کو مسترد کر دیا ہے اور یہ سماج میں بڑھتی ہوئی معاشرتی پولرائزیشن کا اظہار ہے۔ ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے جہاں محنت کش عوام کو منظم ہو کر اپنی حاصلات کا دفاع کرنا ہو گا، مزید حاصلات جیتنی ہوں گی اور سیاسی آزادیوں، گلیوں اور چوراہوں کو فتح کرنا ہو گا۔ ایک فیصد کے مفادات کا تحفظ کرنے والی کسی بھی حکومت پر اعتماد کیے بغیر اکثریتی آبادی کے مفادات کو آگے بڑھانے کا یہی واحد راستہ ہے۔
لولا کی فتح کی خبر سنتے ہی ایک عوامی جشن شروع ہو چکا ہے۔ بولسنارو کووڈ کی وبا کے دوران پانچ لاکھ سے زیادہ اموات کا ذمہ دار ہے۔ یہ سابقہ فوجی افسر ایمازون کے جنگلات اور ماحولیات کی تباہی کا بھی ذمہ دار تھا اور صحت و تعلیم سمیت تمام عوامی سہولیات پر مسلسل حملوں میں سرگرم تھا۔ وہ برازیل کے عوام کی جمہوری حاصلات، خواتین، ایل جی بی ٹی کیو، قدیم مقامی آبادیوں اور سیاہ فاموں کا کھلا دشمن تھا۔
برازیل کے بڑے اخبارات اپنے اداریوں میں لولا کو بائیں بازو کی بجائے ”درمیانی“ راستہ اختیار کرنے، کٹوتیوں اور دوسری کاروبار اور سرمایہ نواز پالیسیاں اپنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ لولا نے خود بھی انتخابی مہم کے دوران ”برازیل کے تمام لوگوں کے درمیان امن اور اتحاد“ کا وعدہ کیا ہے اور کاروباریوں اور کارپوریشنوں کو یقین دلایا ہے کہ ”برازیل پھر سے پیداوار کرے گا۔ ہم ایک سنجیدہ سرمایہ داری تعمیر کریں گے۔“ اس کی حکومت کی اہم وزارتوں کے لیے بڑے کاروباری اور نیو لبرل ماہرین معیشت کے نام سننے میں آ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے تیسرے دور صدارت کے لیے لولا بورژوازی کے مطالبات اور ”بہتر کاروباری ماحول“ کی خاطر سیاست میں میانہ روی کی پالیسیاں اپنانے کے جانب راغب ہے۔
برازیل کے بڑے اخبارات اسے لولا کی کامیابی سے زیادہ بولسنارو کی شکست قرار دے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ لولا اور پی ٹی 90ء کی دہائی کی عوامی تحریک سے بہت دور کھڑے ہیں اور ان کی کامیابی کی ایک وجہ تیسرے متبادل کا موجود نہ ہونا بھی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہے کہ لولا ایک فیصد امیروں اور کاروباریوں کے مفادات کی خاطر 99 فیصد عوام پر بوجھ ڈالنے کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کر پائے گا یا پھر ایک فیصد کے منافعوں کی خاطر ایک نئی طبقاتی مفاہمت کرے گا۔
پہلے سے ہی بولسنارو کے حامیوں کی جانب سے ایک کُو (Coup) کے خطرے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ابھی تک ایسا کچھ ہوا نہیں لیکن انتہائی دائیں بازو کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو ملک کی سب سے بڑی ریاست اور معاشی مرکز ساؤ پالو کو کنٹرول کرتے ہیں۔ پارلیمان میں پچاس فیصد کے قریب نشستوں کے ساتھ سب سے بڑا گروپ ان کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ بولسنارو کو سڑکوں پر عوام اور محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ساتھ شکست دینا ضروری ہے۔ بولسنارو حکومت کی انتخابی شکست ضروری تھی اور اس سے محکوم عوام کو شکتی ملی ہے لیکن اسے ایک عوامی جدوجہد کی تعمیر اور تحریک سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے کھوئے ہوئے حقوق کے حصول اور مزید حقوق جیتنے کا یہی راستہ ہے۔
لولا دائیں بازو کے دباؤ میں ہے۔ محنت کشوں کو تحریک سے پیچھے ہٹ جانے اور بورژوا اداروں پر اعتماد کرنے کا کہہ رہا ہے۔ اسی لیے سڑکوں پر جدوجہد کو تیز تر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور سوشل ڈیموکریسی کے دلربا گیتوں سے بہل جانے سے بچنا ہو گا۔
اب چیلنج یہ ہے کہ اس جشن میں ظاہر ہونے والی عوامی قوت کو منظم کیا جائے، ”بولسنارو ازم“ کو شکست دی جائے، حاصلات کا دفاع کیا جائے اور ہر طرح کے حملوں کا مقابلہ کیا جائے۔ خواہ وہ انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ہوں یا پھر لولا کی ”قومی یکجہتی“ کی مخلوط حکومت کی جانب سے۔ اگرچہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس مرتبہ پھر محنت کش عوام سے نئی حکومت پر تنقید نہ کرنے اور ”قومی اتحاد“ اور بولسنارو کو دوبارہ حکومت میں آنے سے روکنے کے نام پر ”صبر اور تحمل“ کا مطالبہ کیا جائے گا۔
برازیل میں ہر طرح کے ترقی پسندوں کے ساتھ مباحثے ہوں گے۔ سوشل ڈیموکریٹوں کے ساتھ جو بورژوازی کے حاشیہ بردار بن چکے ہیں یا ان کے ساتھ بھی جو ”نظام کو اندر سے تبدیل“ کرنے کے اصلاح پسندانہ نظرئیے اور طبقاتی مفاہمت کی حکومت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری تعمیر کردہ پارٹی ’پی ایس او ایل‘ (PSOL) میں بھی ایسی بحثیں ہوں گی۔
پی ایس او ایل ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں لولا کے لیے ووٹ کرنا درست تھا۔ لیکن پہلے مرحلے میں صدر اور ساؤ پالو جیسی اہم ریاستوں کے گورنروں کے لیے اپنے امیدوار نہ کھڑے کرنا پارٹی قیادت کی اکثریت کی جانب سے ایک سنجیدہ غلطی تھی جس سے پارٹی کمزور ہوئی ہے۔ پی ایس او ایل نے خود کو لولا اور پی ٹی کے پیچھے تحلیل کر لیا اور عوام کے سامنے ایک بائیں بازو کے متبادل کے طور پر پیش نہ ہو سکے۔ اور اب ایک مرتبہ پھر ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ خود کو لیفٹ اپوزیشن کے طور پر تیار کرنا ہو گا اور سرمایہ داروں کی حکومت کے خلاف محنت کش طبقے کے مفادات کا پروگرام دینا ہو گا۔ چناچہ یہ محض ایک اور بحث نہیں بلکہ فیصلہ کن بحث ہو گی جو کہ پی ایس او ایل کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
ہم بائیں بازو کے آزادانہ متبادل کی تعمیر اور دفاع کا کام جاری رکھیں گے۔ جو محنت کشوں اور محکوموں کی ہر روز کی جدوجہد میں مداخلت کرے اور ان کی حکومت کے قیام کے لیے لڑے۔ انتہائی دائیں بازو اور سینٹر کا لبادہ اوڑھے لبرل دائیں بازو اور ہمارے حقوق پر حملہ آور کسی بھی حکومت کے خلاف لڑنے کا یہی طریقہ ہے۔ برازیل میں ہم الترنیتیوا سوسیالستا اور ’سوشلسٹ جدوجہد‘، جو پی ایس او ایل کے اندر رجحانات ہیں، کی رابطہ کمیٹی کے ایک نئے مشترکہ انقلابی پراجیکٹ میں سرگرم عمل ہیں۔ آج ہم اس فتح کا جشن منا رہے ہیں لیکن ہم یہاں رکیں گے نہیں۔ ہم اس سے آگے کی جدوجہد کریں گے۔