اویس قرنی

طلبہ یونین پر جنرل ضیا کی لگائی گئی پابندی کو 37 برس بیت چکے ہیں۔ ان تین دہائیوں سے زائد کے سیاسی اندھیر میں طلبہ کی دو نسلیں جوان ہوئی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ترقی پسند اور انقلابی طلبہ کے زبردست احتجاجوں اور مظاہروں کی بدولت طلبہ یونین ایک دفعہ پھر موضوعِ بحث ضرور بنی ہے لیکن یہ ابھی تک کام کا ایک حصہ ہی ر ہا ہے۔ طلبہ یونین پر اخباروں اور ٹیلی ویژن و سوشل میڈیا پر بحثوں کا آغاز ہوا اور طلبہ سمیت معاشرے کی ہر پرت میں یہ سوال از سر نو ابھرا۔ لیکن آج بھی طلبہ کا یہ سوال کہ ”طلبہ سیاست کیوں؟“ بالکل جائز ہے۔ یہ اپنے اندر ایک بلند تر شعور کا اظہار بھی ہے۔ آج کے طلبہ صرف نعروں اور احتجاجوں سے متاثر ہو کر محض جذباتی طور پر سرگرمیوں کا حصہ بننے سے زیادہ سوچ، سمجھ اور سوال کر کے میدان عمل میں اترنے کے خواہاں ہیں۔ یہ سوال جتنا اہمیت کا حامل ہے اس سے کہیں زیادہ اہم اس کا جواب ہے۔ جو بنیادی طور پر آج کے انقلابی طلبہ کی اولین ذمہ داری بن جاتی ہے۔

سیاست کو تو ویسے ہی ایک گالی اور دھوکہ دہی کا نام بنا دیا گیا ہے اور طلبہ سیاست تو صرف انتظامیہ کی کاسہ لیسی، خوشامد، غنڈہ گردی، دھونس اور بدمعاشی کی ہی آئینہ دار بنا دی گئی ہے۔ آج کے طلبہ ایسی سیاست میں حصہ ہی کیوں ڈالیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے سوائے دھونس اور بدمعاشی کے کچھ بھی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ طلبہ سیاست کی یہ حالیہ شکل حکمران طبقے کی شعوری واردات ہے۔ ورنہ طلبہ سیاست ایسی کبھی نہ تھی۔ بلکہ طلبہ سیاست کا ماضی ہی حکمرانوں کے لئے ایک ایسا ڈراونا خواب ہے جس کی تعبیر سے پہلے انہوں نے اس عظیم روایت کو کچل ڈالا۔ جس کی قیمت آج پورا معاشرہ چکا رہا ہے۔ لیکن یہ حکمرانوں کے لئے منافع بخش سودا تھا۔

تعلیم جیسے عظیم شعبے کو آج دیگر چیزوں کی طرح مارکیٹ میں بکنے والی ایک چیز بنا دیا گیا ہے۔ تعلیم کی نجکاری کے ذریعے تعلیمی اداروں کی فروخت میں ہر دور حکومت کی سیاسی پارٹیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ فعال طلبہ یونین جیسی دیوہیکل طاقت کی موجودگی میں تعلیم کا یہ گھناﺅنا کاروبار ناقابل عمل تھا۔ عالمی اداروں کی مرتب کر دہ نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کے لئے لازم تھا کہ طلبہ یونین اور طلبہ سیاست کے امکانات کو ہی مٹا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ضیا آمریت کی لگائی گئی پابندی کو کوئی بھی جمہوری حکومت ہٹانے سے گریزاں رہی۔ بلکہ طلبہ یونین پر پابندی کا سب سے بڑا فائدہ یہاں کی نام نہاد جمہوریت کی علمبردار قیادتوں کو ہوا۔ ایک طرف مزاحمت کے استوار ہونے کا راستہ ہی ختم کر دیا گیا تو دوسری جانب سرمائے کی بھیانک پالیسیوں کو نافذ کیا گیا اور آج تعلیم کا کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ آج تمام بڑے شہروں کے پلازوں میں ”اعلیٰ تعلیمی ادارے“ نوٹ چھاپنے کی مشینیں بن گئے ہیں۔ وہ مقدس ادارے جہاں سے مستقبل کی استواری ہونی تھی آج دھندوں کے اڈے ہیں۔ آج کے تعلیمی اداروں کا آرکیٹکچر دیکھ کر ہی انسان ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک افراتفری سی معلوم ہوتی ہے۔ عمودی زاویوں پر استوار کمروں کے ڈربوں میں نئی سوچیں کیسے پروان چڑھ سکتی ہیں۔ گو کہ پرانے تعلیمی اداروں کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں لیکن چند بچ جانے والے اداروں پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو کالجوں، یونیورسٹیوں‘ حتیٰ کہ سکولوں کے وسیع و عریض گراونڈوں اور کھلے اور پر فضا کمروں میں ایک سکون اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے میں منافع کی ہوس پر علم اور تعلیم کی فوقیت کو منوانے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ ہر فرد کی مفت اور معیاری تعلیم تک رسائی اور تعلیم کے اس دھندے کو روکنے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ طلبہ سیاست اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئے روز کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اضافے کو بند کر ڈالا جائے۔ پرائیویٹ تعلیم ادارے مسلسل فیسوں میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی سالانہ بنیادوں پر فیسوں میں مسلسل اضافہ کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ ملکی معیشت جو اپنے جنم سے ہی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی کی گئی تھی آج بستر مرگ پر ہے۔ مہنگائی اور افراط زر میں مسلسل اضافے کے پیش نظر عام عوام سے تعلیم کا حق چھینا جا رہا ہے۔ آج والدین کو ایک بچہ پڑھانے کے لئے باقیوں کا مستقبل قربان کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم کی مفت فراہمی کے بنیادی حق کو یہاں کے محنت کشوں نے ایک لڑائی لڑ کر تسلیم کرایا تھا اور آئین کا حصہ بنوایا تھا۔ آج اس حق کے حصول کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔

آج طلبہ سیاست اس لئے بھی ضروری ہے کہ نوجوان اپنی زندگی جی سکیں۔ زندگی کو صرف گزاریں نہیں۔ آج کا تعلیمی نظام نوجوانوں سے زندگی کی ہر رعنائی چھین رہا ہے۔ سمسٹر سسٹم نے فرصت کا ہر لمحہ چھین لیا ہے۔ چھ مہینوں کے سمسٹر میں ہر وقت طالبعلم یا کسی امتحان میں ہوتا ہے یا متوقع امتحان کی تیاری کر رہا ہوتا ہے اور اس دوران اسائنمنٹس، پراجیکٹس اور کوئزز وغیرہ کا مسلسل تناو برقرار رہتا ہے۔ نوجوانوں کو مشین بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اجاگر کرنے سے عاری یہ نظام تعلیم مکمل طور پر انسانوں کی شکل میں مشینی پُرزے تخلیق کر رہا ہے۔ اس کے خلاف سوچنا اور عمل کرنا ہی طلبہ سیاست ہے۔ اپنی زندگی کے حسین لمحات اس نظام سے چھیننے کے لئے آج طلبہ سیاست ضروری ہے۔

یہ نظام ِتعلیم چند پروفیسروں اور انتظامیہ کے کارندوں کو یہ طاقت فراہم کرتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ حاضری سے لے کر مِڈ ٹرم اور انٹرنل اور فائنل تک کے نمبر مجبور کر دیتے ہیں کہ طلبا و طالبات مطیع ہو جائیں۔ کوئی ایسی بات نہ کریں جو ’سر‘ یا ’میڈم‘ کو ناگوار گزرے۔ اور وہ جو بھی آپ پر ناگوار گزرنے والی حرکات کریں اس کو چپ چاپ سہا جائے۔ اس اذیت اور بے بسی کا ذکر کرنا تو شاید آسان ہے لیکن اس اذیت سے گزرنے والوں کے زخم کبھی بھی نہیں بھرتے۔طلبہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور پھر باقی زندگیوں میں دوسروں کو ایسے رویوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ آج کے تعلیمی نظام میں اگر اس ہراسانی کے خلاف کوئی بولنے کا سوچے بھی تو اس سے بھی پہلے اپنے مستقبل کا سوچے۔ اپنے گھر اور اپنے وجود کا سوچے۔ بڑا مشکل ہو تا ہے برداشت کرنا لیکن یہاں کی خصوصاً طالبات یہ سب برداشت کرنے اور گھٹن میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں عزتیں پامال ہوتی ہیں۔ اس درندگی اور سفاکیت کو روکنے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔

رجعت اور بنیاد پرستی کا جو زہر جنرل ضیا کے دور میں گھولا گیا تھا آج اس کے اثرات سماج کا تانا بانا توڑ رہے ہیں۔ وہ دہشت جس کی آبیاری یہاں کے حکمران طبقات نے دہائیوں سے کی آج افغانستان میںوحشت کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ طلبہ سیاست کو مجروح کرنے کے لئے انتظامیہ اور حکمرانوں نے جس جمعیت کے منہ کو خون لگایا آج وہ فسطائیت بن کر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں دھونس اور بدمعاشی کو مذہب کا چولا پہنایا گیا۔ ریاستی سرپرستی میں غنڈہ گردی اور اسلحے کو فروغ دیا گیا۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی طرف سے ایسی کالی طاقتوں کا خصوصی خیال رکھا گیا۔ لیکن آج یہ سب دم توڑ رہا ہے۔ یہاں کے طلبہ نے رجعت کو ایک نظریے کے طور کبھی قبول نہیں کیا۔ اس رجعت کے ریاست اور انتظامیہ کے زیر سایہ پھلنے پھولنے کی ایک عمر تھی ‘جو تمام ہو رہی ہے۔ جب جب طلبہ نے یک جان ہو کر ان عناصر کا مقابلہ کیا تب تب رجعتی عناصر کی جعلی ہیبت کا پردہ چاک ہوا ہے۔ آج تعلیمی اداروں میں رجعتی عناصر کی غنڈہ گردی دراصل بوکھلاہٹ ہے جس کے ذریعے یہ اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ کھوکھلی رجعت زیادہ وحشت پر آمادہ ہے لیکن اس رجعت کے خلاف مزاحمت کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔

طلبہ کی منظم طاقت سے خوفزہ حکمران طبقات نے ایک منظم سازش کے ذریعے انہیں تقسیم در تقسیم کیا۔ قوم، زبان، صنف، مذہب اور ثقافت کو تعصبات میں بدل کے مختلف رنگوں کے پھولوں کے گلستان کو ویرانے میں بدل دیا گیا۔ یکجہتی کو توڑا گیا اور نفرتوں کی آبیاری کی گئی۔ لڑائی جھگڑوں کو انتظامیہ اور حکمرانوں کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے لیکن باہمی کھیل اور ثقافتی میل جول پر پابندیاں ہیں۔ طلبہ کی جڑت کو یقینی بنانا ہی طلبہ سیاست کا نصب العین ہے۔ ایک ایسا ماحول کہ جہاں ہر ثقافت اپنی منفرد خاصیت کے ساتھ دیگر ثقافتوں سے ہم آہنگ ہو۔ جہاں سُر سنگیت کا تبادلہ ہو۔ بیت بازی جیسے لطیف مقابلے ہوں۔ کھیلوں کو میدان جنگ کی بجائے ایک مثبت سرگرمی میں ڈھالا جائے۔ یہ احساس ہی طلبہ سیاست کی بنیاد ہے۔ اس لئے طلبہ سیاست لازم ہے۔

ہاسٹلوں کی رونقیں بحال کرنے کے لئے بھی طلبہ سیاست ضروری ہے۔ کیمپس کی زندگی کے سب سے حسین لمحات ہاسٹلوں کے کمروں اور بالکنیوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج تو ہاسٹل ملنا ہی غنیمت ہے۔ اول تو تعلیمی اداروں کے ہاسٹل ہیں ہی نہیں۔ جس پر پھر ایک پورا پرائیویٹ ہاسٹلوں کا مافیا پلتا ہے اور جہاںابھی تک ہاسٹلوں کی سہولت میسر ہے وہاں کے کمرے کسی ویران حویلی کے گوداموں کا تاثر دیتے ہیں۔ کمرے کی صلاحیت سے دو گنا طلبہ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔ نہ سردی میں گرمی کی سہولت ہے اورنہ جھلسا دینے والی گرمیوں میں ٹھندک کا کوئی بندوبست۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ ایک مسلسل عذاب ہے جس میں مستقبل کی معماروں کو پڑھنے کی سزا دی جا رہی ہوتی ہے۔ میس کی کیفیت زیادہ دگر گوں ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں ایک پورا ڈھابہ کلچر استوار ہوا تھا۔ آج اس پر بھی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ ہاسٹل کسی جیل کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں اور ہاسٹل انچارج خود کو جیل وارڈن سمجھتے ہیں۔ شام ہوتے ہی گیٹ پر تالے ایسے نصب کر دیئے جاتے ہیں جیسے کوئی آجڑی شام کے وقت اپنے مویشیوں کو ٹھکانے لگاتا ہے۔ وقت کی اس بندش کا کوئی مناسب جواز ہی نہیں بنتا۔ طالبات کے لئے تو یہ بندش ایک سزا کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہ سب قدغنیں صرف شعور کو مسخ کرنے اور سماجی و ثقافتی گھٹن کو بڑھانے کے لئے لگائی جاتی ہیں ۔ اچھی، معیاری، صحت بخش اور جدید سہولیات سے آراستہ رہائش اور کھانا ہر طالبعلم کا بنیادی حق ہے جس کی آواز طلبہ سیاست ہے۔

ایک وقت تھا جب یونیورسٹیوں کے پوائنٹس سے یہاں کے عام ضرورت مند شہری بھی مستفید ہوتے تھے۔ یونیورسٹیوں کی بسیں آج کی بڑی بڑی پرائیوٹ کمپنیوں کی بسوں سے کہیں زیادہ بہتر اور آرام دہ ہوا کرتی تھیں۔ لیکن آج کی بسوں کی حالت زار دیگر تمام شعبہ جات کی طرح دگر گوں ہے۔ نہ طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور نہ ان کی مناسب مرمتیں ہوئیں۔ انتظامیہ کی ملی بھگت میں اس شعبے کی کرپشن کی ایک الگ ہی داستان ہے۔ لیکن آج کی بسیں چلتے پھرتے موت بانٹ رہی ہیں۔ آئے روز کسی طالبعلم کی بس کی خستہ حالی کے سبب موت کی خبر سننے کو ملتی ہے۔ اس جرم کے خلاف بولنے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہو چکی ہے۔

کیمپس کو دوبارہ زندگی بخشنے کے لئے طلبہ سیاست لازم ہے۔ آج کے کیمپس کسی چھاونی کا منظر دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو سماج سے کاٹ کر گھٹی ہوئی دنیا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ کیمپس ایسے بھی نہ ہوتے تھے۔ بلکہ کیمپس تو زندگی کی وہ حسیں تجربہ گاہ تھے جہاں سوچوں کو نئے افق ملتے تھے۔ زندگانی کو نئے زاویے ملتے تھے۔ محبتوںاور یارانوں کی داستانیں رقم ہو تی تھیں۔ لٹریچر اور ادب کے شاہکار جنم لیتے تھے۔ لیکن آج سب بنجر ہے۔ ایک اندھی دوڑ ہے جس میں سب ہانکے جا رہے ہیں۔ مقابلہ بازی کی نفسیات کو پروان چڑھانے جیسے قابل نفرت اقدام آج کے کیمپس کی خاصیتیں ہیں۔ کہیں مل بیٹھ نہیں سکتے۔ کہیں گنگنا نہیں سکتے۔ سوچوں پر پہرے ہیںاور محبتوں پر قدغنیں۔ جتنا جبر کیمپس سے باہر ہے اس کے کہیں زیادہ اندر ہے۔ نہ یہاں کی تعلیم عہد نو کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ ایک وقتی جگاڑ ہے جس کے بعد ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی اذیت ناک داستان کا آغاز ہے۔ ان اذیتوں سے چھٹکارے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ سوچوں پر لگے پہرے ہٹانے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔

یہاں کے حکمران طبقے نے ہم سے ہماری تاریخ چھین لی ہے۔ ہر وہ رجعت جو اس جابر نظام کی غلامی سکھائے کو تعلیم میں ٹھونسا گیا۔ قومی، صنفی و لسانی تعصبات اور شدت پسندانہ رحجانات سے کتابوں کو داغدار کر دیا گیا ہے اور محکوموں کی ہر مزاحمت کو تاریخ سے ہی خارج کر دیا گیا۔ اس سر زمین پر مظلوموں و محکوموں کی ایسی بغاوتیں رہی ہیں جنہوں نے جابر حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ یہاں کے محنت کشوں نے آمریتوں تک کے تختے الٹے۔ لیکن ہمارے درخشاں ماضی کو حکمرانوں نے یاداشتوں سے مٹا کر رکھ دیا ہے۔ ہر موقع پرست اور غدار کو ہیرو بنا دیا گیا ہے ا ور اصل سورماﺅں کے نام تک حذف کر لیے گئے۔ اپنے اصل ماضی کو تاریخ کے پنوں پر لانے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ آج کی نئی نسل کو اپنے محنت کش اجداد کی جرات و طاقت کا ادارک کرانے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ 68-69ءکے عظیم دنوں کو دوبارہ عمومی شعور میں اجاگر کرنے کے لئے یہ سیاست ضروری ہے۔ وہ ان گنت سرکش دماغ جنہوں نے جبر اور ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جوانیاں لٹائیں اور اپنی جانیں تک قربان کیں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔

طلبہ سیاست اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئندہ کوئی مشال خان کہیں درندگی کا نشانہ نہ بنے۔ کوئی حیات بلوچ بے موت نہ مارا جائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کوئی جنید حفیظ جیسا استاد پس زندان نہ ہو۔ یہ اس لئے بھی لازم ہے کہ کوئی نمرہ خود کشی کی نہج تک نہ پہنچے۔ سب سے بڑھ کر جینے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ آج کے نوجوان کی زندگی کا المیہ بے مقصدیت کا ہے۔ کوئی بڑے خواب نہیں۔ کوئی بڑی سوچ نہیں۔ چہرے اترے ہوئے ہیں اور ایک اذیت ناک خاموشی ہے۔ مستقبل کی سوچ ڈراونے منظر پیش کرتی ہے۔ روزگار، خاندان، ازدواجیت سے بڑھ کر کچھ سوچنے کی ہمت کسی میں نہیں۔ ایک عجیب افراتفری ہے جس میں صرف جگاڑ اور انفرادیت پنپ رہی ہے۔ صرف اپنی سوچ میں سبھی غرق ہیں اور ہر طرف تاریکی ہے۔ رشتے، ناتے، محبتیں، یاریاں اور واسطے سبھی جعلی ہیں۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ یہ اس متروک نظام کا پیدا کردہ ایک ہیجان ہے۔ اس ہیجان سے چھٹکارے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔ معاشرے میں زندہ رہنے کا حق ادا کرنے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔