حارث قدیر

بھارتی حکومت کے گزشتہ سال اگست میں اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اقدام کے بعد چار خصوصی حکم نامے جاری کئے گئے ہیں جن کے تحت متعدد نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے نہ صرف جموں کشمیر کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی آر ایس ایس کی پالیسی کو نافذ کیا گیا ہے بلکہ جموں کشمیر کی قیمتی اراضی، قدرتی وسائل اور ہارٹی کلچر اور ایگریکلچر کو بھارتی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی راہ بھی ہموار کی گئی ہے۔ رواں سال اکتوبر میں جاری ہونے والے چوتھے حکم نامے کے تحت بلدیاتی اداروں اور دیہی پنچائتی نظام میں ترامیم کر کے ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے سے جموں اور کشمیر کے درمیان دوریوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اضلاع اور قبیلوں کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھا کر بی جے پی اور آر ایس ایس کی جڑیں مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اکتوبر میں پنچائتی راج ایکٹ 1989ء میں ترمیم کرنے کیلئے جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے تحت چوتھا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے براہ راست انتخاب کیلئے 8 مرحلوں پر مشتمل الیکشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس الیکشن کے ساتھ شہری بلدیاتی حلقوں اور دیہی پنچائتی حلقوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب بھی کروایاجا رہا ہے۔ یہ الیکشن آٹھ مرحلوں میں انیس دسمبر تک مکمل ہو گا جبکہ اکیس دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ انتخابی مشق منی اسمبلی انتخابات کی طرح ہو گی جس میں دیہی آبادی کو شامل کیا جا رہا ہے۔ تاہم سیاسی حلقے اسے ایک نیا تجربہ قرار دے رہے ہیں جس کے ذریعے سے جموں کشمیر کے باسیوں کو علاقوں، قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم کیا جا ئے گا۔

قانون سازی میں تبدیلی کے بعد ہر ضلع کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کیلئے متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے 14 علاقائی انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو انتخاب کے بعد ان کونسلوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ شہروں کی بلدیہ اور میونسپل کارپوریشن کی حدود ان حلقوں میں شامل نہیں ہوں گی۔ قبل ازیں ضلعی منصوبہ بندی اور ترقیاتی بورڈ میں بلاک ڈویلپمنٹ کونسلوں کے چیئر پرسن، ممبران پارلیمنٹ، ریاستی اسمبلی کے ممبران اور شہری بلدیاتی اداروں کے چیئرپرسن شامل ہوتے تھے۔

ضلعی ترقیاتی کونسلوں (ڈی ڈی سیز) کے انتخابات میں جموں کشمیر کے ستر فیصد دیہی رائے دہندگان کو حق رائے دہی حاصل ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پنچایتوں (دیہی ترقیاتی ادارے) کیلئے 5.81 ملین اور شہری بلدیاتی اداروں کیلئے 1.69 ملین ووٹرز کو حق رائے دہی حاصل ہے۔
یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد کروائے جا رہے ہیں جب آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ سمیت ہند نواز سمجھے جانے والے درجنوں رہنماؤں کو حال ہی میں حراست سے رہائی ملی ہے۔ ہند مخالف سمجھے جانیوالے درجنوں رہنما اور سینکڑوں عام شہری ابھی بھی جیلوں میں مقید ہیں۔

ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات میں نہ صرف جموں میں فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیاد ڈالنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے بلکہ دوسری طرف پہاڑی، گوجری، جمووال، پیر پنجال اور چناب خطے کے مابین تقسیم کو بھی بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس سے سیاسی رہنماؤں کے خدشات کو کسی حد تک تقویت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے اسمبلی کی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ضلعی ترقیاتی کونسل کے حلقوں میں سابق وزرا، ممبران اسمبلی اور ان کے قریبی عزیز انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

گزشتہ سال آرٹیکل 370 کے خاتمے اور جموں کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے بعد بی ڈی سی (بلدیاتی) انتخابات میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنیکی کوشش مکمل طور پر ناکام ہو گئی تھی اور قبل ازیں نومبر اور دسمبر 2018ء میں پنچائتی انتخابات مکمل کروانے میں بھی ناکام ہو گئی تھی اور الیکشن کمیشن کے اپنے نتائج کے مطابق 61.5 فیصد پنچ اور سر پنچ کی نشستیں خالی رہ گئی تھیں جو منتخب نمائندوں کی تعداد سے دگنی تعداد بنتی تھی۔

جموں کشمیر کی تنظیم نو کے بعد 31 مارچ کو پہلا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا جس کے بعد مئی اور اکتوبر میں دیگر حکم نامے جاری کیے گئے تھے۔ ان حکم ناموں کے تحت متعدد ریاستی قوانین کو تبدیل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد متعدد نوٹیفکیشن جاری کیے گئے ہیں جن کے تحت سول سروسز، ڈومیسائل قوانین، تارکین وطن کی رہائش، سرکاری افسران کی تقرری و تحفظ، سرکاری زمینوں کو لیز پر دیئے جانے، سیاحتی مراکز کو بھارتی سرمایہ کاروں کو لیز پر دینے، زرعی اراضی کے کارپوریٹ استعمال، فوج کو من پسند اراضی حاصل کرنے کی کھلی چھوٹ سمیت متعدد ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ پورے جموں کشمیر کو بھارتی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے کیلئے پیش کر دیا گیا ہے اور مزاحمت کو کم کرنے کیلئے ڈومیسائل قوانین میں ہونیوالی تبدیلیوں کے بعد آبادیاتی تبدیلی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

تمام تر قانون سازی اور تبدیلیاں بھارتی حکومت کی جانب سے سامراجی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں۔ جموں کشمیر کے باسیوں کی رائے اور سیاسی و جمہوری مداخلت کے بغیر آمرانہ بنیادوں پر کیے جانے والے ان فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے قتل عام اور فوجی جبر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ، مواصلات پر پابندیوں کے علاوہ میڈیا پر بھی سنسرشپ کو سخت کیا گیا ہے اور ایسے قوانین اپنائے گئے ہیں جن کے ذریعے سے فوجی و نیم فوجی افسران صحافیوں کو بھی گرفتار کر کے سزائیں دے سکتے ہیں۔ عسکریت پسندی کے خلاف جاری آپریشن کے نام پر معصوم شہریوں کو اغوا کرنا، گرفتار کرنا اور تشدد کا نشانہ بنا کر عسکریت پسند قرار دیکر قتل کرنا اور نامعلوم مقامات پر ان کی تدفین کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔

سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں، چاہے وہ بھارت نواز ہوں، علیحدگی پسند یا پاکستان نواز ہوں، بھارت کے ریاستی جبر اور فوجی بربریت سے نجات کیلئے کوئی لائحہ عمل، واضح نظریہ اور پروگرام دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ گزشتہ عرصہ میں ’گپکار ڈیکلریشن‘ کے تحت ہند نواز سمجھی جانیوالی قیادتوں کی جانب سے مزاحمتی تحریک کا اعلان کیا گیا تھا جو جمہوری جدوجہد اور پارلیمنٹ کے ذریعے مسائل حل کرنے کے اصلاح پسند پروگرام کے علاوہ کوئی واضح لائحہ عمل اور پروگرام عوام کے سامنے رکھنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات میں یہ الائنس بھرپور حصہ لے رہا ہے لیکن کئی جگہوں پر مشترکہ امیدوار سامنے لانے میں بھی ناکام ہو گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد قیادتیں کشمیریوں کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہیں۔ بنیادی طورپر جموں کشمیر کا مسئلہ پارلیمانی یا جمہوری نہیں ہے بلکہ پونے دو کروڑ انسانوں کی آزادی کا مسئلہ ہے، فوجی جبر اور قبضے سے آزادی کا مسئلہ ہے، سامراجی تسلط اور سرمایہ دارانہ استحصال اور لوٹ مار سے نجات کا مسئلہ ہے اور سب سے بڑھ کر جموں کشمیر کے وسائل پر اس خطے کے محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کے مشترکہ اجارے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے استعمال کئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ تمام مسائل سرمایہ داری کی تاخیر زدگی اور خطے کی سامراجی مفادات کے تحت کی جانیوالی بندر بانٹ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور جب تک سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی تسلط کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور طبقات سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا یہ تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس نظام کے اداروں کے ذریعے سے اصلاحات اور آزادی کے نام پر مقامی حکمران اشرافیہ اقتدار میں اپنی حصے داری کے حصول کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔

اسی طرح علیحدگی پسند یا پاکستان نواز سمجھی جانیوالی قیادت نے حسب معمول انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ماضی میں مسلح جدوجہد کا طریقہ کار اپناتے ہوئے سامراجی پراکسی کا کردار ادا کر کے ان قیادتوں نے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھایا اور بھارت کے فوجی جبر اور تسلط کو مزید جواز فراہم کیے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی واضح متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے فوجی جبر اور قبضے سے آزادی کیلئے جدوجہد میں قربانیاں دینے والے نوجوانوں کے پاس بندوق کا راستہ اپنانے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں بچ جاتا۔ وہ ماضی کے اسی تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوشش کرتے ہیں جس راہ کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی راستہ۔ صرف موت ہی ہے جو ان نوجوانوں کا دن رات پیچھا کر رہی ہے۔ انفرادی دہشت گردی کے ذریعے سامراجی جبر کے خلاف غم و غصے کا اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن آزادی کی جدوجہد کو استوار کرنے کیلئے پھر متبادل نظریات کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے وسیع تر طبقاتی اتحاد کو قائم کیا جا سکتا ہے اور اس نظام کو شکست دیتے ہوئے ہر طرح کے سامراجی جبر اور قبضے کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے نوجوانوں نے ماضی میں سیاسی جدوجہد کے ذریعے نہ صرف جموں کشمیر بھر میں بلکہ بھارت کے طول و عرض تک اپنی آواز کو پھیلایا ہے اور بھارت میں طلبہ کی تحریک کو ایک نئی جہت فراہم کرنے کا باعث بنے ہیں۔ جلد یا بدیر جموں کشمیر کے نوجوان اور محنت کش اپنے تجربات سے نتائج اخذ کرتے ہوئے پھر ایک تحریک میں اپنا اظہار کریں گے۔ جو نہ صرف جموں کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار کرے گی بلکہ اس خطے کی تمام مظلوم و محکوم قومیتوں کی آزادی اور انقلاب کی منزل کا تعین کرے گی۔