آصف رشید

انسانی سماج کی ترقی کے سب سے ابتدائی دور یعنی قدیم اشتراکی دور، جس میں طبقات، نجی ملکیت اور ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا، کے بعد لوگ جیسے ہی اپنی فوری ضروریات سے زیادہ پیدا کرنے کے قابل ہوئے تو ایک طبقاتی سماج وجود میں آیا۔ اس مقام پر سماج کی طبقات میں تقسیم ایک معقول معاشی جواز بن گئی۔ وسیع تر تاریخی تناظر میں طبقاتی سماج کا ظہور ایک انقلابی مظہر تھا کہ اس نے سماج کے ایک مراعت یافتہ حصے یعنی حکمران طبقے کو مشقت کے براہ راست بوجھ سے چھٹکارا دلایاتاکہ اسے پیداوار، فنون لطیفہ، سائنس اور ثقافت کے فروغ کے لیے درکار ضروری وقت میسر آ سکے۔ سماجی نابرابری، بے رحمانہ استحصال اور عدم مساوات کے باوجو د طبقاتی سماج ہی وہ راستہ تھا جس پر چل کر بنی نو ع انسان مستقبل کے غیر طبقاتی سماج کے لیے ضروری بنیادی مادی شرائط پورا کرنے کے اہل ہو سکتی تھی۔

سماجی ارتقا کے مختلف مراحل میں ریاست کی اشکال بھی تبدیل ہوتی رہیں لیکن اس کا کردار ہمیشہ ایک طبقے کی طرف سے دوسرے طبقے کو دبانے کا ہی رہا ہے۔ بورژوا انقلاب نے جس قومی ریاست کی تشکیل کی وہ آج تک کی تاریخ کی سب سے جدید اور مکمل شکل ہے۔ سرمایہ داری کا تاریخی فریضہ یہ تھا کہ وہ جاگیر دارانہ نظام کی علاقائی تنگ نظری کا خاتمہ کر کے ایک جدید صنعتی معیشت قائم کرے، ایک نئی عالمی تقسیم محنت اور ایک عالمی منڈی کی تشکیل کرے۔ سرمائے کے ارتکاز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وجود میں آنے سے آج سرمایہ داری نظام قومی ریاست کی حدود کو پھلانگ چکا ہے۔ ذاتی ملکیت اور قومی ریاست پیداواری قوتوں کی ترقی میں ایک فیصلہ کن رکاوٹ بن چکی ہیں۔ ماضی میں دو عالمی جنگیں، بڑے پیمانے کی نامیاتی بیروزگاری اور زائد پیداوار کے باعث وقفے وقفے سے آنے والے معاشی بحرانوں نے نسل انسانی کو بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ماضی میں پیداواری قوتوں میں انقلاب برپا کرنے والا سرمایہ داری نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ منافع کی ہوس میں سرمایہ داری قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے لیے آج افریقہ سے ایشیا اور لاطینی امریکہ تک جنگوں، خانہ جنگیوں اور پراکسی جنگوں کے ذریعے بربادی پھیلا رہی ہے۔

ریاست حکمران طبقے کے ہاتھ میں جبر کا آلہ ہے۔ جس کا مقصد نجی ملکیت کا تحفظ ہے۔ جدید پارلیمانی جمہوری ریاستوں میں ریاست کے اس کردار کو آئین، قانون اور عدل و انصاف کے پردے کے پیچھے چھپایا جاتاہے۔ لیکن اصل میں یہ بڑے کاروباریوں، بینکوں اور اجارہ داریوں کی آمریت کو سماج پر مسلط کرنے اور محنت کش طبقے کے استحصال کا طریقہ واردات ہے۔

نجی ملکیت کے تحفظ اور بالادست طبقے کی حکمرانی کو قائم رکھنے اور محکوم طبقے کو دبانے کے لیے ریاست وجود میں آئی۔ ریاست مسلح افراد کے جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے جو جبرکے ذریعے سماج پر حکمران طبقے کی بالادستی کو قائم رکھتی ہے۔ ریاست طبقاتی تضادات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت کے تحت وجود میں آئی تھی۔ اپنی کتاب ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ میں اینگلز ریاست کی تعریف یوں کرتا ہے، ”اس وجہ سے کہ یہ تضادات اور یہ تصادم متضاد معاشی مفادات کے حامل طبقات، سماج اور خود کو ایک لاحاصل جدوجہد میں ختم نہ کر لیں، تصادم کو معتدل بنانے اور نظم و ضبط کی حدود میں رکھنے کے لیے ایک ایسی قوت کا وجود ضروری ہو جاتا ہے جو بظاہر سماج سے بالا تر ہوتی ہے اور یہ طاقت جو سماج سے ابھری ہے لیکن خود کو اس سے بالا تر رکھتی ہے اور بتدریج اس سے بیگانہ ہوتی جاتی ہے، ریاست ہے۔“

عالمی سرمایہ داری کے قومی حدود سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں دنیا کے مختلف پسماندہ خطوں میں سامراجی قبضوں کے ذریعے نو آبادیات کا آغاز ہوا جس کا مقصد وسائل کی لوٹ مار اور نو آبادیاتی ملکوں کی عوام کا استحصال تھا۔ سرمایہ داری کے زوال اور مختلف سامراجی ملکوں کے درمیان مقابلہ بازی کے نتیجے میں دو عالمی جنگوں کے درمیان اور دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی ملکوں میں انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس کی بنیادی وجہ ان ملکوں کی نوخیز بورژوازی کی تاخیر زدگی، نااہلی اور ٹیکنیکل پسماندگی تھی۔ ان ملکوں کی بورژوازی اپنی اس تاریخی نااہلی کے سبب سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سماج کو ترقی دینے سے قاصر تھی۔ افریقہ، ایشیا، مشرق وسطی اور لاطینی امریکہ میں بہت سارے ملکوں میں قومی آزادی کی تحریکیں بورژوا قومی جمہوری انقلابات کی حدود کو پھلانگ کر براہ راست سوشلسٹ انقلابات پر منتج ہوئیں جس میں سرمایہ داری اور جاگیر داری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے تما م ذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لیا گیا، کیونکہ ان ملکوں میں سرماریہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کرنا ممکن نہیں تھا۔ ان ملکوں میں جو ریاستیں تشکیل پائیں وہ روس میں موجود سٹالنسٹ بیوروکریسی کی شکل پر مسخ شدہ مزدور ریاستیں تھیں۔

برصغیر میں کمیونسٹ پارٹی کی غداری اور روسی بیوروکریسی کی کاسہ لیسی کے نتیجے میں ا نقلابی تحریک ناکام ہو گئی اورسامراج نے بٹوارے کے ذریعے اپنے عکس پر جو ریاستیں تشکیل دیں وہ اپنے جنم دن سے ناکام ریاستیں تھیں۔ اپنی تاخیر زدگی اور نا اہلی کے باعث یہ ریاستیں اپنے آغاز سے ہی سامراجی اجارہ داریوں کی دم چھلہ تھیں اور سامراجی ممالک کی امداد کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں تھیں۔ ان ریاستوں کا کردار ایک طرف مختلف خطوں میں سامراجی مفادات کا تحفظ کرنا اور دوسری طرف دوسرے کمزور ممالک میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کرنا ہے۔ نو مولود بورژوازی کی کمزوری اور ایک جدید قومی ریاست کی تشکیل نہ کر سکنے کی وجہ سے پاکستان جیسے ملکوں میں ریاست بورژوا طبقے کی نمائندہ اور آلہ کار ہونے کی حیثیت سے نکل کر ایک نسبتاً آزادانہ وجود کی حامل ہو گئی۔ مختلف ادوار میں ہونے والے فوجی کُو اور بغاوتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بورژوا بنیادوں پر ان ملکوں میں کسی بھی قسم کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن ریاست کی یہ مداخلت ہمیشہ نجی ملکیت کے تحفظ اور بورژوا نظام کو بچانے کے لیے کی گئی۔ بورژوازی کی اس کمزوری کی وجہ سے پاکستان میں فوج نے نہ صرف سیاسی اقتدار میں نمائندگی حاصل کی بلکہ معیشت میں بھی اس کا اثر و رسوخ وقت کے ساتھ ساتھ وسعت اختیار کرتا گیا۔ اور آج یہ پاکستان کی فارمل معیشت میں 120 کمرشل اداروں کی مالک ہے جن کی مالیت تقریباً 20 ارب ڈالر بنتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فوج حکمران طبقہ بن چکی ہے۔ ریاست حکمرانی کا آلہ ہے۔ یہ بذات خود وہ طبقہ نہیں ہو سکتی جو حکمرانی کرتا ہے۔ فوج ریاستی مشینری کا محض ایک جز ہے، جو بحران کے ادوار میں حکمران طبقے سے کسی حد تک خود مختاری حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان جیسے سماج میں حکمران طبقے کی نااہلی اور سامراجی ممالک کی پشت پناہی ریاست کو یہ آزادانہ حیثیت عطا کرتی ہے جسکی وجہ سے وہ ایک طفیل خور کے طور پر نہ صرف قدر زائد کا استحصال کرتی ہے بلکہ عالمی سرمایہ داروں سے اپنا کمیشن بھی وصول کرتی ہے۔ لیکن وہ ایسا نجی ملکیت کے تحفظ کی خاطر کرتی ہے۔ ایسا نازی جرمنی میں بھی ہو چکا ہے اور برطانیہ اور امریکہ میں بھی جنگی معیشت کے سلسلے میں ریاست سرمایہ داروں پر حکم چلاتی تھی کہ انہیں کیا پیدا کر نا ہے اور کیسے پیدا کرنا ہے۔ لیکن اس نے ان ریاستوں ایک حکمران طبقے میں تبدیل نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اقدامات نجی ملکیت کے تحفظ اور بحیثیت مجموعی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے دفاع میں کیے گئے تھے۔

پاکستان میں بورژوا لبرل دفاعی بجٹ کو تمام تر برائیوں اور مسائل کی وجہ قرار دیتے ہوئے سرمایہ داری اور منڈی کی معیشت کو ایک حتمی چیز سمجھ کر ان کو بری الزمہ قرار دے کر سرمایہ دارنہ نظام کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان جیسی لاغر سرمایہ دارانہ معیشت میں ریاست کو برقرار رکھنے کے لیے فوج کے اس کردار کو کم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی جمہوری تحریک کے ذریعے فوج کے کردار کو آئینی حدود کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوری کی وجہ سے بورژوازی کا ریاست اور فوج پر انحصار ناگزیر ہے۔ اگر دفاعی بجٹ کو کم بھی کر دیا جائے اور فوج کو اس کی آئینی حدود تک محدود بھی کر دیا جائے تو بھی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ مسئلہ سرمایہ داری کا ہے۔

پاکستان میں فوج کی یہ حیثیت اس لئے بھی مبالغہ آمیزی کی حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ بحیثیت مجموعی ریاست کمزور ہے۔ وسائل اور تکنیک کی کمی کی وجہ سے ریاست کے دیگر ادارے اس سطح تک ترقی نہیں کر سکے کہ وہ پبلک اقتدار کو ممکن بنا سکیں۔ محروم قومیتوں کے مسائل حل نہ کر سکنے کی وجہ سے پاکستان میں قومی آزادی کی جاندار تحریکوں کا وجود بھی فوج کو حکمران طبقے کے آلہ کار کی حیثیت سے تجاوز کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جب ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے ننگی جارحیت کی جاتی ہے تو ریاستی ادارے اس کی قیمت بھی وصول کرتے ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود فوج حکمران طبقہ نہیں ہو سکتی۔ لاکھوں کی تعداد پر مشتمل فوج عام سپاہیوں، نچلے اور درمیانے درجے کے افسران پر مشتمل ہوتی ہے۔ فوج کا کونسا حصہ حکمران طبقہ ہے؟ ایک عام سپاہی بھی فوج کا اسی طرح کا حصہ ہے جس طرح ایک جنرل۔ فوج بھی سماج کی طبقاتی ساخت کا عکس ہوتی ہے۔ عام حالات کے اندر فو ج میں اس طبقاتی تقسیم کو ڈسپلن اور مراعات کے ذریعے کنٹرول میں رکھا جاتا ہے لیکن جب بھی سماج میں طبقاتی کشمکش شدت اختیار کرتی ہے تو فوج کے اند ر بھی یہ طبقاتی تقسیم واضح ہو کر اپنا اظہار کرتی ہے۔ آج تک کے تمام انقلابات کی تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے۔

پاکستان کی موجودہ کیفیت میں ہمیں حکمران طبقے کے دو دھڑوں میں ایک لڑائی نظر آتی ہے۔جس کا براہ راست نتیجہ ہمیں موجودہ نیم فاشسٹ حکومت کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ہر قسم کی سیاسی اور جمہوری آزادیوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اقلیتوں پر جبر بڑھتا جا رہا ہے اور ریاست ننگی جارحیت کے ذریعے سماج پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج کے سرمایہ دارانہ بحران کے دور میں پاکستان جیسے ملکوں میں بورژوا حکمرانی کو قائم رکھنے کا کوئی اور طریقہ کار نہیں ہو سکتا۔

پاکستان میں تما م سیاسی پارٹیاں اقتدار کے حصول کے لیے ریاستی پشت پناہی پر انحصار کرتی ہیں کیونکہ یہاں کی سرمایہ داری اپنی تاریخی نااہلی کے باعث ایک صحت مند ریاست اور معاشرہ قائم نہیں کر سکی۔ چند ایک استثناؤں کے علاوہ تمام تر سیاسی پارٹیو ں کی تاریخ اسی کردار کی حامل رہی ہے۔ آج تمام تر اپوزیشن پارٹیاں بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے کی اہلیت سے محروم ہو چکی ہیں۔ وہ آج بھی اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہیں۔ ان کی تمام تر مزاحمت ایک ڈھونگ اور فریب ہے۔ وہ اپنے اپنے سامراجی آقاؤں اور مقامی سرمایہ دار دھڑوں کے مفادات کے تحفظ کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ انکی تمام بڑھک بازیاں اقتدار میں حصہ داری کے لیے ہیں۔ بحران اتنا شدید ہے کہ خود ریاست دھڑے بندی کا شکار ہے۔ موجودہ حکومت اور اپوزیشن بھی انہی دھڑوں کے متضاد مفادات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایک امکان موجود ہے کہ اگر ان کی آپس میں کوئی مفاہمت نہیں ہوتی تو صورت حال تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔

سماج ایک نیم رجعتی دور سے گزر رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی عمومی خاموشی کی وجہ سے پاکستان کی ہمیں یہ مخصوص شکل نظر آتی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کی یہ خاموشی حتمی نہیں ہے وہ اپنے اندر اس نظام کے خلاف غصہ اور نفرت مجتمع کر رہا ہے۔ جس کا اگلا مرحلہ ایک بغاوت کی صورت میں پھٹے گا اور سرمایہ داری کی اس بوسیدہ شکل کا خاتمہ کر کے مزدور راج قائم کرے گا۔