بشریٰ عزیز

معیشت کسی بھی نظام کی بنیادی اکائی ہوتی ہے جس کی بنیاد پر اس سماج کے سیاسی اور ریاستی ڈھانچے تشکیل دیے جاتے ہیں اور معاشرے کی اخلاقی قدروں کا تعین بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی عہد کے معروضی حالات انسانوں کے شعور پر ناگزیر طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب سماج ترقی کر رہا ہو تو انسانوں کے شعور میں بھی مثبت تبدلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں، لیکن جب سماج جمود کا شکار ہو تو عمومی شعور بھی گراوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ جس کے باعث ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں امڈ آتی ہیں۔ اس کا اظہار مایوسی، گھریلو تشدد، خود کشیوں، جرائم اور نشہ آور ادویات کے استعمال کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ معیشت عالمی طور پر بد ترین بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے ان مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین نے گھریلو تشدد بارے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران چین میں 90 فیصد، برازیل میں 40 سے 50 فیصد، فرانس میں 30 فیصد اوراٹلی میں 20فیصداضافہ ہو ا ہے۔ برطانیہ میں ’نیشنل ڈومیسٹک ابیوز ہیلپ لائن‘ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں مدد کے حوالے سے درخواستوں میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ صورتحال ہے تو بھارت اورپاکستان جیسے پسماندہ سماجوں کی صورتحال کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ پاکستان میں کورونا بحران سے پہلے ہی تشدد کے واقعات میں کہیں زیادہ اضا فہ ہوا ہے۔ بیشتر خواتین لاک ڈاؤن سے پہلے ہی ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہیں اور یہاں غیرت کے نام پر قتل اور تیزاب گردی جیسے واقعات معمول کی بات بن چکے ہیں۔

دوسری جانب خواتین کے ساتھ تشدد کے علاوہ بچوں پر تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چائلڈ لائن انڈیا نامی ہیلپ لائن پر گیارہ دنوں میں 92 ہزار کالیں بچوں پر تشدد اور استحصال سے متعلق موصول ہوئی ہیں۔ اس وقت بہت سی این جی او ز اور سماجی فلاحی تنظیمیں اپنی ویب سائٹیں اور ہیلپ لائنیں متعارف کروا رہی ہیں۔ جس کے ذریعے متاثرہ لوگ ان ہیلپ لائنوں کی مدد سے رجسٹر ہو کر مدد حا صل کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگو ں کے ر جسٹر ہونے کے بعد ان مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔

آج کل ایک اور بحث اکثر سنائی دیتی ہے کہ کورونا وائرس نے سماجی اور معاشی مسائل پیدا کر دیے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس بحران نے پہلے سے جاری بحران کو شدید کیا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے سرمایہ داری کبھی باہر نکلی ہی نہیں تھی۔ عالمی طور پر حکمران طبقے نے شرح منافع کے حصول کے لئے نیو لبرل پالیسیوں کے ذریعے تعلیم، روزگار، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات چھین کر محنت کش طبقے کی زندگی کو عذاب مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے پہلے ہی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ جیسے مسائل سے تنگ آ کر پوری دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خود کشی کر رہا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق معاشی بد حالی کی وجہ سے دنیا کی 4.4 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے، جس میں سے 34 فیصد پاکستان میں ہیں۔

اوپر بیا ن کردہ اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سماج کے اندر کتنی مایوسی، گھٹن اور غیر یقینی صو رتحال ہے۔ سر مایہ دارانہ زوال پذیر معیشت سماج کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ جس کے اثرات اخلاقی سماجی گراوٹ کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ بہت سے افراد مسائل کا کوئی حل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگیوں کو ہی ختم کرنے کو نجات سمجھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 1.3 ارب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کی یومیہ آمدنی 1.5 ڈالر سے کم ہے۔ دوسری جانب سرمایہ داروں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ’آکسفیم‘ کے مطابق2018ء میں ارب پتی افراد کے اثاثوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دنیا کی نصف آبادی کو 11 فیصد نقصان ہوا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2008ء کے عالمی اقتصادی بحران کے بعد دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد دوگنا ہوئی ہے۔ محض 2018ء کے دوران ان کے اثا ثوں میں 900 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دنیا کی آبادی کی وسیع اکثریت سے تعلیم، علاج اور سوشل سکیورٹی جیسی سہولیا ت چھین لی گئی ہیں۔ تر قی پذیر ممالک میں جہاں وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر آئے روز محنت کش طبقے پر معا شی حملے کیے جاتے ہیں وہاں کسی صورت بھی سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کے آڑے ان وسائل کی کمی نہیں آتی۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں بھارت میں ارب پتی افراد کی جائیداد میں روزانہ 2200 کروڑ اضافہ ہوا ہے۔ اسی بھارت کے اندرایشیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی موجود ہے، جہاں لو گوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں۔

غربت اور امارت کی اس وسیع خلیج نے محنت کش طبقے کی زندگیوں پر ناگزیر طور پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ انتہائی بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی نہ ہونے، معاشی بد حالی اور انتہائی مہنگے داموں تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے مواقع نہ ہونے جیسے مسائل نے لوگوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ وہیں پر عالمی سرمایہ داری کے بحران میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو ناگزیر طور پر محنت کشوں کے شعور کو جھنجوڑے گا۔ بڑھتی بیروزگاری، غربت اور دیگر مسائل محنت کشوں کو تحریک میں دھکیلیں گے۔ جس کا اظہار پاکستان، لبنان، امریکہ اور دیگر ممالک میں چھوٹے چھوٹے احتجاجوں کی صورت میں ہوا بھی ہے۔ آئی ایل او کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں 19 کروڑ سے زائد افراد بیروز گار ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد سے 2 کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ بیروز گار ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی روزگار سے محروم ہو جانے والے افراد کی تعداد یقینا کروڑوں میں ہو گی۔

جہاں آبادی کی وسیع اکثریت کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے وہیں حکمران طبقہ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس وائرس سے بچنے کے لئے میڈیا کے ذریعے سماجی فاصلے اور حفاظتی طریقہ کار کی وضاحت کر رہا ہے۔ جس پر عمل کرنا محنت کش طبقے کی اکثریت کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ارب سے زیادہ لوگ اس وقت کچی بستیو ں اور جھونپڑ پٹیوں میں رہ رہے ہیں اور ممکن نہیں کہ وہ سماجی فاصلے کو اپنا سکیں۔ اس وقت دنیا میں 10 کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہیں جن میں سے 2 کروڑ صرف پاکستان میں ہیں۔ اسی طرح بھارت میں لاکھوں بچے سڑکوں پہ رہتے ہیں جن میں سے 79 ہزار صرف دہلی میں ہیں۔

غلام دارانہ اور جاگیردارانہ عہدوں کے اندر جہاں پیداواری صلاحیتیں انتہائی کم ہونے کی وجہ سے انسانوں کی وسیع اکثریت بھوک، قحط، بیماریوں اور وباؤ ں سے زندگی کی بازی ہار جاتی تھی اس کی نسبت اب سرمایہ داری میں سائنس اور تکنیک نے جو حیران کن حد تک ترقی کر لی ہے اس میں ممکن ہے کہ انسانوں کو ان مسائل سے نجات دی جائے۔ لیکن طبقات پر مبنی یہ نظام شرح منافع کے حصول کے لئے انسانیت کو روندتا چلاجا رہاہے۔ آج وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس سیارے پر سے سرمایہ داری کے ناسور کو اکھاڑ کر سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی جائے۔ یہی انسانیت کی بقا کی واحد ضمانت ہے۔