طاہر شبیر
اٹھا کے سر کو وہ اونچا کھڑا تھا
ہمیشہ ڈٹ کے دشمن سے لڑا تھا
ہر اِک زنجیر اُس نے توڑ دی تھی
اب اُس کی جیت کا امکاں بڑا تھا
لڑے تھے وہ بھی مل کر ساتھ اُس کے
غلامی کا جنہیں چسکا پڑا تھا
کبھی نہ حوصلہ ہارا تھا اُس نے
اگرچہ وقت بھی اُس پر کڑا تھا
خبر تھی یہ بھی ہر مسند نشیں کو
بہت مخلص تھا جو اُس کا دھڑا تھا
بحث میں مات دیتا تھا سبھی کو
عدو سے واسطہ جب بھی پڑا تھا
سبھی سائے میں اُس کے بیٹھتے تھے
وہ اِک برگد سرِ صحرا کھڑا تھا…
مخالف بھی یہ طاہرؔ جانتے تھے
کہ وہ رستے سے واپس کب مڑا تھا