قمرالزماں خاں

جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے اس وقت تک پاکستانیوں کی اکثریت اس دل خراش واقع کو فراموش کرچکی ہوگی جس کوہم یہاں زیرِ بحث لارہے ہیں۔ گو بظاہر یہ ایک واقعہ ہے مگر اس واقعہ کو اس جیسے دیگر واقعات کے تسلسل میں دیکھا جائے تو یہ ہمیں عہدِ حاضر کا ایک رجحان نظر آتاہے۔

یہ سانحہ ایک پندرہ سالہ بچے ریحان کے قتل کا ہے جس کو بہادرآباد کراچی کے ایک امیر خاندان کے سربراہ دانیال اور ان کے محلے کے چندمتشدد افراد نے ”قربانی“ کے جانورکو ذبح کرنے کی اجرت مانگنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ریحان کا گھرانہ‘ قصاب پیشہ بتایا جاتا ہے اورعیدالاضحی پرعمومی طور پر قصابوں کے بچے بھی جانوروں کو ذبح کرکے اپنی روزی روٹی بناتے ہیں۔ واقعے کے روزریحان اپنی والدہ کودانیال سے پیسے لے کر آنے کا کہہ کرگیا تھامگرنہ توپیسے آئے اور نہ ہی بیٹا واپس آیا۔ بلکہ ماں کو اس کی تشدد زدہ لاش ملی۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں زندہ ریحان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور اسکی پتلون اتارکراسے برہنہ کیا ہوا تھا۔ قاتل دانیال کا کہنا تھا کہ مقتول ریحان ان کے گھر میں چوری کیلئے داخل ہواتھا۔ اگریہ موقف درست بھی ہو تو ریحان کے ساتھ سارا دن (اسکی موت تک) کیا گیا سلوک ایک بربریت کی داستان پیش کرتا ہے۔ اگر ریحان واقعی چور تھا تو اس کو پکڑکر پولیس کے حوالے کردیا جانا چاہئے تھا۔ اگر کسی نے ایک ہزار چوریاں بھی کی ہوں تو پاکستانی قانون کے مطابق اس کی سزا موت نہیں اور کسی ہجوم کے ہاتھوں موت کی سزا کا حق تو دنیا کی کسی بھی ’اخلاقیات‘ میں نہیں ہے۔
بہادر آباد کراچی کا یہ انسانیت سوز واقعہ کو ئی پہلاواقعہ نہیں ہے۔ چندماہ قبل ’ساہیوال‘ میں ایک من گھڑت پولیس مقابلے کا تاثر دے کر شیر خوار بچوں کے والدین، ان کی بڑی بہن اور ایک ڈرائیور کو اسی طرح بہیمانہ اندازمیں قتل کردیا گیا تھا۔

اس سرکاری واردات میں سرنڈرشدہ گاڑی کے مسافروں کو بلاوجہ ماردیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ پہلے گاڑی سے اتاری گئی چودہ پندرہ سالہ بچی کو دوبارہ گاڑی میں بٹھاکر فائرنگ کی گئی تھی۔ شائد اس قسم کے واقعات کی نہ ختم ہونے والی سیریز کی وجہ سے ’سیالکوٹ‘ کے دوجواں سال بھائیوں ”مغیث اورمنیب“ کی ہلاکت کو بھی فراموش کردیا گیا ہے۔ ان بھائیوں کواس وقت دن دیہاڑے شہر کی سڑکوں پر خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہاں درجنوں شہری بطور تماشائی موجود تھے۔ تشددکے اس خونچکاں واقعے کا اختتام ان نیم زندہ اجسام کو درخت پر الٹا لٹکا کرنیچے آگ لگانے پر ہوا۔ پھر پتا نہیں کہ اس درخت کے نیچے آکسیجن پہلے ختم ہوئی کہ تشدد زدہ جسموں میں زندگی کی رمک۔

کراچی کے ریحان پر تشدد کے دوران بھی علاقے بھر کے تماشائی زندگی سے موت کی طرف کھیلے جانے والے اس خونی کھیل کو پوری دل جمعی اورسفاکیت سے‘ آنکھ جھپکے بغیر دیکھتے رہے۔ اہل ِوطن یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پرچند سال پہلے دیکھ چکے ہیں جب کراچی کے ایک پارک میں ایک اٹھارہ انیس سال کانہتا نوجوان ہاتھ جوڑے ”قومی سلامتی“ کے ذمہ دارایک مسلح ادارے کے اہلکاروں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ جواب میں پہلے مغلظات اور پھر اس بظاہر بے ضرر نوجوان کو وہ گولی نصیب ہوئی جس نے اس کے جسم میں انیس سالوں سے جمع زندگی بخشنے والے خون کو نکالنا شروع کر دیا۔ قومی سلامتی کے رکھوالوں نے اپنی نگرانی میں زندگی کے اختتام تک خون نکلنے کاعمل مکمل کراتے ہوئے ایک سویلین کی زندگی کی موت کا ’لائیو‘ نظارہ کیا۔

یہ صرف پاکستان نہیں جہاں پر کبھی مشال خان جیسے سجیلے جوان کو بپھرا ہوا ہجوم اینٹوں، لاٹھیوں، مکوں، لاتوں اور سریوں سے زدوکوب کرکے‘ لمحہ لمحہ مرتے دیکھ نعرے مارکر اپنا ”ایمان“ پختہ کرتا ہے۔ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی اور نام نہاد سیکولر ریاست بھارت میں گائے کا پیشاب پی کر فیض یاب ہونے کا نظریہ رکھنے والے ہندو بنیاد پرستوں کے بے لگام ہجوموں کے ہاتھوں ایسے معصوم اورنہتے مسلمانوں‘جن پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام ہوتاہے، کا تشددکے ذریعے قتل کیا جانا ایک معمول بن چکا ہے۔ ایسی بے شمار ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں جن میں درختوں سے باندھے برہنہ مسلمان بچوں، خواتین اور مردوں کو انتہا پسند ہندؤں کی وحشت کا نشانہ بنتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے واقعات پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں جن میں فوجی جوانوں کے گلے کاٹ کر فٹ بال کھیلنے کا وحشیانہ عمل فلمایا گیا تھا۔ افغانستان اور پاکستان کے پختون علاقوں میں سویلین یا فوجی قیدیوں سے ان کی موت تک بہیمانہ تشدد معمول کی بات ہے۔ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں اس پورے عمل کی تصویر کشی کرنے میں مدد د ے سکتی ہیں جس میں مخالفین یا دشمنوں سے ان کے مرنے سے پہلے کیاکچھ نہ کیا ہوگا‘ کی وضاحت ہوتی ہے۔ ضیا الحق کے دور میں شاہی قلعے یا دوسرے عقوبت خانوں میں سیاسی قیدیوں سے جسمانی تشدد کی ہیبت ناک کہانیوں کی بازگشت ابھی تک فضاؤں میں ہی ہے۔ یہ وہی دور تھا جب بہاولپور کے قریب نواب پور قصبے میں ایک طاقت ور جاگیر دار نے کسی انتقامی جذبے کے تحت ایک خاتون کو الف ننگا کرکے پورے گاؤں میں پھرایا تھا اور پورا گاؤں گونگا بہرااور تماشائی بن کر یہ سب دیکھتا رہا تھا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کئی صدیوں سے رہنے کے باوجود میانمار میں کسی قسم کی شہریت سے محروم مسلمانوں اور بدھ بھکشوں کے درمیان تصادموں میں زندہ انسانوں کو آگ لگانے کے متعدد واقعات دیکھے گئے تھے۔ کراچی میں ہی بھتہ نا ملنے پرایم کیوایم کے بھتہ ونگ نے بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائیزز کو آگ لگا کر 289 افراد کوزندہ جلادیا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ سے قبل برصغیر کے انقلاب کے آغاز کی کوشش کو تشدد، آبروریزی اور قتل وغارت گری کے خون آشام واقعات میں ڈبوکر اس کو قومی نفرت اور عصبیت کی طرف مزید بھٹکا دیا گیا تھا۔ اسی طرح ویت نام، افغانستان، عراق، شام، یمن اور لیبیا وغیرہ میں بے دریغ قتل و غارت گری، بمباری اور جنگی وحشت کا ناچ نچا کردنیا بھر کے لوگوں کو سامراجی نظام کی اطاعت کا پیغام دیا جاتا ہے۔ انفرادی واقعات شاید سینکڑوں اور ہزاروں میں ملیں گے۔ چند دن پہلے فیصل آبادمیں صلاح الدین نامی ایک نیم پاگل (بھوک انسان کو ہوش میں کب رہنے دیتی ہے) اے ٹی ایم مشین میں داخل ہوکر کیمرے کی طرف دیکھ کر منہ چڑاتا ہے اور مشین کے باکس کا فریم طاقت سے کھول کر اس میں سے صرف پھنسا ہوا کارڈ نکالتا ہے۔ مشین کیش سے بھری ہونے کے باوجود اس میں سے ایک روپیہ بھی نہیں نکالتا اور چلا جاتا ہے۔ بینک سکیورٹی کیمرے کی مدد سے پولیس صلاح الدین کو شناخت کرتی اور پکڑ لیتی ہے۔ گرفتارصلاح الدین اپنے مسخرے پن کو جاری رکھتے ہوئے گونگا ہونے کا ڈرامہ رچاتا ہے مگر پولیس تشدد سے زبان کھول لیتا ہے۔ سنگین واقعہ جو اب کہانی بن چکی ہے ‘یہاں سے ایک المناک نتیجے کی طرف مڑتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل کلپ میں ایک پولیس آفیسر‘ صلاح الدین سے گونگے بہروں کے اشاروں کی ایکٹنگ دیکھتے ہوئے پوچھتا ہے کہ یہ ”اشارے“ کہاں سے سیکھے ہیں؟ پسینے سے شرابوراور تشددزدہ صلاح الدین کہتا ہے کہ اگر (اور) نہ مارو تو میں ایک سوال پوچھوں؟ اثباتی آواز آنے پر صلاح الدین پوچھتا ہے کہ ”تم لوگوں نے تشدد کس سے سیکھا ہے؟“ یہ صلاح الدین کا آخری ڈائیلاگ تھا اور پھر اگلے دن اس کی ڈیڈ باڈی ہسپتال میں ”علاج“ کی غرض سے لائی گئی۔ اسٹریچر پر وہ اپنے ’بے حس وحرکت‘ اشاروں سے ”اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے“ کاپیغام تماش بین زمانے کو دے رہا تھا۔

مارکس نے بہت پہلے ہی وضاحت کردی تھی کہ روٹی کا مسئلہ حل ہونے سے قبل انسان ”قبل ازتاریخ“ عہد میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ مارکس فقط معاشی یا طبقاتی تفریق کی سنگین خلیج کی طرف اشارہ نہیں کررہا تھا بلکہ اس کی مراد تمدنی پستی، اخلاق باختگی اور ثقافتی گراوٹ کی طرف بھی تھی جو سوشلزم سے قبل کے تمام ملکیتی نظاموں کے رشتوں کے تعفن سے جنم لیے اور اپنے عہد کے انسانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

اگر مشرق میں طالبان، مجاہدین اور داعش کے قاتل‘ زندگی کی بجائے موت اور وحشت کا پرچم ہاتھ میں تھامے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان تمام وحشی کھلونوں کو بنانے سے چلانے تک کا کام نام نہاد مہذب ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں اور حکومتیں سرانجام د ے رہی ہیں۔ پیداواری ذرائع پر سماج کی اقلیت کے قبضے کے نظاموں کے تمام فیصلے تشدد کے نیزے سے چھلنی کرنا ضروری سمجھے جاتے ہیں اوریہ مظالم جنگوں سے قبل زمانہ امن میں ڈھائے جاتے ہیں۔ گو تاریخ اور سماج کیلئے بے معنی ہوجانے والے نظریات کی بقا کا کوئی جواز نہیں ہے مگران کہنہ نظاموں اور نظریات کے انہدام کو خوف و ہراس پھیلاکر روکا گیا ہوا ہے۔ برصغیر کی خونی تقسیم‘ تشدد کا وہ طاقت ور آلہ تھی جس نے آنے والی دہائیوں تک کروڑوں لوگوں کو ہراساں کیے رکھا۔ اس تشدد کو بڑی ہوشیاری سے سماج کی نچلی پرتوں میں پھیلا کر’سفاکیت‘کو عمومی نفسیات میں سرائیت ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ یہ سانحہ ‘دوررس اثرات کاحامل ثابت ہوا۔ گو سامراجی حملہ آوروں کی بربریت اور غلامی کے کئی سو سالوں کے اثرات نے برصغیر کے لوگوں کی ثقافت اور طرزِ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے مگر عہدِ حاضر کے تقاضوں سے عدم مطابقت کی زندگی نے جمود کو اور گہر ا کر دیا ہے۔ سماجی اور تمدنی زندگی اگر آگے نہیں بڑھے گی تو پھروہ ماضی کے تاریک جھروکوں میں دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عہدِ حاضر کو پچھلے وقتوں میں گزارنا ناممکن ہے۔ نامرادی اور مایوسی سے بھرے تضادات سماج کی بالائی اور نچلی پرتوں کو اپنے اپنے انداز میں بیگانگی کی طرف مراجعت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جھنجھلاہٹ اور بے حسی کے بڑھنے سے کسی بھی بظاہر بے ضرر کے ظالم اور کسی بھی ”مہذب“کے وحشی بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ سماج کو مطلوب پیش رفت کی عدم دستیابی نے مایوسی کو پھیلایا ہے اور ماضی کی تاریکیوں کو اور گہرا کیا ہے۔

کراچی کے ریحان اورسرفراز شاہ، سیالکوٹ کے مغیث اور منیب، ساہیوال میں خلیل اور اس کا گھرانہ، ملتان کا عمران، فیصل آبادمیں صلاح الدین اور گاہے بگاہے مگر (ایک اپنی سی ترتیب سے) مسلسل ہونے والے تشددکے سنگین واقعات اور ان پر ’بے گانہ پن کا ردعمل‘ طوالت اختیارکرتا جا رہا ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ملکیتی رشتے یونہی (چاہے اپنی مسخ شدہ شکل میں) قائم رہتے ہیں تو سماجوں کی ابتری مزید بڑھتی چلی جائے گی۔ ذہنی، علمی، نفسیاتی، جسمانی، سماجی اورسیاسی تشدد کو فروغ دینا موجودہ نظام کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ نحیف اور بے معنی ہوچکا ہے۔

لوگوں کو مفلوج کرکے، ان کی آواز کو دبا کر اور تشدد سے ان کو ہراساں کر کے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف اس ظلم و بربریت اور غیر انسانی ماحول کا خاتمہ کسی اخلاقی یا اصلاحی طریقے سے بھی ممکن نہیں ہے بلکہ ذرائع پیداوار کو ذاتی ملکیت سے نکال کر ہی ایسے سماج کی تشکیل ممکن ہے جس میں انسان بیگانگی ذات سے نکل سکے اور سماجی انتظام و انصرام کیلئے ذہنی یا جسمانی تشدد کی چنداں ضرورت نہ رہے۔