تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی نظام تاریخی طور پر متروک ہوجائے تو اسکے سیاسی ڈھانچے شدید تضادات اور تصادموں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں نیچے سے کوئی بڑی بغاوت نہ بھی ہو رہی ہو تو اوپر کے تنازعات جب ایک خاص نہج پر پہنچ کے پھٹتے ہیں تو پورے معاشرے میں عدم استحکام، غیر یقینی کیفیات اور انتشار پیدا کرتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سرمائے کی آمریت میں یہ انسانی معاشرہ مزید چلنا اور چلانا ممکن نہیں رہا۔ یا تو اوپر سے جبر کی انتہا ئیں کرنی پڑیں گی یا پھر نیچے سے ایک بغاوت ابھرے گی جسے قیادت اور تعمیری راستہ نہ مل پایا تو معاشرہ ایسی انارکی اور ایسی خونریزی کا شکار ہوگا جس سے تمام تر سماجی ڈھانچے اور حالاتِ زندگی بالکل درہم برہم ہو سکتے ہیں۔ سب امید سے ہیں کہ شاید کہیں کچھ بہتری ہوجائے، کچھ استحکام کچھ امن آجائے۔ لیکن مروجہ دانش اپنی محدود سوچ اور تناظر کی وجہ سے کسی دور رس حل یا تناظر کو تخلیق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یا پھر اس خو ف سے کہ اس نظام کے تحت معاشرے کا مستقبل کتنا بھیانک ہے کوئی تناظر تخلیق کرنے سے ہی گریزاں ہے۔

ماضی کے بائیں بازو کے بہت سے رہنما بالخصوص 1980ء کی دہائی کے بعد ’سوشلزم‘ سے بیزار صرف اس لئے ہوئے کہ اس واضح حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر تھے کہ روس اور چین میں جو ’’ سوشلسٹ ریاستیں‘‘ قائم تھیں وہاں سرمایہ داری کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت کی موجودگی کے باوجود محنت کشوں کی جمہوریت اور بالادست ڈھانچوں پرتنقید کرنے کی عمومی آزادی موجود نہ تھی۔ وہاں سرمایہ داری اور جاگیرداری کی باقیات کے خاتمے اور منڈی و منافع کی بجائے منصوبہ بند معیشتوں کی استواری سے بلاشہ بیش بہا معاشی و سماجی ترقی ہوئی۔ مثلاً سوویت یونین کے آخری سالوں میں بھی سماجی ترقی کے اعشارئیے ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک کے کم و بیش مساوی تھے۔ لیکن ایک سوشلسٹ معیشت کو مزدور جمہوریت اور معیشت پر عام لوگوں کے اشتراکی کنٹرول کی اسی طرح ضرورت ہوتی ہے جس طرح انسانی جسم کو آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ جیسے آکسیجن بند ہونے سے سانسیں رک جاتی ہیں اسی طرح صحت مند جمہوری اقدار اور اشتراکی کنٹرول کی عدم موجودگی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو بالآخر سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین میں ہوا۔ جہاں ریاستی افسر شاہی رفتہ رفتہ ایک مراعت یافتہ سماجی پرت سے ایک نئے حکمران طبقے میں تبدیل ہو گئی۔ اگرچہ دونوں ممالک میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری مختلف انداز اور رفتار سے ہوئی۔ یہ اس قسم کے سرمایہ دارانہ ممالک بنے ہیں جن کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال یا طرز نہیں ملتی۔ لیکن چونکہ سرمایہ داری ایک قومی نظریہ ہے اس لئے اس کا ارتقا بھی مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں ہوتا ہے۔

بہرحال بیوروکریٹک جبر کے تحت ایک منصوبہ بند معیشت کو حقیقی سوشلزم سمجھنے والے یہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ خواتین و حضرات اب سیکولر ازم اور لبرلزم کے سرخیل دانشور اور نظریہ دان بن گئے ہیں۔ وہ اب سرمایہ دارانہ جمہوریت کو ہی نسل انسانی کی آخری منزل سمجھتے ہیں اور اسی کو ٹھیک کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے مارکسسٹ جنہوں نے سوویت یونین اور چین کی ترقی اور طاقت کے عروج کے دور میں بھی ان کی ناگزیر زوال پذیری کا سائنسی تناظر پیش کیا تھا وہ یہ ردِانقلابی یلغار نہ صرف برداشت کرگئے بلکہ آج تک نئی نسل تک انقلابی سوشلزم کے نظریات لے جانے میں سرگرم ہیں۔ دوسری جانب سابقہ دایاں بازو اور مذہبی پارٹیاں بھی روایتی بائیں بازو کی طرح نظرئیے کو بہت عرصہ قبل خیرآباد کہہ چکی ہیں اور شدت سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ان کے بہت سے سرگرم نوجوان زیادہ انتہا پسندی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ یوں برآمد ہونے والے رجحانات فسطائیت اور جبروتشدد کے ذریعے اپنے عقائد کو سماج پر مسلط کروانے کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ اگرچہ ان کی عوامی حمایت بھی انتہائی محدود نظر آتی ہے۔

یہ بھی ایک مضحکہ خیز لیکن المناک تضاد ہے کہ آج کی سیاست، ریاست اور ذرائع ابلاغ پر حاوی دانشور اور پالیسی ساز سبھی جمہوریت کا راگ مسلسل الاپتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ بحران سب سے پہلے اس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے کہ پاکستان اور دوسرے بیشتر پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری کی پارلیمانی جمہوریت ناکام ہے۔ اس نظام کے تحت صرف ایک اپاہج اور تابع جمہوریت ہی رائج ہوسکتی ہے جس میں بنیادی حقوق غصب ہوتے رہیں گے اور ایک نیم آمریت مسلط رہے گی۔ لیکن یہ کنٹرولڈ جمہوریت بھی بحرانات اور انتشار سے محفوظ نہ ہو گی۔

جب یہ جبر واستحصال عام لوگوں کی زندگیوں میں ہر طرح کی آزادی کی گنجائش کم کر دے گا تو زیادہ شدید بغاوتیں ہوں گی۔ ایسے میں انقلابی ہونے کا تقاضا تو یہی ہے کہ حکمرانوں کی اس آپسی لڑائی میں عوام کے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ لیکن یہاں جمہوری حقوق کا مطلب بھی صرف آزادیِ اظہار اور آزادیِ انتخاب وغیرہ تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ حکمران طبقات کے دانشوروں کی بڑی عیاری ہے۔ اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ استحصال زدہ عوام کی معاشی آزادی اور آسودگی کے بغیر جمہوری آزادی ہمیشہ ادھوری بلکہ ناممکن ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو سماجی بحث اور سیاسی بیانات سے ہی خارج کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس معاشرے کی کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔ اور یہ حقوق دینے کی اہلیت اور صلاحیت اِس نظام میں ہے نہیں۔ طبقاتی سماجوں میں حکمران طبقات کی معیشت اور منافعوں میں ترقی سے معاشرے کی وسیع تر اکثریت کی معیشت ترقی نہیں کرتی۔ اعدادوشمار میں ایک طرف چند ہزار کی ماہانہ اجرت لینے والوں اور دوسری طرف کروڑوں اربوں کا منافع کمانے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے ’’فی کس آمدن ‘‘ نکال لی جاتی ہے۔ اسی طرح ’جی ڈی پی‘ میں اضافے کے بھی انتہائی بچے کھچے ثمرات شاید ہی نیچے تک پہنچ پاتے ہوں۔ لیکن پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت جس قدر موذی مرض کا شکار ہے اس میں اتنی سکت نہیں کہ ایسے سیاسی اور ریاستی بحرانات مزید برداشت کر سکے۔ یہاں حکومتیں جمہوری ہوں یا آمرانہ، یا پھر کسی ملغوبے پر مبنی ہوں‘ اس معیشت کو ایسی ترقی دینے سے قاصر رہی ہیں اور قاصر رہیں گی جس میں عام انسانوں کو کچھ سہولت مل سکے۔ ویسے جمہوریتوں اور آمریتوں کی حقیقت یہ ہے کہ کونسی آمریت ہے جس میں سویلین سیاست دان براہِ راست ملوث نہیں رہے اور کونسی جمہوریت ہے جس میں مقتدر قوتوں کا تسلط اور غلبہ موجود نہیں رہا۔ مسئلہ سیاسی ڈھانچوں اور طریقہ کار کا نہیں ہے۔

مسئلہ مروجہ نظام کے گل سڑ جانے کا ہے۔ جب تک یہ سماجی و معاشی نظام ایک انقلابی طریقہ کار سے اکھاڑا نہیں جاتا اس وقت تک سیاسی اور معاشرتی انتشار بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایک اشتراکی نظام کو پنپنے کے لئے جو سیاسی نظام چاہیے وہ نسل انسان کی تاریخ کی اعلیٰ ترین جمہوریت پر مبنی ہوگا۔ سرمائے کے جبر کو جب محنت کی طاقت توڑتی ہے تو ہی ایسا سماج تشکیل پا سکتا ہے جہاں معاشی ذلتوں اور فکروں سے نجات پا کر ہر انسان وہ وقت اور فراغت حاصل کرے کہ سیاست اور ریاست کے معاملات میں بھرپور سرگرمی سے شریک ہو سکے۔